ویکسین لگوانا انتہائی ضروری ہے
یہ ہم سب کے لیے بہتر ہے۔ ابھی تو چھوٹے اور معصوم بچوں میں کورونا بڑھ رہا ہے، تمام اسکول بند کردیے گئے ہیں۔
ملک بھر سے گزشتہ سال یعنی مارچ 2020 میں کورونا نامی ایک خطرناک وبا کی خبریں آنے لگیں کہ یہ وبا بڑی خطرناک اور جان لیوا ہے اور انسان کو چند روز میں مار دیتی ہے۔
پاکستان اور کراچی میں پہلا مریض ایران سے بلوچستان کے راستے سے کراچی پہنچا تھا۔ جس میں اس مرض کی علامات موجود تھیں۔ دراصل یہ یہ جرثومہ چین کے ایک شہر ووہان سے شروع ہوا تھا جس کو چینی حکومت نے مکمل طور پر بند کردیا تھا یعنی سیل کردیا تھا۔ آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ پھر پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ وبا پھیلتی چلی گئی۔ پاکستان سمیت امریکا اور یورپ میں سخت پابندیاں عائد کردی گئیں۔
تمام ایئرپورٹ، ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریل گاڑیاں اور ٹرانسپورٹ سسٹم بند کردیا گیا اور لاک ڈاؤن کا مرحلہ آگیا۔ بازار بند، ہوٹلز بند، تفریح گاہیں بند کردی گئیں اور چہرے پر ماسک لگانا ضروری سمجھا گیا۔ سو ہم بھی اپنے گھر تک محدود ہوگئے اور پھر 18 مارچ 2020 سے اکتوبر 2020 تک گھر اور باہر فٹ پاتھ پر کرسی پر بیٹھا کرتے، وقت گزرتا گیا۔
تمام مساجد بند کردی گئیں ، نمازیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی، اسی طرح حج ادا نہ کیا جاسکا کیونکہ خانہ کعبہ بھی بند کردیا گیا تھا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی زندگی گزارنا پڑی۔ رمضان اور عید بھی گزر گئی۔ رات گئے مسجدوں سے اذانیںدینا شروع کردی گئیں۔ گھروں میں عبادتیں ہونا شروع ہوگئیں، وقت گزرتا گیا۔ حالات بگڑتے گئے دنیا بھر میں عبادت گاہیں بھی بند ہوتی چلی گئیں۔ پاکستان ریلوے کی تمام ٹرینیں بند ہوگئیں، فاصلے بڑھتے گئے اور اسپتالوں میں رش لگ گیا۔ پوری دنیا سمیت پاکستان میں خوف پھیلتا گیا۔
دنیا بھر کے طبی ماہرین ویکسین بنانے کی تیاری میں لگے رہے اور مسلم ممالک کے عوام اور حکمران عبادتوں اور دعاؤں پر گزارا کرتے رہے۔ آخر دسمبر 2020 میں اطلاع مل گئی کہ کورونا کی ویکسین تیار ہوگئی ہے پہلے چین نے اپنے ملک میں ویکسین تیار کی اور اپنے شہروں کو کھولنا شروع کردیا اور پھر امریکا ، لندن اور یورپین ممالک نے بھی ویکسین تیارکرکے اپنے عوام اور شہریوں کو یہ ویکسین لگانا شروع کردی۔ مگر ہمارے اسلامی ممالک کے کسی بھی سائنسدان نے اس پرکوئی تحقیق یا کام نہیں کیا۔ خیر اب 2021 آگیا ہے، ویکسین پاکستان بھی آگئی ہے اور مختلف شہروں میں میڈیکل کے عملے سمیت ڈاکٹروں، نرسوں کو بھی لگانے کا عمل شروع ہے۔
60 سال سے زائد عمر کے تمام لوگوں کو ویکسین لگانے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اب حکومت کی جانب سے50 سال سے زائد عمرکے شہریوں کو بھی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ گوکہ جدید ترقی یافتہ ممالک امریکا ، لندن اور یورپین ممالک سمیت بھارت ، بنگلہ دیش میں اس وبا کی وجہ سے کئی لاکھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور اس وبا پر قابو پانے کے لیے بہتر انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
میرا تعلق چونکہ ٹریڈ یونین اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہے، بار بار پاکستان کے مختلف شہروں میں جانا پڑتا تھا ایک سال مکمل بند رہے اور اب جب ویکسین آگئی میں نے بھی اپنا نام رجسٹرڈ 1166 پر کرایا اور پھر مجھے پیغام ملا کہ آپ کو 20 مارچ 2021 کو آنا ہوگا۔ سو ہم اپنے دوستوں کے ہمراہ 12 مارچ کو ملتان، لاہور اور فیصل آباد کا دورہ کرکے 18 مارچ کو کراچی پہنچ گئے۔ میرے بیٹے کامران رضی نے کہا کہ '' ابو! پرسوں یعنی 20 مارچ کو آپ کو ویکسین لگے گی اور آپ کو ہمارے ساتھ جناح اسپتال جانا ہوگا'' میں خوش ہو گیا کہ شکر ہے کہ ہمارا نمبر بھی آگیا ہے۔
مگر ایک عجیب سی سوچ اور فکر لگ گئی کہ یہ ویکسین کیسی ہوگی اور کس طرح لگے گی۔ خیر یہ خبریں تو میں ٹی وی پروگرام اور اخبارات میں پڑھتا رہتا تھا اور پھر مجھے سائنس اور سائنسدانوں پر پورا یقین تھا کہ یہ عمل بہتر ہوگا اور میں ذہنی طور پر تیار تھا کہ چلو اس عمل سے بھی گزر کر دیکھیں۔ 75 سال گزار چکے بھرپور جوانی جدوجہد کرتے ہوئے گزار لی۔ جیلیں کاٹ لیں، ہڑتالیں کرلیں، سندھ کی تمام جیلوں میں دن گزار لیے اور پھر پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایک ملک بھی دیکھ لیے۔
لندن تین بار دیکھا ، یورپ کے چار ممالک دیکھ لیے، دیوار برلن دیکھ لی، ہندوستان کے 5 دورے کرلیے، بنگلہ دیش، ڈھاکا کی کانفرنس میں شرکت، 10 روز میں ڈھاکا شہر اور اسٹیشن بھی دیکھ لیا، نیپال دیکھ لیا، کھٹمنڈو کانفرنس دیکھ لی، کئی ملکوں میں انقلاب بھی دیکھ لیے اور اپنی بھرپور جوانی دیکھ لی۔ اپنی بیٹی کی شادی، بیٹوں کی شادی دیکھ لی اپنا گھر دیکھ لیا، اپنی تین پوتیاں دیکھ لیں، نہیں دیکھا تو صرف کورونا اور اس کی کووڈ 19 ویکسین نہیں دیکھی، سو اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ زندگی رہی تو شاید پاکستان میں تبدیلی بھی دیکھ لیں۔ سو ہم 20 مارچ کو اپنے بیٹے کامران رضی اور بیٹی رخسانہ انور ایڈووکیٹ کے ہمراہ تین بجے دن گھر سے روانہ ہوکر وفاقی اور سندھ حکومت کی کارکردگی اور جناح اسپتال کی کارکردگی دیکھنے چلے گئے۔
بڑی حیرت اور خوشی ہوئی جناح اسپتال کے انتظامات دیکھ کر، کس طرح ان کا عملہ اور ڈاکٹر حضرات بزرگوں کے ساتھ پیش آ رہے تھے۔ گیٹ سے ہماری گاڑی اندر اس ہال کی طرف جا کر رکی، ڈاکٹر اور عملہ آیا اور خاص کر جناح اسپتال کی انچارج اور ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے ہمارا استقبال کیا۔ فوراً شناختی کارڈ اور انٹری کی اور پھر ایک فارم مکمل کیا اور فوراً ہی ساتھ والے کیبن میں ڈاکٹر ویکسین کا انجکشن لے کر میرے قریب آگئی۔ میں حیران تھا کہ ڈاکٹر سیمی جمالی میری کرسی کے پیچھے میری بیٹی اور بیٹے کامران رضی کے ساتھ کھڑی ہو کر کہنے لگی کہ '' میں بھی بابا رضی کے ساتھ تصویر بنواؤں گی'' اور پھر ویکسین لگ گئی۔
پتا بھی نہ چل سکا کہ کوئی انجکشن لگا بھی ہے کہ نہیں لگا، اس موقع پر میں سندھ حکومت خاص کر جناح اسپتال کی ڈاکٹر سیمی جمالی کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں جس طرح وہ 60، 70، 75 سال کے بزرگوں، مرد اور خواتین کو ویکسین لگوا رہی تھیں ان کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، بہت اچھا اور بہتر انتظام کیا ہوا تھا اور پھر مجھے ایک کارڈ بنا کر دے دیا گیا کہ اب آپ کو دوسری ڈوز کے لیے 21 دن بعد یعنی 9 اپریل کو دوبارہ آنا ہوگا۔ سو ہم اب 9 اپریل کا انتظار کر رہے ہیں کب یہ تاریخ آئے گی، جو اب بالکل قریب ہے جب یہ تحریر چھپ جائے گی تب تک شاید کووڈ 19 ویکسین کی دوسری ڈوز لگ جائے۔
میرے دوستوں اور ساتھیوں نے بہت سارے سوال کیے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کوئی کورونا ورونا نہیں ہے آپ نے یہ ویکسین کیوں لگوائی، ہم تو نہیں لگوائیں گے اور خبریں بھی بڑی گرم ہیں کہ اس وبا کا دباؤ بڑھ رہا ہے پنجاب، اسلام آباد، خاص کر خیبر پختونخوا سمیت سندھ اور بلوچستان میں زور پکڑ رہا ہے۔
ساتھ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ ایک پڑھے لکھے دوست نے مجھ سے کہا ہے کہ '' میں ویکسین نہیں لگواؤں گا، مجھے تو صرف کارڈ بنوانا ہے کہ ویکسین لگ گئی ہے میں نے کسی اور جگہ جانا ہے میں تو ڈاکٹر یا ویکسین لگوانے والے کو پانچ ہزار روپے دوں گا اور کہوں گا یہ پیسے تم رکھ لو، کسی اور کو ویکسین لگا دو۔ میرا کارڈ بنا دو۔'' میں نے اس سے کہا کہ '' تم پاگل ہو۔ ویکسین کارڈ تو بعد میں نادرا آفس والے بنا کر دیں گے'' مگر وہ بضد ہے کہ '' نہیں ویکسین نہیں لگوانی ہے'' عوام اور شہریوں میں بڑا خوف اور دہشت ہے اس پر حکومت کو اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے، ویکسین لگوانا بہت ضروری ہے۔
یہ ہم سب کے لیے بہتر ہے۔ ابھی تو چھوٹے اور معصوم بچوں میں کورونا بڑھ رہا ہے، تمام اسکول بند کردیے گئے ہیں۔ خاص کر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بڑی سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں اس لیے میری تمام اہل قلم، دانشوروں، ٹیلی وژن اینکر حضرات سمیت مرکزی وزیر صحت صوبائی وزرا صحت سے اپیل ہے کہ برائے کرم اس مہم کو تیزی سے عام عوام اور شہریوں کو اطلاع فراہم کرتے رہیں اب یہ وبا گاؤں اور دیہاتوں تک پھیل رہی ہے کل ہی مجھے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے میرے دوست کامریڈ علی ناصر کا فون آیا تھا کہ اسلام آباد کے مضافات اور پہاڑی علاقہ اور سرسبز علاقے میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے میں بھی کورونا میں مبتلا ہو گیا ہوں اور اپنے آپ کو گھر میں قرنطینہ کرلیا ہے۔
اسپتالوں کی حالت بڑی خراب ہے مریضوں سے بھر گئے ہیں۔ خیر ہمیں مل کر اس وبا سے نجات حاصل کرنی ہے اور اپنی زندگی اور صحت کو برقرار رکھنا ہے۔امید ہے ہمارے عوام ویکسین ضرور لگوائیں گے۔کورونا مردہ باد، انسانیت زندہ باد۔
پاکستان اور کراچی میں پہلا مریض ایران سے بلوچستان کے راستے سے کراچی پہنچا تھا۔ جس میں اس مرض کی علامات موجود تھیں۔ دراصل یہ یہ جرثومہ چین کے ایک شہر ووہان سے شروع ہوا تھا جس کو چینی حکومت نے مکمل طور پر بند کردیا تھا یعنی سیل کردیا تھا۔ آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ پھر پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ وبا پھیلتی چلی گئی۔ پاکستان سمیت امریکا اور یورپ میں سخت پابندیاں عائد کردی گئیں۔
تمام ایئرپورٹ، ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریل گاڑیاں اور ٹرانسپورٹ سسٹم بند کردیا گیا اور لاک ڈاؤن کا مرحلہ آگیا۔ بازار بند، ہوٹلز بند، تفریح گاہیں بند کردی گئیں اور چہرے پر ماسک لگانا ضروری سمجھا گیا۔ سو ہم بھی اپنے گھر تک محدود ہوگئے اور پھر 18 مارچ 2020 سے اکتوبر 2020 تک گھر اور باہر فٹ پاتھ پر کرسی پر بیٹھا کرتے، وقت گزرتا گیا۔
تمام مساجد بند کردی گئیں ، نمازیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی، اسی طرح حج ادا نہ کیا جاسکا کیونکہ خانہ کعبہ بھی بند کردیا گیا تھا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی زندگی گزارنا پڑی۔ رمضان اور عید بھی گزر گئی۔ رات گئے مسجدوں سے اذانیںدینا شروع کردی گئیں۔ گھروں میں عبادتیں ہونا شروع ہوگئیں، وقت گزرتا گیا۔ حالات بگڑتے گئے دنیا بھر میں عبادت گاہیں بھی بند ہوتی چلی گئیں۔ پاکستان ریلوے کی تمام ٹرینیں بند ہوگئیں، فاصلے بڑھتے گئے اور اسپتالوں میں رش لگ گیا۔ پوری دنیا سمیت پاکستان میں خوف پھیلتا گیا۔
دنیا بھر کے طبی ماہرین ویکسین بنانے کی تیاری میں لگے رہے اور مسلم ممالک کے عوام اور حکمران عبادتوں اور دعاؤں پر گزارا کرتے رہے۔ آخر دسمبر 2020 میں اطلاع مل گئی کہ کورونا کی ویکسین تیار ہوگئی ہے پہلے چین نے اپنے ملک میں ویکسین تیار کی اور اپنے شہروں کو کھولنا شروع کردیا اور پھر امریکا ، لندن اور یورپین ممالک نے بھی ویکسین تیارکرکے اپنے عوام اور شہریوں کو یہ ویکسین لگانا شروع کردی۔ مگر ہمارے اسلامی ممالک کے کسی بھی سائنسدان نے اس پرکوئی تحقیق یا کام نہیں کیا۔ خیر اب 2021 آگیا ہے، ویکسین پاکستان بھی آگئی ہے اور مختلف شہروں میں میڈیکل کے عملے سمیت ڈاکٹروں، نرسوں کو بھی لگانے کا عمل شروع ہے۔
60 سال سے زائد عمر کے تمام لوگوں کو ویکسین لگانے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اب حکومت کی جانب سے50 سال سے زائد عمرکے شہریوں کو بھی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ گوکہ جدید ترقی یافتہ ممالک امریکا ، لندن اور یورپین ممالک سمیت بھارت ، بنگلہ دیش میں اس وبا کی وجہ سے کئی لاکھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور اس وبا پر قابو پانے کے لیے بہتر انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
میرا تعلق چونکہ ٹریڈ یونین اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہے، بار بار پاکستان کے مختلف شہروں میں جانا پڑتا تھا ایک سال مکمل بند رہے اور اب جب ویکسین آگئی میں نے بھی اپنا نام رجسٹرڈ 1166 پر کرایا اور پھر مجھے پیغام ملا کہ آپ کو 20 مارچ 2021 کو آنا ہوگا۔ سو ہم اپنے دوستوں کے ہمراہ 12 مارچ کو ملتان، لاہور اور فیصل آباد کا دورہ کرکے 18 مارچ کو کراچی پہنچ گئے۔ میرے بیٹے کامران رضی نے کہا کہ '' ابو! پرسوں یعنی 20 مارچ کو آپ کو ویکسین لگے گی اور آپ کو ہمارے ساتھ جناح اسپتال جانا ہوگا'' میں خوش ہو گیا کہ شکر ہے کہ ہمارا نمبر بھی آگیا ہے۔
مگر ایک عجیب سی سوچ اور فکر لگ گئی کہ یہ ویکسین کیسی ہوگی اور کس طرح لگے گی۔ خیر یہ خبریں تو میں ٹی وی پروگرام اور اخبارات میں پڑھتا رہتا تھا اور پھر مجھے سائنس اور سائنسدانوں پر پورا یقین تھا کہ یہ عمل بہتر ہوگا اور میں ذہنی طور پر تیار تھا کہ چلو اس عمل سے بھی گزر کر دیکھیں۔ 75 سال گزار چکے بھرپور جوانی جدوجہد کرتے ہوئے گزار لی۔ جیلیں کاٹ لیں، ہڑتالیں کرلیں، سندھ کی تمام جیلوں میں دن گزار لیے اور پھر پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایک ملک بھی دیکھ لیے۔
لندن تین بار دیکھا ، یورپ کے چار ممالک دیکھ لیے، دیوار برلن دیکھ لی، ہندوستان کے 5 دورے کرلیے، بنگلہ دیش، ڈھاکا کی کانفرنس میں شرکت، 10 روز میں ڈھاکا شہر اور اسٹیشن بھی دیکھ لیا، نیپال دیکھ لیا، کھٹمنڈو کانفرنس دیکھ لی، کئی ملکوں میں انقلاب بھی دیکھ لیے اور اپنی بھرپور جوانی دیکھ لی۔ اپنی بیٹی کی شادی، بیٹوں کی شادی دیکھ لی اپنا گھر دیکھ لیا، اپنی تین پوتیاں دیکھ لیں، نہیں دیکھا تو صرف کورونا اور اس کی کووڈ 19 ویکسین نہیں دیکھی، سو اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ زندگی رہی تو شاید پاکستان میں تبدیلی بھی دیکھ لیں۔ سو ہم 20 مارچ کو اپنے بیٹے کامران رضی اور بیٹی رخسانہ انور ایڈووکیٹ کے ہمراہ تین بجے دن گھر سے روانہ ہوکر وفاقی اور سندھ حکومت کی کارکردگی اور جناح اسپتال کی کارکردگی دیکھنے چلے گئے۔
بڑی حیرت اور خوشی ہوئی جناح اسپتال کے انتظامات دیکھ کر، کس طرح ان کا عملہ اور ڈاکٹر حضرات بزرگوں کے ساتھ پیش آ رہے تھے۔ گیٹ سے ہماری گاڑی اندر اس ہال کی طرف جا کر رکی، ڈاکٹر اور عملہ آیا اور خاص کر جناح اسپتال کی انچارج اور ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے ہمارا استقبال کیا۔ فوراً شناختی کارڈ اور انٹری کی اور پھر ایک فارم مکمل کیا اور فوراً ہی ساتھ والے کیبن میں ڈاکٹر ویکسین کا انجکشن لے کر میرے قریب آگئی۔ میں حیران تھا کہ ڈاکٹر سیمی جمالی میری کرسی کے پیچھے میری بیٹی اور بیٹے کامران رضی کے ساتھ کھڑی ہو کر کہنے لگی کہ '' میں بھی بابا رضی کے ساتھ تصویر بنواؤں گی'' اور پھر ویکسین لگ گئی۔
پتا بھی نہ چل سکا کہ کوئی انجکشن لگا بھی ہے کہ نہیں لگا، اس موقع پر میں سندھ حکومت خاص کر جناح اسپتال کی ڈاکٹر سیمی جمالی کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں جس طرح وہ 60، 70، 75 سال کے بزرگوں، مرد اور خواتین کو ویکسین لگوا رہی تھیں ان کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، بہت اچھا اور بہتر انتظام کیا ہوا تھا اور پھر مجھے ایک کارڈ بنا کر دے دیا گیا کہ اب آپ کو دوسری ڈوز کے لیے 21 دن بعد یعنی 9 اپریل کو دوبارہ آنا ہوگا۔ سو ہم اب 9 اپریل کا انتظار کر رہے ہیں کب یہ تاریخ آئے گی، جو اب بالکل قریب ہے جب یہ تحریر چھپ جائے گی تب تک شاید کووڈ 19 ویکسین کی دوسری ڈوز لگ جائے۔
میرے دوستوں اور ساتھیوں نے بہت سارے سوال کیے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کوئی کورونا ورونا نہیں ہے آپ نے یہ ویکسین کیوں لگوائی، ہم تو نہیں لگوائیں گے اور خبریں بھی بڑی گرم ہیں کہ اس وبا کا دباؤ بڑھ رہا ہے پنجاب، اسلام آباد، خاص کر خیبر پختونخوا سمیت سندھ اور بلوچستان میں زور پکڑ رہا ہے۔
ساتھ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ ایک پڑھے لکھے دوست نے مجھ سے کہا ہے کہ '' میں ویکسین نہیں لگواؤں گا، مجھے تو صرف کارڈ بنوانا ہے کہ ویکسین لگ گئی ہے میں نے کسی اور جگہ جانا ہے میں تو ڈاکٹر یا ویکسین لگوانے والے کو پانچ ہزار روپے دوں گا اور کہوں گا یہ پیسے تم رکھ لو، کسی اور کو ویکسین لگا دو۔ میرا کارڈ بنا دو۔'' میں نے اس سے کہا کہ '' تم پاگل ہو۔ ویکسین کارڈ تو بعد میں نادرا آفس والے بنا کر دیں گے'' مگر وہ بضد ہے کہ '' نہیں ویکسین نہیں لگوانی ہے'' عوام اور شہریوں میں بڑا خوف اور دہشت ہے اس پر حکومت کو اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے، ویکسین لگوانا بہت ضروری ہے۔
یہ ہم سب کے لیے بہتر ہے۔ ابھی تو چھوٹے اور معصوم بچوں میں کورونا بڑھ رہا ہے، تمام اسکول بند کردیے گئے ہیں۔ خاص کر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بڑی سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں اس لیے میری تمام اہل قلم، دانشوروں، ٹیلی وژن اینکر حضرات سمیت مرکزی وزیر صحت صوبائی وزرا صحت سے اپیل ہے کہ برائے کرم اس مہم کو تیزی سے عام عوام اور شہریوں کو اطلاع فراہم کرتے رہیں اب یہ وبا گاؤں اور دیہاتوں تک پھیل رہی ہے کل ہی مجھے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے میرے دوست کامریڈ علی ناصر کا فون آیا تھا کہ اسلام آباد کے مضافات اور پہاڑی علاقہ اور سرسبز علاقے میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے میں بھی کورونا میں مبتلا ہو گیا ہوں اور اپنے آپ کو گھر میں قرنطینہ کرلیا ہے۔
اسپتالوں کی حالت بڑی خراب ہے مریضوں سے بھر گئے ہیں۔ خیر ہمیں مل کر اس وبا سے نجات حاصل کرنی ہے اور اپنی زندگی اور صحت کو برقرار رکھنا ہے۔امید ہے ہمارے عوام ویکسین ضرور لگوائیں گے۔کورونا مردہ باد، انسانیت زندہ باد۔