ایک زندگی آموز دن
آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس قدر ے طویل تر تمہید کا اس کالم کے عنوان یعنی ’’ایک زندگی آموز دن‘‘ سے کیا تعلق ہے۔
کورونا کی اس تیسری لہر کی تباہ کاریاں یقیناً پہلی دو لہروں سے زیادہ بھی ہیں اور پیچیدہ بھی جس کا ایک ردعمل یہ ہے کہ بچوں نے میرے گھر سے نکلنے اور احباب سے ملنے پر مزید پابندیاں عائد کردی ہیں۔
ایسے میں عین ممکن تھا کہ برادرم احسان اللہ وقاص کے اتوار 4اپریل والے ناشتہ نما برنچ سے بھی معذرت کرلی جاتی اگر بیچ میں امریکا سے آنے والے محترم دوست شکورعالم نہ آجاتے کہ اُن کی گُوناگُوں اورکچھ بے گمان قسم کی مصروفیات کی وجہ سے تین ہفتے سے اُن سے ملاقات نہ ہوسکی تھی اور دو دن بعد وہ واپس جانے والے تھے۔
سو طے یہی پایا کہ اس دن کا زیادہ حصہ اُن کے ساتھ گزارا جائے یعنی احسان اللہ وقاص کے ناشتے کے بعد شام کو اوسلو ناروے کے دوستوں سے الفلاح اسکالر شپ اسکیم کی فنڈ ریزنگ کے حوالے سے زوم پر ایک دو گھنٹے کی میٹنگ کی جائے اور یہ سارا عرصہ ایک کے بجائے دو شکوروں کے ساتھ گزارا جائے کہ الخدمت والے برادرم میاں عبدالشکور بھی ہر دو جگہ ساتھ ساتھ تھے۔
آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس قدر ے طویل تر تمہید کا اس کالم کے عنوان یعنی ''ایک زندگی آموز دن'' سے کیا تعلق ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ بظاہریہ ملاقاتیں اور ان سے متعلقہ مقاصد اب ایک روزمرہ کی سی بات بن چکے ہیں کہ گزشتہ کم از کم دس برس سے اس طرح کی محفلیں زندگی کا ایک باقاعدہ حصہ بن چکی ہیں اور میں اکثر ان کے بارے میں لکھتا بھی رہتا ہوں لیکن اتفاق سے ان دو محفلوں کے درمیان کم از کم تین یا چار باتیں ایسی ہوئیں جن کی معنویت، گہرائی، سنجیدگی، تخلیقیت، ضرورت اور اہمیت ریشم کے ایک تھان کی طرح کھلتی ہی چلی گئیں۔
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی اور خیرات ایک روایت کی سی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ملک بھرمیں موجود تمام فلاحی، تعلیمی ، اصلاحی اور رفاہِ عامہ سے متعلق کام کرنے و الی تنظیموں NGO'sکے لیے یہ زمانہ تقریباً سال بھر کے اخراجات کو جمع کرنے کا زمانہ ہوتا ہے کہ انھیں عطیات سے اُن کے مختلف پروگراموں کے ساتھ ساتھ تنظیمی اخراجات کا سلسلہ بھی چلتا ہے جس کا ایک بڑا ذریعہ وہ اجتماعات ہوتے ہیں جن کا ان دنوں میں اہتمام کیا جاتاہے اور جن میں اہلِ دل ان کو اپنے عطیات سے نوازتے ہیں۔
پاکستانی قوم اپنی تمام تر مبینہ خرابیوں کے باوجود اس اعتبار سے دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کہ اس کے افراد خیرات کے کاموں میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، بدقسمتی سے کووڈ 19کی وجہ سے پچھلے برس کی طرح اب کے بھی اس طرح کی تقاریب منعقد نہیں ہوسکیںجن کی وجہ سے یہ تمام ادارے مختلف طرح کے مالی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں کہ طبی سہولیات ہوں تعلیمی یا کفالت یتامیٰ ٹائپ پروگرام اُن کے مستقل اخراجات تو پورے کرنے ہی پڑتے ہیں۔
اتفاق سے ان دونوں محفلوں میں زیادہ تر شرکاء کا تعلق اسی شعبے کے منتظمین یا ان کے مددگاروں سے تھا اور اُن کا تعلق تقریباً سبھی متحرک سیاسی پارٹیوں سے تھا لیکن یہاں یہ لوگ لڑائی لڑائی معاف کرو کے اصول پر عمل پیرا تھے، سو تحریک انصاف کے وزیر میاں محمود الرشید تحریک کے سابقہ ساتھی اور حالیہ شدید ترین مخالف حفیظ اللہ نیازی ، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، صحافت کے مرد میدان مجیب الرحمن شامی اور الخدمت کے صدر میاں عبدالشکور سمیت سب لوگ معاشرے کی عمومی اصلاح کی بات کررہے تھے اور یہیں وہ باتیں سامنے آئیں کہ جن کی وجہ سے مجھے اس دن کو زندگی آموز قرار دینا پڑا۔
پہلی بات تو یہ تھی کہ پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی دکانوں کے بند ہونے کے اوقات مقرر ہونے چاہییں اور کووڈ کے بعد بھی ریسٹورنٹس اور کیمسٹ کی دکان کے علاوہ سب کاروبار زیادہ سے زیادہ آٹھ بجے شام تک بند ہوجانے چاہییںکہ اس قانون پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں ہمارے بے شمار دیگر سنگین مسائل ختم یا بہت حد تک کم ہو سکتے ہیں۔
دوسری بہت اہم بات یہ تھی کہ پرائمری جماعتوں کی حد تک اُردو اور بشرطِ ضرورت دیگر قومی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمان بچوں کے لیے پرائمری تک قرآنِ مجید ناظرہ اور میٹرک تک باترجمہ تعلیم لازمی کردی جائے جس کا انتظام قطعاً کوئی راکٹ سائنس نہیں اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے صرف بطور ایک زبان کے پڑھایا اور سکھایا جائے۔
یوںتو شام کو الخدمت ہیڈ آفس میں ہونے والی الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے حوالے سے بھی میاں عبدالشکور نے (جو اس کے بانی چیئرمین بھی ہیں) بہت اچھی باتیں کیں مگر سب سے اچھی بات انھوں نے رخصتی کلمات کا حصہ بنا کر بچا چھوڑی تھی جس کا ذکر انھوں نے مجھ سے اور برادرم شکور عالم سے چلتے چلتے کیا کہ سرکاری اسکولوں کے انتظامات کی ذمے داری تو حکومت خود لے مگر بے شمار پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ اور عملے کے لیے اگر کورونا ویکسین بلا منافع یعنی ان کی اصل قیمت پر مہیا کر دیے جائیں تو سب کے سب یہ خرچہ بخوشی اُٹھانے پر تیار ہوسکتے ہیں کہ کم و بیش ایک برس سے تعلیم کا پہیہ تقریباً جام ہے اور اس کو رواں کرنے کے لیے یہ ادارے اس ''موبل آئل'' کی قیمت اس لیے بھی ادا کرنے پر تیار ہوجائیں گے کہ بصورت دیگر وہ اساتذہ کی تنخواہوں اور بچوں کی فیسوں سمیت بہت سے اخراجات سے دست و گریبان تو ہو ہی رہے ہیں، اس ضمن میں انھوں نے فیصلہ ساز ادارے کے چیئرمین اسد عمر کو ایک باقاعدہ خط بھی لکھا ہے۔ اُمید ہے کہ اس پروپوزل کو سنجیدگی سے لیا اور دیکھا جائے گا اور تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش اور اس سے متعلقہ مسائل کا ایک قابلِ عمل حل نکالا جاسکے گا۔
کاروباری اداروں کا شام ڈھلے بند ہونا، قومی زبان اور اپنے علاقائی کلچر کی تعظیم ،قرآن مجید کی باترجمہ پڑھائی اور تعلیمی اداروں میں بلامنافع قیمت پر ویکسین کی فراہمی یقیناً ایسی باتیں ہیں کہ ان پر عمل سے نہ صرف بہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتاہے بلکہ معاشرتی سوچ میں ایسی راہوں کو بھی ہموار کیا جاسکتا ہے جنھیں ہمارے سیاسی ماحول اور میڈیا نے مل کر خوامخواہ مشکل ، متنازعہ اور پیچیدہ بنارکھاہے۔ حکومتِ وقت سے جن کچھ باتوں پر آپ کا اختلاف ہے ضرور کیجیے مگر جن باتوں کا تعلق ریاستِ پاکستان اور ہم سب کی عمومی فلاح سے ہے وہاں ہر اچھی بات کی تحسین ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی طرف سے آئے ۔
ایسے میں عین ممکن تھا کہ برادرم احسان اللہ وقاص کے اتوار 4اپریل والے ناشتہ نما برنچ سے بھی معذرت کرلی جاتی اگر بیچ میں امریکا سے آنے والے محترم دوست شکورعالم نہ آجاتے کہ اُن کی گُوناگُوں اورکچھ بے گمان قسم کی مصروفیات کی وجہ سے تین ہفتے سے اُن سے ملاقات نہ ہوسکی تھی اور دو دن بعد وہ واپس جانے والے تھے۔
سو طے یہی پایا کہ اس دن کا زیادہ حصہ اُن کے ساتھ گزارا جائے یعنی احسان اللہ وقاص کے ناشتے کے بعد شام کو اوسلو ناروے کے دوستوں سے الفلاح اسکالر شپ اسکیم کی فنڈ ریزنگ کے حوالے سے زوم پر ایک دو گھنٹے کی میٹنگ کی جائے اور یہ سارا عرصہ ایک کے بجائے دو شکوروں کے ساتھ گزارا جائے کہ الخدمت والے برادرم میاں عبدالشکور بھی ہر دو جگہ ساتھ ساتھ تھے۔
آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس قدر ے طویل تر تمہید کا اس کالم کے عنوان یعنی ''ایک زندگی آموز دن'' سے کیا تعلق ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ بظاہریہ ملاقاتیں اور ان سے متعلقہ مقاصد اب ایک روزمرہ کی سی بات بن چکے ہیں کہ گزشتہ کم از کم دس برس سے اس طرح کی محفلیں زندگی کا ایک باقاعدہ حصہ بن چکی ہیں اور میں اکثر ان کے بارے میں لکھتا بھی رہتا ہوں لیکن اتفاق سے ان دو محفلوں کے درمیان کم از کم تین یا چار باتیں ایسی ہوئیں جن کی معنویت، گہرائی، سنجیدگی، تخلیقیت، ضرورت اور اہمیت ریشم کے ایک تھان کی طرح کھلتی ہی چلی گئیں۔
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی اور خیرات ایک روایت کی سی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ملک بھرمیں موجود تمام فلاحی، تعلیمی ، اصلاحی اور رفاہِ عامہ سے متعلق کام کرنے و الی تنظیموں NGO'sکے لیے یہ زمانہ تقریباً سال بھر کے اخراجات کو جمع کرنے کا زمانہ ہوتا ہے کہ انھیں عطیات سے اُن کے مختلف پروگراموں کے ساتھ ساتھ تنظیمی اخراجات کا سلسلہ بھی چلتا ہے جس کا ایک بڑا ذریعہ وہ اجتماعات ہوتے ہیں جن کا ان دنوں میں اہتمام کیا جاتاہے اور جن میں اہلِ دل ان کو اپنے عطیات سے نوازتے ہیں۔
پاکستانی قوم اپنی تمام تر مبینہ خرابیوں کے باوجود اس اعتبار سے دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کہ اس کے افراد خیرات کے کاموں میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، بدقسمتی سے کووڈ 19کی وجہ سے پچھلے برس کی طرح اب کے بھی اس طرح کی تقاریب منعقد نہیں ہوسکیںجن کی وجہ سے یہ تمام ادارے مختلف طرح کے مالی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں کہ طبی سہولیات ہوں تعلیمی یا کفالت یتامیٰ ٹائپ پروگرام اُن کے مستقل اخراجات تو پورے کرنے ہی پڑتے ہیں۔
اتفاق سے ان دونوں محفلوں میں زیادہ تر شرکاء کا تعلق اسی شعبے کے منتظمین یا ان کے مددگاروں سے تھا اور اُن کا تعلق تقریباً سبھی متحرک سیاسی پارٹیوں سے تھا لیکن یہاں یہ لوگ لڑائی لڑائی معاف کرو کے اصول پر عمل پیرا تھے، سو تحریک انصاف کے وزیر میاں محمود الرشید تحریک کے سابقہ ساتھی اور حالیہ شدید ترین مخالف حفیظ اللہ نیازی ، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، صحافت کے مرد میدان مجیب الرحمن شامی اور الخدمت کے صدر میاں عبدالشکور سمیت سب لوگ معاشرے کی عمومی اصلاح کی بات کررہے تھے اور یہیں وہ باتیں سامنے آئیں کہ جن کی وجہ سے مجھے اس دن کو زندگی آموز قرار دینا پڑا۔
پہلی بات تو یہ تھی کہ پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی دکانوں کے بند ہونے کے اوقات مقرر ہونے چاہییں اور کووڈ کے بعد بھی ریسٹورنٹس اور کیمسٹ کی دکان کے علاوہ سب کاروبار زیادہ سے زیادہ آٹھ بجے شام تک بند ہوجانے چاہییںکہ اس قانون پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں ہمارے بے شمار دیگر سنگین مسائل ختم یا بہت حد تک کم ہو سکتے ہیں۔
دوسری بہت اہم بات یہ تھی کہ پرائمری جماعتوں کی حد تک اُردو اور بشرطِ ضرورت دیگر قومی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمان بچوں کے لیے پرائمری تک قرآنِ مجید ناظرہ اور میٹرک تک باترجمہ تعلیم لازمی کردی جائے جس کا انتظام قطعاً کوئی راکٹ سائنس نہیں اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے صرف بطور ایک زبان کے پڑھایا اور سکھایا جائے۔
یوںتو شام کو الخدمت ہیڈ آفس میں ہونے والی الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے حوالے سے بھی میاں عبدالشکور نے (جو اس کے بانی چیئرمین بھی ہیں) بہت اچھی باتیں کیں مگر سب سے اچھی بات انھوں نے رخصتی کلمات کا حصہ بنا کر بچا چھوڑی تھی جس کا ذکر انھوں نے مجھ سے اور برادرم شکور عالم سے چلتے چلتے کیا کہ سرکاری اسکولوں کے انتظامات کی ذمے داری تو حکومت خود لے مگر بے شمار پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ اور عملے کے لیے اگر کورونا ویکسین بلا منافع یعنی ان کی اصل قیمت پر مہیا کر دیے جائیں تو سب کے سب یہ خرچہ بخوشی اُٹھانے پر تیار ہوسکتے ہیں کہ کم و بیش ایک برس سے تعلیم کا پہیہ تقریباً جام ہے اور اس کو رواں کرنے کے لیے یہ ادارے اس ''موبل آئل'' کی قیمت اس لیے بھی ادا کرنے پر تیار ہوجائیں گے کہ بصورت دیگر وہ اساتذہ کی تنخواہوں اور بچوں کی فیسوں سمیت بہت سے اخراجات سے دست و گریبان تو ہو ہی رہے ہیں، اس ضمن میں انھوں نے فیصلہ ساز ادارے کے چیئرمین اسد عمر کو ایک باقاعدہ خط بھی لکھا ہے۔ اُمید ہے کہ اس پروپوزل کو سنجیدگی سے لیا اور دیکھا جائے گا اور تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش اور اس سے متعلقہ مسائل کا ایک قابلِ عمل حل نکالا جاسکے گا۔
کاروباری اداروں کا شام ڈھلے بند ہونا، قومی زبان اور اپنے علاقائی کلچر کی تعظیم ،قرآن مجید کی باترجمہ پڑھائی اور تعلیمی اداروں میں بلامنافع قیمت پر ویکسین کی فراہمی یقیناً ایسی باتیں ہیں کہ ان پر عمل سے نہ صرف بہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتاہے بلکہ معاشرتی سوچ میں ایسی راہوں کو بھی ہموار کیا جاسکتا ہے جنھیں ہمارے سیاسی ماحول اور میڈیا نے مل کر خوامخواہ مشکل ، متنازعہ اور پیچیدہ بنارکھاہے۔ حکومتِ وقت سے جن کچھ باتوں پر آپ کا اختلاف ہے ضرور کیجیے مگر جن باتوں کا تعلق ریاستِ پاکستان اور ہم سب کی عمومی فلاح سے ہے وہاں ہر اچھی بات کی تحسین ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی طرف سے آئے ۔