دو قومی نظریے سے نظریۂ پاکستان تک

پاکستان کے نظریۂ قومیت کی کام یابی کے نتیجے میں دنیا کے سامنے قوم کا ایک نیا تصور ابھر کر سامنے آسکتا تھا۔

پاکستان کے نظریۂ قومیت کی کام یابی کے نتیجے میں دنیا کے سامنے قوم کا ایک نیا تصور ابھر کر سامنے آسکتا تھا۔فوٹو : فائل

پاکستان مسلمانوں کا وہ قومی وطن ہے جو برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا جس کے خدوخال 23؍مارچ1940کی قراردادلاہور میں نمایاں ہیں۔

اس قرارداد کو جنوبی ایشیا کی پوری مسلم قوم کی تائید حاصل تھی۔ 23مارچ1940؁ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے عام اجلاس میں جو لاہور میں منعقد ہوا تھا میں پیش کی جانے والی قرارداد کا متن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں مسلمانوں کے علیحدہ ریاستوں کے آئینی اسٹریکچر کو واضح کیا گیا ہے لیکن وفاق سے لے کر وفاقی اکائیوں تک دستوری حقوق اور اختیارات کو منظم شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

قراردادلاہور اس تناظر میں بھی اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ تقسیم ہند سے قبل برصغیر ہی دو بڑی متحرک سیاسی پارٹیوں میں سے آل انڈیا مسلم لیگ وہ جماعت تھی جس نے مستقبل کا ریاستی خاکہ مکمل طور پر پیش کردیا تھا، جب کہ انڈین نیشنل کانگریس کی جانب سے ایسا کوئی اقدام تاریخ کے ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ریاست میں آباد تمام مذاہب اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی برادریاں مملکت کے مساوی اور یکساں شہریت کے حامل گردانے گئے ایسی صورت میں دوقومی نظریے کو مسلمانان ِبرصغیر اور قائداعظم کی بصیرت کے مطابق تشریح کی ضرورت تھی تاکہ ریاست کی تمام آبادی کو پاکستانی قومیت کے سانچے میں ڈالا جاسکے، چنانچہ آئین ساز اسمبلی سے تعلق رکھنے والے مختلف مکاتب ِ فکر کے اراکین قومی اسمبلی اور تمام مسالک کے علماء اکرام سے طویل مشورے کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 9؍مارچ1949 ؁ء کو قراردادِمقاصد دستورساز اسمبلی میں پیش کی جس کو 4 دن تک جاری رہنے والی بحث کے بعد 12؍مارچ کو اسمبلی نے منظور کیا۔

قرارداد مقاصد کو اسمبلی میں دائیں بازو کے اراکین جس میں میاں افتخار الدین بھی شامل تھے کی حمایت حاصل تھی۔ درحقیقت قراردادِمقاصد ہی ''نظریہ پاکستان ''کی قانونی اور آئینی شکل ہے۔ اس قرارداد میں پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کو حکومت سازی میں یکساں رائے دہی کا حق حاصل ہے۔ قراردادِمقاصد کے ذریعے ملک میں رواداری اور برداشت کا ماحول کے فروغ کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے جب کہ اقلیتوں کو بھی ملک میں اپنے مذاہب پر عمل درآمد اور اپنی ثقافتوں کے آزادانہ فروغ کو بھی مملکت کی ذمہ داریوں میں شامل کیا گیا ہے۔

اس طرح قراردادِمقاصد یقیناً ''نظریہ پاکستان'' کی تاریخ دستاویز ہے۔ جس طرح پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا اُسی طرح اب پاکستان کا استحکام وترقی نظریہ پاکستان سے منسلک ہے جو قراردادِمقاصد میں صریحاً بیان کیا گیا ہے۔

ایک جانب پہلی جنگ عظیم جاری تھی، جس کے نتیجے میں ایمپائرز کا وجود خطرے میں تھا، دوسری جانب روس میں بالشویک انقلاب کے ذریعے بالآخر سوویت جمہوریاؤں کی ایک یونین قائم ہورہی تھی اور بہ نظرغائر ایک نئے نظام کے ساتھ درحقیقت ایمپائر ہی وجود پا رہی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے نتیجے میں جس پہلی ایمپائر کے حصے بخرے ہوئے وہ مسلمانوں کی سلطنتِ عثمانیہ تھی اور یہاں جنگ عظیم کے فاتح ممالک برطانیہ اور فرانس کی ریشہ دوانیوں سے مقامی آبادی پر مشتمل قومی ریاستیں تشکیل پذیر ہوئیں۔ البتہ ان خطوں کی مقامی آبادی کی جانب سے ان کی قومی شناخت کی خواہش کی تکمیل بھی مضمر تھی۔

سلطنت عثمانیہ جس میں پورا مشرق وسطی اور افریقہ کاایک بڑا خطہ شامل تھا، یہاں قومی ریاستوں کے نام پر نیم نوآبادیاتی نظام مسلط ہوگیا۔ درحقیقت دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں برطانوی، فرانسیسی، پرتگالی اور ڈچ کا سام راجی تسلط ٹوٹ گیا اور سب سے پہلے بر صغیر جنوبی ایشیا میں برطانوی نوآبادیات بھارت اور پاکستان کے نام سے ریاستیں معرضِ وجود میں آئیں اور یہ سلسلہ تادیر چلتا رہا۔

پاکستان کا قیام غیرمنقسم ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہوگا کہ قوم اور قومی ریاست کی اصطلاحات کے مفہوم میں برصغیر جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیگر معاشروں جن میں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام دونوں شامل ہیں، سے مختلف ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں قوم کا تصور اور اس کے اجزائے ترکیبی مشترک ہیں۔

پاکستان کی تشکیل جداگانہ مسلم قومیت اور دو قومی نظریے کی اساس پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رنگ و نسل، ذات پات، زبان وجغرافیہ کا پاکستان کے نظریاتی وجود میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ غیرمنقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک مسلم قوم کی حیثیت میں ہر امتیاز سے بالاتر ہو کر اپنا حق خودارادیت مطالبۂ پاکستان کی تائید میں استعمال کیا، جس کا اظہار انہوں نے46 1945کے انتخابات میں رائے دہی کے ذریعے کیا تھا۔

اگر مسلم قومیت کے علاوہ جغرافیائی تشخص قیام پاکستان کی بنیاد ہوتا تو پھر محض ان صوبوںو علاقوں کے مسلمانوں کا ووٹ ہی اس مملکت کے قیام کے لیے کافی تھا جو پاکستان کی حدود میں شامل تھے، لیکن صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ غیرمنقسم ہندوستان کے ان مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جنہیں تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کے مطابق پاکستان میں شمولیت کے بجائے ہندوستان ہی کا حصہ رہنا تھا۔ پاکستان کی مسلم قومیت کے تشخص کو برقرار رکھتے ہو ئے ملک میں شہریت citizenship کا ایک آئینی و قانونی ڈھانچا مو جود ہے جس کے تحت ملک کا ہر شہری آئین و قانون اور کے سامنے مساوی ہے اور یکساں حقوق کا مالک ہے۔

1867میں سر سید احمد خان نے برطانوی وائسرائے ہند کی ایگزیکیٹو کونسل میں اعلان کردیا تھا کہ ہندوستان ایک برِاعظم ہے جہاں متعدد اقوا م ہیں اور بحیثیت ِ قوم مسلمان جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں۔ یہی وہ دو قومی نظریہ تھا جس پر تحریکِ پاکستان کی عمارت منزل بہ منزل تعمیر ہوئی۔

اسی نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے سر سلطان محمد شاہ آغا خان اور نواب محسن الملک کی قیادت میں مقامی وائسرائے لارڈ منٹو سے ملاقات کرکے برِصغیر میں جداگانہ طریقہ انتخاب کو منوایا گیا تھا۔ تحریکِ پاکستان کا یہ سفر اپنے اپنے انداز سے جاری رہا جس میں داغ دہلوی، مولانا عبدالحلیم شرر، خیری برادران،1930میں علامہ محمد اقبال کا خطبہ ِ الہ آباد،1938میں شیخ عبدالمجید سندھی کی قرارداد، 23؍مارچ1940کو مولوی ابوالقاسم فضل الحق کی پیش کردہ قراردادپاکستان اور آل انڈیامسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے قانون ساز اداروں کے اجلاس میں حسین شہید سہروردی کی قرارداد تحریکِ پاکستان کے اہم ترین موڑ ہیں۔


قبل ازیں 1905میں مسلم و غیرمسلم بنگال کی تقسیم عمل میں آچکی تھی جس کو تھوڑے عرصے بعد ہندوؤں کے احتجاج کے نتیجے میں منسوخ کردیا گیا، جب کہ 1936؁ء میں سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدہ کرالیا گیا تھا۔ 1906 ؁ء میں نواب آف ڈھاکا سر سلیم اللہ کی قیام گاہ پر نواب وقار الملک کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا۔ دراصل ہندوستان میں جداگانہ طریقۂ انتخاب کا نفاذ وہ فیصلہ کن مرحلہ تھا جس کے ذریعے مسلم قومیت کا علیحدہ وجود تسلیم کیا گیا۔

یہاں سے تحریک پاکستان کا اگلا مرحلہ شروع ہوا جس میں برِصغیر کی مسلم قوم کے لیے علیحدہ قومی وطن کے مطالبے کا جواز واضح ہوگیا اور اسی لیے برِصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن پاکستان کے نعرے پر منعقد ہو نے والے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کام یابی کے باعث مطالبہ پاکستان کو باقاعدہ آئینی و قانونی طور پر تسلیم کرلیا گیا۔

نظریہ ِ پاکستان میں مسلم قومیت کے مختلف تشخص کی وجہ سے دنیا کی طاقت ور اقوام نے ہندوستان کے برعکس پاکستان کی جدید قومی شناخت کو قبول نہیں کیا اور یہی پاکستان میں عالمی قوتوں کی مداخلت کا سبب بنا جس کی سہولت کاری کے نقوش ملک بھر میں نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے نظریۂ قومیت کی کام یابی کے نتیجے میں دنیا کے سامنے قوم کا ایک نیا تصور ابھر کر سامنے آسکتا تھا جو ان کے نظریات کے لیے چیلینج ہو سکتا تھا۔ آج بھی بھارت میں پاکستان کی آبادی کے لگ بھگ تقریباً 20کروڑ مسلمان آباد ہیں لیکن جمہوری طرزِحکم رانی میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ اگر اترپردیش کی ریاست میں بابری مسجد کو شہید کرکے رام مندر تعمیر کیا جاسکتا ہے تو شاید اس کا سبب یو پی میں مسلمانوں کی کم تعداد کی رہائش ہو لیکن جب وادی کشمیر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کے باوجود بھارت نہ صرف وادی میں شعائراسلام کی بے حرمتی کرتا ہے ، مسلمانوں کا قتلِ عام کرتا ہے اور وادی پر غاصبانہ قبضہ جما لیتا ہے تو اس کا واحد سبب ہندوستان کی مرکزی حکومت اور اقتدار میں مسلمانوں کی موجودگی و تناسب کا فقدان ہے۔

اگر پاکستان معرضِ وجود میں نہ آتا اور پاکستان کے موجودہ صوبے غیرمنقسم ہندوستان میں شامل ہوتے تو ان صوبوں کی غالب اکثریت بھی ہندوستان کے حکم رانوں اور اکثریتی آبادی کے رحم و کرم پر ہوتی اور وہ جب چاہتے، مرکز میں اپنی غالب اکثریت کے بل بوتے پر مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی شعائرِاسلام کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کے مرتکب ہوتے۔ ہندوستان کے آج کے حالات اس منظر کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔

ایک وقت تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح ہندوستان کی سیاسی صورت حال سے نالاں ہوکر انگلستان میں رہائش پذیر ہوگئے تھے، جہاں نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنی شریک ِ حیات کے ہمراہ اُن سے ملاقات کرکے ہندوستان واپس آنے کی دعوت دی تھی۔ قائداعظم نے واپسی پر آمادگی کو اُصولی طور پر قبول کرتے ہوئے لیاقت علی خان کو بعض نکات پر وضاحت کے لیے کہا تھا جس کے نتیجے میں لیاقت علی خان نے واپسی پر پورے ہندوستان کا سروے کرکے قائداعظم کو صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔ قائداعظم کی واپسی کے لیے علامہ محمد اقبال، عبدالمتین چوہدری اور دیگر مسلم راہ نماؤں نے بھی خطوط ارسال کیے تھے۔

قائداعظم نے ہندوستان واپس آکر آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز کیا۔ برطانوی ہند میں منعقد ہونے والے پہلے صوبائی انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو کام یابی حاصل نہیں ہوئی جب کہ تحریک خلافت کے راہ نماؤں پر مشتمل مسلم یونٹی بورڈ نے بعض علاقوں میں مسلم نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ نتیجتاً قائداعظم نے یونٹی بورڈ کے راہ نماؤں مولانا شوکت علی، چوہدری خلیق الزماں وغیرہ کو مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی اور بالآخر مسلم یونٹی بورڈ قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تحریکِ خلافت کے راہ نماؤں اور کارکنوں کی مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل پارٹی اُس طرح متحرک اور فعال نہ تھی جس طرح ان شخصیات کی شمولیت کے بعد دیکھنے میں آیا۔ تحریک ِخلافت کے راہ نماؤں اور کارکنان کو برصغیر میں تاریخ کی سب سے بڑی اور عظیم الشان عوامی تحریک میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں کام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل تھا جس نے بعدازاں مسلم لیگ کو منظم اور متحرک کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا جو بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔

قومی ریاستیں جن کے تشخص کی بنیاد کچھ بھی رہی ہو، میں شامل جغرافیائی اکائیوں کو ان کے منفرد تشخص سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس تناظر میں انسانی فطرت کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ محض کسی علاقے میں ترقیاتی کام اس کی مقامی آبادی کو مطمئن نہیں کرسکتے۔ تاوقتیکہ خودمقامی آبادی کو ان میں مکمل عمل دخل حاصل نہ ہو۔ اسی طرح مقامی آبادی کے سیاسی آدرش کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور اس حوالے سے بھی ان کے تشخص کی بقا کا اہتمام ضروری ہے۔

بستیوں اور علاقوں میں دیگر مقامات سے آبادی کی منتقلی کے بارے میں مقامی آبادی کے لیے عددی تناسب میں تبدیلی تشویش کا باعث ہوسکتی ہے جس کے لیے ریاست کو تواتر کے ساتھ آئینی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ یہ معاملہ یقیناً غورطلب ہے کہ وفاق کا وجود اختیارات کے بغیر بے معنی ہوجاتا ہے، کیوںکہ وفاق میں شمال جغرافیائی اکائیاں اپنی داخلی خودمختاری کی قربانی دے کر وفاق کی تشکیل کرتی ہیں۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی اور انتظامی صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ صاحبان اقتدار مزید وقت ضائع کیے بغیر ان مسائل کا قابل عمل حل تلاش کریں۔ آج جو حل نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے وہ آنے والے دنوں میں شاید نہ ہوسکے۔ وقت بڑا اہم ہوتا ہے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے منصوبے میں ایک اُصول انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے مطابق برصغیر کی مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ اسی اُصول کا اطلاق ہندوستان کی دیسی ریاستوں پر بھی ہوتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے اس اُصول سے انحراف کیا گیا۔

ہندوستان کی برطانوی حکومت نے جس طرح 1945/46 کے انتخابات کے ذریعے برصغیر میں پاکستان اور بھارت کی ڈومیننز Dominions کے قیام کا فیصلہ کیا تھا، اسی اُصول پر برطانوی حکومت ''دیسی ریاستوں'' میں بھی اپنی نگرانی میں ریفرنڈم کا انعقاد کرکے ان ریاستوں کی پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کو بہ آسانی اور عملاً ممکن بناسکتی تھی، کیوںکہ یہ دیسی ریاستیں محض ''داخلی خودمختاری'' تک محدود تھیں اور برطانیہ ہی بالادست قوت کے طور پر موجود تھا، لیکن ایسا نہ ہوا اور ریاست جموں وکشمیر کا تنازعہ باقی رہا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ریاست کے شہریوں کو استصواب رائے کے ذریعے اپنے حق خودارادیت کے استعمال سے محروم رکھا گیا اور یہ صورتحال آج بھی موجود ہے۔

قیامِ پاکستان کو 74سال ہونے کو آرہے ہیں۔ آزادی کے وقت ریاست خطے کے مشرق و مغرب میں دو بازؤں پر مشتمل تھی لیکن بدقسمتی سے 1971میں مشرقی پاکستان بنگلادیش میں تبدیل ہوگیا جس کی وجہ سے مسلم قومیت کے حوالے سے دو قومی نظریے کو وقتی طور پر نقصان پہنچا لیکن نظریہ کام یاب یا ناکام نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیروکار عمل درآمد میں کام یاب یا ناکام ہوتے ہیں۔ نظریہ ایک متحرک قوت کے طور پر نسل در نسل جاری رہتا ہے۔

جنوبی ایشیا کا خطہ آج جس سیا سی صورت حال سے گزررہا ہے اس کے پیشِ نظر ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلادیش کے مابین سرکاری اور عوامی سطح پر باقاعدہ رشتوں کو بحال کیا جائے۔ گذشتہ دو سالوں میں ہندوستان کی مودی سرکار نے ریاست میں آباد اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا ہے اور جموں وکشمیر کے متنازعہ علاقے کو غیرقانونی طور پر اپنے ہی آئین کو تبدیل کرکے جو صورت حال پیدا کی ہے وہ بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک ہندوستان کی انتہا پسندی اور توسیع پسندانہ عزائم کا اپنے مابین قریبی روابط قائم کرکے مقابلہ کریں بصورت دیگر جنوبی ایشیا کے ممالک یک بعد دیگرے ہندوستان کی توسیع پسندی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story