نیشنل کمپری ہنسو Comprehensive پاور
ہمارے پاس انفرادی سطح پربہترین دماغ میں لیکن مجموعی حوالے سے ہم نالائقوں کا ایک ریوڑ ہیں۔
آج کل کسی بھی قوم کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے ایک پیمانہ ہے جسے این سی پی یا نیشنل کمپری ہنسو پاور کہا جاتا ہے یعنی اس قوم کی مجموعی قوت کیا ہے۔
این سی پی کے اہم اجزا میں معیشت کی حالت و حجم، سیاسی قیادت کا وژن،تعلیم،سائنس و ٹیکنالوجی، جغرافیائی محلِ وقوع،فارن پالیسی و ڈپلومیسی، معاشرتی ہم آہنگی، اندرونی امن، گورننس، ہیومن کیپیٹل، اور فوجی صلاحیت شامل ہیں۔
پاکستان جو ساٹھ کی دہائی تک ایک ابھرتا ہوا شاندار مستقبل کا حامل ملک تھا نیچے جانا شروع ہو گیا اور ابھی تک سنبھل نہیں سکا۔اگر کبھی ایسے حالات پیدا ہوئے جب ملک آگے بڑھنا شروع ہوا تو پھر ایسے اقدامات اٹھا لیے گئے جو ملک کی ترقی کے منافی تھے۔ آئیے! این سی پی کے چیدہ چیدہ عناصر کا جائزہ لیں۔
ایک لمبے عرصے سے یہ سنا جا رہا ہے کہ ہماری معیشت آئی سی یو میں ہے۔اس کے بعد تو مزید کچھ کہنا غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ہمارے سارے بڑے بڑے ادارے جیسے پاکستان ریلوے،پی آئی اے، اسٹیل ملز، پاکستان پوسٹ وغیرہ خسارے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔تقریباً تمام وزارتوں کے تحت چلنے والے محکمہ جات اور کارپوریشنیں معیشت کے اوپر بوجھ ہیں۔ اندرونی اور بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔قرضے لینا کوئی غلط بات نہیں اگر ان قرضوں کو عقل مندی سے استعمال کرتے ہوئے انکم پیدا کرنے والے Assets بنائے جا سکیں۔
ہم تو قرض کی مے پیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ ہماری جی ڈی پی پچھلے 3سالوں میں 5.8فی صد سے تنزلی کرتے ہوئے ایک فی صد سے بھی کم پر آ گئی ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کے اندر کوئی ایسا فرد نہیں جو معیشت کو سمجھتا بھی ہو اور اچھی انتظامی صلاحیت کا حامل بھی ہو تاکہ معیشت کو آئی سی یو سے نکال کر جنرل وارڈ میں تو لائے۔ معیشت ٹھیک ہو تو عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا۔ ہمارا وقار بلند ہو گا،ہماری بات میں وزن ہو گا لیکن موجودہ معاشی حالت اس کے بر عکس سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہماری سیاسی قیادت نے کبھی پاکستان کے بارے میں حقیقت پر مبنی کوئی وژن نہیں دیا۔آئے دن ایک دوسرے پر دشنام طرازی کرتے نظر آتے ہیں۔کسی کو سی آئی اے کا ایجنٹ تو کسی کو اسرائیلی ایجنٹ گردانا جا رہا ہو تا ہے۔کوئی مودی کا یار اور غدار ہے تو کوئی ڈاکو،لٹیرا کا لقب پا رہا ہے۔یہ حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سب کو اکٹھا کرے اور ساتھ لے کر چلے۔ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ہم عوام اپنا ووٹ دے کر قیادت منتخب کرتے ہیں اور اپنی منتخب قیادت کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر قیادت غلط منتخب کر لی ہے تو ہمیں اپنا محاسبہ کر نا چاہیے۔جب تک ہم عوام اپنے فیصلوں کو اونOwn نہیں کریں گے اور یہ نہیں سمجھیں گے کہ غلط قیادت کو منتخب کر کے اچھے نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے اس وقت تک خیر کی توقع عبث ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام ووٹ تو کسی اور کو کرتی ہے اور منتخب کوئی اور ہو جاتا ہے،اس طرح کے مسائل سے چھٹکارا حاصل کر نا ہو گا۔
این سی پی کا ایک اہم جزو کسی بھی ملک کے اندر تعلیم کا معیار ہے۔ہماری ستر فی صد سے اوپر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔وہاں اکثر اسکولوںمیں اساتذہ خود اچھی طرح لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔مذہبی مدرسوں کے اندر قرآن تو حفظ ہو جاتا ہے لیکن مدرسے کے اندر جنسی اور دوسری زیادتیاں عام ہیں۔شہروں میں کئی طرح کے اسکول ہیں۔بہت اچھے بھی ہیں لیکن زیادہ تر میں معیارِ تعلیم بہتر نہیں ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم ایک تجارت ہے جس میں پیسے تو بنائے جا رہے ہیں لیکن تعلیم نہیں دی جا رہی۔ تربیت تو بالکل ہی مفقود ہو چکی ہے۔سائنس کی تعلیم کا حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھا سائنس ٹیچر ہی نہیں ملتا۔ میتھ جو کہ سائنس کی ملکہ ہے، اس کے ماہر افراد ناپید ہو چکے ہیں۔سائنس کی applicationایڈوانس ٹیکنالوجی کی ضمانت ہوتی ہے۔جب سائنس دان ہی نہیں تو ٹیکنالوجی کی کیا بات کریں۔موجودہ وبا میں بھارت نے تو ویکسین تیار کر کے اپنے لوگوں کی خدمت بھی کی اور برآمد کر کے بیش بہا زر مبادلہ بھی کما یا جب کہ ہماری ہیلتھ لیبارٹریز خوابِ غفلت کی نیند سو رہی ہیں۔اطلاعات کے شعبے میں ہمارے میڈیا نے بڑی ترقی کی ہے۔ اور اس شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔خدا کرے کہ ہم اپنی ترجیحات بہتر کر کے علم کے بحرِ بے کراں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن بہت شاندار ہے۔ بھارت کو سینٹرل ایشیا تک رسائی کے لیے پاکستان کی راہداری چاہیے۔ایران کو اپنے تیل اور قدرتی گیس بھارت پہنچانے کے لیے پاکستان کو درمیان میں ڈالنا پڑتاہے،چین کے لیے بری راستے کے ذریعے خلیجی اور عرب ملکوں تک پہنچنے کے لیے پاکستان چاہیے۔ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے اسے اپنی اکثر درآمدات اور بر آمدات کے لیے پاکستان کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارا محلِ وقوع ہمیں اچھے مواقعے مہیا کرتا ہے۔
قدرتی وسائل کے حوالے سے ابھی تک ہم نہ تو محروم ممالک میں آتے ہیں اور نہ ہی بہت خوش قسمت۔سچ بات تو یہ ہے کہ ابھی تک ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں کہ ہمارے قدرتی وسائل کیا ہیں۔ ہمارے کان کنی اور سروے کے طریقے بہت فرسودہ ہیں۔ اس کا بہت امکان ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ یورینیم کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے اس لیے نایاب اور دوسری اہم دھاتیں بھی پائی جاتی ہوں۔وقت ضایع کیے بغیر ہمیں اپنے قدرتی وسائل کی طرف توجہ دینا ہو گی۔پانی کی کمی واضح ہے۔
افغان جنگ نے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ہم تقریباً چار دہائیوں تک ایک پر امن ملک نہیں رہے۔کلاشنکوف کلچر اور ڈرگز کی لعنت نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا۔عروس البلاد کراچی جو ہمارا صنعتی اور معاشی مرکز تھا مفلوج ہو کے رہ گیا۔ایم کیو ایم اور تحریک ِطالبان پاکستان ملک کے لیے ناسور بنے۔ اب خدا خدا کرکے صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن ہمارا امیج تباہ ہو چکا ہے۔پاکستان کا نام آتے ہی لوگ خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔بہر حال امید ہو چلی ہے کہ گزرے بھیانک دن کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
پاکستان میں باہمی ہم آہنگی کی صورتحال تسلی بخش نہیں۔صوبائی،لسانی اور گروہی چپقلش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اختلافات کی وجہ سے صوبوں کے درمیان تناؤ رہتا ہے۔ہمارے کار پردازوں نے پاکستانی زبانوں کو مقامی زبانیں کہہ کر ہم آہنگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ہماری معاشی بد حالی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جو قومیں امیر اور طاقتور ہوتی ہیں وہاں یہ چپقلش نہیں ہوتی کیونکہ طاقتور اور امیر ملک کا باشندہ ہونے میں فخر ہو تا ہے۔ سوشل Cohesion ہو تو قوم مضبوط ہوتی ہے۔
پاکستان کے پاس بہت قابل سفارت کار رہے ہیں لیکن غریب ملک کی فارن پالیسی ہمیشہ دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اب تو فارن پالیسی بنانے میں پاکستان کے فارن آفس کا کوئی خاص کردار نہیں رہا۔ ایسے میں آزاد فارن پالیسی ممکن نہیں اور بہترین سے بہترین سفارت کار بھی شاید ہی کچھ کر سکے۔ہمارے پاس انفرادی سطح پربہترین دماغ میں لیکن مجموعی حوالے سے ہم نالائقوں کا ایک ریوڑ ہیں۔ پہلے کہا گیا ہے کہ ہم اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں،اسی وجہ سے بلند معیار کی قیادت چننے کے اہل ہی نہیں۔جب قیادت وژنری نہیں ہو گی تو گورننس ایک سنجیدہ مسئلہ بنے گا۔ Governing the ungovernableوالی اصطلاح اس وقت ہمارے اوپر فِٹ آتی ہے۔
پاکستان کے پاس ایک مضبوط،طاقتور اور بڑی فوج ہے۔پاکستان ایک نیوکلیئر ملک ہے۔ہماری فوج کی تربیت کا معیار بھی اعلیٰ ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا جوان،ہمارے جے سی اوز اور نوجوان افسران بہت پروفیشنل اور اپنے وطنِ عزیز پر مر مٹنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔
اگر ہمارے ہاں جمہوریت مضبوط ہو، سرکاری افسر اور چھوٹے سرکاری ملازم درست اور قانون کے مطابق اپنی ڈیوٹی ادا کریں ، الیکشن کمیشن حقیقی معنوں میں آزاد اور بااختیار ہو تو الیکشن کا عمل شفاف ہو تو اس کے نتیجے میں وہی امیدوار منتخب ہوگا جسے ووٹروں کی اکثریت پسند کرے گی ۔ یوں منتخب ہونے والی حکومت بھی ذمے داری سے کام کرے گی تو پاکستان کا نیشنل کمپری ہنسو پاور گراف قابلِ رشک بن سکتا ہے۔خدا کرے کہ ہم ٹھیک سمت میں جلدی گامزن ہوں۔(آمین)۔
این سی پی کے اہم اجزا میں معیشت کی حالت و حجم، سیاسی قیادت کا وژن،تعلیم،سائنس و ٹیکنالوجی، جغرافیائی محلِ وقوع،فارن پالیسی و ڈپلومیسی، معاشرتی ہم آہنگی، اندرونی امن، گورننس، ہیومن کیپیٹل، اور فوجی صلاحیت شامل ہیں۔
پاکستان جو ساٹھ کی دہائی تک ایک ابھرتا ہوا شاندار مستقبل کا حامل ملک تھا نیچے جانا شروع ہو گیا اور ابھی تک سنبھل نہیں سکا۔اگر کبھی ایسے حالات پیدا ہوئے جب ملک آگے بڑھنا شروع ہوا تو پھر ایسے اقدامات اٹھا لیے گئے جو ملک کی ترقی کے منافی تھے۔ آئیے! این سی پی کے چیدہ چیدہ عناصر کا جائزہ لیں۔
ایک لمبے عرصے سے یہ سنا جا رہا ہے کہ ہماری معیشت آئی سی یو میں ہے۔اس کے بعد تو مزید کچھ کہنا غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ہمارے سارے بڑے بڑے ادارے جیسے پاکستان ریلوے،پی آئی اے، اسٹیل ملز، پاکستان پوسٹ وغیرہ خسارے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔تقریباً تمام وزارتوں کے تحت چلنے والے محکمہ جات اور کارپوریشنیں معیشت کے اوپر بوجھ ہیں۔ اندرونی اور بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔قرضے لینا کوئی غلط بات نہیں اگر ان قرضوں کو عقل مندی سے استعمال کرتے ہوئے انکم پیدا کرنے والے Assets بنائے جا سکیں۔
ہم تو قرض کی مے پیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ ہماری جی ڈی پی پچھلے 3سالوں میں 5.8فی صد سے تنزلی کرتے ہوئے ایک فی صد سے بھی کم پر آ گئی ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کے اندر کوئی ایسا فرد نہیں جو معیشت کو سمجھتا بھی ہو اور اچھی انتظامی صلاحیت کا حامل بھی ہو تاکہ معیشت کو آئی سی یو سے نکال کر جنرل وارڈ میں تو لائے۔ معیشت ٹھیک ہو تو عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا۔ ہمارا وقار بلند ہو گا،ہماری بات میں وزن ہو گا لیکن موجودہ معاشی حالت اس کے بر عکس سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہماری سیاسی قیادت نے کبھی پاکستان کے بارے میں حقیقت پر مبنی کوئی وژن نہیں دیا۔آئے دن ایک دوسرے پر دشنام طرازی کرتے نظر آتے ہیں۔کسی کو سی آئی اے کا ایجنٹ تو کسی کو اسرائیلی ایجنٹ گردانا جا رہا ہو تا ہے۔کوئی مودی کا یار اور غدار ہے تو کوئی ڈاکو،لٹیرا کا لقب پا رہا ہے۔یہ حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سب کو اکٹھا کرے اور ساتھ لے کر چلے۔ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ہم عوام اپنا ووٹ دے کر قیادت منتخب کرتے ہیں اور اپنی منتخب قیادت کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر قیادت غلط منتخب کر لی ہے تو ہمیں اپنا محاسبہ کر نا چاہیے۔جب تک ہم عوام اپنے فیصلوں کو اونOwn نہیں کریں گے اور یہ نہیں سمجھیں گے کہ غلط قیادت کو منتخب کر کے اچھے نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے اس وقت تک خیر کی توقع عبث ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام ووٹ تو کسی اور کو کرتی ہے اور منتخب کوئی اور ہو جاتا ہے،اس طرح کے مسائل سے چھٹکارا حاصل کر نا ہو گا۔
این سی پی کا ایک اہم جزو کسی بھی ملک کے اندر تعلیم کا معیار ہے۔ہماری ستر فی صد سے اوپر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔وہاں اکثر اسکولوںمیں اساتذہ خود اچھی طرح لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔مذہبی مدرسوں کے اندر قرآن تو حفظ ہو جاتا ہے لیکن مدرسے کے اندر جنسی اور دوسری زیادتیاں عام ہیں۔شہروں میں کئی طرح کے اسکول ہیں۔بہت اچھے بھی ہیں لیکن زیادہ تر میں معیارِ تعلیم بہتر نہیں ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم ایک تجارت ہے جس میں پیسے تو بنائے جا رہے ہیں لیکن تعلیم نہیں دی جا رہی۔ تربیت تو بالکل ہی مفقود ہو چکی ہے۔سائنس کی تعلیم کا حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھا سائنس ٹیچر ہی نہیں ملتا۔ میتھ جو کہ سائنس کی ملکہ ہے، اس کے ماہر افراد ناپید ہو چکے ہیں۔سائنس کی applicationایڈوانس ٹیکنالوجی کی ضمانت ہوتی ہے۔جب سائنس دان ہی نہیں تو ٹیکنالوجی کی کیا بات کریں۔موجودہ وبا میں بھارت نے تو ویکسین تیار کر کے اپنے لوگوں کی خدمت بھی کی اور برآمد کر کے بیش بہا زر مبادلہ بھی کما یا جب کہ ہماری ہیلتھ لیبارٹریز خوابِ غفلت کی نیند سو رہی ہیں۔اطلاعات کے شعبے میں ہمارے میڈیا نے بڑی ترقی کی ہے۔ اور اس شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔خدا کرے کہ ہم اپنی ترجیحات بہتر کر کے علم کے بحرِ بے کراں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن بہت شاندار ہے۔ بھارت کو سینٹرل ایشیا تک رسائی کے لیے پاکستان کی راہداری چاہیے۔ایران کو اپنے تیل اور قدرتی گیس بھارت پہنچانے کے لیے پاکستان کو درمیان میں ڈالنا پڑتاہے،چین کے لیے بری راستے کے ذریعے خلیجی اور عرب ملکوں تک پہنچنے کے لیے پاکستان چاہیے۔ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے اسے اپنی اکثر درآمدات اور بر آمدات کے لیے پاکستان کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارا محلِ وقوع ہمیں اچھے مواقعے مہیا کرتا ہے۔
قدرتی وسائل کے حوالے سے ابھی تک ہم نہ تو محروم ممالک میں آتے ہیں اور نہ ہی بہت خوش قسمت۔سچ بات تو یہ ہے کہ ابھی تک ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں کہ ہمارے قدرتی وسائل کیا ہیں۔ ہمارے کان کنی اور سروے کے طریقے بہت فرسودہ ہیں۔ اس کا بہت امکان ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ یورینیم کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے اس لیے نایاب اور دوسری اہم دھاتیں بھی پائی جاتی ہوں۔وقت ضایع کیے بغیر ہمیں اپنے قدرتی وسائل کی طرف توجہ دینا ہو گی۔پانی کی کمی واضح ہے۔
افغان جنگ نے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ہم تقریباً چار دہائیوں تک ایک پر امن ملک نہیں رہے۔کلاشنکوف کلچر اور ڈرگز کی لعنت نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا۔عروس البلاد کراچی جو ہمارا صنعتی اور معاشی مرکز تھا مفلوج ہو کے رہ گیا۔ایم کیو ایم اور تحریک ِطالبان پاکستان ملک کے لیے ناسور بنے۔ اب خدا خدا کرکے صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن ہمارا امیج تباہ ہو چکا ہے۔پاکستان کا نام آتے ہی لوگ خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔بہر حال امید ہو چلی ہے کہ گزرے بھیانک دن کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
پاکستان میں باہمی ہم آہنگی کی صورتحال تسلی بخش نہیں۔صوبائی،لسانی اور گروہی چپقلش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اختلافات کی وجہ سے صوبوں کے درمیان تناؤ رہتا ہے۔ہمارے کار پردازوں نے پاکستانی زبانوں کو مقامی زبانیں کہہ کر ہم آہنگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ہماری معاشی بد حالی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جو قومیں امیر اور طاقتور ہوتی ہیں وہاں یہ چپقلش نہیں ہوتی کیونکہ طاقتور اور امیر ملک کا باشندہ ہونے میں فخر ہو تا ہے۔ سوشل Cohesion ہو تو قوم مضبوط ہوتی ہے۔
پاکستان کے پاس بہت قابل سفارت کار رہے ہیں لیکن غریب ملک کی فارن پالیسی ہمیشہ دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اب تو فارن پالیسی بنانے میں پاکستان کے فارن آفس کا کوئی خاص کردار نہیں رہا۔ ایسے میں آزاد فارن پالیسی ممکن نہیں اور بہترین سے بہترین سفارت کار بھی شاید ہی کچھ کر سکے۔ہمارے پاس انفرادی سطح پربہترین دماغ میں لیکن مجموعی حوالے سے ہم نالائقوں کا ایک ریوڑ ہیں۔ پہلے کہا گیا ہے کہ ہم اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں،اسی وجہ سے بلند معیار کی قیادت چننے کے اہل ہی نہیں۔جب قیادت وژنری نہیں ہو گی تو گورننس ایک سنجیدہ مسئلہ بنے گا۔ Governing the ungovernableوالی اصطلاح اس وقت ہمارے اوپر فِٹ آتی ہے۔
پاکستان کے پاس ایک مضبوط،طاقتور اور بڑی فوج ہے۔پاکستان ایک نیوکلیئر ملک ہے۔ہماری فوج کی تربیت کا معیار بھی اعلیٰ ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا جوان،ہمارے جے سی اوز اور نوجوان افسران بہت پروفیشنل اور اپنے وطنِ عزیز پر مر مٹنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔
اگر ہمارے ہاں جمہوریت مضبوط ہو، سرکاری افسر اور چھوٹے سرکاری ملازم درست اور قانون کے مطابق اپنی ڈیوٹی ادا کریں ، الیکشن کمیشن حقیقی معنوں میں آزاد اور بااختیار ہو تو الیکشن کا عمل شفاف ہو تو اس کے نتیجے میں وہی امیدوار منتخب ہوگا جسے ووٹروں کی اکثریت پسند کرے گی ۔ یوں منتخب ہونے والی حکومت بھی ذمے داری سے کام کرے گی تو پاکستان کا نیشنل کمپری ہنسو پاور گراف قابلِ رشک بن سکتا ہے۔خدا کرے کہ ہم ٹھیک سمت میں جلدی گامزن ہوں۔(آمین)۔