سلطنت ِ عمان
بحیرہ عرب پر پاکستان کا سب سے قریبی ہمسایہ جو مستقبل میں معاشی و دفاعی لحاظ سے بہت اہمیت اختیار کر جائے گا۔
بحیرہ عرب پر پاکستان کے ساحل کی لمبائی 1000 کلومیٹر ہے جس میں سے770 کلومیٹر سے زیادہ ساحل صوبہ بلوچستان کے پاس ہے اور 230 کلومیٹر ساحل صوبہ سندھ میں واقع ہے۔
بلوچستان کے 770 کلومیٹر ساحل میں سے 170 کلو میٹر ساحل ڈسٹرکٹ لسبیلہ میں ہے اور 600 کلومیٹر ساحل مکران ضلع گوادر میں واقع ہے۔ یہ ساحل سمندری پیداوار کے اعتبار سے بھی اہم ہے کہ یہاں دنیا کے اکثر سمندروں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ اور معیار کے اعتبارسے بہترین مچھلیاں، جھینگے اور لابسٹر وغیرہ پائے جاتے ہیں تو ساتھ ہی یہاں گوادر جیسی گہرے پانی کی بہت ہی معیاری بندر گاہ ہے۔
اس کی اہمیت یہ ہے کہ دنیا میں بہت سی بندر گاہیں ایسی ہیں جہاں ساحل پر سمندر کی گہرائی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ بڑے بحری جہاز ساحل پر لنگر انداز ہو سکیں اس لیے ایسی بندر گاہوں پر جہاز ساحل سے چند کلومیٹر دور گہرے پانیوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور پھر اُن سے مال اتار کر چھوٹے جہازوں ، لانچوں کے ذریعے ساحل پر لایا جاتا ہے جس پر زیادہ لاگت کے ساتھ وقت بھی بہت لگتا ہے۔ گوادر کا ساحل بہت گہرا ہے اور یہاں بڑے سے بڑا جہاز بھی کنارے پر آکر لنگر انداز ہو جاتا ہے اور پھر بڑی کرینوں سے مال اتارنے میں دیر نہیں لگتی۔
اس ساحل سے ہمارا سب سے قریبی ہمسایہ سلطنت عمان ''مسقط'' ہے ۔ گوادر سے عمان، مسقط کا سمندری فاصلہ 413 کلومیٹر اور سمندری فاصلے کے پیمانے کے مطابق 223.3 Nautical Miles ناٹیکل میل ہے اور ہوائی جہاز سے ہم گوادر سے صرف 20 منٹ میں مسقط پہنچ جاتے ہیں اور لانچ کے ذریعے چند گھنٹوں میں یہ فاصلہ طے کر لیا جاتا ہے۔ سلطنت ِ عمان کا رقبہ 309500 مربع کلومیٹر اور آبادی 2018 ء کے مطابق 4829473 ہے، اس کا جی ڈی پی 203.959 ارب ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 47366 ڈالر ہے۔
عمان جنوب مغربی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے جو جزیرہ نما عرب پر واقع ہے ۔ اس کی خشکی سے سرحدیں شمال مغرب میں متحدہ عرب امارات سے مغرب میں سعودی عرب سے جنوب مغرب میں یمن سے ملتی ہیں ۔ ساحل کے اعتبار سے جنوب مشرق میں بحیرہ عرب شمال مشرق میں خلیج عمان ہے اور سمندر سے اس کی قربت پاکستان اور ایران سے بھی ہے۔
عمان میں صحر ا پہاڑی علاقے اور سرسبز علاقے بھی ہیں اپنے وسیع رقبے ، آبادی، تیل اور گیس کے ذخائر اور اپنی جغرافیائی اسٹر ٹیجیکل پوزیشن کے حوالے سے یہ سعودی عرب کے بعد خلیج تعاون کونسل کا سب سے اہم ملک ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو 1947 ء سے سلطنتِ عمان کے پاکستان سے فوجی دفاعی تعاون اور امداد کے حوالے سے گہر ے اوراچھے تعلقات رہے ہیں ۔
سعودی عرب، بحرین، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات کی طرح اس ملک کی آبادی میں بھی افرادی قوت کے لحاظ سے بڑا حصہ جنوبی ایشیا کے باشندوں کا ہے اور یہاں بھی اگرچہ 1945 ء سے 2019 ء کی طرح قانونی طور پر غیر ملکیوں کو شہریت نہیں دی جاتی ہے ، مگر یہاں بلوچستان گوادر کی پرانی آبادی کے ا یک بڑے حصے کو عمانی شہریت حاصل ہے کیونکہ گوادر کا علاقہ 1958 ء تک سلطنت عمان ،،مسقط ،، کا حصہ تھا اس بنیاد پر سلطنت عمان،، مسقط ،، کی اِن کو شہریت حاصل ہے ۔
2019-20 ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسی کے تحت عرب ممالک خصوصا خلیج تعاون کو نسل کے رکن ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کر نے اور فوری طور پر دوستانہ تجارتی ، اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ہی پورے خطے بلکہ اسلامی دنیا کے ممالک کی سیاست اور خصوصاً خارجہ پالیسی پر اثرات مرتب ہوئے ہیں اور پاکستان جو شروع ہی سے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ملکوں سے قریبی تعلقات رکھتا ہے گذشتہ تین برسوں سے عجیب سی صورتحال سے دو چار ہوا ہے کہ خطے میں اب امریکہ اور بھارت میں اسٹرٹیجک تعاون بہت بڑھ گیا ہے۔
اسرائیل بھارت اور امریکہ اب ایک سیاسی اقتصادی اور دفاعی مثلث بن چکے ہیں جو فی لحال چین کے خلاف دکھائی دے رہی ہے مگر اس کی وجہ سے پاکستان کو اگست 2019 ء سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے جب سے مودی سرکار نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا ہے اور پاکستان کے خلاف کاروائیوں کی دھمکیاں بھی دے رہی ہے اس سے پہلے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو خصوصاًخلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی جانب سے بھر پور حمایت حاصل تھی اور پا کستان اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں عرب ملکوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے مگر اب یہی ممالک اپنی خارجہ ،دفاعی ،اقتصادی اور تجارتی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کر چکے ہیں۔
اب امریکہ کے پینتر ا بدلنے پر یہ ممالک بھی اسرائیل اور بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات کا آغاز کر چکے ہیں ۔ اس تناظر میںجب متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اِ ن ملکوں نے اپنے سفارت خانے بھی تل ابیب میں کھولنے شروع کر دئیے تو یہ افواہ بھی اسرائیل ہی کی جانب سے سامنے آئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ اسی طرح سلطنت عمان کے حوالے سے بھی افواہیں سامنے آئی ہیں کہ اس کے بھی اسرائیل سے تعلقات استوار ہو رہے ہیں اور اسرائیلی وفد نے سلطنت عمان ،،مسقط ،، کے دورے شروع کئے ہیں ۔ بعض افواہیں یہاں تک بھی ہیں کہ مسقط کی اہم بندرگاہ پر اسرائیلی ماہرین تعینات کئے گئے ہیں تو دفاعی ماہرین اور تجزیہ نگاروںکے مطابق یہ صورت پاکستان و ایران کے لیے تشویش کا سبب بنے گی۔
عمان نے ماضی قریب میں اسرائیل کا سرکاری طور پر بائیکاٹ کیا اور اس کی یہ پا لیسی رہی کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ شامل نہیں ہو گا مگر2017 ء میں اسرائیل نے سلطنت عمان سے غیر سرکاری طور پر رابطے شروع کئے۔ 2018 ء میں اسرائیلی وزیراعظم Benjamin Nethanyahu بینجیمن نیتھن یا ہو، نے ایک وفد کے ہمراہ مسقط ،سلطنت عمان کا دورہ کیا اور سابق سلطان قابوس سے ملا قات کی مگر 2019 ء میں عمانی وزیرِ خارجہ یوسف بن الاوی نے کہا عمان اُس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کر ے گا جب تک آزاد و خود مختار فلسطین کی ریا ست قائم نہیں ہو جاتی۔
2020 ء میں جب عمان کے سلطان قابوس بن سید الا سید کا انتقال ہوا تو اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ سلطان قابوس ایک عظیم انسان تھے ۔ اسرائیل کے ایک اہم وزیراعظم Yitzhak Rabin جنہیںہمارے ہاں اسحاق رابن کہا جاتا تھا اُنہوں نے 1994 ء میں سلطنت ِ عمان کا دورہ کیا تھا اور پانی کی سپلائی اور دیگر مسائل پر سلطان قابوس سے بات چیت کی تھی ، واضح رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب 1990 ء میں عراق ایران کی جنگ ختم ہو نے کے بعد عراق نے کو یت پر حملہ کیا تھا اور پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے کو یت کی حکومت کو بحال کیا تھا اسی سال امریکہ نے سرد جنگ کے خاتمے کا علان کر دیا تھا ، سوویت یونین ٹوٹ چکی تھی اور روس تاریخ کے شدید اقتصادی بحران سے گزر رہا تھا تو اسرائیل کے یہ وزیراعظم اسحق رابن فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کے لیے کو شاں تھے۔
اِ ن کے بارے میںصیہونی یہودی غم و غصے کا اظہار کر تے رہے تھے۔ 1994 ء میں اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابن نے عمان کے دورے کے بعدOslo Accord 2 اوسلو معاہدہ ٹو فلسطینی تنظیم PLOفلسطینی لبریلشن آرگنائزیشن کے ساتھ 1995 ء میں ،،تابا،، مصر میں کیا تھا۔
یہ ایک جوڑا معاہدہ تھا یعنی اوسلو ون ،پی ایل او کے ساتھ 1993 ء میں واشنگٹن ڈی سی ہو اتھا، جب اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اوسلو ٹو پر دستخط کر کے واپس اسرائیل آئے تو اس کی خوشی میں اسرائیل میں وزیراعظم اسحق رابن کی قیادت میں ایک بہت بڑا جلوس نکا لا گیا ۔ یہ جلوس تل ابیب کے کنگ اسکو ئر پر پہنچا تو ایک 25 سالہ اسرائیلی قوم پرست انتہا پسند فوجی Yigal Amir یجل امیر نے وزیراعظم رابن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یوں یہ اسرائیلی وزیراعظم جو عربوں اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کر کے فلسطین کی خود مختار ریاست کے قیام پر مسئلہ حل کر نے کے قریب تھے دنیا سے رخصت کر دیئے گئے اور عمان سے اسرائیل جوحمایت حاصل کرنا چاہتا تھا اور عمان کا جو موقف تھا اُس پر بات وہیں ختم ہو گئی ۔
مگر اب صورتحال بہت ہی بدلی ہوئی ہے کہ فلسطینیوں کو ابھی کسی نے بھی آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کی یقین دہانی تک نہیں کرائی ہے، متحدہ عرب امارات اوراسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدہ ابراہیم میں اتنی بات کی گئی ہے کہ اسرائیل وادی اردن کے علاقے میں توسیعی منصوبے معطل کر ے گا ۔ یوں سلطنت عمان چونکہ خلیج تعاون کا اہم ملک ہے اس لیے عمان اسرائیل تعلقات کی افواہیں ایسی ہیں کہ جس سے پاکستان کو تشویش کا لاحق ہونا فطری امر ہے۔ امریکہ میں 20 جنوری 2021 ء کو نئے صدر جو بائڈن نے اقتدار میں آتے ہی وائٹ ہاوس میں دوسرے دن ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عالمی امور خصوصاً سعودی عرب اور ایران سے متعلق فیصلوں کو کالعدم اور بعض کو موخر کردیا۔
اُنہوں نے یمن کے ہوتی باغیوںکو دہشت گردی کی لسٹ سے ہٹانے کی بات کی اور ایران سے سابق معاہد ہ کی دوبارہ تجدید کے لئے بھی اپنا پالیسی بیان جاری کیا جس کے جواب میں ایران جو اس سلسلے میں اقوام متحدہ سے رابطے میں ہے اُس نے امریکہ سے پہلے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوںکے اُ ٹھانے کی بات کی ہے جب کہ دوسری جانب سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اوراسرائیل کا موقف یہ ہے کہ ایران یورینیم کی ا فزودگی کے اُس مرحلے میں کافی آگے پہنچ گیا ہے جہاں ایٹم بم بنا نا آسان ہے۔ JCPOAجیسے کثیر الملکی معاہد ے کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل کے اہم ممبران سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات کے اندیشوں کی وجہ سے توڑا تھا جس پر یورپی یونین اور دیگر ممالک نے امریکہ سے قدرے نا راضگی کا اظہار بھی کیا تھا ۔
اب جب صدربائڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو مسترد کیا ہے تو حقیقت میں اس سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، عالمی سطح پر معاہدوں کی پا سداری کا ہمیشہ سے بہت ہی خیال رکھا جاتا ہے اب صورت یہ ہے کہ ایران بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کل کہیں کوئی دوسرا امر یکی صدر اس سے انکار نہ کر دے پھر ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ایران نے ایک طویل عرصے سے امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں برداشت کر لی ہیں اور اگر حقیقتاً ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے قریب تر ہے تو پھر ایران اگر واقعی اس صورتحال میں ایٹمی دھماکہ کر دیتا ہے تو ایسی صورت میں امریکہ ، فرانس ، بر طانیہ اسرائیل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کیا کریں گے ؟ اِ ن اندیشوں اور وسوسوں کی بنیاد پر سلطنت عمان کے ساحل مسقط پر اگر کسی غیر ملکی فوجی اڈے یا نیول بیس کی افواہیں گردش کر رہی ہیں تو اِن کی صحت کا جلد پتہ چلنا چاہیے ۔
اسلامی تاریخ کے ا عتبار سے دیکھیں تو اسلام کی آمد کے بعد عمان کا یہ علاقہ دیگر عرب ملکوں کی طرح مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا اور پھر تاریخ میں ایک ایسا بھی دور آیا جب عمان اور مسقط کی ریاست اس خطے کی ایک مضبو ط ریاست اور طاقتور بادشاہت بن گئی مگر خصوصاً نو آبادیاتی دور کے آغاز سے سلطنت عمان کمزور ہونے لگی۔ 1507 ء سے 1650 ء تک مسقط پر پرتگالیوں کا قبضہ رہا اور وہ اس بندر گاہ کو تجارت کے لیے استعمال کر تے رہے۔ 147 سال بعد عارضی طور پر ترکی کی خلافت عثمانیہ کا ایک طاقتور بحری بیڑہ مسقط آیا اور حملہ کرکے پرتگالی قلعے کو تباہ کر دیا اور پھر واپس چلا گیا ۔ دوبارہ 1581 ء میں ترکی کے عثمانیوں نے پرتگالیوں کو یہاں شکت دی اور مسقط کی بندر گاہ پر قبضہ کر لیا ، یہ قبضہ 1588 ء تک بر قرار رہا اور پھر ترک فوجیں یہاں سے رخصت ہو گئیں۔
17ویں صدی عیسوی میں یاروبا اماموں نے عمانیوں کو متحد کیا ناصر بن مرشد پہلا یاروبا امام بنا اور یہاں سے پرتگالیوں کو نکالنے میں اس نے اہم کردار ادا کیا ۔ ناصر کے بعد امام سیف بن سلطان نے زانزیبار Zanzibar پر قبضے کے بعد سوالی ساحل پر پرتگالیوں کے ایک مضبو ط قلعہ اور چھاونی کا دو سال تک محاصرہ کیا اور اسے 1698 ء میں فتح کر لیا اس کے بعد عمانیوں نے آسانی سے پرتگالیوں کو افریقہ کے ساحلی علاقوں سے نکال دیا سیف بن سلطان نے 1700 ء میں بحرین پر بھی قبضہ کر لیا 1718 ء میںسیف بن سلطان کا انتقال ہوگیا۔
اس کے بعد اماموںکے درمیان اقتدار کے لیے زورآزمائی شروع ہوئی امام سیف بن سلطان دوئم نے اپنے مخالفین کے خلاف ایران کے باد شاہ نادر شاہ افشار سے 1737 ء میں مدد حاصل کی ایرانی افواج عمان میں سیف بن سلطان دوئم کی مدد کو آئیں اور پھر1743 ء میں انہی ایرانی فوجوں نے یاروبا اماموں کے خلاف بغاوت کر دی اور عمان پر ایران کا مکمل قبضہ ہو گیا نئے امام احمد بن سید کے دور 1749 ء میں عمان سے ایران کا قبضہ ختم ہوا احمد بن سید کی وفات 1783 ء میںہوئی تو اِن کا بیٹا سید بن احمد امام ہوا پھر سید بن احمد کابیٹا سید حامد بن سید امام ہوا جس نے مسقط پر بھی قبضہ کر لیا اس کے چچا سید سلطان بن احمد امام منتخب ہوئے۔
ان کا انتقال انیسویں صدی میں ہوااِ ن کی وفات بعد نئے ا مام اذان بن قیس منتخب ہوئے یہ وہ دور ہے جب برطانیہ ہندوستان میں بنگال ،مدراس کے علاقوں میں قابض ہو چکا تھا اور اپنی طاقتور نیوی کی وجہ سے بڑی نو آبادیاتی قوت بن کر یہاں بھی اپنے قدم جم رہا تھا بعد میں یہاں انگریزاتنے طاقتور ہو گئے کہ اپنی مرضی کا امام چاہنے لگے امام قیس کے انتخاب کے باوجود انگریزوں نے اُسے عمان و مسقط کا امام تسلیم نہیں کیا اور 1871 ء میں ا پنی مرضی کے امام سلطان کوتخت پر بٹھا دیا اِس کی حاکمیت مسقط کے علاوہ گوادر پر بھی تسلیم کی گئی اب انگریز جنوب مشرقی عرب پر بھی قبضہ کر نا چاہتے تھے تاکہ یہاں پہ دیگر یورپی قوتوں کو شکست دے کر علاقے کے سمندری راستوں پر مکمل قبضہ کر لیں۔
انگریزوں نے اٹھارویں صدی سے مسقط و عمان کے حکمرانوں سے معاہدے شروع کر دئیے تھے 1798 ء پہلا معاہدہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور سلطان بن احمد کے درمیان ہوا تھا جس کا مقصد یہاں علاقے میں فرانسیسیوں اور ولندیزویوں سے تجارتی مقابلہ ختم کرا کے ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری قائم کر نا اور ساتھ ہی بندر عباس پر ایک فیکٹری کی تعمیر کرنی تھی۔ دوسرا اہم معاہدہ سلطنت عمان اور انگریز کے درمیان 1800 ء میں ہوا جس کے تحت یہ طے پایا کہ اب برطانوی نمائندہ مسقط میں تعینات ہو گا اور تمام بیرونی خارجی امور کی نگرانی کرے گا۔
19 ویں صدی میں انگریزوں کا اثرو رسوخ یہاں بہت بڑھ گیا 1854 ء میں مسقط کے سلطان نے عمان کے ساحل سے چالیس کلومیٹر دوربحیرہ عرب میں Kuria Muria کیوریا موریا کے پانچ جزائر برطانیہ کو دے دئیے 1862 ء سے 1892 ء کے دوران لیوس پیلی Lewis Pelly اورEdward Ross ایڈورڈ راس مسقط میں پولیٹکل ریزیڈنٹ رہے اَِن دونوں نے اس دوران بحیرہ عرب ،خلیج فارس اور خلیج عمان میں بر طانوی کنٹرول کومضبوط کیا 19 ویں صدی عیسوی کے آخر میں انگریزوں نے عمان کے سلطان سے ایک ڈیکلریشن پر دستخط کرائے اس اعلا میے کے مطابق سلطنت ِ عمان تمام فیصلے انگریزوں کی مشاورت سے کر نے کے پابند ہو گئی اس ڈیکلریشن کے بعد عمان مکمل طور پر برطانیہ کی نو آبادی بن گیا ۔ 1837 ء میں سید بن سلطان اپنی رہائش گاہ زنزی بار لے گیا تھا جو علاقے میں غلاموں کی بڑی منڈی تھی اور یہ عمان کے لیے بہت اہم تھی اس سلطان کے دو بیٹے تھے۔
اِن دونوں کے درمیان اقتدار کے لیے کشمکش شروع ہو ئی تو انگریزوں نے طاقت کی بنیاد پر ڈپلو میسی کی اور اِن کے درمیان معاملات طے کروائے اور ایک بیٹے ماجد کو زنزی بار دے دیا اور دوسرے بیٹے تہوان کو سوالی ساحل کا علا قہ دے دیا۔ 1856 ء میں بر طانیہ کی ہدایت پر مسقط اور زنزی بار دو الگ الگ سلطنتیں بن گئیںاس پورے عمان میں ساحلی علاقہ مسقط اور اندرونی علاقے کو الجر پہاڑ دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے ، اُس وقت خلیج فار س ،بحیرہ عرب اور خلیج ِعمان پر ساحل ِ مسقط انگریزوں کے لیے زیادہ اہم تھا انگریزوں نے یہاں تعمیر وترقی کے زیادہ کام کیے اوراندرونی علاقے کو نظر انداز کر دیا۔
یوں اندورنی عمان میں امامت دو بار زور پکڑنے لگی ۔ 1913 ء امام سالم الخروسی نے مسقط کے خلاف بغاوت کردی جو 1920 ء تک جاری رہی پھر انگریزوں نے 1920 ء میں امامت سے معاہدہ سیب Treaty of Seeb کیا اُس وقت تک ا نگریزوں کو عمان کے اس اندرونی علاقے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیئے اس معاہدے کے تحت عمان کے اس اندرونی علاقے میں امامت کو خود مختاری دے دی۔ 1920 ء میں امام سالم الخروسی فوت ہو گیا اور محمد الکاہلی نیا امام منتخب ہوا یہاں اب تیل کے ذخائر دریافت ہو رہے تھے اب انگریزوں کی دلچسپی یہاں اندورنی عمان میں بھی بہت بڑھ گئی تھی۔
انگریزوں نے10 جنوری 1923 ء کو مسقط سے ایک معاہدہ کیا کہ علاقے میں جو بھی تیل دریافت ہوگا اس کے لیے مسقط کے انگریز پو لیٹکل ایجنٹ اورہندوستان کی برطانوی حکومت سے اجازت لینی ہو گی پھر یہاں تیل دریافت ہوا 31 جولائی1928 ء کو ایک ریڈ لائن ایگرمنٹ پر انگریزوں کے حکم سے مسقط اور اینگو پرشین آئل کمپنی کے درمیان دستخط ہوئے، یہ کمپنی بعد میں برٹش آئل کمپنی کہلائی اس میں رائل ڈچ بھی شامل ہوئی پھر یہ بڑی ٹوٹل کمپنی بنی اور حقیقتاً آج بھی انہی چار کمپنیوں کی دنیا کے تیل پر اجارہ داری ہے۔
اُس وقت اِن چار کمپنیوں اور ایک امریکی بزنس مین Calouste Gulbenkian کلائسٹ گلبینکین یعنی اِن پانچ نے مل کر یہ طے کیا کہ ترکی، کی سابق سلطنتِ عثمانیہ کے اِن علاقوںمیں جس میں جزیرہ نما عرب کا وسیع علاقہ بھی شامل ہے مل کر تیل نکالیں گی جس میں 23.75% حصّہ چار کمپنیوں کا اور5% حصہ امریکی بزنس مین کا تھا۔ 1929 ء میں پھر اس معاہدے کے ممبران نے مل کر عراقی پٹرولیم کمپنی بنا لی۔
13 نومبر 1931 ء کو سلطان تیمور بن فیصل کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور اِن کے بعد سلطان سید بن تیمور مسقط کے سلطان بن گئے اِن کے زمانے میں مسقط پر انگریزوں کا مکمل کنٹرول تھا سوائے ایک وزارت کے تمام وزارتوں بشمول خارجہ ، دفاع امورِ داخلہ سب ہی انگریزوں کے پاس تھیں ۔1937 ء میں سلطان مسقط اور عراقی پیٹرولیم کے درمیان معاہد ہ ہوا کہ یہاں سارا تیل عراقی پیٹرولیم کمپنی نکا لے گی لیکن اِن کو یہاں تیل نہیں ملا تو اندرون عمان فاہود Fahud کی جانب عراقی کمپنی نے توجہ کی مگر یہ علاقہ سلطنتِ عمان کی امامت کے زیر کنٹرول تھا۔
انیس سو چالیس کی دہائی میں عراقی پٹرولیم کمپنی نے مسقط کے سلطان کو عمان کے خلاف مالی مدد دی۔ 1946 ء میں انگریزوں نے مسقط کے سلطان سید بن تیمور کو بھاری اسلحہ گولہ بارود دیا اور یہاں فوج کی تیاریاں بھی ہو تی رہیں تاکہ مسقط کے سلطان کی فوج عمان کی امامت کے خلاف جنگ کرے۔ 1954 میں امام الکاہلی کا انتقال ہوا تو غالب الہنائی نیا امام منتخب ہوا۔ یہ وہ دور ہے جب Treaty of Seeb معاہدہ سیب کے حوالے سے مسقط کے سلطان اور عمان کی امامت کے درمیان حالات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔ انگریز کی پشت پناہی سے مسقط کا موقف یہ تھا کہ عمان میں جو بھی تیل نکالا جا ئے گا اس سے متعلق معاملات مسقط کی مرضی سے طے ہوں گے۔
عمان کی امامت کا موقف معاہدہ سیب کے مطابق یہ تھا کہ تیل ہمارے علاقے سے نکلا ہے اور اس پر عمان کی امامت کا ہی حق ہے اس سے متعلق تمام معاملات عمان ہی طے کرے گا، دسمبر 1955 ء میں برطانیہ کی مدد سے مسقط کے سلطان نے عمان پر فوج کشی کردی، امام نے بھرپور انداز میں اپنا دفاع کیا ، یہاںتک کہ جولائی1957 ء میں اس جنگ میں مسقط کی فوجیں پسپا ہونے لگیں، اس موقع پر برطانیہ کی طرف سے مسقط کے سلطان کی فوج کی مدد کے لیے دو برطانوی انفنٹری کی کمپنیاں اور لڑاکا طیاروں کی مدد آگئی ۔ یوں عمان میں امامت کی فوجیں پسپا ہو کر جبل اختار پر چلی گئیں تو انگر یز کرنل ڈیوڈ سملی col David Smily نے جبل ِ اختار کا محاصرہ کیا، 4 اگست 1957 ء کو برطانوی وزیرِ ِخارجہ نے جبل اختار پر طیاروں کے ذریعے حملے کا حکم دیا اور مقامی آبادی کو بغیر اطلاع دئیے جولائی تا دسمبر 1958 ء برٹش رائل ایئر فورس نے 1635 فضائی حملے کئے جس میں عمان کے اس علاقے میں 900 راکٹ اور 1094 بم گرائے گئے۔
27 جنوری1959 ء میں مسقط کی جانب سے اچانک اور بھرپور حملے کر کے جبل اختار پر قبضہ کر لیا اور عمان کے امام غالب الہنائی سعودی عرب فرار ہو گئے، جہاں سے 1970ء تک وہ امامت کی بحالی کی کوششیں کرتے رہے، عمان کی بنیاد پر انہوں نے اپنا مقدمہ عرب لیگ اور اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ 1965 ء1966 ء اور1967 ء میں اقوام متحدہ نے تین قراردادوں میں بر طانیہ سے کہا کہ وہ عمان کے خلاف اقدامات بند کرے، عمان پر اپنا کنٹرول ختم کرے اور عمان میں حق خود ارادیت دے ، اب حقیقتاً مسقط و عمان ایک ہو گئے اور 1964 ء میں یہاں Dhofar ذفار کے علاقے میں تیل نکل آیا۔1967 ء سے تیل کی پیداوار شروع ہو گئی اسی دوران 1965 ء میں یہاں ذفاریوں نے بغاوت کر دی اِن باغیوں کو اُس وقت سابق سوویت یونین کی حمایت اور امداد حاصل تھی سید بن سلطان جو1932 ء سے اقتدار میں تھے اس بغاوت کے مقابلے میں کمزور ہو نے لگے تو1970 ء میں اُن کے بیٹے سلطان قابوس نے اُنہیں اقتدار سے فارغ کر دیا ۔
سلطان قابوس نے اقتدار میں آتے ہی عوام کی بہتری کے لیے سیاسی سماجی،اقتصادی اصلاحات کیں، ذفاریوں کی بغاوت کو اُنہوں نے ایران ، پاکستان ،اردن اور برطانیہ کی مدد سے 1975 ء میں ختم کر دیا ۔ 1981 ء میں سلطان قابوس نے چھ رکنی خلیجی تعاون کونسل کے بنیادی رکن کی حیثیت سے سلطنت عمان کو اس میں شامل کیا۔ 1997 ء میں یہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ 2002 ء میں دو خواتین پارلیمنٹ کی رکن بنیں اور اسی سال ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سال کر دی گئی۔ 2003-04 ء میں پہلی مرتبہ سلطنت عمان و مسقط میں ایک خاتون وزیر بنی۔ 2005 ء میں 100 مسلم انتہا پسند حکومت مخالف گرفتار کئے گئے جن میں سے 33 کو سزائیں ہو ئیں Arab Spring عرب بہاریہ 2011 ء میں عمان میں بھی حکومت مخالف احتجاج ہوئے 6 افراد کو 12 سے18 سال جیل اور 2500 ڈالر جرمانے ہوئے۔
اِس وقت خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں میں سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے امریکہ کے سابق صدرٹرمپ کی پالیسی کے تحت اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیئے ہیں جب کہ سعودی عرب کے بارے میں یہ کہا گیا اُن کے بھی تعلقات اسرائیل سے بہتر ہیں اور اُنہوں نے اس پوری صورتحال میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ جب عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا تو اس پر سعودی عرب نے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا ، یوں کویت ، قطر اور سلطنت ِ عمان کی جانب سے بھی کو ئی اعتراض نہیں کیا گیا مگر اب جب سے امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کے ولی عہدمحمد بن سلمان کے حوالے سے سعودی عرب سے تعلقات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے سعودی صحافی خشوگی کے قتل میں پورا الزام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کیا ہے تو صورت بالکل ہی بدل گئی ہے۔
واضح رہے یکم مارچ کی اطلا عات کے مطابق صدر جو بائیڈن نے ولی عہد محمد بن سلمان سے بات کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے ہم منصب یعنی سعودی بادشاہ سلمان سے بات کر یں گے، سعودی بادشاہ سلمان کی عمر 85 برس ہو چکی ہے اور وہ بیمار ہیں اور ایسی حالت میں اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مستقل قریب میں مکمل صحت و تندرستی کے ساتھ اپنے منصب پر کام نہیں کر سکیں گے۔
جس وقت محمد بن سلمان کو ولی عہد کے روایتی شاہی قانون کو نظر انداز کر کے ولی عہد بنایا گیا تھا تو امریکہ کی جانب سے صدر ٹرمپ کے زمانے میں محمد بن سلمان سے امریکہ کے تعلقات بہت ہی اچھے تھے اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ35 سالہ نوجوان شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے روایتی ولی عہدوں کے مقابلے میں بہت کم عمری میں بادشاہ بن جائیں گے اور پھر طویل عرصے امریکہ کی حمایت سے برسراقتدار رہ کر یہاں امریکی مفادات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کریں گے مگر اب اگر خدانخوستہ سعودی بادشاہ انتقال کر جاتے ہیں تو بطور ولی عہد محمد بن سلمان ہی سعودی عرب کے نئے بادشاہ ہو نگے اور اس طرح سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات پھر کس انداز کے ہو سکیں گے ؟ یا پھر یہ بھی ہے کہ کیا ولی عہد محمد بن سلمان کی جگہ کوئی اور سعودی عرب کے تخت پر بیٹھے گا ؟ دونوں صورتوں میں کسی نہ کسی سطح کے سیاسی بحران کے اندیشے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کو یت ، بحرین ،قطر اور متحدہ عرب امارات کا کیا کردار ہو گا؟ جو سب ہی سعودی عرب کے ساتھ خلیجی تعاون کو نسل کے رکن ہیں ۔ اس صورتحال کا سلطنت عمان پر بھی اثر مرتب ہو گا ۔
سلطنت عمان نے بھی ابھی تک باضابط طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور براہ راست ایران سے کو ئی ٹکراؤ بھی نہیں ہوا ہے حالانکہ سلطنت ِ عمان کی سرحدیں یمن سے بھی ملتی ہیں اور سرد جنگ کے زمانے میں سابق سوویت یونین یہاں ذفاری باغیوں کی مدد کرتا رہا تھا ۔1751ء سے مسقط و عمان میں مسلم اکثریت اور حکومتوں کے اعتبار سے چار سلطنتیں رہی ہیں اور اس دوران مسقط اور عمان متحد بھی رہے ہیں اور الگ الگ بھی رہے 1751ء سے 1957 ء تک عمان پر اماموں کی حکومت رہی اسی دوران اس علاقے میں 1406 ء تا 1624 ء نابہانی بادشاہت رہی پھر اسی علاقے میں یا روبا سطنت بھی رہی اِس وقت جو شاہی خاندان سلطنت مسقط و عمان پر حکومت کر رہا ہے اِن کی سلطنت ِ السعیدکاآغاز 1749 ء میں سلطان احمد بن سے ہوا۔
مسقط کے علاوہ اندرون عمان میں 1957 ء تک اماموں کی حکومت رہی اور اس متوازی حکومت کے آخری امام غالب الہنائی تھے،1957 ء کے بعد سے عمان اور مسقط ایک سلطنت ہے اور اس پر احمدبن سعید شاہی خاندان کی حکومت ہے،اور جنوری 2020 ء سے اس کے سلطان ہیثم بن طارق آل سعیداس خاندان کے پندرھویں سلطان ہیں ،جنگ عظیم اوّل 1914 تا 1918 ء کے بعد ترک سلطنت خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق ِ وسطیٰ اور عرب ملکوں کی جدید تاریخ کا آغاز ہوا جس کو اب سو سال ہو رہے ہیں اس دوران سلطنت عمان پرحالیہ سلطان ہیثم بن طارق سے پہلے قابوس بن سعید 1970 ء سے2020 ء سلطان رہے اور اِن سے پہلے سعید بن تیمور1932 ء سے 1970 ء تک سلطان تھے اور اِن سے پہلے تیمور بن فیصل 1913 ء سے1932 تک سلطان رہے۔
اگرچہ سلطان ہیثم بن طارق اس شاہی خاندان یا سلطنت کے پندرھویں سلطان ہیں لیکن 1913 ء سے 2020 ء تک 107 سال اس شاہی خاندان کے تین مضبوط سلاطین نے حکومت کی ہے اور اس دوران پہلی جنگِ عظیم دوسری جنگ عظیم ، سرد جنگ ،پھر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور 2011 ء کے عرب اسپرنگ میں جب بیشتر عرب ملکوں میں عوامی احتجاج نے حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا تو اس جھٹکے کو بھی سلطنت ِ عمان و مسقط برداشت کر گیا،اب بھی بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ سلطنت ِ عمان عرب تعاون کونسل کے باقی ارکان سے قدرے مختلف سیاسی زاویہ نظر رکھتی ہے اس کی غالباً ایک بڑی وجہ عمان اور مسقط کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک پوزیشن ہے اور گذشتہ ایک سو سال سے زیادہ عرصے سے یہاں سلاطین ِ عمان نے برطانیہ اور بعد میں امریکہ سے متوازن اور بہتر تعلقات رکھے ہیں ۔
سلطنت عمان 7 اکتوبر1971 ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا یوں آج سلطنت اومان کو اقوام متحدہ کی جانب سے مستحکم آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کئے نصف صدی سے ہو چکی ہے اور اس اعتبار سے نصف صدی سے عمان اس قابل ہے کہ وہ عالمی سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہو ئے اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن اور آزاد رکھ سکتا ہے۔
اس وقت جہاں تک تعلق اسرائیل سے تعلقات کا ہے تو متحدہ عرب امارات جنہو ں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہو ا ہے وہ بھی اِس وقت اسرائیل کی بالا دستی کو تسلیم کر نے کے قائل نہیں ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتھن یاہو جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت قریب تھے اُن کے الیکشن 23 مارچ 2021 ء کو ہونے ہیں اور اس سے قبل نیتھن یاہو، نے یہ چا ہا کہ وہ متحدہ عرب امارا ت کا دورہ کر یں تو شنید میں آیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے کہا گیا کہ آپ الیکشن سے پہلے دورہ نہ کریں امکان یہ تھا کہ نیتھن یاہو اپنے دورے سے اسرائیلی ووٹرز کو یہ باور کر انا اور یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ اِن کی وجہ سے معاہدہ ابراہیم کے تحت اسرائیل اب محفوظ ہو گیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد صدر جو بائیڈن کے آنے سے یک دم ٹرمپ کی پالیسیوں کو یا تو روک دیا گیا ہے یا پھر اِن پالیسیوں کا نئے سرے سے جائز ہ لے کر امریکہ پوری دنیا میں ایک نئی اسٹریٹجی کے ساتھ فوری نوعیت کے اقدامات کر نا چاہتا ہے صدر جو بائیڈن کے حالیہ بیانات جو روس کے خلاف دئیے گئے ہیں۔
اِن کا لہجہ بھی بہت تلخ تھا جس میں اُنہوں نے روس پر امریکہ کے الیکشن میں مداخلت کے ثبوت پر 17 مارچ 2021 ء کو کہا کہ روس کو اس کا جواب دیا جائے گا اور ساتھ ہی روسی رہنما پیوٹن کو قاتل بھی کہا ہے جس پر روس نے بھی شدید ردعمل کا مظاہر ہ کیا اسی طرح امریکہ اور چین کے درمیان ایک جانب مذاکرات کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف چین کے ساؤ تھ چنیا سی میں امریکہ ، بھارت ، جاپان ، اور اب جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں امن کے لیے روس میں بھی طالبان کے ساتھ کانفرنس ہوئی ہے تو اب ترکی میں بات چیت ہونے والی ہے اس تمام تر تناظر میں پا کستان سے سمندری حدود کے اعتبار سے سب سے قریبی ہمسایہ سلطنت عمان کی پالیسی تا حال متوازن ہے اور امید ہے کہ پاکستان اور عمان کے تعلقات مستقبل میں بھی ماضی اور حال کی طرح دوستانہ رہیں گے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس لیے پاکستان کو ہر حال میں علاقائی سطح پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کے 770 کلومیٹر ساحل میں سے 170 کلو میٹر ساحل ڈسٹرکٹ لسبیلہ میں ہے اور 600 کلومیٹر ساحل مکران ضلع گوادر میں واقع ہے۔ یہ ساحل سمندری پیداوار کے اعتبار سے بھی اہم ہے کہ یہاں دنیا کے اکثر سمندروں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ اور معیار کے اعتبارسے بہترین مچھلیاں، جھینگے اور لابسٹر وغیرہ پائے جاتے ہیں تو ساتھ ہی یہاں گوادر جیسی گہرے پانی کی بہت ہی معیاری بندر گاہ ہے۔
اس کی اہمیت یہ ہے کہ دنیا میں بہت سی بندر گاہیں ایسی ہیں جہاں ساحل پر سمندر کی گہرائی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ بڑے بحری جہاز ساحل پر لنگر انداز ہو سکیں اس لیے ایسی بندر گاہوں پر جہاز ساحل سے چند کلومیٹر دور گہرے پانیوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور پھر اُن سے مال اتار کر چھوٹے جہازوں ، لانچوں کے ذریعے ساحل پر لایا جاتا ہے جس پر زیادہ لاگت کے ساتھ وقت بھی بہت لگتا ہے۔ گوادر کا ساحل بہت گہرا ہے اور یہاں بڑے سے بڑا جہاز بھی کنارے پر آکر لنگر انداز ہو جاتا ہے اور پھر بڑی کرینوں سے مال اتارنے میں دیر نہیں لگتی۔
اس ساحل سے ہمارا سب سے قریبی ہمسایہ سلطنت عمان ''مسقط'' ہے ۔ گوادر سے عمان، مسقط کا سمندری فاصلہ 413 کلومیٹر اور سمندری فاصلے کے پیمانے کے مطابق 223.3 Nautical Miles ناٹیکل میل ہے اور ہوائی جہاز سے ہم گوادر سے صرف 20 منٹ میں مسقط پہنچ جاتے ہیں اور لانچ کے ذریعے چند گھنٹوں میں یہ فاصلہ طے کر لیا جاتا ہے۔ سلطنت ِ عمان کا رقبہ 309500 مربع کلومیٹر اور آبادی 2018 ء کے مطابق 4829473 ہے، اس کا جی ڈی پی 203.959 ارب ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 47366 ڈالر ہے۔
عمان جنوب مغربی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے جو جزیرہ نما عرب پر واقع ہے ۔ اس کی خشکی سے سرحدیں شمال مغرب میں متحدہ عرب امارات سے مغرب میں سعودی عرب سے جنوب مغرب میں یمن سے ملتی ہیں ۔ ساحل کے اعتبار سے جنوب مشرق میں بحیرہ عرب شمال مشرق میں خلیج عمان ہے اور سمندر سے اس کی قربت پاکستان اور ایران سے بھی ہے۔
عمان میں صحر ا پہاڑی علاقے اور سرسبز علاقے بھی ہیں اپنے وسیع رقبے ، آبادی، تیل اور گیس کے ذخائر اور اپنی جغرافیائی اسٹر ٹیجیکل پوزیشن کے حوالے سے یہ سعودی عرب کے بعد خلیج تعاون کونسل کا سب سے اہم ملک ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو 1947 ء سے سلطنتِ عمان کے پاکستان سے فوجی دفاعی تعاون اور امداد کے حوالے سے گہر ے اوراچھے تعلقات رہے ہیں ۔
سعودی عرب، بحرین، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات کی طرح اس ملک کی آبادی میں بھی افرادی قوت کے لحاظ سے بڑا حصہ جنوبی ایشیا کے باشندوں کا ہے اور یہاں بھی اگرچہ 1945 ء سے 2019 ء کی طرح قانونی طور پر غیر ملکیوں کو شہریت نہیں دی جاتی ہے ، مگر یہاں بلوچستان گوادر کی پرانی آبادی کے ا یک بڑے حصے کو عمانی شہریت حاصل ہے کیونکہ گوادر کا علاقہ 1958 ء تک سلطنت عمان ،،مسقط ،، کا حصہ تھا اس بنیاد پر سلطنت عمان،، مسقط ،، کی اِن کو شہریت حاصل ہے ۔
2019-20 ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسی کے تحت عرب ممالک خصوصا خلیج تعاون کو نسل کے رکن ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کر نے اور فوری طور پر دوستانہ تجارتی ، اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ہی پورے خطے بلکہ اسلامی دنیا کے ممالک کی سیاست اور خصوصاً خارجہ پالیسی پر اثرات مرتب ہوئے ہیں اور پاکستان جو شروع ہی سے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ملکوں سے قریبی تعلقات رکھتا ہے گذشتہ تین برسوں سے عجیب سی صورتحال سے دو چار ہوا ہے کہ خطے میں اب امریکہ اور بھارت میں اسٹرٹیجک تعاون بہت بڑھ گیا ہے۔
اسرائیل بھارت اور امریکہ اب ایک سیاسی اقتصادی اور دفاعی مثلث بن چکے ہیں جو فی لحال چین کے خلاف دکھائی دے رہی ہے مگر اس کی وجہ سے پاکستان کو اگست 2019 ء سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے جب سے مودی سرکار نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا ہے اور پاکستان کے خلاف کاروائیوں کی دھمکیاں بھی دے رہی ہے اس سے پہلے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو خصوصاًخلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی جانب سے بھر پور حمایت حاصل تھی اور پا کستان اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں عرب ملکوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے مگر اب یہی ممالک اپنی خارجہ ،دفاعی ،اقتصادی اور تجارتی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کر چکے ہیں۔
اب امریکہ کے پینتر ا بدلنے پر یہ ممالک بھی اسرائیل اور بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات کا آغاز کر چکے ہیں ۔ اس تناظر میںجب متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اِ ن ملکوں نے اپنے سفارت خانے بھی تل ابیب میں کھولنے شروع کر دئیے تو یہ افواہ بھی اسرائیل ہی کی جانب سے سامنے آئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ اسی طرح سلطنت عمان کے حوالے سے بھی افواہیں سامنے آئی ہیں کہ اس کے بھی اسرائیل سے تعلقات استوار ہو رہے ہیں اور اسرائیلی وفد نے سلطنت عمان ،،مسقط ،، کے دورے شروع کئے ہیں ۔ بعض افواہیں یہاں تک بھی ہیں کہ مسقط کی اہم بندرگاہ پر اسرائیلی ماہرین تعینات کئے گئے ہیں تو دفاعی ماہرین اور تجزیہ نگاروںکے مطابق یہ صورت پاکستان و ایران کے لیے تشویش کا سبب بنے گی۔
عمان نے ماضی قریب میں اسرائیل کا سرکاری طور پر بائیکاٹ کیا اور اس کی یہ پا لیسی رہی کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ شامل نہیں ہو گا مگر2017 ء میں اسرائیل نے سلطنت عمان سے غیر سرکاری طور پر رابطے شروع کئے۔ 2018 ء میں اسرائیلی وزیراعظم Benjamin Nethanyahu بینجیمن نیتھن یا ہو، نے ایک وفد کے ہمراہ مسقط ،سلطنت عمان کا دورہ کیا اور سابق سلطان قابوس سے ملا قات کی مگر 2019 ء میں عمانی وزیرِ خارجہ یوسف بن الاوی نے کہا عمان اُس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کر ے گا جب تک آزاد و خود مختار فلسطین کی ریا ست قائم نہیں ہو جاتی۔
2020 ء میں جب عمان کے سلطان قابوس بن سید الا سید کا انتقال ہوا تو اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ سلطان قابوس ایک عظیم انسان تھے ۔ اسرائیل کے ایک اہم وزیراعظم Yitzhak Rabin جنہیںہمارے ہاں اسحاق رابن کہا جاتا تھا اُنہوں نے 1994 ء میں سلطنت ِ عمان کا دورہ کیا تھا اور پانی کی سپلائی اور دیگر مسائل پر سلطان قابوس سے بات چیت کی تھی ، واضح رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب 1990 ء میں عراق ایران کی جنگ ختم ہو نے کے بعد عراق نے کو یت پر حملہ کیا تھا اور پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے کو یت کی حکومت کو بحال کیا تھا اسی سال امریکہ نے سرد جنگ کے خاتمے کا علان کر دیا تھا ، سوویت یونین ٹوٹ چکی تھی اور روس تاریخ کے شدید اقتصادی بحران سے گزر رہا تھا تو اسرائیل کے یہ وزیراعظم اسحق رابن فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کے لیے کو شاں تھے۔
اِ ن کے بارے میںصیہونی یہودی غم و غصے کا اظہار کر تے رہے تھے۔ 1994 ء میں اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابن نے عمان کے دورے کے بعدOslo Accord 2 اوسلو معاہدہ ٹو فلسطینی تنظیم PLOفلسطینی لبریلشن آرگنائزیشن کے ساتھ 1995 ء میں ،،تابا،، مصر میں کیا تھا۔
یہ ایک جوڑا معاہدہ تھا یعنی اوسلو ون ،پی ایل او کے ساتھ 1993 ء میں واشنگٹن ڈی سی ہو اتھا، جب اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اوسلو ٹو پر دستخط کر کے واپس اسرائیل آئے تو اس کی خوشی میں اسرائیل میں وزیراعظم اسحق رابن کی قیادت میں ایک بہت بڑا جلوس نکا لا گیا ۔ یہ جلوس تل ابیب کے کنگ اسکو ئر پر پہنچا تو ایک 25 سالہ اسرائیلی قوم پرست انتہا پسند فوجی Yigal Amir یجل امیر نے وزیراعظم رابن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یوں یہ اسرائیلی وزیراعظم جو عربوں اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کر کے فلسطین کی خود مختار ریاست کے قیام پر مسئلہ حل کر نے کے قریب تھے دنیا سے رخصت کر دیئے گئے اور عمان سے اسرائیل جوحمایت حاصل کرنا چاہتا تھا اور عمان کا جو موقف تھا اُس پر بات وہیں ختم ہو گئی ۔
مگر اب صورتحال بہت ہی بدلی ہوئی ہے کہ فلسطینیوں کو ابھی کسی نے بھی آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کی یقین دہانی تک نہیں کرائی ہے، متحدہ عرب امارات اوراسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدہ ابراہیم میں اتنی بات کی گئی ہے کہ اسرائیل وادی اردن کے علاقے میں توسیعی منصوبے معطل کر ے گا ۔ یوں سلطنت عمان چونکہ خلیج تعاون کا اہم ملک ہے اس لیے عمان اسرائیل تعلقات کی افواہیں ایسی ہیں کہ جس سے پاکستان کو تشویش کا لاحق ہونا فطری امر ہے۔ امریکہ میں 20 جنوری 2021 ء کو نئے صدر جو بائڈن نے اقتدار میں آتے ہی وائٹ ہاوس میں دوسرے دن ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عالمی امور خصوصاً سعودی عرب اور ایران سے متعلق فیصلوں کو کالعدم اور بعض کو موخر کردیا۔
اُنہوں نے یمن کے ہوتی باغیوںکو دہشت گردی کی لسٹ سے ہٹانے کی بات کی اور ایران سے سابق معاہد ہ کی دوبارہ تجدید کے لئے بھی اپنا پالیسی بیان جاری کیا جس کے جواب میں ایران جو اس سلسلے میں اقوام متحدہ سے رابطے میں ہے اُس نے امریکہ سے پہلے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوںکے اُ ٹھانے کی بات کی ہے جب کہ دوسری جانب سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اوراسرائیل کا موقف یہ ہے کہ ایران یورینیم کی ا فزودگی کے اُس مرحلے میں کافی آگے پہنچ گیا ہے جہاں ایٹم بم بنا نا آسان ہے۔ JCPOAجیسے کثیر الملکی معاہد ے کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل کے اہم ممبران سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات کے اندیشوں کی وجہ سے توڑا تھا جس پر یورپی یونین اور دیگر ممالک نے امریکہ سے قدرے نا راضگی کا اظہار بھی کیا تھا ۔
اب جب صدربائڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو مسترد کیا ہے تو حقیقت میں اس سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، عالمی سطح پر معاہدوں کی پا سداری کا ہمیشہ سے بہت ہی خیال رکھا جاتا ہے اب صورت یہ ہے کہ ایران بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کل کہیں کوئی دوسرا امر یکی صدر اس سے انکار نہ کر دے پھر ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ایران نے ایک طویل عرصے سے امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں برداشت کر لی ہیں اور اگر حقیقتاً ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے قریب تر ہے تو پھر ایران اگر واقعی اس صورتحال میں ایٹمی دھماکہ کر دیتا ہے تو ایسی صورت میں امریکہ ، فرانس ، بر طانیہ اسرائیل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کیا کریں گے ؟ اِ ن اندیشوں اور وسوسوں کی بنیاد پر سلطنت عمان کے ساحل مسقط پر اگر کسی غیر ملکی فوجی اڈے یا نیول بیس کی افواہیں گردش کر رہی ہیں تو اِن کی صحت کا جلد پتہ چلنا چاہیے ۔
اسلامی تاریخ کے ا عتبار سے دیکھیں تو اسلام کی آمد کے بعد عمان کا یہ علاقہ دیگر عرب ملکوں کی طرح مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا اور پھر تاریخ میں ایک ایسا بھی دور آیا جب عمان اور مسقط کی ریاست اس خطے کی ایک مضبو ط ریاست اور طاقتور بادشاہت بن گئی مگر خصوصاً نو آبادیاتی دور کے آغاز سے سلطنت عمان کمزور ہونے لگی۔ 1507 ء سے 1650 ء تک مسقط پر پرتگالیوں کا قبضہ رہا اور وہ اس بندر گاہ کو تجارت کے لیے استعمال کر تے رہے۔ 147 سال بعد عارضی طور پر ترکی کی خلافت عثمانیہ کا ایک طاقتور بحری بیڑہ مسقط آیا اور حملہ کرکے پرتگالی قلعے کو تباہ کر دیا اور پھر واپس چلا گیا ۔ دوبارہ 1581 ء میں ترکی کے عثمانیوں نے پرتگالیوں کو یہاں شکت دی اور مسقط کی بندر گاہ پر قبضہ کر لیا ، یہ قبضہ 1588 ء تک بر قرار رہا اور پھر ترک فوجیں یہاں سے رخصت ہو گئیں۔
17ویں صدی عیسوی میں یاروبا اماموں نے عمانیوں کو متحد کیا ناصر بن مرشد پہلا یاروبا امام بنا اور یہاں سے پرتگالیوں کو نکالنے میں اس نے اہم کردار ادا کیا ۔ ناصر کے بعد امام سیف بن سلطان نے زانزیبار Zanzibar پر قبضے کے بعد سوالی ساحل پر پرتگالیوں کے ایک مضبو ط قلعہ اور چھاونی کا دو سال تک محاصرہ کیا اور اسے 1698 ء میں فتح کر لیا اس کے بعد عمانیوں نے آسانی سے پرتگالیوں کو افریقہ کے ساحلی علاقوں سے نکال دیا سیف بن سلطان نے 1700 ء میں بحرین پر بھی قبضہ کر لیا 1718 ء میںسیف بن سلطان کا انتقال ہوگیا۔
اس کے بعد اماموںکے درمیان اقتدار کے لیے زورآزمائی شروع ہوئی امام سیف بن سلطان دوئم نے اپنے مخالفین کے خلاف ایران کے باد شاہ نادر شاہ افشار سے 1737 ء میں مدد حاصل کی ایرانی افواج عمان میں سیف بن سلطان دوئم کی مدد کو آئیں اور پھر1743 ء میں انہی ایرانی فوجوں نے یاروبا اماموں کے خلاف بغاوت کر دی اور عمان پر ایران کا مکمل قبضہ ہو گیا نئے امام احمد بن سید کے دور 1749 ء میں عمان سے ایران کا قبضہ ختم ہوا احمد بن سید کی وفات 1783 ء میںہوئی تو اِن کا بیٹا سید بن احمد امام ہوا پھر سید بن احمد کابیٹا سید حامد بن سید امام ہوا جس نے مسقط پر بھی قبضہ کر لیا اس کے چچا سید سلطان بن احمد امام منتخب ہوئے۔
ان کا انتقال انیسویں صدی میں ہوااِ ن کی وفات بعد نئے ا مام اذان بن قیس منتخب ہوئے یہ وہ دور ہے جب برطانیہ ہندوستان میں بنگال ،مدراس کے علاقوں میں قابض ہو چکا تھا اور اپنی طاقتور نیوی کی وجہ سے بڑی نو آبادیاتی قوت بن کر یہاں بھی اپنے قدم جم رہا تھا بعد میں یہاں انگریزاتنے طاقتور ہو گئے کہ اپنی مرضی کا امام چاہنے لگے امام قیس کے انتخاب کے باوجود انگریزوں نے اُسے عمان و مسقط کا امام تسلیم نہیں کیا اور 1871 ء میں ا پنی مرضی کے امام سلطان کوتخت پر بٹھا دیا اِس کی حاکمیت مسقط کے علاوہ گوادر پر بھی تسلیم کی گئی اب انگریز جنوب مشرقی عرب پر بھی قبضہ کر نا چاہتے تھے تاکہ یہاں پہ دیگر یورپی قوتوں کو شکست دے کر علاقے کے سمندری راستوں پر مکمل قبضہ کر لیں۔
انگریزوں نے اٹھارویں صدی سے مسقط و عمان کے حکمرانوں سے معاہدے شروع کر دئیے تھے 1798 ء پہلا معاہدہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور سلطان بن احمد کے درمیان ہوا تھا جس کا مقصد یہاں علاقے میں فرانسیسیوں اور ولندیزویوں سے تجارتی مقابلہ ختم کرا کے ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری قائم کر نا اور ساتھ ہی بندر عباس پر ایک فیکٹری کی تعمیر کرنی تھی۔ دوسرا اہم معاہدہ سلطنت عمان اور انگریز کے درمیان 1800 ء میں ہوا جس کے تحت یہ طے پایا کہ اب برطانوی نمائندہ مسقط میں تعینات ہو گا اور تمام بیرونی خارجی امور کی نگرانی کرے گا۔
19 ویں صدی میں انگریزوں کا اثرو رسوخ یہاں بہت بڑھ گیا 1854 ء میں مسقط کے سلطان نے عمان کے ساحل سے چالیس کلومیٹر دوربحیرہ عرب میں Kuria Muria کیوریا موریا کے پانچ جزائر برطانیہ کو دے دئیے 1862 ء سے 1892 ء کے دوران لیوس پیلی Lewis Pelly اورEdward Ross ایڈورڈ راس مسقط میں پولیٹکل ریزیڈنٹ رہے اَِن دونوں نے اس دوران بحیرہ عرب ،خلیج فارس اور خلیج عمان میں بر طانوی کنٹرول کومضبوط کیا 19 ویں صدی عیسوی کے آخر میں انگریزوں نے عمان کے سلطان سے ایک ڈیکلریشن پر دستخط کرائے اس اعلا میے کے مطابق سلطنت ِ عمان تمام فیصلے انگریزوں کی مشاورت سے کر نے کے پابند ہو گئی اس ڈیکلریشن کے بعد عمان مکمل طور پر برطانیہ کی نو آبادی بن گیا ۔ 1837 ء میں سید بن سلطان اپنی رہائش گاہ زنزی بار لے گیا تھا جو علاقے میں غلاموں کی بڑی منڈی تھی اور یہ عمان کے لیے بہت اہم تھی اس سلطان کے دو بیٹے تھے۔
اِن دونوں کے درمیان اقتدار کے لیے کشمکش شروع ہو ئی تو انگریزوں نے طاقت کی بنیاد پر ڈپلو میسی کی اور اِن کے درمیان معاملات طے کروائے اور ایک بیٹے ماجد کو زنزی بار دے دیا اور دوسرے بیٹے تہوان کو سوالی ساحل کا علا قہ دے دیا۔ 1856 ء میں بر طانیہ کی ہدایت پر مسقط اور زنزی بار دو الگ الگ سلطنتیں بن گئیںاس پورے عمان میں ساحلی علاقہ مسقط اور اندرونی علاقے کو الجر پہاڑ دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے ، اُس وقت خلیج فار س ،بحیرہ عرب اور خلیج ِعمان پر ساحل ِ مسقط انگریزوں کے لیے زیادہ اہم تھا انگریزوں نے یہاں تعمیر وترقی کے زیادہ کام کیے اوراندرونی علاقے کو نظر انداز کر دیا۔
یوں اندورنی عمان میں امامت دو بار زور پکڑنے لگی ۔ 1913 ء امام سالم الخروسی نے مسقط کے خلاف بغاوت کردی جو 1920 ء تک جاری رہی پھر انگریزوں نے 1920 ء میں امامت سے معاہدہ سیب Treaty of Seeb کیا اُس وقت تک ا نگریزوں کو عمان کے اس اندرونی علاقے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیئے اس معاہدے کے تحت عمان کے اس اندرونی علاقے میں امامت کو خود مختاری دے دی۔ 1920 ء میں امام سالم الخروسی فوت ہو گیا اور محمد الکاہلی نیا امام منتخب ہوا یہاں اب تیل کے ذخائر دریافت ہو رہے تھے اب انگریزوں کی دلچسپی یہاں اندورنی عمان میں بھی بہت بڑھ گئی تھی۔
انگریزوں نے10 جنوری 1923 ء کو مسقط سے ایک معاہدہ کیا کہ علاقے میں جو بھی تیل دریافت ہوگا اس کے لیے مسقط کے انگریز پو لیٹکل ایجنٹ اورہندوستان کی برطانوی حکومت سے اجازت لینی ہو گی پھر یہاں تیل دریافت ہوا 31 جولائی1928 ء کو ایک ریڈ لائن ایگرمنٹ پر انگریزوں کے حکم سے مسقط اور اینگو پرشین آئل کمپنی کے درمیان دستخط ہوئے، یہ کمپنی بعد میں برٹش آئل کمپنی کہلائی اس میں رائل ڈچ بھی شامل ہوئی پھر یہ بڑی ٹوٹل کمپنی بنی اور حقیقتاً آج بھی انہی چار کمپنیوں کی دنیا کے تیل پر اجارہ داری ہے۔
اُس وقت اِن چار کمپنیوں اور ایک امریکی بزنس مین Calouste Gulbenkian کلائسٹ گلبینکین یعنی اِن پانچ نے مل کر یہ طے کیا کہ ترکی، کی سابق سلطنتِ عثمانیہ کے اِن علاقوںمیں جس میں جزیرہ نما عرب کا وسیع علاقہ بھی شامل ہے مل کر تیل نکالیں گی جس میں 23.75% حصّہ چار کمپنیوں کا اور5% حصہ امریکی بزنس مین کا تھا۔ 1929 ء میں پھر اس معاہدے کے ممبران نے مل کر عراقی پٹرولیم کمپنی بنا لی۔
13 نومبر 1931 ء کو سلطان تیمور بن فیصل کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور اِن کے بعد سلطان سید بن تیمور مسقط کے سلطان بن گئے اِن کے زمانے میں مسقط پر انگریزوں کا مکمل کنٹرول تھا سوائے ایک وزارت کے تمام وزارتوں بشمول خارجہ ، دفاع امورِ داخلہ سب ہی انگریزوں کے پاس تھیں ۔1937 ء میں سلطان مسقط اور عراقی پیٹرولیم کے درمیان معاہد ہ ہوا کہ یہاں سارا تیل عراقی پیٹرولیم کمپنی نکا لے گی لیکن اِن کو یہاں تیل نہیں ملا تو اندرون عمان فاہود Fahud کی جانب عراقی کمپنی نے توجہ کی مگر یہ علاقہ سلطنتِ عمان کی امامت کے زیر کنٹرول تھا۔
انیس سو چالیس کی دہائی میں عراقی پٹرولیم کمپنی نے مسقط کے سلطان کو عمان کے خلاف مالی مدد دی۔ 1946 ء میں انگریزوں نے مسقط کے سلطان سید بن تیمور کو بھاری اسلحہ گولہ بارود دیا اور یہاں فوج کی تیاریاں بھی ہو تی رہیں تاکہ مسقط کے سلطان کی فوج عمان کی امامت کے خلاف جنگ کرے۔ 1954 میں امام الکاہلی کا انتقال ہوا تو غالب الہنائی نیا امام منتخب ہوا۔ یہ وہ دور ہے جب Treaty of Seeb معاہدہ سیب کے حوالے سے مسقط کے سلطان اور عمان کی امامت کے درمیان حالات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔ انگریز کی پشت پناہی سے مسقط کا موقف یہ تھا کہ عمان میں جو بھی تیل نکالا جا ئے گا اس سے متعلق معاملات مسقط کی مرضی سے طے ہوں گے۔
عمان کی امامت کا موقف معاہدہ سیب کے مطابق یہ تھا کہ تیل ہمارے علاقے سے نکلا ہے اور اس پر عمان کی امامت کا ہی حق ہے اس سے متعلق تمام معاملات عمان ہی طے کرے گا، دسمبر 1955 ء میں برطانیہ کی مدد سے مسقط کے سلطان نے عمان پر فوج کشی کردی، امام نے بھرپور انداز میں اپنا دفاع کیا ، یہاںتک کہ جولائی1957 ء میں اس جنگ میں مسقط کی فوجیں پسپا ہونے لگیں، اس موقع پر برطانیہ کی طرف سے مسقط کے سلطان کی فوج کی مدد کے لیے دو برطانوی انفنٹری کی کمپنیاں اور لڑاکا طیاروں کی مدد آگئی ۔ یوں عمان میں امامت کی فوجیں پسپا ہو کر جبل اختار پر چلی گئیں تو انگر یز کرنل ڈیوڈ سملی col David Smily نے جبل ِ اختار کا محاصرہ کیا، 4 اگست 1957 ء کو برطانوی وزیرِ ِخارجہ نے جبل اختار پر طیاروں کے ذریعے حملے کا حکم دیا اور مقامی آبادی کو بغیر اطلاع دئیے جولائی تا دسمبر 1958 ء برٹش رائل ایئر فورس نے 1635 فضائی حملے کئے جس میں عمان کے اس علاقے میں 900 راکٹ اور 1094 بم گرائے گئے۔
27 جنوری1959 ء میں مسقط کی جانب سے اچانک اور بھرپور حملے کر کے جبل اختار پر قبضہ کر لیا اور عمان کے امام غالب الہنائی سعودی عرب فرار ہو گئے، جہاں سے 1970ء تک وہ امامت کی بحالی کی کوششیں کرتے رہے، عمان کی بنیاد پر انہوں نے اپنا مقدمہ عرب لیگ اور اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ 1965 ء1966 ء اور1967 ء میں اقوام متحدہ نے تین قراردادوں میں بر طانیہ سے کہا کہ وہ عمان کے خلاف اقدامات بند کرے، عمان پر اپنا کنٹرول ختم کرے اور عمان میں حق خود ارادیت دے ، اب حقیقتاً مسقط و عمان ایک ہو گئے اور 1964 ء میں یہاں Dhofar ذفار کے علاقے میں تیل نکل آیا۔1967 ء سے تیل کی پیداوار شروع ہو گئی اسی دوران 1965 ء میں یہاں ذفاریوں نے بغاوت کر دی اِن باغیوں کو اُس وقت سابق سوویت یونین کی حمایت اور امداد حاصل تھی سید بن سلطان جو1932 ء سے اقتدار میں تھے اس بغاوت کے مقابلے میں کمزور ہو نے لگے تو1970 ء میں اُن کے بیٹے سلطان قابوس نے اُنہیں اقتدار سے فارغ کر دیا ۔
سلطان قابوس نے اقتدار میں آتے ہی عوام کی بہتری کے لیے سیاسی سماجی،اقتصادی اصلاحات کیں، ذفاریوں کی بغاوت کو اُنہوں نے ایران ، پاکستان ،اردن اور برطانیہ کی مدد سے 1975 ء میں ختم کر دیا ۔ 1981 ء میں سلطان قابوس نے چھ رکنی خلیجی تعاون کونسل کے بنیادی رکن کی حیثیت سے سلطنت عمان کو اس میں شامل کیا۔ 1997 ء میں یہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ 2002 ء میں دو خواتین پارلیمنٹ کی رکن بنیں اور اسی سال ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سال کر دی گئی۔ 2003-04 ء میں پہلی مرتبہ سلطنت عمان و مسقط میں ایک خاتون وزیر بنی۔ 2005 ء میں 100 مسلم انتہا پسند حکومت مخالف گرفتار کئے گئے جن میں سے 33 کو سزائیں ہو ئیں Arab Spring عرب بہاریہ 2011 ء میں عمان میں بھی حکومت مخالف احتجاج ہوئے 6 افراد کو 12 سے18 سال جیل اور 2500 ڈالر جرمانے ہوئے۔
اِس وقت خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں میں سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے امریکہ کے سابق صدرٹرمپ کی پالیسی کے تحت اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیئے ہیں جب کہ سعودی عرب کے بارے میں یہ کہا گیا اُن کے بھی تعلقات اسرائیل سے بہتر ہیں اور اُنہوں نے اس پوری صورتحال میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ جب عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا تو اس پر سعودی عرب نے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا ، یوں کویت ، قطر اور سلطنت ِ عمان کی جانب سے بھی کو ئی اعتراض نہیں کیا گیا مگر اب جب سے امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کے ولی عہدمحمد بن سلمان کے حوالے سے سعودی عرب سے تعلقات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے سعودی صحافی خشوگی کے قتل میں پورا الزام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کیا ہے تو صورت بالکل ہی بدل گئی ہے۔
واضح رہے یکم مارچ کی اطلا عات کے مطابق صدر جو بائیڈن نے ولی عہد محمد بن سلمان سے بات کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے ہم منصب یعنی سعودی بادشاہ سلمان سے بات کر یں گے، سعودی بادشاہ سلمان کی عمر 85 برس ہو چکی ہے اور وہ بیمار ہیں اور ایسی حالت میں اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مستقل قریب میں مکمل صحت و تندرستی کے ساتھ اپنے منصب پر کام نہیں کر سکیں گے۔
جس وقت محمد بن سلمان کو ولی عہد کے روایتی شاہی قانون کو نظر انداز کر کے ولی عہد بنایا گیا تھا تو امریکہ کی جانب سے صدر ٹرمپ کے زمانے میں محمد بن سلمان سے امریکہ کے تعلقات بہت ہی اچھے تھے اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ35 سالہ نوجوان شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے روایتی ولی عہدوں کے مقابلے میں بہت کم عمری میں بادشاہ بن جائیں گے اور پھر طویل عرصے امریکہ کی حمایت سے برسراقتدار رہ کر یہاں امریکی مفادات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کریں گے مگر اب اگر خدانخوستہ سعودی بادشاہ انتقال کر جاتے ہیں تو بطور ولی عہد محمد بن سلمان ہی سعودی عرب کے نئے بادشاہ ہو نگے اور اس طرح سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات پھر کس انداز کے ہو سکیں گے ؟ یا پھر یہ بھی ہے کہ کیا ولی عہد محمد بن سلمان کی جگہ کوئی اور سعودی عرب کے تخت پر بیٹھے گا ؟ دونوں صورتوں میں کسی نہ کسی سطح کے سیاسی بحران کے اندیشے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کو یت ، بحرین ،قطر اور متحدہ عرب امارات کا کیا کردار ہو گا؟ جو سب ہی سعودی عرب کے ساتھ خلیجی تعاون کو نسل کے رکن ہیں ۔ اس صورتحال کا سلطنت عمان پر بھی اثر مرتب ہو گا ۔
سلطنت عمان نے بھی ابھی تک باضابط طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور براہ راست ایران سے کو ئی ٹکراؤ بھی نہیں ہوا ہے حالانکہ سلطنت ِ عمان کی سرحدیں یمن سے بھی ملتی ہیں اور سرد جنگ کے زمانے میں سابق سوویت یونین یہاں ذفاری باغیوں کی مدد کرتا رہا تھا ۔1751ء سے مسقط و عمان میں مسلم اکثریت اور حکومتوں کے اعتبار سے چار سلطنتیں رہی ہیں اور اس دوران مسقط اور عمان متحد بھی رہے ہیں اور الگ الگ بھی رہے 1751ء سے 1957 ء تک عمان پر اماموں کی حکومت رہی اسی دوران اس علاقے میں 1406 ء تا 1624 ء نابہانی بادشاہت رہی پھر اسی علاقے میں یا روبا سطنت بھی رہی اِس وقت جو شاہی خاندان سلطنت مسقط و عمان پر حکومت کر رہا ہے اِن کی سلطنت ِ السعیدکاآغاز 1749 ء میں سلطان احمد بن سے ہوا۔
مسقط کے علاوہ اندرون عمان میں 1957 ء تک اماموں کی حکومت رہی اور اس متوازی حکومت کے آخری امام غالب الہنائی تھے،1957 ء کے بعد سے عمان اور مسقط ایک سلطنت ہے اور اس پر احمدبن سعید شاہی خاندان کی حکومت ہے،اور جنوری 2020 ء سے اس کے سلطان ہیثم بن طارق آل سعیداس خاندان کے پندرھویں سلطان ہیں ،جنگ عظیم اوّل 1914 تا 1918 ء کے بعد ترک سلطنت خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق ِ وسطیٰ اور عرب ملکوں کی جدید تاریخ کا آغاز ہوا جس کو اب سو سال ہو رہے ہیں اس دوران سلطنت عمان پرحالیہ سلطان ہیثم بن طارق سے پہلے قابوس بن سعید 1970 ء سے2020 ء سلطان رہے اور اِن سے پہلے سعید بن تیمور1932 ء سے 1970 ء تک سلطان تھے اور اِن سے پہلے تیمور بن فیصل 1913 ء سے1932 تک سلطان رہے۔
اگرچہ سلطان ہیثم بن طارق اس شاہی خاندان یا سلطنت کے پندرھویں سلطان ہیں لیکن 1913 ء سے 2020 ء تک 107 سال اس شاہی خاندان کے تین مضبوط سلاطین نے حکومت کی ہے اور اس دوران پہلی جنگِ عظیم دوسری جنگ عظیم ، سرد جنگ ،پھر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور 2011 ء کے عرب اسپرنگ میں جب بیشتر عرب ملکوں میں عوامی احتجاج نے حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا تو اس جھٹکے کو بھی سلطنت ِ عمان و مسقط برداشت کر گیا،اب بھی بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ سلطنت ِ عمان عرب تعاون کونسل کے باقی ارکان سے قدرے مختلف سیاسی زاویہ نظر رکھتی ہے اس کی غالباً ایک بڑی وجہ عمان اور مسقط کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک پوزیشن ہے اور گذشتہ ایک سو سال سے زیادہ عرصے سے یہاں سلاطین ِ عمان نے برطانیہ اور بعد میں امریکہ سے متوازن اور بہتر تعلقات رکھے ہیں ۔
سلطنت عمان 7 اکتوبر1971 ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا یوں آج سلطنت اومان کو اقوام متحدہ کی جانب سے مستحکم آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کئے نصف صدی سے ہو چکی ہے اور اس اعتبار سے نصف صدی سے عمان اس قابل ہے کہ وہ عالمی سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہو ئے اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن اور آزاد رکھ سکتا ہے۔
اس وقت جہاں تک تعلق اسرائیل سے تعلقات کا ہے تو متحدہ عرب امارات جنہو ں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہو ا ہے وہ بھی اِس وقت اسرائیل کی بالا دستی کو تسلیم کر نے کے قائل نہیں ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتھن یاہو جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت قریب تھے اُن کے الیکشن 23 مارچ 2021 ء کو ہونے ہیں اور اس سے قبل نیتھن یاہو، نے یہ چا ہا کہ وہ متحدہ عرب امارا ت کا دورہ کر یں تو شنید میں آیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے کہا گیا کہ آپ الیکشن سے پہلے دورہ نہ کریں امکان یہ تھا کہ نیتھن یاہو اپنے دورے سے اسرائیلی ووٹرز کو یہ باور کر انا اور یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ اِن کی وجہ سے معاہدہ ابراہیم کے تحت اسرائیل اب محفوظ ہو گیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد صدر جو بائیڈن کے آنے سے یک دم ٹرمپ کی پالیسیوں کو یا تو روک دیا گیا ہے یا پھر اِن پالیسیوں کا نئے سرے سے جائز ہ لے کر امریکہ پوری دنیا میں ایک نئی اسٹریٹجی کے ساتھ فوری نوعیت کے اقدامات کر نا چاہتا ہے صدر جو بائیڈن کے حالیہ بیانات جو روس کے خلاف دئیے گئے ہیں۔
اِن کا لہجہ بھی بہت تلخ تھا جس میں اُنہوں نے روس پر امریکہ کے الیکشن میں مداخلت کے ثبوت پر 17 مارچ 2021 ء کو کہا کہ روس کو اس کا جواب دیا جائے گا اور ساتھ ہی روسی رہنما پیوٹن کو قاتل بھی کہا ہے جس پر روس نے بھی شدید ردعمل کا مظاہر ہ کیا اسی طرح امریکہ اور چین کے درمیان ایک جانب مذاکرات کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف چین کے ساؤ تھ چنیا سی میں امریکہ ، بھارت ، جاپان ، اور اب جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں امن کے لیے روس میں بھی طالبان کے ساتھ کانفرنس ہوئی ہے تو اب ترکی میں بات چیت ہونے والی ہے اس تمام تر تناظر میں پا کستان سے سمندری حدود کے اعتبار سے سب سے قریبی ہمسایہ سلطنت عمان کی پالیسی تا حال متوازن ہے اور امید ہے کہ پاکستان اور عمان کے تعلقات مستقبل میں بھی ماضی اور حال کی طرح دوستانہ رہیں گے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس لیے پاکستان کو ہر حال میں علاقائی سطح پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔