عقل و شعور
’’اﷲ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے کائنات انسانی کی راہ نمائی کے لیے اپنا آخری اور مکمل پیغام قرآن حکیم کی شکل میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر اتارا اور اس کے ساتھ آپؐ کے کچھ فرائض بھی مقرر فرمائے۔
پہلا: پیغام کا پہنچانا اور دوسرا: پیغام کی تشریح و تعبیر۔ اس امر کا اشارہ اس آیت مبارکہ میں ملتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کا مقصد بعثت یہ ہے کہ آپؐ لوگوں کے سامنے قرآن کریم کی توضیح فرمائیں۔ رسول کریم ﷺ نے لوگوں تک قرآن حکیم پہنچایا اس کے ساتھ اس کی حسبِ موقع تشریح و تعبیر فرمادی، آپ ﷺ نے یہ تمام فرائض بہ تمام و کمال سر انجام دیے۔ قرآن فہمی درحقیقت دین اسلام کی خشت اول ہے۔ رسول کریمؐ نے ایک بار فرمایا: ''اﷲ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔'' (صحیح مسلم)
آنحضور ﷺ ہی تھے جنہوں نے وحی الہی کی روشنی میںعقل، فکر اور اجتہاد کو استعمال کرکے اسلامی دعوت کی تنظیم کی۔ لوگوں میں حقائق تک پہنچنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا فرمائی، انہیں اس بات کا خُوگر بنایا کہ وہ کسی بھی مسئلے کی تہہ تک رسائی حاصل کریں اور ان کی حقیقت کو جانیں۔
آپؐ نے لوگوں کو الوہیت کی حقیقت، وجود اور اس کے پس پردہ اسرار و رموز کا فہم، انسان کی حقیقت کا ادراک، اس کے مقصد و وجود سے آگاہ کیا اور یہ پورا مرحلہ مؤثر عقلی منہاج اور دلائل کے ذریعے بھی مکمل فرمایا۔ آپ ﷺ نے ابن آدم کو جھوٹے خداؤں سے نجات دلاکر معبودِ حقیقی کی طرف مائل کیا اور یہ آزادی صرف ظاہری ہی نہیں باطنی بھی تھی۔
ذہن انسانی کو آزادی سے تفکّر و تدبّر کا سلیقہ سکھایا اور اس مقصد کے لیے افراد کی بہ طریق احسن تربیّت و تنظیم کی۔ آنحضرت ﷺ نے قرآنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں میں فکری بیداری پیدا کی اور قرآن کی عقلی فکر و نظر اور تدبّر کی دعوت کے مقاصد سے رُوشناس کرایا۔ تاکہ صحت مند سوچ اور فکر کے راستے سے عقل انسانی کی صحت مند تعمیر ہو۔ اشیاء کے حقائق کے علمی، ماہرانہ اور تمام پہلوؤں کو محیط مطالعے کے راستے موجودات کے اسرار و رموز کا ادراک ہو۔ خالق حقیقی کے وجود پر ایمان مستحکم ہو اور زندگی کی ہر حرکت میں اس کے لیے مخلصانہ عبودیت اور بندگی کا اظہار ہو۔ تعمیر کائنات اور تعمیر حیات میں پوشیدہ حق و عدل کی بنیادوں پر زندگی کی تعمیر و تشکیل کی جائے۔
اسلامی دعوت کے اولین دور میں سب سے زیادہ مباحث اور استفسارات پیش آئے اس لیے کہ یہ ایک نیا دین تھا اور ہر نئی چیز آسانی سے قبول نہیں کی جاتی۔ اسی طرح اس نئے دین کا مزاج ایسا تھا جس نے لوگوں کے سامنے مطالبہ رکھا کہ اس کے اصولوں کو وہ اپنی عقل پر بھی پرکھیں۔ قرآن نے مسلمانوں کو فکر و نظر سکھائی، مسلمان رسول اﷲ ﷺ سے استفسار کرتے تھے۔ اعتقادی، تشریعی یا اخلاقی امور کی تفہیم میں عقل انسانی کے استعمال پر زور دیا جاتا تھا۔ مختلف قبائل کے لوگ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوتے تھے تاکہ دین کا فہم حاصل کریں۔
انہوں نے رسول ﷺ سے ایسے غیبی امور کے متعلق سوال کیا جن کا تعلق آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے تھا اور اﷲ کے رسول ﷺ نے بغیر کسی حرج کے انہیں شافی جواب دے کر مطمئن فرمایا۔ بل کہ یہ لوگ تو ان مباحث میں فرحت محسوس کرتے تھے جن سے ان کی عقلول کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا تھا اور ہر طرح کا ابہام، التباس اور اعتراض رفع ہوجاتا تھا۔ بسا اوقات اﷲ کے رسول ﷺ بغیر کوئی سوال کیے معاملات کی وضاحت و تفسیر خود ہی فرما دیا کرتے تھے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کی روایت امام بخاریؒ نے اپنی الجامع الصحیح میں طارق بن شہاب کے واسطے سے کی ہے، مفہوم: وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرؓ کو کہتے سنا کہ ہمارے درمیان نبی کریم ﷺ ایک بار کھڑے ہوئے اور آغاز تخلیق کے بارے میں بتانا شروع کیا، یہاں تک کہ اہل جنّت اور ان کے مقامات اور اہل جہنّم اور ان کے مقامات پر گفت گُو کی۔ یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھ لیا اور بھولنے والے اسے بھول گئے۔
صحابہؓ کی فکری تربیت کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ اپنی گفت گو میں ایسا انداز اپناتے کہ لوگ آپ ﷺ کے فرمودات میں غور و فکر کرتے۔ آپ ﷺ ایسا پیرایہ اختیار کرتے کہ لوگ محض ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہی نہ رہتے بل کہ اگر کہیں کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تو وہ آپ ﷺ سے وضاحت کی درخواست کرتے۔ نبی کریم ﷺ صحابہؓ سے سوال کرتے۔ انہیں سوچنے کا موقع دیتے، اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ صحابہ کرامؓ خود ہی درخواست کر دیتے کہ اﷲ کے نبی ﷺ ہی اس سوال کے حقیقی جواب سے آگاہ ہیں، اس لیے آپؐ ہی اس کا جواب مرحمت فرما دیں۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ میں ایک خاص صلاحیت پیدا فرمادی کہ وہ بات کی حقیقت کو جاننے کی کو شش کریں۔
نبی کریم ﷺ نے جو معاشرہ قائم کیا اس کی ذہنی بیداری کا ایک پہلو حدیث میں یوں بیان کیا گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا۔'' گویا ایک مومن کی زندگی قرآن کی آیت کریمہ کا عملی نقشہ ہوتی ہے: ''مومن وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اﷲ کی نشانیاں ذکر کی جاتی ہیں تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر گر نہیں پڑتے۔'' (بل کہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں) (سورہ الفرقان آیت 73)
آپ ﷺ نے لوگوں میں صرف شوق علم پیدا کرنے اور عقلی صلاحیتوں کی تربیت پر اکتفا نہیں فرمایا بل کہ اس شوق کی تکمیل کے لیے عملی طور پر اہتمام بھی فرمایا۔ آپؐ نے مدینہ طیبہ میں صفّہ کی شکل میں اقامتی درس گاہ کا تصور دیا۔ یہاں علماء کی ایک جماعت تیار کی گئی۔ نبی کریم ﷺ نے ان حضرات کو ہمہ وقت طالب علم بنا کر اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دکھا کر انہیں علم دینے کے ساتھ ان کی فکری و عملی تربیّت فرمائی۔ بلاشبہ نبی کریم ﷺ نے عقل و شعور کو بیدار کیا۔ لوگوں کو احساس دلایا کہ اﷲ نے انہیں عقل و شعور جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے اسے کام میں لایا جائے۔
آ پ ﷺ نے انسانی فکر سے جمود کا خاتمہ فرمایا۔ کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ لوگوں میں تخلیقی صلاحیتیں موجود ہوں اور وہ سوچنے اور غور و فکر کرنے کے عادی ہوں۔ کند ذہن اور صلاحیتوں سے عاری معاشرہ کبھی بھی کسی شعبے میں ترقی نہیں کرسکتا۔
پہلا: پیغام کا پہنچانا اور دوسرا: پیغام کی تشریح و تعبیر۔ اس امر کا اشارہ اس آیت مبارکہ میں ملتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کا مقصد بعثت یہ ہے کہ آپؐ لوگوں کے سامنے قرآن کریم کی توضیح فرمائیں۔ رسول کریم ﷺ نے لوگوں تک قرآن حکیم پہنچایا اس کے ساتھ اس کی حسبِ موقع تشریح و تعبیر فرمادی، آپ ﷺ نے یہ تمام فرائض بہ تمام و کمال سر انجام دیے۔ قرآن فہمی درحقیقت دین اسلام کی خشت اول ہے۔ رسول کریمؐ نے ایک بار فرمایا: ''اﷲ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔'' (صحیح مسلم)
آنحضور ﷺ ہی تھے جنہوں نے وحی الہی کی روشنی میںعقل، فکر اور اجتہاد کو استعمال کرکے اسلامی دعوت کی تنظیم کی۔ لوگوں میں حقائق تک پہنچنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا فرمائی، انہیں اس بات کا خُوگر بنایا کہ وہ کسی بھی مسئلے کی تہہ تک رسائی حاصل کریں اور ان کی حقیقت کو جانیں۔
آپؐ نے لوگوں کو الوہیت کی حقیقت، وجود اور اس کے پس پردہ اسرار و رموز کا فہم، انسان کی حقیقت کا ادراک، اس کے مقصد و وجود سے آگاہ کیا اور یہ پورا مرحلہ مؤثر عقلی منہاج اور دلائل کے ذریعے بھی مکمل فرمایا۔ آپ ﷺ نے ابن آدم کو جھوٹے خداؤں سے نجات دلاکر معبودِ حقیقی کی طرف مائل کیا اور یہ آزادی صرف ظاہری ہی نہیں باطنی بھی تھی۔
ذہن انسانی کو آزادی سے تفکّر و تدبّر کا سلیقہ سکھایا اور اس مقصد کے لیے افراد کی بہ طریق احسن تربیّت و تنظیم کی۔ آنحضرت ﷺ نے قرآنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں میں فکری بیداری پیدا کی اور قرآن کی عقلی فکر و نظر اور تدبّر کی دعوت کے مقاصد سے رُوشناس کرایا۔ تاکہ صحت مند سوچ اور فکر کے راستے سے عقل انسانی کی صحت مند تعمیر ہو۔ اشیاء کے حقائق کے علمی، ماہرانہ اور تمام پہلوؤں کو محیط مطالعے کے راستے موجودات کے اسرار و رموز کا ادراک ہو۔ خالق حقیقی کے وجود پر ایمان مستحکم ہو اور زندگی کی ہر حرکت میں اس کے لیے مخلصانہ عبودیت اور بندگی کا اظہار ہو۔ تعمیر کائنات اور تعمیر حیات میں پوشیدہ حق و عدل کی بنیادوں پر زندگی کی تعمیر و تشکیل کی جائے۔
اسلامی دعوت کے اولین دور میں سب سے زیادہ مباحث اور استفسارات پیش آئے اس لیے کہ یہ ایک نیا دین تھا اور ہر نئی چیز آسانی سے قبول نہیں کی جاتی۔ اسی طرح اس نئے دین کا مزاج ایسا تھا جس نے لوگوں کے سامنے مطالبہ رکھا کہ اس کے اصولوں کو وہ اپنی عقل پر بھی پرکھیں۔ قرآن نے مسلمانوں کو فکر و نظر سکھائی، مسلمان رسول اﷲ ﷺ سے استفسار کرتے تھے۔ اعتقادی، تشریعی یا اخلاقی امور کی تفہیم میں عقل انسانی کے استعمال پر زور دیا جاتا تھا۔ مختلف قبائل کے لوگ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوتے تھے تاکہ دین کا فہم حاصل کریں۔
انہوں نے رسول ﷺ سے ایسے غیبی امور کے متعلق سوال کیا جن کا تعلق آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے تھا اور اﷲ کے رسول ﷺ نے بغیر کسی حرج کے انہیں شافی جواب دے کر مطمئن فرمایا۔ بل کہ یہ لوگ تو ان مباحث میں فرحت محسوس کرتے تھے جن سے ان کی عقلول کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا تھا اور ہر طرح کا ابہام، التباس اور اعتراض رفع ہوجاتا تھا۔ بسا اوقات اﷲ کے رسول ﷺ بغیر کوئی سوال کیے معاملات کی وضاحت و تفسیر خود ہی فرما دیا کرتے تھے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کی روایت امام بخاریؒ نے اپنی الجامع الصحیح میں طارق بن شہاب کے واسطے سے کی ہے، مفہوم: وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرؓ کو کہتے سنا کہ ہمارے درمیان نبی کریم ﷺ ایک بار کھڑے ہوئے اور آغاز تخلیق کے بارے میں بتانا شروع کیا، یہاں تک کہ اہل جنّت اور ان کے مقامات اور اہل جہنّم اور ان کے مقامات پر گفت گُو کی۔ یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھ لیا اور بھولنے والے اسے بھول گئے۔
صحابہؓ کی فکری تربیت کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ اپنی گفت گو میں ایسا انداز اپناتے کہ لوگ آپ ﷺ کے فرمودات میں غور و فکر کرتے۔ آپ ﷺ ایسا پیرایہ اختیار کرتے کہ لوگ محض ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہی نہ رہتے بل کہ اگر کہیں کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تو وہ آپ ﷺ سے وضاحت کی درخواست کرتے۔ نبی کریم ﷺ صحابہؓ سے سوال کرتے۔ انہیں سوچنے کا موقع دیتے، اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ صحابہ کرامؓ خود ہی درخواست کر دیتے کہ اﷲ کے نبی ﷺ ہی اس سوال کے حقیقی جواب سے آگاہ ہیں، اس لیے آپؐ ہی اس کا جواب مرحمت فرما دیں۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ میں ایک خاص صلاحیت پیدا فرمادی کہ وہ بات کی حقیقت کو جاننے کی کو شش کریں۔
نبی کریم ﷺ نے جو معاشرہ قائم کیا اس کی ذہنی بیداری کا ایک پہلو حدیث میں یوں بیان کیا گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا۔'' گویا ایک مومن کی زندگی قرآن کی آیت کریمہ کا عملی نقشہ ہوتی ہے: ''مومن وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اﷲ کی نشانیاں ذکر کی جاتی ہیں تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر گر نہیں پڑتے۔'' (بل کہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں) (سورہ الفرقان آیت 73)
آپ ﷺ نے لوگوں میں صرف شوق علم پیدا کرنے اور عقلی صلاحیتوں کی تربیت پر اکتفا نہیں فرمایا بل کہ اس شوق کی تکمیل کے لیے عملی طور پر اہتمام بھی فرمایا۔ آپؐ نے مدینہ طیبہ میں صفّہ کی شکل میں اقامتی درس گاہ کا تصور دیا۔ یہاں علماء کی ایک جماعت تیار کی گئی۔ نبی کریم ﷺ نے ان حضرات کو ہمہ وقت طالب علم بنا کر اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دکھا کر انہیں علم دینے کے ساتھ ان کی فکری و عملی تربیّت فرمائی۔ بلاشبہ نبی کریم ﷺ نے عقل و شعور کو بیدار کیا۔ لوگوں کو احساس دلایا کہ اﷲ نے انہیں عقل و شعور جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے اسے کام میں لایا جائے۔
آ پ ﷺ نے انسانی فکر سے جمود کا خاتمہ فرمایا۔ کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ لوگوں میں تخلیقی صلاحیتیں موجود ہوں اور وہ سوچنے اور غور و فکر کرنے کے عادی ہوں۔ کند ذہن اور صلاحیتوں سے عاری معاشرہ کبھی بھی کسی شعبے میں ترقی نہیں کرسکتا۔