روسی وزیرخارجہ کا دورہ اور پاکستان کی چھتری

پاکستان کو تمام ہمسائیوں کے علاوہ دنیا بھر کی طاقتوں کے ساتھ اچھے مراسم قائم کرنے ہوں گے

پاکستانی وزیر خارجہ کی چھتری ایسی اہم بات نہیں تھی جسے اتنا بڑا ایشو بنایا گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

جب پاکستان 1947 میں آزاد ہوا تھا تو اس وقت ظاہر ہے چین کسی بھی حوالے سے طاقت نہیں تھا، یہ پہاڑوں کے پار گم سم سا ملک تھا۔ چین کے اُس پار روس کی طاقتور قوت موجود تھی لیکن ہماری افسر شاہی نے ایک عجیب فیصلہ کیا کہ سمندر پار برطانیہ کے دوست اور اتحادی امریکا سے تعلقات استوار کیے جائیں اور پھر ہم نے روس کے دورے کو سائیڈ پر کرتے ہوئے امریکا سے تعلقات بنائے۔

ابتدا میں یہ تعلقات پھر بھی قابل عزت سطح پر تھے، تاہم گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات برابری کی سطح سے گرتے چلے گئے۔ ہمسائے یا ہمسائے کے ہمسائے سے تعلقات اچھے ہونا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ تاکہ مشکل وقت میں کمک پہنچ سکے، دفاع اور تعلقات مضبوط ہوسکیں۔

ابتدائی امریکی دورے کے باوجود بھی روس کے ساتھ تعلقات ٹھنڈے نہ تھے، ان تعلقات میں سردمہری تب آئی جب ہم نے روس امریکا سرد جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا اور بعد ازاں افغانستان میں روس کو پھنسا کر اس کو توڑ دیا۔ امریکیوں نے ہمیں اس احسان کا کیا صلہ دیا؟ اس نے ہمارے پیسے روک لیے، ہم نے دہائیوں تک افغان مہاجرین کا اضافی بوجھ برداشت کیا، ہم نے منشیات برداشت کی اور ہم نے کلاشنکوف کلچر کو برداشت کیا۔ تاہم روس کے ساتھ تعلقات بیک ڈور ڈپلومیسی کی وجہ سے اب ماضی کی نسبت بہتر ہیں۔

روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بھی دنیا بھر میں گہری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم روز اول سے امریکی بلاک کا حصہ ہیں اور نائن الیون کے بعد سے تو ہم علی الاعلان امریکی بلاک میں موجود ہیں۔ ہم امریکی بلاک میں روز اول سے کس کی وجہ سے موجود ہیں؟ اس کی وجہ سول بیوروکریسی اور اُس کے اتحادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس بھی سیاستدان نے روس کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوشش کی یا اُس کی بحالی کی کوشش کی، اس کو ٹھیک ٹھاک روڈ بلاکس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کے جس بھی وزیراعظم نے روس سے گلے ملنے کی کوشش کی، امریکی حمایت یافتہ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ گروہ نے اُس کو تگنی کا ناچ نچوایا ہے۔ اس کی ایک مثال بھٹو ہیں، زرداری اور گیلانی بھی ہیں اور اب نواز شریف کو بھی اسی باب میں شامل سمجھیے۔

روس نے 2014-15 میں پاکستان کو اسٹیل مل بحال کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ روس پاکستان کو اسٹیل مل چلا کر چند سال میں واپس کردے گا۔ روس نے یہ بھی پیشکش کی تھی کہ کراچی سے لاہور تک ایک پائپ لائن بچھائی جائے اور اس بی او ٹی کے نتیجے میں روس نے 10 سال بعد وہ پائپ لائن پاکستان کے حوالے کر دینی تھی۔ ہم نے یہ آفر بھی کیش نہ کی۔ تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ دفاعی معاملات میں پاکستان اور روس سے تعلقات بہتر ہیں بلکہ بھارت کے شدید ترین دباؤ اور پروپیگنڈہ کے باوجود بھی دفاعی میدان میں پاکستان اور روس کے تعلقات بیلنس ہیں۔


روس کے وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ اگر اس منظر کے ساتھ بھی دیکھیں تو یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے میں دفاعی امور کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر ایک پائپ لائن کی ضرورت ہے جو کہ کراچی سے لاہور یا فیصل آباد تک ہو، جس میں کہ ایل این جی چلائی جاسکے، کیونکہ قدرتی گیس مستقبل میں کم ہوتی جائے گی اور ایل این جی اس وقت کراچی کے پورٹ تک آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہوابازی اور ریلوے میں بھی روس کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ روس پاکستان میں ہی ویکسین کی تیاری پر غور کرے گا۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ زیادہ اچھا ہوجائے گا۔

اس وقت کمرشل بنیادوں پر دستیاب ویکیسین روس کی ہی ہے۔ روس کو کاؤنٹر ٹیررازم میں افغانستان میں پاکستان کی ضرورت ہے اور اس مقصد کےلیے روس کو پاکستان کی فعال شراکت چاہیے اور پاکستان کو کشمیر کے معاملے پر روس کی مدد درکار ہے۔ اس کہانی کا کیا انجام ہوگا، اس کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہوجائے گا۔ اس دورے کو ایک اور نظر سے بھی دیکھیں کہ مستقبل قریب میں ہی ترکی میں افغان سربراہ کانفرنس ہورہی ہے، وہاں بھی پاکستان کی اہمیت تو ہے، لہٰذا تصویر یہاں بھی کچھ واضح ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

اس سارے دورے پر پاکستانی وزیر خارجہ کی چھتری حاوی آئی رہی، یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں تھا جس کو اتنا بڑا ایشو بنایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر چھڑنے والی اس بحث میں ایک بات خاکسار کو سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ بحث اُن کے اکاؤنٹس سے شروع ہوئی تھی جو ماضی میں پی ٹی آئی کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کیوں اس اہم وقت میں ایک غیر ضروری بحث کو چھیڑا ہے؟

پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم جگہ پر واقع ہے، لہٰذا پاکستان کسی ایک کیمپ کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ اگر اس ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو پھر پاکستان کو تمام ہمسائیوں کے علاوہ دنیا بھر کی طاقتوں کے ساتھ اچھے مراسم قائم کرنے ہوں گے۔ پاکستان کو تعلقات کو بیلنس کرنا ہوگا۔ شمالی کوریا نے صرف چین کے ساتھ تعلقات بنائے اور نتیجے کے طور پر وہ دنیا بھر میں اکیلا ہے اور معاشی حالات ایسے ہیں کہ وہاں لوگ گھاس ابال کر کھاتے ہیں۔ جنوبی کوریا نے تعلقات کو بیلنس کیا تھا اور وہ اس وقت معاشی طاقت بن چکا ہے۔ ایسی دیگر مثالیں بھی دنیا میں موجود ہیں کہ جن ممالک نے ایک بلاک کو اپنایا اور ڈپلومیسی کو پس پشت ڈال دیا، وہ دنیا سے کٹ گئے اور وہاں غربت اور افلاس نے ننگا ناچ کیا۔ لہٰذا، پاکستان کو بھی دنیا بھر کی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے ہوں گے۔ روس کے وزیر خارجہ کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وہ روس میں بھی صدر کے قریب ترین ہیں۔ مجھے امید ہے کہ روسی وزیر خارجہ کا یہ دورہ تاریخ میں ماضی کے برعکس دوسرے الفاظ اور انداز میں لکھا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story