- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
کیا کورونا وائرس دماغی بیماریوں کی وجہ بھی بن رہا ہے؟
لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی کے طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ کووِڈ 19 کا شکار ہونے والے بہت سے مریضوں میں بعد ازاں ڈپریشن، ڈیمنشیا، نفسیت (سائیکوسس) اور فالج جیسے دماغی و ذہنی مسائل بھی نمایاں طور پر زیادہ دیکھے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ماہرین نے ہر گز یہ نہیں کہا ہے کہ ناول کورونا وائرس (سارس-کوو-2) ہی ان تمام دماغی و ذہنی مسائل کی وجہ بنتا ہے، تاہم اس مطالعے سے ناول کورونا وائرس اور 14 مختلف دماغی و نفسیاتی کیفیات (بشمول امراض) میں ناقابلِ تردید تعلق ضرور سامنے آیا ہے۔
اگرچہ پچھلے ایک سال کے دوران مختلف تحقیقات میں کورونا وائرس اور دماغی و نفسیاتی مسائل میں ممکنہ تعلق کے کچھ شواہد مل چکے ہیں تاہم موجودہ مطالعہ ان سب سے زیادہ مضبوط ہے۔
معتبر طبّی مجلے ’’دی لینسٹ سائیکیاٹری‘‘ کی ویب سائٹ پر 6 اپریل کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مسعود حسین اور دیگر ماہرین شریک تھے۔
مطالعے میں 20 جنوری 2020 سے 13 دسمبر 2020 کے دوران کووِڈ 19 سے متاثر ہو کر زندہ بچ جانے والے 236,379 امریکیوں کی صحت سے متعلق تفصیلات جمع کی گئیں جو کم از کم چھ ماہ کا احاطہ کرتی تھیں۔
ان تفصیلات کا موازنہ اسی عرصے میں موسمی زکام (انفلوئنزا) سے متاثر ہونے والے افراد کی تفصیلات سے کیا گیا۔
موازنے سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کووِڈ 19 کو شکست دے کر صحتیاب ہونے والے، تقریباً 37 فیصد افراد میں آئندہ چھ ماہ کے دوران کم از کم ایک دماغی یا نفسیاتی بیماری ظاہر ہوئی۔
یہی نہیں بلکہ کووِڈ 19 کے حملے میں شدید بیمار ہو کر انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) پہنچ جانے والوں میں یہی شرح 46.42 فیصد دیکھی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وبائی بیماری میں مبتلا ہوجانا کسی بھی شخص کےلیے بری خبر ہوتی ہے جسے سن کر وہ شدید اعصابی تناؤ، تشویش (اینگژائٹی) اور ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے اور یہ کیفیت طویل عرصے تک برقرار بھی رہ سکتی ہے۔
نتیجتاً متاثرہ شخص کام میں بے رغبتی، چڑچڑے پن، نفسیت (حقیقت سے لاتعلقی) اور بدمزاجی کا مسلسل اظہار کرسکتا ہے۔
تاہم، کووِڈ 19 کے بعد، دماغی جریانِ خون (برین ہیموریج)، فالج اور ڈیمنشیا میں اضافے کی کیا وجہ ہے؟ اس بارے میں فی الحال ماہرین کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔
اب تک کی تحقیق سے کووِڈ 19 اور دماغی و نفسیاتی مسائل میں ایک مضبوط تعلق ضرور سامنے آیا ہے لیکن اب بھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کورونا وائرس ہی ان مسائل کی وجہ بنتا ہے… اور یہ جاننے کےلیے مزید تفصیلی اور محتاط تحقیق کرنا ہوگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔