اچھا انسان

جو اچھے اعمال کرتا ہے فلاح پاتا ہے، اگر ایک برائی کرے گا تو برائی کرتا چلا جائے گا۔

زندگی میں مشاہدات و تجربات اہم باتوں اور یادوں کا پتا دیتے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کیے گئے اعمال وقت کے دھارے میں بہتے چلے جاتے ہیں، اگر چراغ گل ہوتے ہیں تو یادوں کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔

یاد کرنے کے لیے الفاظ اور جملے باقی رہ جاتے ہیں یا پھر وہی یادوں کے چراغ۔ جو اچھے اعمال کرتا ہے فلاح پاتا ہے، اگر ایک برائی کرے گا تو برائی کرتا چلا جائے گا۔ انسان کے نیک اعمال سیلاب کا رخ موڑ دیتے ہیں آندھی اور طوفان بھی کچھ نہیں کر پاتے۔

اچھا انسان ریاضی کے صفرکی طرح ہوتا ہے ، جس کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ پر وہ جس کے ساتھ جڑ جائے اس کی قیمت دس گنا بڑھ جاتی ہے اپنے کردار کو جتنا اچھا رکھ سکتے ہو، کیونکہ موت انسان کو مار سکتی ہے مگر اچھے کردار والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں لوگوں کے دلوں میں اور اچھے الفاظ میں بھی۔ بہترین انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے ورنہ اچھی باتیں تو دیواروں پر بھی لکھی و کندہ ہوتی ہیں۔

اچھے اور شریف انسان کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی اس کے ساتھ سختی کرے تو وہ سختی سے پیش آتا ہے۔ جب اس سے کوئی نرمی کرے تو نرم ہو جاتا ہے۔ برے انسان سے جب کوئی نرمی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اور سختی کرے تو دھیما ہو جاتا ہے۔ اچھا انسان کسی کا دیا ہوا دکھ بھلا دیتا ہے، مگر دی ہوئی محبت و شفقت کبھی نہیں بھلاتا۔ اچھے انسان ہو لیکن کبھی دوسروں کو اس کا یقین دلانے کی کوشش نہ کریں۔

اچھا انسان مطلبی نہیں ہوتا بس دور ہو جاتا ہے ان لوگوں سے جنھیں اس کی قدر نہیں ہوتی۔ کوئی بھی شخص الفاظ کا چناؤ اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے جتنا ظرف ویسے الفاظ، اور ظرف دو چیزوں کا پتا دیتا ہے تربیت کا اور نیت کا۔ چھوٹے ظرف کے آدمی کو بڑا عہدہ و رتبہ مل جائے تو آدمی بڑا نہیں ہو جاتا بلکہ منصف کی مٹی پلید ہو جاتی ہے۔

جو مخلوق سراپا خیر ، وہ فرشتہ ، جو سراپا شر وہ شیطان اور جو شر و خیرکا مجموعہ وہ حضرت انسان۔ ہر انسان میں خیر بھی ہے اور شر بھی۔ انسان کو خیرکو ظاہر کرنا چاہیے تاکہ وہ اچھا انسان بن سکے۔ انسان کے لیے تزکیہ نفس بہت ضروری ہے۔ جب تک وہ اپنے نفس پر قابو نہیں پائے گا اچھا انسان بننا مشکل ہے۔

اچھا آدمی بات کرے تو اس کی بات میں وزن ہوتا ہے اگر وہ گفتگو کررہا ہے تو اس کی بات کی اہمیت ہوگی، دلائل سے بات کرے تو اہمیت بڑھ جائے گی۔ وہ اپنی بات کرنے میں جس قدر دلائل دے گا اسی قدر اس کی بات کی اہمیت ہوگی۔ شیشے پر ریت مٹی لگ جانے سے کپڑا لگا کر صاف کریں تو وہ شفاف ہو جاتا ہے، لیکن کپڑے کو صاف کرنے کے لیے صابن اور پانی کا استعمال لازمی ہے۔ کپڑا اگر صابن اور پانی سے نہ دھوئیں تو صاف نہیں ہوگا۔


اگر سونے میں کھوٹ ہے تو وہ پانی یا صابن سے نہیں نکلے گی اس کے لیے آگ میں سونے کو پگھلانا ہوگا۔ سونے کے پگھلنے کے بعد اس میں جو ملاوٹ ہوتی ہے وہ الگ ہو جاتی ہے۔ کھوٹ دور کرنے کے لیے آگ کی ضرورت پڑتی ہے انسان کے اندرکی کھوٹ نکالنے کے دو طریقے ہیں۔انسان برائیوں سے دور نیک زندگی گزارے اپنے آپ کو نیک اعمال پر ڈھال لے، کھوٹ نکال دیں تو نفس کا تزکیہ ہو جائے گا۔انسان اپنی زندگی میں گناہ کرتا رہا، وہ ہر برائیوں کی طرف بڑھتا رہا۔ جب تک وہ اپنے آپ کو بداعمالی سے دور نہ کرے تو تزکیہ نفس ممکن نہیں۔

جتنا زیادہ سوچیں گے اتنی زیادہ اذیت میں رہیں گے، اپنے آپ کو مضبوط کرلیں یا پھر مصروف کرلیں۔ کچرے میں پھینکی گئی روٹیاں یہی بیان کرتی ہیں کہ انسان پیٹ بھرتے وقت اپنی اوقات اور اپنے رب کو بھول جاتا ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ رشتہ وہی کامیاب رہتا ہے جو دل سے جڑا ہو، ضرورت، مطلب و غرض سے نہیں۔ جو دوسروں کو عزت دیتا ہے اصل میں وہ خود عزت دار ہوتا ہے کیونکہ انسان دوسروں کو وہی کچھ دیتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔ انسان خود عظیم نہیں اس کا کردار عظیم ہے۔

اچھے انسان کی سب سے پہلی اور سب سے آخری نشانی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی بھی عزت کرتا ہے جن سے اسے کسی قسم کے فائدے مفاد کی توقع نہیں ہوتی۔ بڑا انسان وہ ہے جس کی محفل میں کوئی خود کو چھوٹا نہ سمجھے۔ اچھا ، قیمتی لباس انسان کی پہچان نہیں بلکہ اچھا اخلاق اور اس کا ایمان ہے۔

برائی کسی روپ میں بھی ہو وہ برائی ہے برائیوں سے دور جاتے جائیں معافی کے قریب ہوتے جائیں گے۔ برائی خواہ کتنی خوبصورت کیوں نہ ہو وہ نیک اعمال صالحین کے لیے نہایت بدصورت ہے۔

ہمیں کبھی وہ کام نہیں کرنا چاہیے جسے ہم کرنا نہ چاہیں، ایسا کرنے سے ہم اپنی زندگی میں وہ کر پائیں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر خوش رہنا ہے تو دو چیزیں بھول جائیں، برا سلوک جو کسی نے کیا اور وہ اچھا عمل جو ہم نے کسی کے ساتھ کیا۔ چار چیزوں کو ہمیشہ سنبھالیں۔ نماز میں دل کو ، تنہائی میں سوچ کو ، محفل میں زبان کو ، راستے میں نگاہ کو۔ زندگی خود سنبھل جائے گی۔

ایک مرتبہ ایک مینا نے چڑیا سے پوچھا ، انسان ہر وقت دکھی، پریشان، افسردہ کیوں رہتا ہے۔ چڑیا نے سوچ کر کہا، شاید انسانوں کو اللہ پرکامل یقین نہیں، اس لیے وہ پریشان، دکھی اور افسردہ رہتے ہیں۔ جن کا اللہ تعالیٰ پرکامل یقین ہوتا ہے وہ ہماری طرح پرسکون اور مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔زمین اور اہل زمین کے درمیان بکھری ہوئی اچھی باتوں اور عادتوں کو ایسے چنیں جیسے پرندے اپنی زندگی کے لیے رزق چنتے ہیں۔

تین چیزیں ذلیل کرتی ہیں چوری ، چغلی اور جھوٹ۔ تین چیزیں ہمیشہ پاک رکھو لباس ، جسم اور خیالات۔ تین باتیں ہمیشہ یاد رکھو موت، احسان اور نصیحت۔ تین چیزیں قابو میں رکھو زبان ، نفس اور غصہ۔ تین چیزیں باقاعدگی سے پڑھو نماز ، قرآن اور درود۔ تین چیزیں چھوٹی نہ سمجھو فرض، قرض اور مرض۔ رزق زمین کے اندر سے نہیں آتا اگر یقین نہیں تو کھدائی کرکے دیکھ لیں مٹی ہی مٹی ہے، اگر کسی کو ناحق لوگ پریشان اور اذیت دیں گے تو خود بھی تنگ ، پریشان اور اذیت میں مبتلا ہوں گے۔اس لیے اچھا انسان بننے کی کوشش کریں۔
Load Next Story