پنجاب آرکیالوجی کا مغلیہ دور کے پرانے قلعہ نما محل کی بحالی کا فیصلہ
لاہورسے قلعہ شیخوپورہ اورہرن مینار تک معلوماتی دورے کروانے کی بھی تجویز سامنے آئی ہے
لاہور:
پنجاب آرکیالوجی نے شیخوپورہ میں واقع مغلیہ دور میں تعمیر ہونیوالے 400 سال پرانے قلعہ نمامحل کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پہلے مرحلے میں قلعہ کی بحالی سے متعلق سٹڈی کروائی جائیگی، مختلف ادوارمیں اس عمارت کے ڈھانچے میں کئی تبدیلیاں کی گئیں،عمارت کا زیادہ ترحصہ انتہائی خستہ حال ہے، بیرونی دیوارکی بحالی کاکام جاری ہے، لاہورسے قلعہ شیخوپورہ اورہرن مینار تک معلوماتی دورے کروانے کی بھی تجویز سامنے آگئی۔
ایک اونچے ٹیلے پر واقع قلعہ شیخوپورہ خاموش کھڑا اپنی داستان سنا رہا ہے۔ شیخوپورہ شہر کے جنوب میں واقع یہ عظیم الشان قلعہ مغلیہ عہد کی عظمت کا نشان ہے۔یہ قلعہ چونسٹھ کنال سے زائدرقبے پرموجودہے،ماہرین کے مطابق یہ روایتی قلعہ نہیں بلکہ شہنشاہ جہانگیرکے قیام گاہ تھا،تزک جہانگیری کے مطابق یہ قلعہ نمامحل 1607 میں تعمیرکیاگیا۔ یہ قلعہ کسی فوجی مقصد کے کئےنہیں بنایاگیا تھا بلکہ شہنشاہ جہانگیرجب اس علاقے میں شکار کھیلنے آتا تویہاں اپنے ساتھیوں اورلشکرسمیت قیام کرتا تھا۔ ہرن میناربھی اسی دورمیں تعمیرکیاگیا
پنجاب آرکیالوجی کے ڈائریکٹرملک مقصود احمد کہتے ہیں یہ قلعہ جنگی مقاصد کے لیے تعمیرنہیں ہوا تھا بلکہ ایک محل تھا اسے آپ قلعہ نمامحل کہہ سکتے ہیں۔ قصر شاہی صدیوں کی گرم سردہواؤں، زلزلوں کے صدمات اور تباہ کاریوں کے باوجود کسی حد تک محفوظ ہے تاہم کچھ حصے گر چکے ہیں لیکن جلال اور عظمت اس حصے کو اب بھی حاصل ہے جو اس دور میں کبھی رہی ہو گی۔ دیواروں پرخوبصورت اور حسین و منقش تصاویر جابجا نظر آتی ہیں، رانی محل کاآدھے سے زیادہ گرچکا ہے لیکن اس میں داخل ہونے کا راستہ موجود ہے،رانی کے محل کے اوپر ایک شیش محل تھا ابھی تک وہ چھت تو کسی حد تک موجود ہے لیکن اوپر جانے کا راستہ محدود ہے،خستہ حالی کی وجہ سے یہ قلعہ سیاحوں کے لئے بند ہے
ملک مقصود احمد نے بتایا مختلف ادوارمیں اس عمارت کے ڈھانچے میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں،مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہاں کئی حویلیاں تعمیرکیں،لیکن ان تعمیرات میں بنیادوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اس لئے آج ان اضافی عمارتوں کے زیادہ ترحصے گرچکے ہیں،یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کئی بیگمات اورانکی اولاد قیام پذیررہیں۔سکھ اوربرطانوی عہد میں اس قلعہ کوفوجی چھاؤنی کے طورپربھی استعمال کیاگیا،قیام پاکستان کے بعد یہاں مہاجرین کا کیمپ بنایاگیا،اس کے علاوہ کئی سرکاری دفاتربھی یہاں بنائے گئے جس کی وجہ سے عمارتی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہوتی رہیں اوراس تاریخی عمارت کو شدیدنقصان پہنچا ہے،یہ قلعہ خستہ حالی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بندکردیاگیا ہے
شیخوپورہ کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے یہ قلعہ شیخوپورہ کی پہچان ہے حکومت کوچاہیے کہ یہاں بحالی کا بنیادی کام مکمل کرکے اسے ملکی اورغیرملکی سیاحوں کے لئے کھول دیاجائے۔ تاکہ لوگ اس تاریخی ورثے بارے جان سکیں۔قلعہ شیخوپورہ کے سامنے کئی برسوں سے کام کرنیوالے مکینک صلاح الدین کہتے ہیں حکومت اس قلعہ میں تھوڑابہت کام کرکے یہاں اگرفوڈسٹریٹ بنادے تواس سے ناصرف کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی بلکہ سیاحوں کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوگا۔مقامی نوجوان شیخ یاسین نے بتایا حکومت نے یہ قلعہ سیاحوں کے لئے بندکررکھا ہے ،یہ ہمارا تاریخی ورثہ اس کوبحال ہوناچاہیے تاکہ نوجوان نسل خاص طورپرطالب علم اس تاریخی قلعہ بارے جان سکیں
سیکرٹری سیاحت وآرکیالوجی احسان بھٹہ نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا سال دوہزارگیارہ میں جب یہ قلعہ پنجاب آرکیالوجی کے پاس آیاتواس کی حالت انتہائی خراب تھی ،بیرونی دیواریں بھی ٹوٹ چکی تھیں،سال 2017 میں پنجاب آرکیالوجی نے یہاں بحالی کا ایک منصوبہ شروع کیا جوابھی جاری ہے۔اس منصوبے کے تحت قلعہ کی بیرونی چاردیواری کی مرمت کی جارہی ہے جبکہ اندرکچھ حصوں کی آرائش وتزئین کرکے وہاں بینچ رکھوائے گئے ہیں، مختلف جگہوں پرمعلوماتی بورڈنصب کئے گئے ہیں
احسان بھٹہ کہتے ہیں سال 2020 میں ہم نے ایک منصوبہ منظوری کے لئے بھیجا ہے جس میں پہلے مرحلے میں اس قلعہ کی تفصیلی سٹڈی کروائی جائیگی جس میں مختلف ملکی اورغیرملکی ماہرین شریک ہوں گے اور وہ فیصلہ کریں گے کہ اس عمارت کی بنیادیں کس حالت میں ہیں، کیا اس عمارت کی دیواروں اورچھتوں کو بحال کیاجاسکتا ہے؟۔ اس سٹڈی کے لئے 10 ملین روپے تجویزکئے گئے ہیں،اس کے بعد اگرآرکیالوجیکل ماہرین اس کی اجازت دیتے ہیں کہ قلعہ کی بنیادی اس قابل ہیں توپھریہاں مزیدبحالی کا کام ہوگا جس پر80 سے 90 ملین روپے خرچ ہوں گے۔
انہوں نےبتایا کہ محکمہ سیاحت کوبھی کہا ہے کہ وہ یہاں کے لئے گائیڈڈٹوورزکاانتظام کرے، لاہور سے قلعہ شیخوپورہ اورہرن مینارکے لئے تفریحی معلوماتی دورے ہوسکتے ہیں اوراس کے لئے قلعہ کے اندرکچھ حصوں کوبحال کیاجائیگا۔قلعہ کی موجودہ حالت کے پیش نظرصرف گائیڈڈٹوورکے ساتھ ہی اندرجانے کی اجازت ہوگی۔ماہرین کاخیال ہے اس قلعے کی مکمل بحالی توشاید ممکن نہیں ہے تاہم چندحصوں کی مرمت اورآرائش وتزئین کے بعد اسے ملکی اورغیرملکی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکزبنایاجاسکتا ہے
پنجاب آرکیالوجی نے شیخوپورہ میں واقع مغلیہ دور میں تعمیر ہونیوالے 400 سال پرانے قلعہ نمامحل کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پہلے مرحلے میں قلعہ کی بحالی سے متعلق سٹڈی کروائی جائیگی، مختلف ادوارمیں اس عمارت کے ڈھانچے میں کئی تبدیلیاں کی گئیں،عمارت کا زیادہ ترحصہ انتہائی خستہ حال ہے، بیرونی دیوارکی بحالی کاکام جاری ہے، لاہورسے قلعہ شیخوپورہ اورہرن مینار تک معلوماتی دورے کروانے کی بھی تجویز سامنے آگئی۔
ایک اونچے ٹیلے پر واقع قلعہ شیخوپورہ خاموش کھڑا اپنی داستان سنا رہا ہے۔ شیخوپورہ شہر کے جنوب میں واقع یہ عظیم الشان قلعہ مغلیہ عہد کی عظمت کا نشان ہے۔یہ قلعہ چونسٹھ کنال سے زائدرقبے پرموجودہے،ماہرین کے مطابق یہ روایتی قلعہ نہیں بلکہ شہنشاہ جہانگیرکے قیام گاہ تھا،تزک جہانگیری کے مطابق یہ قلعہ نمامحل 1607 میں تعمیرکیاگیا۔ یہ قلعہ کسی فوجی مقصد کے کئےنہیں بنایاگیا تھا بلکہ شہنشاہ جہانگیرجب اس علاقے میں شکار کھیلنے آتا تویہاں اپنے ساتھیوں اورلشکرسمیت قیام کرتا تھا۔ ہرن میناربھی اسی دورمیں تعمیرکیاگیا
پنجاب آرکیالوجی کے ڈائریکٹرملک مقصود احمد کہتے ہیں یہ قلعہ جنگی مقاصد کے لیے تعمیرنہیں ہوا تھا بلکہ ایک محل تھا اسے آپ قلعہ نمامحل کہہ سکتے ہیں۔ قصر شاہی صدیوں کی گرم سردہواؤں، زلزلوں کے صدمات اور تباہ کاریوں کے باوجود کسی حد تک محفوظ ہے تاہم کچھ حصے گر چکے ہیں لیکن جلال اور عظمت اس حصے کو اب بھی حاصل ہے جو اس دور میں کبھی رہی ہو گی۔ دیواروں پرخوبصورت اور حسین و منقش تصاویر جابجا نظر آتی ہیں، رانی محل کاآدھے سے زیادہ گرچکا ہے لیکن اس میں داخل ہونے کا راستہ موجود ہے،رانی کے محل کے اوپر ایک شیش محل تھا ابھی تک وہ چھت تو کسی حد تک موجود ہے لیکن اوپر جانے کا راستہ محدود ہے،خستہ حالی کی وجہ سے یہ قلعہ سیاحوں کے لئے بند ہے
ملک مقصود احمد نے بتایا مختلف ادوارمیں اس عمارت کے ڈھانچے میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں،مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہاں کئی حویلیاں تعمیرکیں،لیکن ان تعمیرات میں بنیادوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اس لئے آج ان اضافی عمارتوں کے زیادہ ترحصے گرچکے ہیں،یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کئی بیگمات اورانکی اولاد قیام پذیررہیں۔سکھ اوربرطانوی عہد میں اس قلعہ کوفوجی چھاؤنی کے طورپربھی استعمال کیاگیا،قیام پاکستان کے بعد یہاں مہاجرین کا کیمپ بنایاگیا،اس کے علاوہ کئی سرکاری دفاتربھی یہاں بنائے گئے جس کی وجہ سے عمارتی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہوتی رہیں اوراس تاریخی عمارت کو شدیدنقصان پہنچا ہے،یہ قلعہ خستہ حالی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بندکردیاگیا ہے
شیخوپورہ کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے یہ قلعہ شیخوپورہ کی پہچان ہے حکومت کوچاہیے کہ یہاں بحالی کا بنیادی کام مکمل کرکے اسے ملکی اورغیرملکی سیاحوں کے لئے کھول دیاجائے۔ تاکہ لوگ اس تاریخی ورثے بارے جان سکیں۔قلعہ شیخوپورہ کے سامنے کئی برسوں سے کام کرنیوالے مکینک صلاح الدین کہتے ہیں حکومت اس قلعہ میں تھوڑابہت کام کرکے یہاں اگرفوڈسٹریٹ بنادے تواس سے ناصرف کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی بلکہ سیاحوں کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوگا۔مقامی نوجوان شیخ یاسین نے بتایا حکومت نے یہ قلعہ سیاحوں کے لئے بندکررکھا ہے ،یہ ہمارا تاریخی ورثہ اس کوبحال ہوناچاہیے تاکہ نوجوان نسل خاص طورپرطالب علم اس تاریخی قلعہ بارے جان سکیں
سیکرٹری سیاحت وآرکیالوجی احسان بھٹہ نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا سال دوہزارگیارہ میں جب یہ قلعہ پنجاب آرکیالوجی کے پاس آیاتواس کی حالت انتہائی خراب تھی ،بیرونی دیواریں بھی ٹوٹ چکی تھیں،سال 2017 میں پنجاب آرکیالوجی نے یہاں بحالی کا ایک منصوبہ شروع کیا جوابھی جاری ہے۔اس منصوبے کے تحت قلعہ کی بیرونی چاردیواری کی مرمت کی جارہی ہے جبکہ اندرکچھ حصوں کی آرائش وتزئین کرکے وہاں بینچ رکھوائے گئے ہیں، مختلف جگہوں پرمعلوماتی بورڈنصب کئے گئے ہیں
احسان بھٹہ کہتے ہیں سال 2020 میں ہم نے ایک منصوبہ منظوری کے لئے بھیجا ہے جس میں پہلے مرحلے میں اس قلعہ کی تفصیلی سٹڈی کروائی جائیگی جس میں مختلف ملکی اورغیرملکی ماہرین شریک ہوں گے اور وہ فیصلہ کریں گے کہ اس عمارت کی بنیادیں کس حالت میں ہیں، کیا اس عمارت کی دیواروں اورچھتوں کو بحال کیاجاسکتا ہے؟۔ اس سٹڈی کے لئے 10 ملین روپے تجویزکئے گئے ہیں،اس کے بعد اگرآرکیالوجیکل ماہرین اس کی اجازت دیتے ہیں کہ قلعہ کی بنیادی اس قابل ہیں توپھریہاں مزیدبحالی کا کام ہوگا جس پر80 سے 90 ملین روپے خرچ ہوں گے۔
انہوں نےبتایا کہ محکمہ سیاحت کوبھی کہا ہے کہ وہ یہاں کے لئے گائیڈڈٹوورزکاانتظام کرے، لاہور سے قلعہ شیخوپورہ اورہرن مینارکے لئے تفریحی معلوماتی دورے ہوسکتے ہیں اوراس کے لئے قلعہ کے اندرکچھ حصوں کوبحال کیاجائیگا۔قلعہ کی موجودہ حالت کے پیش نظرصرف گائیڈڈٹوورکے ساتھ ہی اندرجانے کی اجازت ہوگی۔ماہرین کاخیال ہے اس قلعے کی مکمل بحالی توشاید ممکن نہیں ہے تاہم چندحصوں کی مرمت اورآرائش وتزئین کے بعد اسے ملکی اورغیرملکی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکزبنایاجاسکتا ہے