جمہوریت راستہ بھول گئی
جب میں مصائب و مسائل کا شمارکرتا ہوں تو مجھے ان میں عمران خان سر فہرست دکھائی دیتے ہیں۔
جمہوریت راستہ بھول گئی یا یوں کہیے کہ راستہ بھلا دیا گیا ،کچھ بھی ہو بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ پاکستان میں سب کچھ ایک خود کار نظام کا محتاج ہے۔ اس نظام کاآپریٹر کوئی بھی ہو لیکن وہ ایک حقیقت سے نا واقف دکھائی دیتا ہے جو کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے اور وہ ہے فطرت۔
آئیے ! میں آپ کو اس تقسیم کے بارے میں وہ بتاؤں جسے میری ناقص عقل نے سمجھا ہے عین ممکن ہے وہ غلط ہو لیکن اسے پیش کرنے کا تو مجھے حق ہے۔ دیکھیے طاقت حکمت سے ہار جاتی ہے۔ حکمت فطرت سے اور فطرت قدرت سے شکست کھا جاتی ہے۔
اس کی تفصیل میں جاؤں تو بہت وقت اور جگہ درکار ہوگی لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرنے کی جسارت ممکن ہے تو میں کہہ رہا تھا کہ کوئی 1000 طاقتور انسان وہ وزن نہیں اٹھا سکتے جو ایک معمولی درجے کی کرین اٹھا لیتی ہے ، اپنی گفتگو کے دوسرے درجے میں حکمت کتنی ہی مکمل ہو اشیاء کی فطرت کو تبدیل نہیں کرسکتی جیسے آگ ، پانی ، ہوا کی فطرت کو بدلنے پر قادر نہیں ہوسکتے خواہ کیسی ہی حکمت سے کام لے لیں۔
اب بات فطرت کی ہے تو کسی فصل میںآپ اچھا بیج بو سکتے ہیں ، مناسب پانی فراہم کرسکتے ہیں لیکن اچانک بارش آجائے تو وہ قدرت ہے اور وہ آپ کے سارے فطری نظام یا انتظام کو تباہ کر دیتی ہے۔ بات ہو رہی تھی اس آپریٹر کی جو 73 سالوں کے بعد بھی ملک کو پٹری پر چڑھنے نہیں دے رہا۔
اس حقیقت سے اب کم و بیش سبھی واقف ہیں کہ جمہوریت جب بھی مضبوط ہونے لگی ، اسے ڈی ریل کردیا گیا۔ بہانہ کوئی بھی بنایا گیا لیکن انصاف دینے یا کرنے والی عدالتوں نے بھی اسے ملک و قوم کے لیے جائز قرار دیا بلکہ بہترکہا اور اب حالت اس درجے تک جا پہنچی کہ قدرت کے فیصلے کا انتظار ہے اور وہ فیصلہ ہمیشہ طوفان نوح علیہ السلام کے انداز میں ہی نازل ہوتا ہے۔
اللہ سے رحم کی دعاء ہے لیکن کیا ہم قوم ہیں؟ کیا تعلیم ، تربیت ، تہذیب ، تمدن ہمیں چھوکر بھی گزرے ہیں ؟ یعنی انسانیت کو چھوڑیے ، آدمیت کے آس پاس بھی ہم دکھائی دیتے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ میں عرض کروں کہ میں اکثر و بیشتر مختلف مکاتب فکر کے علماء کو سنتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ ہم اسلام میں کس درجے پر فائز ہیں؟ یعنی ایک عالم کا اپنے ہم عصر عالم کے لیے ایک معاملے میں یہ کہنا تھا کہ ''پہلے وہ اپنا باپ تو تلاش کر لے ، پھر مجھ سے بات کرے'' پھر جمہوریت کو تو راستہ بھولنا ہی تھا۔
کوئی نظام پختہ نہیں ، صاف لگتا ہے کہ ہمارے ادارے۔ ہماری حکومتیں خارجی طاقتوں کی کھلم کھلا آلہ کار ہیں ، اور وہیں ان کی اولادیں، جائیدادیں، شہریت ہیں۔ ملکی ادارے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے جا رہے ہیں ملک میں مہنگائی کا بدترین بحران ہے۔ غریب کے لیے زندگی اجیرن کرکے دعویٰ ہے کہ ملک کو ترقی کی شاہراہوں پر گامزن کردیا گیا ہے۔ بظاہر جمہوریت کے معنی رائے کاآزادانہ اظہار ہے ، لیکن کیا یہ آزادی عوام الناس کو حاصل ہے؟ کیا میڈیا آزاد ہے ؟ کوئی ادارہ آزاد ہے ؟ تو پھر کہاں ہے جمہوریت ؟ جنگل سے بھی بد تر نظام رائج ہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون میں کہاں ہے شرافت؟ 73 فرقوں میں تقسیم جن میں سے ہر ایک دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے کہاں ہے مذہب ؟
ایک افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہر شخص انسان اور انسانیت کو یکسر بھول کر انسانی قدروں کو پامال کرکے جنت کا عین حقدار بنا ہوا ہے۔ دین کی تشریح اپنی خواہش کے مطابق کی جاتی ہے۔ میں ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما کو سن کر حیران رہ گیا جن کا کہنا تھا کہ ڈسکہ الیکشن میں کوئی رگنگ ہوئی ہی نہیں ، یعنی پہلے الیکشن کمیشن پھر سپریم کورٹ کے فیصلے ! حد ہی ہو گئی ہم جا کہاں رہے ہیں یا ہم کہاں جا چکے ہیں۔
میں دراصل ایک جائزہ لے رہا ہوں کہ اگر فرض کریں کبھی ہمیں واپسی کا موقع مل بھی گیا توہم پلٹ سکنے کی پوزیشن میں ہوں گے ؟ کیا پاکستان فٹ بال ہے ؟ جس سے ہر طاقتور کھیل رہا ہے ، کیا ہم کوئی قوم ہیں ؟ بہت سارے سوالات ہیں لیکن جواب ایک کا بھی نہیں۔ اور اصلاح کی ابتدا کون کرے کہاں اور کیسے کرے ؟ کون ٹیپو سلطان بنے گا بھائی یہاں تو میر جعفروں کی پوری فوج ہے۔ لیکن میرا ذہن توآج بھی ایک سوچ پر اٹکا ہوا ہے کہ معاملہ حل کیسے ہو گا ؟ ہم کس ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ شاید میری اس تحریر کا عنوان بھی غلط ہے کہ ''جمہوریت راستہ بھول گئی'' کیونکہ یہاں تو سبھی کچھ راستہ بھول گیا۔
مثال کے طور پر ماہ رمضان اب عبادات سے کہیں زیادہ تجارت کا مہینہ ہو گیا ہے۔آپ ہر شے کے دام دیکھ لیجیے گا دگنے ، تگنے وصول کیے جائیں گے اورآخری عشرے میں شبینہ کرواکر ہزار سالوں کی عبادت کا ثواب بھی لوٹ لیں گے۔ افسوس کہ ہم ہر طرح کے فہم سے بالکل عاری ہیں ، لگتا ہے ہم نے انسانی ارتقاء دور سے بمشکل دس بیس قدم ہی آگے کو لیے ہوں گے ۔
ان دنوں جب میں مصائب و مسائل کا شمارکرتا ہوں تو مجھے ان میں عمران خان سر فہرست دکھائی دیتے ہیں۔ گویا ''ہر درد کی وجہ ہیں عمران خان بھائی'' یعنی انھیں اس حد تک کوئی چلا رہا ہے کہ ایک فیصلہ ان کے وزیر خزانہ لیتے ہیں ، اعلان کرتے ہیں انڈیا سے تجارت کھولنے کا اور وہ پرائم منسٹر کی مرضی سے ایسا کرتے ہیں ، دنیا بھر کا میڈیا اس خبر کا چرچہ کرتا ہے لیکن اگلے ہی دن کابینہ اور خود پرائم منسٹر فیصلہ بدل دیتے ہیں! مسلسل تبادلے چیف سیکریٹریز کے آئی جیز کے ، وزراء کے۔
موصوف تو ابتدا میں یورپ ، امریکا میں نظام کے استقلال کی مثالیں دیا کرتے تھے بقول ان کے انھوں نے وہاں زندگی گزاری ہوئی ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ سر دست تو ان کا طرز زندگی ، طرز فکر کسی وڈیرے، چوہدری جیسا ہی کچھ نظرآتا ہے یا سابقہ مطلق العنان بادشاہوں جیسا۔ وہ کروڑوں نوکریاں ، لاکھوں گھر غربا کے لیے ، اربوں درخت ! کہاں ہیں وہ سب ؟ خیر جہاں معین قریشی ، شوکت عزیز وزیر اعظم بن سکتے ہوں وہاں عمران خان سے ہی کیوں گلہ کریں ؟ وہ کم ازکم پاکستان کے شہری تو ہیں۔
میں بہرحال آج اس سوچ سے جان نہیں چھڑا پا رہا کہ بہتری کی ابتداء کہاں سے ہو؟
آئیے ! میں آپ کو اس تقسیم کے بارے میں وہ بتاؤں جسے میری ناقص عقل نے سمجھا ہے عین ممکن ہے وہ غلط ہو لیکن اسے پیش کرنے کا تو مجھے حق ہے۔ دیکھیے طاقت حکمت سے ہار جاتی ہے۔ حکمت فطرت سے اور فطرت قدرت سے شکست کھا جاتی ہے۔
اس کی تفصیل میں جاؤں تو بہت وقت اور جگہ درکار ہوگی لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرنے کی جسارت ممکن ہے تو میں کہہ رہا تھا کہ کوئی 1000 طاقتور انسان وہ وزن نہیں اٹھا سکتے جو ایک معمولی درجے کی کرین اٹھا لیتی ہے ، اپنی گفتگو کے دوسرے درجے میں حکمت کتنی ہی مکمل ہو اشیاء کی فطرت کو تبدیل نہیں کرسکتی جیسے آگ ، پانی ، ہوا کی فطرت کو بدلنے پر قادر نہیں ہوسکتے خواہ کیسی ہی حکمت سے کام لے لیں۔
اب بات فطرت کی ہے تو کسی فصل میںآپ اچھا بیج بو سکتے ہیں ، مناسب پانی فراہم کرسکتے ہیں لیکن اچانک بارش آجائے تو وہ قدرت ہے اور وہ آپ کے سارے فطری نظام یا انتظام کو تباہ کر دیتی ہے۔ بات ہو رہی تھی اس آپریٹر کی جو 73 سالوں کے بعد بھی ملک کو پٹری پر چڑھنے نہیں دے رہا۔
اس حقیقت سے اب کم و بیش سبھی واقف ہیں کہ جمہوریت جب بھی مضبوط ہونے لگی ، اسے ڈی ریل کردیا گیا۔ بہانہ کوئی بھی بنایا گیا لیکن انصاف دینے یا کرنے والی عدالتوں نے بھی اسے ملک و قوم کے لیے جائز قرار دیا بلکہ بہترکہا اور اب حالت اس درجے تک جا پہنچی کہ قدرت کے فیصلے کا انتظار ہے اور وہ فیصلہ ہمیشہ طوفان نوح علیہ السلام کے انداز میں ہی نازل ہوتا ہے۔
اللہ سے رحم کی دعاء ہے لیکن کیا ہم قوم ہیں؟ کیا تعلیم ، تربیت ، تہذیب ، تمدن ہمیں چھوکر بھی گزرے ہیں ؟ یعنی انسانیت کو چھوڑیے ، آدمیت کے آس پاس بھی ہم دکھائی دیتے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ میں عرض کروں کہ میں اکثر و بیشتر مختلف مکاتب فکر کے علماء کو سنتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ ہم اسلام میں کس درجے پر فائز ہیں؟ یعنی ایک عالم کا اپنے ہم عصر عالم کے لیے ایک معاملے میں یہ کہنا تھا کہ ''پہلے وہ اپنا باپ تو تلاش کر لے ، پھر مجھ سے بات کرے'' پھر جمہوریت کو تو راستہ بھولنا ہی تھا۔
کوئی نظام پختہ نہیں ، صاف لگتا ہے کہ ہمارے ادارے۔ ہماری حکومتیں خارجی طاقتوں کی کھلم کھلا آلہ کار ہیں ، اور وہیں ان کی اولادیں، جائیدادیں، شہریت ہیں۔ ملکی ادارے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے جا رہے ہیں ملک میں مہنگائی کا بدترین بحران ہے۔ غریب کے لیے زندگی اجیرن کرکے دعویٰ ہے کہ ملک کو ترقی کی شاہراہوں پر گامزن کردیا گیا ہے۔ بظاہر جمہوریت کے معنی رائے کاآزادانہ اظہار ہے ، لیکن کیا یہ آزادی عوام الناس کو حاصل ہے؟ کیا میڈیا آزاد ہے ؟ کوئی ادارہ آزاد ہے ؟ تو پھر کہاں ہے جمہوریت ؟ جنگل سے بھی بد تر نظام رائج ہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون میں کہاں ہے شرافت؟ 73 فرقوں میں تقسیم جن میں سے ہر ایک دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے کہاں ہے مذہب ؟
ایک افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہر شخص انسان اور انسانیت کو یکسر بھول کر انسانی قدروں کو پامال کرکے جنت کا عین حقدار بنا ہوا ہے۔ دین کی تشریح اپنی خواہش کے مطابق کی جاتی ہے۔ میں ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما کو سن کر حیران رہ گیا جن کا کہنا تھا کہ ڈسکہ الیکشن میں کوئی رگنگ ہوئی ہی نہیں ، یعنی پہلے الیکشن کمیشن پھر سپریم کورٹ کے فیصلے ! حد ہی ہو گئی ہم جا کہاں رہے ہیں یا ہم کہاں جا چکے ہیں۔
میں دراصل ایک جائزہ لے رہا ہوں کہ اگر فرض کریں کبھی ہمیں واپسی کا موقع مل بھی گیا توہم پلٹ سکنے کی پوزیشن میں ہوں گے ؟ کیا پاکستان فٹ بال ہے ؟ جس سے ہر طاقتور کھیل رہا ہے ، کیا ہم کوئی قوم ہیں ؟ بہت سارے سوالات ہیں لیکن جواب ایک کا بھی نہیں۔ اور اصلاح کی ابتدا کون کرے کہاں اور کیسے کرے ؟ کون ٹیپو سلطان بنے گا بھائی یہاں تو میر جعفروں کی پوری فوج ہے۔ لیکن میرا ذہن توآج بھی ایک سوچ پر اٹکا ہوا ہے کہ معاملہ حل کیسے ہو گا ؟ ہم کس ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ شاید میری اس تحریر کا عنوان بھی غلط ہے کہ ''جمہوریت راستہ بھول گئی'' کیونکہ یہاں تو سبھی کچھ راستہ بھول گیا۔
مثال کے طور پر ماہ رمضان اب عبادات سے کہیں زیادہ تجارت کا مہینہ ہو گیا ہے۔آپ ہر شے کے دام دیکھ لیجیے گا دگنے ، تگنے وصول کیے جائیں گے اورآخری عشرے میں شبینہ کرواکر ہزار سالوں کی عبادت کا ثواب بھی لوٹ لیں گے۔ افسوس کہ ہم ہر طرح کے فہم سے بالکل عاری ہیں ، لگتا ہے ہم نے انسانی ارتقاء دور سے بمشکل دس بیس قدم ہی آگے کو لیے ہوں گے ۔
ان دنوں جب میں مصائب و مسائل کا شمارکرتا ہوں تو مجھے ان میں عمران خان سر فہرست دکھائی دیتے ہیں۔ گویا ''ہر درد کی وجہ ہیں عمران خان بھائی'' یعنی انھیں اس حد تک کوئی چلا رہا ہے کہ ایک فیصلہ ان کے وزیر خزانہ لیتے ہیں ، اعلان کرتے ہیں انڈیا سے تجارت کھولنے کا اور وہ پرائم منسٹر کی مرضی سے ایسا کرتے ہیں ، دنیا بھر کا میڈیا اس خبر کا چرچہ کرتا ہے لیکن اگلے ہی دن کابینہ اور خود پرائم منسٹر فیصلہ بدل دیتے ہیں! مسلسل تبادلے چیف سیکریٹریز کے آئی جیز کے ، وزراء کے۔
موصوف تو ابتدا میں یورپ ، امریکا میں نظام کے استقلال کی مثالیں دیا کرتے تھے بقول ان کے انھوں نے وہاں زندگی گزاری ہوئی ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ سر دست تو ان کا طرز زندگی ، طرز فکر کسی وڈیرے، چوہدری جیسا ہی کچھ نظرآتا ہے یا سابقہ مطلق العنان بادشاہوں جیسا۔ وہ کروڑوں نوکریاں ، لاکھوں گھر غربا کے لیے ، اربوں درخت ! کہاں ہیں وہ سب ؟ خیر جہاں معین قریشی ، شوکت عزیز وزیر اعظم بن سکتے ہوں وہاں عمران خان سے ہی کیوں گلہ کریں ؟ وہ کم ازکم پاکستان کے شہری تو ہیں۔
میں بہرحال آج اس سوچ سے جان نہیں چھڑا پا رہا کہ بہتری کی ابتداء کہاں سے ہو؟