تنہائی اور احساسِ تنہائی سے نجات کیسے پائیں
دنیا کے بعض معاشروں میں تنہائی کا مرض وبا کی طرح پھیل رہا ہے جس سے مزید خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
JAIPUR, INDIA:
لوگوں سے دور ہونا، خود کو لوگوں سے الگ تھلگ کر لینا تنہائی یا اکیلا پن کہلاتا ہے۔ تنہائی اور احساسِ تنہائی دو مختلف چیزیں ہیں۔
احساسِ تنہائی میں انسان لوگوں کی بھیڑ میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کسی کو کھو دینے کے بعد یا تعلقات میں برے تجربات کے نتیجے میں خود کو محدود کر لیتے ہیں ۔ بعض لوگ اپنی شرمیلی فطرت کی وجہ سے بھی تنہا رہتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں جھجھکتے ہیں ۔
ایسے لوگ سماجی روابط سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنے اردگرد تنہائی کا خود ساختہ خول چڑھا لیتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک مجرم کو بطور سزا بھی تنہا کر دیا جاتا ہے تا کہ اسے ذہنی اذیت سے گزارا جائے۔ تنہائی قدرتی ہو یا خودساختہ ہر صورت میں ذہنی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ طویل عرصے تک تنہا رہنا انسان کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت میں ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے۔
ماہرین نے اس حوالے سے ایک دلچسپ تحقیق کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ انسان اکیلا ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ احساسِ تنہائی کا شکار بھی ہو۔ احساسِ تنہائی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی فرد اپنے آپ کو سماجی طور پر ٹھکرایا ہوا اور دوسروں سے علیحدہ متصور کرنے لگے، اسے دوست احباب، رشتہ داروں کی کمی محسوس ہونے لگے۔ ایسے انسان کے لیے تنہائی کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ میرا دنیا میں کوئی اپنا نہیں ہے اور میں بھی کسی کا نہیں ہوں۔ ماہرین کے مطابق تنہائی کا یہ احساس انسان کی صحت کے لیے ضرررساں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو اس احساس کا شکار ہوتے ہیں۔
ان میں امراض قلب، فالج اور بلڈ پریشر سمیت کئی مہلک بیماریوں کا امکان ان افراد کی نسبت دوگنا ہوتا ہے جو اپنوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق سے یہ امر سامنے آیا کہ جو طلباء دوستوں سے میل جول رکھنے کی بجائے تنہا وقت گزارنے کے عادی تھے، ان کا نظام قوت مدافعت ان طلباء کے مقابلے میں بے حد کمزور تھا جو اپنا وقت دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق، کھیل کود اور تفریح میں بھی گزارنے کے عادی تھے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ طلباء جو دوستوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی احساسِ تنہائی کا شکار تھے، ایسے طلباء میں سے بیشتر نیند میں دائمی خلل کا بھی شکار تھے۔ احساسِ تنہائی کا شکار لوگ ہر وقت ذہنی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں ۔ان کا فشارِ خون بلندیوں کو چھو سکتا ہے اور دوائی کے مستقل استعمال سے بھی بعض اوقات قابو میں نہیں آتا۔ اس کے ساتھ ساتھ جسم میں کولیسٹرول اور سٹریس ہارمون کورٹیزول کی مقدار بھی زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ پریشانی، مایوسی اور افسردگی جیسے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
امریکی ماہرین نے حال ہی میں ایک تحقیق کے نتائج عام کیے ہیں جس میں تنہائی کو تمباکو نوشی سے بھی زیادہ نقصان دہ قرار دیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ تنہا رہنے سے کسی بھی شخص کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اس کی نیند خراب ہو سکتی ہے، فشارِ خون متاثر ہو سکتا ہے اور اس کے ہارمونز میں بے قاعدگی آ سکتی ہے، جس سے کئی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں، انہوں نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ کئی ممالک میں تنہائی وبائی امراض کی مانند پھیل رہی ہے اور یہ صورت حال لوگوں کے لیے الارمنگ ہونی چاہیئے ۔
جرنل آف جرنٹالوجی سوشل سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں دو گھنٹے کے لیے رضاکارانہ طور پر سماجی خدمات سرانجام دینا اکیلے پن کے اثرات میں نہ صرف کمی کرتا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے میں بھی معاون ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے دوران آپ مختلف کمیونٹیز کے افراد سے ملتے ہیں، گفتگو اور ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ اس سے دل و دماغ پر ویسے ہی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے اہل خانہ، عزیزوں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ چالیس سال سے زائد عمر کے افراد کا تنہا رہنا ان کی دماغی صحت پر بدترین اثرات چھوڑتا ہے اور تنہائی کا زہر ان کی قبل از وقت موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سماجی علیحدگی اور احساسِ تنہائی میں فرق واضح کرنا لازم ہے۔ اپنی مرضی سے سماجی علیحدگی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ فرد احساسِ تنہائی کا شکار بھی ہو۔ سماجی زندگی سے کنارہ کشی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایسا فرد تنہائی کے جنگل میں بھٹک رہا ہو۔ سماجی زندگی سے دوری اختیار کرنا فرد کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے جبکہ احساسِ تنہائی ایک مخصوص ذہنی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ '' لوگوں کی بھیڑ'' سے دور الگ دنیا بسا کر زیادہ پرسکون اور مطمئن رہتے ہیں۔ احساسِ تنہائی کا مطلب '' اکیلا '' ہونا نہیں ہے، کیونکہ ایک شخص لوگوں کے سیلاب میں بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کر سکتا ہے اور کوئی شخص تنہا ہونے کے باوجود اپنے اندر انجمن سجائے ہوتا ہے۔
احساسِ تنہائی ایسی درد بھری اور تکلیف دہ ذہنی کیفیت ہے جس میں مبتلا شخص اپنے آپ کو سماجی زنجیر سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے اور یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ اس کی بنیادی اور ضروری خواہشات پوری کرنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں لے رہا۔ جب احساسِ تنہائی کسی شخص کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی چاہنے والا یا ہمدرد نہیں ہے، اسے یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جس کے ساتھ وہ اپنے احساسات اور دکھ درد بانٹ سکے۔
اسے دوست بنانے میں مشکل پیش آتی ہے اور وہ کسی اجنبی کے ساتھ رسمی بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ احساسِ تنہائی کا شکار فرد عموماً احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسے ہر وقت یہ خیال ستاتا رہتا ہے کہ اس کی کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ وہ لوگوں کے اجتماع میں جانے سے گھبراتا ہے، خود پسندی اور خود آگہی کے وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ دوسروں سے ہم کلام ہونے اور ان سے اپنے مسائل و مشکلات بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے، نتیجتاً وہ ایک مخصوص اور محدود دائرے میں مقید ہو کر رہ جاتا ہے۔
سماجی رویوں کے ماہرین نے تنہائی اور احساسِ تنہائی کے اس عفریت سے بچنے کے لیے اور صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنے کے لیے کچھ ہدایات دی ہیں، جن پر عمل کر کے ہم دور حاضر میں وبا کی طرح پھیلتی اس تنہائی پر قابو پا کر خود کو اس معاشرے کیلئے مفید اور کارآمد بنا سکتے ہیں :
اپنی کمزوری کا اعتراف کریں
تنہائی کے احساس کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلا قدم اس احساس کو تسلیم کر کے قبول کرنا ہے، تنہائی کا شکار لوگوں کے لیے اپنی اس کمزوری کا اعتراف کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے، اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں مثلاً آپ اپنی ڈائری میں محسوسات تحریر کر سکتے ہیں، کسی دوست کو خیالی خط لکھا جا سکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تخلیقی صلاحیت دی ہے تو کسی ڈرائنگ یا پینٹنگ کے ذریعے بھی اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اپنی تنہائی کا اظہار آپ کو اس سے متعلق وجوہات جاننے میں مدد کر سکتا ہے اور جب آپ یہ جان جاتے ہیں کہ آپ کی تنہائی کا سبب کیا ہے تو آپ اس سے نکلنے کے لیے اپنے طرزِ فکر اور طرزِ زندگی میں ضروری تبدیلیاں طے کر سکتے ہیں ۔
فعال رویے اختیار کریں
تنہائی ایک غیر فعال حالت ہے، آپ کو اس سے نکلنے کے لئے کوشش کرنا ہو گی ۔ بہت سے لوگ معجزاتی طور پر یہ احساس ختم کرنے کا انتظار کرتے عمر گزار دیتے ہیں، حالانکہ زندگی کے حوالے سے اپنا رویہ بدلے بغیر وہ اس احساس سے نجات نہیں پا سکتے ۔ اپنے اہلِ خانہ اور دوست احباب سے رابطے میں رہیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں، مسائل کے حل کے لیے اپنی خدمات پیش کریں ۔ یقین رکھیں جب آپ خود کو فعال بنا لیں گے تو تنہائی کا احساس خود بخود غائب ہو جائے گا ۔
تفریحی سرگرمیاں اپنائیں
اگر آپ کسی ایسی سرگرمی میں خود کو مشغول رکھتے ہیں، جس سے آپ لطف اندوز ہوں تو اس سے آپ کے مزاج پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ کسی سفری گروہ کا حصہ بنیں ، کھیلوں میں شامل ہوں، کیونکہ کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کے بہت سے طبی فوائد ہیں۔ اپنی پسند کی سرگرمی میں مشغولیت آپ کی زندگی سے تنہائی کا احساس دور کر کے آپ کی زندگی کو بہت معنی دے سکتا ہے ۔ جب آپ ذہنی طور پر صحت مند ہوتے ہیں تو اس کا اثر آپ کی جسمانی صحت پر بھی اچھا پڑتا ہے ۔ اس لیے خود کو تنہائی جیسے نقصان دہ احساس کی قید سے نجات دلا نے کو جسمانی صحت بہتر بنانے پر توجہ دیں ۔
سماجی سرگرمیوں میں شریک ہوں
دوست احباب اور رشتہ داروں کی دعوت قبول کریں اور اپنے یہاں بھی دعوتوں کا اہتمام کریں ۔ لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کریں ۔ ہو سکتا ہے ابتداء میں آپ آرام دہ محسوس نہ کریں، لیکن وقت کے ساتھ آپ عادی ہوتے چلے جائیں گے ۔ اگر آپ نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کی سماجی سرگرمیوں میں پر جوش شرکت کریں، اگر آپ دوسروں کے معاملات اور مسائل میں دلچسپی لیں گے تو بدلے میں آپ کو بھی اپنائیت اور توجہ ملے گی، جس سے آپ کا خود کو تنہا سمجھنے کا احساس رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔
مہربان لوگ تنہا نہیں ہوتے
دوسروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا ایسی کلید ہے جو کئی روشن دروازے کھول سکتی ہے ، لوگوں کے ساتھ نرم اور نیک نیت برتاؤ آپ کو ان کے دلوں تک رسائی دیتا ہے اور جو دلوں پر راج کرتے ہیں، وہ کبھی تنہا نہیں ہوتے ۔ لوگوں کے ساتھ جارحانہ اور سخت رویہ لوگوں کو آپ سے متنفر کرتا ہے اور یہی چیز آپ کی تنہائی کا سبب بنتی ہے ۔ اگر آپ خود کو اس احساس سے بچانا چاہتے ہیں تو خود کو لوگوں کے لیے نفع بخش بنائیں ۔ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے لیے کام کرنا دل و دماغ کو متحرک رکھتا ہے اور لوگوں کی ضروریات اور مسائل پر توجہ مرکوز کرنے سے آپ تنہا اور ناامید نہیں ہوتے۔
سوشل نیٹ ورک کا استعمال اعتدال سے کریں
جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ کمپیوٹر، موبائل یا ٹیبلٹ جیسے انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہونے کے مددگار آلات پر زیادہ وقت گزارنا بھی آپ کو ذہنی طور پر اکیلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ مصنوعی دنیا ہے، جہاں لوگوں نے اپنی شخصیت پر کئی پرتیں چڑھائی ہوئی ہیں، جہاں کوئی بھی حقیقی ہمدرد اور دوست نہیں ہے۔ اس لیے اس تصوراتی اور غیر حقیقی دنیا میں کثیر وقت ضائع کر کے جب آپ اپنی حقیقی دنیا میں واپس آتے ہیں تو آپ کا دماغ خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں رفتہ رفتہ آپ تنہائی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا پر سینکڑوں غائبانہ دوستوں کی بجائے حقیقی زندگی کے دو یا تین دوستوں سے رابطے میں رہنا آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتا ۔
جانور پالیں
اگر آپ کے پاس وقت ہے اور اردگرد کا ماحول اجازت دیتا ہے تو جانور پال لیں، اس سے آپ کو دوسراہٹ کا احساس ہو گا اور تنہائی آپ کو نگل نہیں سکے گی کیونکہ پالتو جانور کوئی تبصرہ نہیں کرتے، تنقید نہیں کرتے بلکہ غیر مشروط صحبت فراہم کرتے ہیں۔ جانور احسان ماننے والے ہوتے ہیں اور اپنے مالک کا خیال رکھنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں، جانور بے وفا نہیں ہوتے، مخلص ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں آج کل کے انسانوں میں بھی عنقا ہوتی جا رہی ہیں، اس لیے اس مشغلے کے ذریعے آپ خود کو مصروف کر سکتے ہیں۔
نعمتوں اور رشتوں کی قدر کریں
انگریزی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہA Bird in the Hand is Worth Two in the Bush اردو میں اس کے لیے کہتے ہیں '' نو نقد نہ تیرہ ادھار''۔ موجودہ دور میں ہم سوشل میڈیا کی چمکتی دمکتی چکا چوند والی دنیا کے سحر میں مبتلا ہیں ۔ ہم ان تمام آسائشات اور تعیشات کی خواہش میں مبتلا ہیں جو اس دنیا کے پردہ سکرین پر دکھائی جاتی ہیں ۔ بڑے بڑے گھر، گاڑیاں، دفاتر، بنی سنوری ناز نخرے دکھاتی خواتین سب کا آئیڈیل ہیں، ہمیں اس حقیقت کا احساس نہیں ہے کہ ایسا طرزِ زندگی دنیا کی بہت کم آبادی کو عطا ہوا ہے۔
نتیجتاً ہم اپنے پاس رشتوں سے بے زار ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، رشتوں کا حسن انہیں نبھانے میں ہے ناکہ اپنے معیار کی کسوٹی پر آزمانے سے۔ تعلیم، دولت، حسن کے معیار پر ہی اپنے جیون ساتھی یا کسی اور رشتے کو کوئی مقام دینا، آپ کو تنہائی کے ایسے احساس میں دھکیل دیتا ہے، جہاں سے آپ کی واپسی کا راستہ صرف یہی رشتے جانتے ہیں جنہیں آپ اپنے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی پاداش میں تنہا کر چکے ہوتے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے جو خوبصورت رشتے آپ کو بن مانگے عطا کیے ہیں، ان کی قدر کرنا اور ہر طرح سے انہیں اپنے ساتھ کا احساس دلانا آپ کو زندگی بھر تنہا نہیں ہونے دیتا ۔
علاج کرائیں
اگر سب کچھ دسترس میں ہونے کے باوجود بھی آپ تنہائی کا شکار ہیں تو اس احساس سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹنے کا لائحہ عمل اختیار کریں ۔ تحقیق کے مطابق تنہائی اور افسردگی اکثر ہم آہنگ ہو کر تکلیف کے گہرے احساس کا سبب بنتی ہیں، یہی وہ صورتحال ہے جس میں اردگرد سارے رشتوں اور بہت سے افراد کی موجودگی کے باوجود ہم خود کو تنہا سمجھتے ہیں ۔
اگر آپ ایسی کیفیت کا شکار ہیں تو مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہونا اور دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا ہی کافی نہیں، آپ کو علاج کے لئے ماہرین کی ضرورت ہے ۔ معالج کے مشورے سے ایسے خیالات اور رویوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ حقیقت یہی ہے کہ آپ کو احساسِ تنہائی سے نکلنے کے لیے خود ہمت اور کوشش کرنا ہو گی، یہ آپ خود ہیں جس نے تنہائی سے دور ہونے کا راستہ تلاش کرنا ہے، خود سے بڑھ کر نہ کوئی آپ کا ہمدرد ہے اور نہ ہی آپ کی بہتری کا خواہاں ہو سکتا ہے، اس لیے اپنے آپ کو تنہائی کی نذر نہ ہونے دیں کیونکہ آپ کی جان کا آپ پر سب سے زیادہ حق ہے، اپنی بھلائی اور ذہنی صحت کو ملحوظ رکھیں اور خود کو تنہا نہ چھوڑیں ۔
لوگوں سے دور ہونا، خود کو لوگوں سے الگ تھلگ کر لینا تنہائی یا اکیلا پن کہلاتا ہے۔ تنہائی اور احساسِ تنہائی دو مختلف چیزیں ہیں۔
احساسِ تنہائی میں انسان لوگوں کی بھیڑ میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کسی کو کھو دینے کے بعد یا تعلقات میں برے تجربات کے نتیجے میں خود کو محدود کر لیتے ہیں ۔ بعض لوگ اپنی شرمیلی فطرت کی وجہ سے بھی تنہا رہتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں جھجھکتے ہیں ۔
ایسے لوگ سماجی روابط سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنے اردگرد تنہائی کا خود ساختہ خول چڑھا لیتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک مجرم کو بطور سزا بھی تنہا کر دیا جاتا ہے تا کہ اسے ذہنی اذیت سے گزارا جائے۔ تنہائی قدرتی ہو یا خودساختہ ہر صورت میں ذہنی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ طویل عرصے تک تنہا رہنا انسان کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت میں ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے۔
ماہرین نے اس حوالے سے ایک دلچسپ تحقیق کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ انسان اکیلا ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ احساسِ تنہائی کا شکار بھی ہو۔ احساسِ تنہائی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی فرد اپنے آپ کو سماجی طور پر ٹھکرایا ہوا اور دوسروں سے علیحدہ متصور کرنے لگے، اسے دوست احباب، رشتہ داروں کی کمی محسوس ہونے لگے۔ ایسے انسان کے لیے تنہائی کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ میرا دنیا میں کوئی اپنا نہیں ہے اور میں بھی کسی کا نہیں ہوں۔ ماہرین کے مطابق تنہائی کا یہ احساس انسان کی صحت کے لیے ضرررساں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو اس احساس کا شکار ہوتے ہیں۔
ان میں امراض قلب، فالج اور بلڈ پریشر سمیت کئی مہلک بیماریوں کا امکان ان افراد کی نسبت دوگنا ہوتا ہے جو اپنوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق سے یہ امر سامنے آیا کہ جو طلباء دوستوں سے میل جول رکھنے کی بجائے تنہا وقت گزارنے کے عادی تھے، ان کا نظام قوت مدافعت ان طلباء کے مقابلے میں بے حد کمزور تھا جو اپنا وقت دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق، کھیل کود اور تفریح میں بھی گزارنے کے عادی تھے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ طلباء جو دوستوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی احساسِ تنہائی کا شکار تھے، ایسے طلباء میں سے بیشتر نیند میں دائمی خلل کا بھی شکار تھے۔ احساسِ تنہائی کا شکار لوگ ہر وقت ذہنی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں ۔ان کا فشارِ خون بلندیوں کو چھو سکتا ہے اور دوائی کے مستقل استعمال سے بھی بعض اوقات قابو میں نہیں آتا۔ اس کے ساتھ ساتھ جسم میں کولیسٹرول اور سٹریس ہارمون کورٹیزول کی مقدار بھی زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ پریشانی، مایوسی اور افسردگی جیسے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
امریکی ماہرین نے حال ہی میں ایک تحقیق کے نتائج عام کیے ہیں جس میں تنہائی کو تمباکو نوشی سے بھی زیادہ نقصان دہ قرار دیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ تنہا رہنے سے کسی بھی شخص کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اس کی نیند خراب ہو سکتی ہے، فشارِ خون متاثر ہو سکتا ہے اور اس کے ہارمونز میں بے قاعدگی آ سکتی ہے، جس سے کئی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں، انہوں نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ کئی ممالک میں تنہائی وبائی امراض کی مانند پھیل رہی ہے اور یہ صورت حال لوگوں کے لیے الارمنگ ہونی چاہیئے ۔
جرنل آف جرنٹالوجی سوشل سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں دو گھنٹے کے لیے رضاکارانہ طور پر سماجی خدمات سرانجام دینا اکیلے پن کے اثرات میں نہ صرف کمی کرتا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے میں بھی معاون ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے دوران آپ مختلف کمیونٹیز کے افراد سے ملتے ہیں، گفتگو اور ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ اس سے دل و دماغ پر ویسے ہی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے اہل خانہ، عزیزوں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ چالیس سال سے زائد عمر کے افراد کا تنہا رہنا ان کی دماغی صحت پر بدترین اثرات چھوڑتا ہے اور تنہائی کا زہر ان کی قبل از وقت موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سماجی علیحدگی اور احساسِ تنہائی میں فرق واضح کرنا لازم ہے۔ اپنی مرضی سے سماجی علیحدگی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ فرد احساسِ تنہائی کا شکار بھی ہو۔ سماجی زندگی سے کنارہ کشی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایسا فرد تنہائی کے جنگل میں بھٹک رہا ہو۔ سماجی زندگی سے دوری اختیار کرنا فرد کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے جبکہ احساسِ تنہائی ایک مخصوص ذہنی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ '' لوگوں کی بھیڑ'' سے دور الگ دنیا بسا کر زیادہ پرسکون اور مطمئن رہتے ہیں۔ احساسِ تنہائی کا مطلب '' اکیلا '' ہونا نہیں ہے، کیونکہ ایک شخص لوگوں کے سیلاب میں بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کر سکتا ہے اور کوئی شخص تنہا ہونے کے باوجود اپنے اندر انجمن سجائے ہوتا ہے۔
احساسِ تنہائی ایسی درد بھری اور تکلیف دہ ذہنی کیفیت ہے جس میں مبتلا شخص اپنے آپ کو سماجی زنجیر سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے اور یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ اس کی بنیادی اور ضروری خواہشات پوری کرنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں لے رہا۔ جب احساسِ تنہائی کسی شخص کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی چاہنے والا یا ہمدرد نہیں ہے، اسے یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جس کے ساتھ وہ اپنے احساسات اور دکھ درد بانٹ سکے۔
اسے دوست بنانے میں مشکل پیش آتی ہے اور وہ کسی اجنبی کے ساتھ رسمی بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ احساسِ تنہائی کا شکار فرد عموماً احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسے ہر وقت یہ خیال ستاتا رہتا ہے کہ اس کی کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ وہ لوگوں کے اجتماع میں جانے سے گھبراتا ہے، خود پسندی اور خود آگہی کے وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ دوسروں سے ہم کلام ہونے اور ان سے اپنے مسائل و مشکلات بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے، نتیجتاً وہ ایک مخصوص اور محدود دائرے میں مقید ہو کر رہ جاتا ہے۔
سماجی رویوں کے ماہرین نے تنہائی اور احساسِ تنہائی کے اس عفریت سے بچنے کے لیے اور صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنے کے لیے کچھ ہدایات دی ہیں، جن پر عمل کر کے ہم دور حاضر میں وبا کی طرح پھیلتی اس تنہائی پر قابو پا کر خود کو اس معاشرے کیلئے مفید اور کارآمد بنا سکتے ہیں :
اپنی کمزوری کا اعتراف کریں
تنہائی کے احساس کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلا قدم اس احساس کو تسلیم کر کے قبول کرنا ہے، تنہائی کا شکار لوگوں کے لیے اپنی اس کمزوری کا اعتراف کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے، اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں مثلاً آپ اپنی ڈائری میں محسوسات تحریر کر سکتے ہیں، کسی دوست کو خیالی خط لکھا جا سکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تخلیقی صلاحیت دی ہے تو کسی ڈرائنگ یا پینٹنگ کے ذریعے بھی اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اپنی تنہائی کا اظہار آپ کو اس سے متعلق وجوہات جاننے میں مدد کر سکتا ہے اور جب آپ یہ جان جاتے ہیں کہ آپ کی تنہائی کا سبب کیا ہے تو آپ اس سے نکلنے کے لیے اپنے طرزِ فکر اور طرزِ زندگی میں ضروری تبدیلیاں طے کر سکتے ہیں ۔
فعال رویے اختیار کریں
تنہائی ایک غیر فعال حالت ہے، آپ کو اس سے نکلنے کے لئے کوشش کرنا ہو گی ۔ بہت سے لوگ معجزاتی طور پر یہ احساس ختم کرنے کا انتظار کرتے عمر گزار دیتے ہیں، حالانکہ زندگی کے حوالے سے اپنا رویہ بدلے بغیر وہ اس احساس سے نجات نہیں پا سکتے ۔ اپنے اہلِ خانہ اور دوست احباب سے رابطے میں رہیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں، مسائل کے حل کے لیے اپنی خدمات پیش کریں ۔ یقین رکھیں جب آپ خود کو فعال بنا لیں گے تو تنہائی کا احساس خود بخود غائب ہو جائے گا ۔
تفریحی سرگرمیاں اپنائیں
اگر آپ کسی ایسی سرگرمی میں خود کو مشغول رکھتے ہیں، جس سے آپ لطف اندوز ہوں تو اس سے آپ کے مزاج پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ کسی سفری گروہ کا حصہ بنیں ، کھیلوں میں شامل ہوں، کیونکہ کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کے بہت سے طبی فوائد ہیں۔ اپنی پسند کی سرگرمی میں مشغولیت آپ کی زندگی سے تنہائی کا احساس دور کر کے آپ کی زندگی کو بہت معنی دے سکتا ہے ۔ جب آپ ذہنی طور پر صحت مند ہوتے ہیں تو اس کا اثر آپ کی جسمانی صحت پر بھی اچھا پڑتا ہے ۔ اس لیے خود کو تنہائی جیسے نقصان دہ احساس کی قید سے نجات دلا نے کو جسمانی صحت بہتر بنانے پر توجہ دیں ۔
سماجی سرگرمیوں میں شریک ہوں
دوست احباب اور رشتہ داروں کی دعوت قبول کریں اور اپنے یہاں بھی دعوتوں کا اہتمام کریں ۔ لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کریں ۔ ہو سکتا ہے ابتداء میں آپ آرام دہ محسوس نہ کریں، لیکن وقت کے ساتھ آپ عادی ہوتے چلے جائیں گے ۔ اگر آپ نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کی سماجی سرگرمیوں میں پر جوش شرکت کریں، اگر آپ دوسروں کے معاملات اور مسائل میں دلچسپی لیں گے تو بدلے میں آپ کو بھی اپنائیت اور توجہ ملے گی، جس سے آپ کا خود کو تنہا سمجھنے کا احساس رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔
مہربان لوگ تنہا نہیں ہوتے
دوسروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا ایسی کلید ہے جو کئی روشن دروازے کھول سکتی ہے ، لوگوں کے ساتھ نرم اور نیک نیت برتاؤ آپ کو ان کے دلوں تک رسائی دیتا ہے اور جو دلوں پر راج کرتے ہیں، وہ کبھی تنہا نہیں ہوتے ۔ لوگوں کے ساتھ جارحانہ اور سخت رویہ لوگوں کو آپ سے متنفر کرتا ہے اور یہی چیز آپ کی تنہائی کا سبب بنتی ہے ۔ اگر آپ خود کو اس احساس سے بچانا چاہتے ہیں تو خود کو لوگوں کے لیے نفع بخش بنائیں ۔ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے لیے کام کرنا دل و دماغ کو متحرک رکھتا ہے اور لوگوں کی ضروریات اور مسائل پر توجہ مرکوز کرنے سے آپ تنہا اور ناامید نہیں ہوتے۔
سوشل نیٹ ورک کا استعمال اعتدال سے کریں
جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ کمپیوٹر، موبائل یا ٹیبلٹ جیسے انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہونے کے مددگار آلات پر زیادہ وقت گزارنا بھی آپ کو ذہنی طور پر اکیلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ مصنوعی دنیا ہے، جہاں لوگوں نے اپنی شخصیت پر کئی پرتیں چڑھائی ہوئی ہیں، جہاں کوئی بھی حقیقی ہمدرد اور دوست نہیں ہے۔ اس لیے اس تصوراتی اور غیر حقیقی دنیا میں کثیر وقت ضائع کر کے جب آپ اپنی حقیقی دنیا میں واپس آتے ہیں تو آپ کا دماغ خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں رفتہ رفتہ آپ تنہائی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا پر سینکڑوں غائبانہ دوستوں کی بجائے حقیقی زندگی کے دو یا تین دوستوں سے رابطے میں رہنا آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتا ۔
جانور پالیں
اگر آپ کے پاس وقت ہے اور اردگرد کا ماحول اجازت دیتا ہے تو جانور پال لیں، اس سے آپ کو دوسراہٹ کا احساس ہو گا اور تنہائی آپ کو نگل نہیں سکے گی کیونکہ پالتو جانور کوئی تبصرہ نہیں کرتے، تنقید نہیں کرتے بلکہ غیر مشروط صحبت فراہم کرتے ہیں۔ جانور احسان ماننے والے ہوتے ہیں اور اپنے مالک کا خیال رکھنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں، جانور بے وفا نہیں ہوتے، مخلص ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں آج کل کے انسانوں میں بھی عنقا ہوتی جا رہی ہیں، اس لیے اس مشغلے کے ذریعے آپ خود کو مصروف کر سکتے ہیں۔
نعمتوں اور رشتوں کی قدر کریں
انگریزی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہA Bird in the Hand is Worth Two in the Bush اردو میں اس کے لیے کہتے ہیں '' نو نقد نہ تیرہ ادھار''۔ موجودہ دور میں ہم سوشل میڈیا کی چمکتی دمکتی چکا چوند والی دنیا کے سحر میں مبتلا ہیں ۔ ہم ان تمام آسائشات اور تعیشات کی خواہش میں مبتلا ہیں جو اس دنیا کے پردہ سکرین پر دکھائی جاتی ہیں ۔ بڑے بڑے گھر، گاڑیاں، دفاتر، بنی سنوری ناز نخرے دکھاتی خواتین سب کا آئیڈیل ہیں، ہمیں اس حقیقت کا احساس نہیں ہے کہ ایسا طرزِ زندگی دنیا کی بہت کم آبادی کو عطا ہوا ہے۔
نتیجتاً ہم اپنے پاس رشتوں سے بے زار ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، رشتوں کا حسن انہیں نبھانے میں ہے ناکہ اپنے معیار کی کسوٹی پر آزمانے سے۔ تعلیم، دولت، حسن کے معیار پر ہی اپنے جیون ساتھی یا کسی اور رشتے کو کوئی مقام دینا، آپ کو تنہائی کے ایسے احساس میں دھکیل دیتا ہے، جہاں سے آپ کی واپسی کا راستہ صرف یہی رشتے جانتے ہیں جنہیں آپ اپنے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی پاداش میں تنہا کر چکے ہوتے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے جو خوبصورت رشتے آپ کو بن مانگے عطا کیے ہیں، ان کی قدر کرنا اور ہر طرح سے انہیں اپنے ساتھ کا احساس دلانا آپ کو زندگی بھر تنہا نہیں ہونے دیتا ۔
علاج کرائیں
اگر سب کچھ دسترس میں ہونے کے باوجود بھی آپ تنہائی کا شکار ہیں تو اس احساس سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹنے کا لائحہ عمل اختیار کریں ۔ تحقیق کے مطابق تنہائی اور افسردگی اکثر ہم آہنگ ہو کر تکلیف کے گہرے احساس کا سبب بنتی ہیں، یہی وہ صورتحال ہے جس میں اردگرد سارے رشتوں اور بہت سے افراد کی موجودگی کے باوجود ہم خود کو تنہا سمجھتے ہیں ۔
اگر آپ ایسی کیفیت کا شکار ہیں تو مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہونا اور دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا ہی کافی نہیں، آپ کو علاج کے لئے ماہرین کی ضرورت ہے ۔ معالج کے مشورے سے ایسے خیالات اور رویوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ حقیقت یہی ہے کہ آپ کو احساسِ تنہائی سے نکلنے کے لیے خود ہمت اور کوشش کرنا ہو گی، یہ آپ خود ہیں جس نے تنہائی سے دور ہونے کا راستہ تلاش کرنا ہے، خود سے بڑھ کر نہ کوئی آپ کا ہمدرد ہے اور نہ ہی آپ کی بہتری کا خواہاں ہو سکتا ہے، اس لیے اپنے آپ کو تنہائی کی نذر نہ ہونے دیں کیونکہ آپ کی جان کا آپ پر سب سے زیادہ حق ہے، اپنی بھلائی اور ذہنی صحت کو ملحوظ رکھیں اور خود کو تنہا نہ چھوڑیں ۔