معاشی خود کفالت کی منزل
ہمارے معاشی مسیحاؤں کو غربت زدہ، اور سوختہ سامانوں کے شب و روز پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔
KARACHI:
وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کی تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
ہر سال قسطیں بڑھتی جا رہی ہیں، واپسی کے لیے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے ، بدقسمتی سے ایسے قرضے لیے گئے ہیں جن سے مزید قرضے چڑھ رہے ہیں ، وزیر اعظم کے اس بیان میں ملکی اقتصادیات کی ایک درد انگیز داستان پوشیدہ ہے، عوام پر اس بیانیہ کا اثر اس سیاسی نظام سے وابستہ کروڑوں انسانوں کا مستقبل ایک بڑے سوال کا جواب چاہتا ہے جو تبدیلیوں اور آسودگی کی نئی کہانی سننے کو بے تاب ہے۔
وزیر اعظم کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے ڈھائی سال میں 20 ہزار ارب روپے کا قرضہ واپس کیا تھا اور ہم نے اپنے ڈھائی سال میں 35 ہزار ارب روپے کا قرضہ واپس کیا، ہم نے (ن) لیگ سے 15 ہزار ارب اضافی قرض واپس کیا، اگر یہی 15ہزار ارب روپے انفرااسٹرکچر پر لگتے تو ملک تبدیل ہو جاتا، میرے وزیروں کو بھی نہیں پتہ کہ ہم نے پچھلے دو سال کتنی تنگی میں گزارے ہیں، وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ عوام کو اپنے گھروں کی فراہمی کا وعدہ پورا کریں گے ، کسانوں کے لیے بھی رہائشی منصوبے لے کر آئیں گے۔
تعمیراتی شعبے کو دیے گئے پیکیج اور مراعات کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، معاشی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، کورونا وائرس کی صورتحال سے ترقی پذیر ملکوں کو زیادہ نقصان پہنچا، لوگوں کو صرف کورونا سے نہیں بلکہ بے روزگاری سے بھی بچانا ہے، وباء کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار اور کروڑوں مقروض ہو گئے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت فراش ٹاؤن اسلام آباد میں اپارٹمنٹس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب اور 10ویں ڈی ایٹ ورچوئل سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بینک عام آدمی کو گھر کی تعمیر کے لیے قرضے نہیں دیتے تھے، اب بھی بینکوں کے نچلے اسٹاف کی طرف سے بعض رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔
جنھیں دور کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جس طرح ایف ڈبلیو او نے ریکارڈ مدت میں کرتارپور راہداری منصوبے کو مکمل کیا اسی طرح نیا پاکستان ہاؤسنگ کے اس منصوبے کو بھی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ عام مزدور، مکینک، ویلڈر جیسے محنت کش طبقات کے لیے ہے، حکومت نچلے طبقے کو گھر کی فراہمی کے لیے 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ سی ڈی اے 600 گھر کچی آبادی کے لوگوں کو دے رہا ہے، ہم کچی آبادیوں کو تبدیل کریں گے اور انھیں مالکانہ حقوق دیں گے۔
یہ خوش آیند نوید ہے، لیکن چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے شاہراہ قائدین تجاوزات کیس میں کمشنر کراچی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ انھیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں۔ کراچی کو مختاروں میں بانٹ دیا گیا؟ کراچی میں مختیار کار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے۔ یہاں مختیار کار شہر کو آپریٹ کر رہا ہے تو پھر شہر گیا۔ اب کسی کی جائیداد محفوظ نہیں رہے گی۔ کسی کو شہر کی پروا نہیں، چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا آپ نے کراچی کی تاریخ پڑھی ہے۔ کراچی کو کیا سمجھ رکھا ہے، آپ لوگوں نے؟ اب آنکھیں کھولنے کا ٹائم آ گیا۔ یہ کیپیٹل سٹی رہا ہے، کیا بنا دیا اس شہر کو؟ ان ریمارکس میں معنی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔
بلاشبہ معیشت کو ایک غیر معمولی جست کی ضرورت ہے، صنعتی ترقی اور پھیلاؤ کے بغیر پاکستان کے غریب عوام کی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکے گی، زمینی حقائق بہت سنگین اور ناقابل بیان ہیں، غربت کی اتنی دل دوز صورتحال ہوگئی ہے کہ ایک سماجی کارکن کی زبانی ٹی وی پر کم آمدنی والے گھرانوں کے سربراہوں اور بوڑھی خواتین کی بے بسی اور بیروزگار مزدوروں کے روز وشب کے حالات اکثر رلا دیتے ہیں، معاشی ابتری نے تضادات کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں، ایک طرف دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور دوسری طرف امیروں کے اربوں کے اپارٹمنٹس کی تعمیرات زوروں پر ہے، تعمیراتی شعبے کو لازمی ترقی ملنی چاہیے، مگر مزدور کو روزگار ملے اس کے بچوں کو تعلیم، رزق اور رہائش کی سہولت ہر شہری کا حق ہے۔
پاکستان کو اقتصادی دلدل سے نکالنے کا وقت ہے، قرضوں کی ادائیگی بھی ملکی سسٹم کو زیر بار کیے ہوئے ہے، قرضے کسی بھی حکمراں نے لیے ہوں، اب عوام کو روزگار کی فراہمی کے منصوبوں سے آگاہ کریں، ان کے نئے دور کا آغاز کرنے کے امکانات روشن کرنے کی گھڑی ہے، دو سال کے اندر معیشت کو کوئی ریورس گیئر نہیں لگنا چاہیے، معاشی تجزیہ کار جو حقائق بتا رہے ہیں وہ ذہنی دباؤ کا باعث بنتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ سابقہ دونوں جمہوری حکومتوں اور آج پی ٹی آئی حکومت میں قرضے لینے اور واپس کرنے کے بیانیہ کی جنگ جاری ہے، کل کس نے کتنا قرضہ لیا تھا اور آج حکومت قرضوں کے کتنے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
یہ معمہ سرمایہ کاری، روزگار کی فراہمی، اور مہنگائی کے خاتمہ کی صائب حکمت عملی کا منتظر ہے۔ معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا دوراہا ہے کہ حکومت جس راستے کا بھی انتخاب کرے گی وہ ایک تاریخ رقم کرے گا۔ اس دوراہے پر پہنچنے کی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہے۔ مگر حکومت کے پاس 2 راستے ہیں، ایک تو یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی رو سے خسارے میں کمی کی کوششیں کی جائیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ آنے والے عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
ایک ہی وقت میں ان دونوں راستوں پر نہیں چلا جا سکتا۔ کیونکہ خسارے میں کمی کے لیے اخراجات پر قابو پانا ہوگا جب کہ انتخابات کی تیاری کے لیے ان اخراجات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اب حکومت کو دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر حکومت سابق وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی جانب سے 24 مارچ کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل کرتی ہے تو اسے تیزی سے اخراجات پر قابو کرنا ہوگا، ایندھن اور توانائی کے نرخوں اور محصولات میں اضافہ کرنا ہوگا اور کورونا وائرس کی وجہ سے صنعتوں کو فراہم کی جانی والی مراعات کو واپس لینا ہوگا۔ یہ وہ مراعات ہیں کہ جن کی اب صنعتوں کو عادت ہو چکی ہے۔ وزیرِ اعظم کو اپنی جماعت کے اندر سے بھی کافی دباؤ کا سامنا ہے۔
اراکین اسمبلی اپنے حلقوں کے لیے فنڈز کی بات کر رہے ہیں تاکہ آیندہ انتخابات کے لیے سازگار ماحول تیار کیا جاسکے۔ 2023 کے انتخابات ایک ایسی حقیقت ہیں کہ جس کا سامنا عمران خان کو 2سال سے بھی کم وقت میں کرنا ہی ہے۔ انتخابات سے قبل ووٹروں کا سامنا کرنے کے لیے اراکین کی جانب سے حلقوں میں فوری طور پر ترقیاتی اسکیمیں اور منصوبے شروع کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اب تک تو حفیظ شیخ نے ان اخراجات پر سختی سے قابو رکھا ہوا تھا اور اسی وجہ سے وہ جماعت کے اندر ایک غیر مقبول شخصیت بن چکے تھے۔
اب ان کی زبانی قوم سن رہی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسری طرف حماد اظہر بطور وزیرِ خزانہ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ اس معاہدے پر 'نظرثانی، ہو سکتی ہے جب کہ عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے اجرا کی تقریب میں کہا کہ وہ آئی ایم ایف سے 'دوسرا پیکیج' حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ حماد اظہر کی نظرثانی سے کیا مراد تھی۔
کیا وہ اس نظرثانی کی بات کر رہے ہیں جو معمول کے مطابق ہر آئی ایم ایف پروگرام کی ہوتی ہے تاکہ اس کی افادیت کو جانچا جاسکے؟ یا پھر وہ اس معاہدے کے نفاذ سے پہلے اس پر نظرثانی کی بات کر رہے ہیں؟ اور کیا 'دوسرے پیکیج' سے عمران خان کی مراد موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ہی ایک نیا معاہدہ کرنا ہے یا پھر وہ گزشتہ اپریل میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملنے والے قرض کی طرح پھر کوئی قرض لینا چاہتے ہیں؟ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کا وہ قرض کسی اضافی یا خصوصی شرائط کے بغیر دیا گیا تھا۔
معاملہ جو بھی ہو لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ حفیظ شیخ کے کیے گئے معاہدے میں شامل اہداف کو تبدیل کروانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ غالباً آئی ایم ایف کے کسی پروگرام پر دوبارہ بات چیت کی گئی ہو، خاص طور پر اس وقت جب بورڈ نے حال ہی میں اس معاہدے کی منظوری دی ہے اور اس کی پہلی قسط بھی جاری ہو چکی ہے۔ اگر حکومت نے موجودہ معاہدہ برقرار رکھا تو یہ کم از کم ربع صدی (25 سال) میں پہلی ایسی حکومت ہوگی جس نے ایک مدت میں 2 مرتبہ آئی ایم ایف کا درکھٹکھٹایا ہوگا۔ گزشتہ حکومتوں نے ایک ہی راہ کا انتخاب کیا تھا۔
وہ حکومت میں آئے، انھیں معلوم ہوا کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر خالی ہیں، وہ آئی ایم ایف سے ایک یا دو (کبھی تو 3) سال کے مشکل معاہدے کرتے، زرِ مبادلہ جمع کرتے اور پھر اگلے انتخابات کی تیاری میں لگ جاتے۔ اس طرح جمع شدہ خزانہ دوبارہ خالی ہو جاتا۔ گزشتہ 3 دہائیوں میں کوئی حکومت بھی دوسری مرتبہ اقتدار میں نہیں آ سکی ہے۔ اس وجہ سے ہر حکومت اپنے پیچھے آنے والی حکومت کے لیے خالی خزانہ اور قرضوں کا انبار چھوڑ جاتی ہے۔ پھر نئی حکومت بھی اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔
بہر حال اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندہ سے بالاتر ہو کر ہمارے معاشی مسیحاؤں کو غربت زدہ، اور سوختہ سامانوں کے شب و روز پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ امیروں کے جزیرے میں غریبوں کو بھی جینے کا حق ملنا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کی تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
ہر سال قسطیں بڑھتی جا رہی ہیں، واپسی کے لیے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے ، بدقسمتی سے ایسے قرضے لیے گئے ہیں جن سے مزید قرضے چڑھ رہے ہیں ، وزیر اعظم کے اس بیان میں ملکی اقتصادیات کی ایک درد انگیز داستان پوشیدہ ہے، عوام پر اس بیانیہ کا اثر اس سیاسی نظام سے وابستہ کروڑوں انسانوں کا مستقبل ایک بڑے سوال کا جواب چاہتا ہے جو تبدیلیوں اور آسودگی کی نئی کہانی سننے کو بے تاب ہے۔
وزیر اعظم کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے ڈھائی سال میں 20 ہزار ارب روپے کا قرضہ واپس کیا تھا اور ہم نے اپنے ڈھائی سال میں 35 ہزار ارب روپے کا قرضہ واپس کیا، ہم نے (ن) لیگ سے 15 ہزار ارب اضافی قرض واپس کیا، اگر یہی 15ہزار ارب روپے انفرااسٹرکچر پر لگتے تو ملک تبدیل ہو جاتا، میرے وزیروں کو بھی نہیں پتہ کہ ہم نے پچھلے دو سال کتنی تنگی میں گزارے ہیں، وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ عوام کو اپنے گھروں کی فراہمی کا وعدہ پورا کریں گے ، کسانوں کے لیے بھی رہائشی منصوبے لے کر آئیں گے۔
تعمیراتی شعبے کو دیے گئے پیکیج اور مراعات کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، معاشی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، کورونا وائرس کی صورتحال سے ترقی پذیر ملکوں کو زیادہ نقصان پہنچا، لوگوں کو صرف کورونا سے نہیں بلکہ بے روزگاری سے بھی بچانا ہے، وباء کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار اور کروڑوں مقروض ہو گئے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت فراش ٹاؤن اسلام آباد میں اپارٹمنٹس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب اور 10ویں ڈی ایٹ ورچوئل سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بینک عام آدمی کو گھر کی تعمیر کے لیے قرضے نہیں دیتے تھے، اب بھی بینکوں کے نچلے اسٹاف کی طرف سے بعض رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔
جنھیں دور کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جس طرح ایف ڈبلیو او نے ریکارڈ مدت میں کرتارپور راہداری منصوبے کو مکمل کیا اسی طرح نیا پاکستان ہاؤسنگ کے اس منصوبے کو بھی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ عام مزدور، مکینک، ویلڈر جیسے محنت کش طبقات کے لیے ہے، حکومت نچلے طبقے کو گھر کی فراہمی کے لیے 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ سی ڈی اے 600 گھر کچی آبادی کے لوگوں کو دے رہا ہے، ہم کچی آبادیوں کو تبدیل کریں گے اور انھیں مالکانہ حقوق دیں گے۔
یہ خوش آیند نوید ہے، لیکن چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے شاہراہ قائدین تجاوزات کیس میں کمشنر کراچی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ انھیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں۔ کراچی کو مختاروں میں بانٹ دیا گیا؟ کراچی میں مختیار کار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے۔ یہاں مختیار کار شہر کو آپریٹ کر رہا ہے تو پھر شہر گیا۔ اب کسی کی جائیداد محفوظ نہیں رہے گی۔ کسی کو شہر کی پروا نہیں، چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا آپ نے کراچی کی تاریخ پڑھی ہے۔ کراچی کو کیا سمجھ رکھا ہے، آپ لوگوں نے؟ اب آنکھیں کھولنے کا ٹائم آ گیا۔ یہ کیپیٹل سٹی رہا ہے، کیا بنا دیا اس شہر کو؟ ان ریمارکس میں معنی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔
بلاشبہ معیشت کو ایک غیر معمولی جست کی ضرورت ہے، صنعتی ترقی اور پھیلاؤ کے بغیر پاکستان کے غریب عوام کی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکے گی، زمینی حقائق بہت سنگین اور ناقابل بیان ہیں، غربت کی اتنی دل دوز صورتحال ہوگئی ہے کہ ایک سماجی کارکن کی زبانی ٹی وی پر کم آمدنی والے گھرانوں کے سربراہوں اور بوڑھی خواتین کی بے بسی اور بیروزگار مزدوروں کے روز وشب کے حالات اکثر رلا دیتے ہیں، معاشی ابتری نے تضادات کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں، ایک طرف دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور دوسری طرف امیروں کے اربوں کے اپارٹمنٹس کی تعمیرات زوروں پر ہے، تعمیراتی شعبے کو لازمی ترقی ملنی چاہیے، مگر مزدور کو روزگار ملے اس کے بچوں کو تعلیم، رزق اور رہائش کی سہولت ہر شہری کا حق ہے۔
پاکستان کو اقتصادی دلدل سے نکالنے کا وقت ہے، قرضوں کی ادائیگی بھی ملکی سسٹم کو زیر بار کیے ہوئے ہے، قرضے کسی بھی حکمراں نے لیے ہوں، اب عوام کو روزگار کی فراہمی کے منصوبوں سے آگاہ کریں، ان کے نئے دور کا آغاز کرنے کے امکانات روشن کرنے کی گھڑی ہے، دو سال کے اندر معیشت کو کوئی ریورس گیئر نہیں لگنا چاہیے، معاشی تجزیہ کار جو حقائق بتا رہے ہیں وہ ذہنی دباؤ کا باعث بنتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ سابقہ دونوں جمہوری حکومتوں اور آج پی ٹی آئی حکومت میں قرضے لینے اور واپس کرنے کے بیانیہ کی جنگ جاری ہے، کل کس نے کتنا قرضہ لیا تھا اور آج حکومت قرضوں کے کتنے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
یہ معمہ سرمایہ کاری، روزگار کی فراہمی، اور مہنگائی کے خاتمہ کی صائب حکمت عملی کا منتظر ہے۔ معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا دوراہا ہے کہ حکومت جس راستے کا بھی انتخاب کرے گی وہ ایک تاریخ رقم کرے گا۔ اس دوراہے پر پہنچنے کی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہے۔ مگر حکومت کے پاس 2 راستے ہیں، ایک تو یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی رو سے خسارے میں کمی کی کوششیں کی جائیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ آنے والے عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
ایک ہی وقت میں ان دونوں راستوں پر نہیں چلا جا سکتا۔ کیونکہ خسارے میں کمی کے لیے اخراجات پر قابو پانا ہوگا جب کہ انتخابات کی تیاری کے لیے ان اخراجات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اب حکومت کو دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر حکومت سابق وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی جانب سے 24 مارچ کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل کرتی ہے تو اسے تیزی سے اخراجات پر قابو کرنا ہوگا، ایندھن اور توانائی کے نرخوں اور محصولات میں اضافہ کرنا ہوگا اور کورونا وائرس کی وجہ سے صنعتوں کو فراہم کی جانی والی مراعات کو واپس لینا ہوگا۔ یہ وہ مراعات ہیں کہ جن کی اب صنعتوں کو عادت ہو چکی ہے۔ وزیرِ اعظم کو اپنی جماعت کے اندر سے بھی کافی دباؤ کا سامنا ہے۔
اراکین اسمبلی اپنے حلقوں کے لیے فنڈز کی بات کر رہے ہیں تاکہ آیندہ انتخابات کے لیے سازگار ماحول تیار کیا جاسکے۔ 2023 کے انتخابات ایک ایسی حقیقت ہیں کہ جس کا سامنا عمران خان کو 2سال سے بھی کم وقت میں کرنا ہی ہے۔ انتخابات سے قبل ووٹروں کا سامنا کرنے کے لیے اراکین کی جانب سے حلقوں میں فوری طور پر ترقیاتی اسکیمیں اور منصوبے شروع کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اب تک تو حفیظ شیخ نے ان اخراجات پر سختی سے قابو رکھا ہوا تھا اور اسی وجہ سے وہ جماعت کے اندر ایک غیر مقبول شخصیت بن چکے تھے۔
اب ان کی زبانی قوم سن رہی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسری طرف حماد اظہر بطور وزیرِ خزانہ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ اس معاہدے پر 'نظرثانی، ہو سکتی ہے جب کہ عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے اجرا کی تقریب میں کہا کہ وہ آئی ایم ایف سے 'دوسرا پیکیج' حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ حماد اظہر کی نظرثانی سے کیا مراد تھی۔
کیا وہ اس نظرثانی کی بات کر رہے ہیں جو معمول کے مطابق ہر آئی ایم ایف پروگرام کی ہوتی ہے تاکہ اس کی افادیت کو جانچا جاسکے؟ یا پھر وہ اس معاہدے کے نفاذ سے پہلے اس پر نظرثانی کی بات کر رہے ہیں؟ اور کیا 'دوسرے پیکیج' سے عمران خان کی مراد موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ہی ایک نیا معاہدہ کرنا ہے یا پھر وہ گزشتہ اپریل میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملنے والے قرض کی طرح پھر کوئی قرض لینا چاہتے ہیں؟ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کا وہ قرض کسی اضافی یا خصوصی شرائط کے بغیر دیا گیا تھا۔
معاملہ جو بھی ہو لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ حفیظ شیخ کے کیے گئے معاہدے میں شامل اہداف کو تبدیل کروانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ غالباً آئی ایم ایف کے کسی پروگرام پر دوبارہ بات چیت کی گئی ہو، خاص طور پر اس وقت جب بورڈ نے حال ہی میں اس معاہدے کی منظوری دی ہے اور اس کی پہلی قسط بھی جاری ہو چکی ہے۔ اگر حکومت نے موجودہ معاہدہ برقرار رکھا تو یہ کم از کم ربع صدی (25 سال) میں پہلی ایسی حکومت ہوگی جس نے ایک مدت میں 2 مرتبہ آئی ایم ایف کا درکھٹکھٹایا ہوگا۔ گزشتہ حکومتوں نے ایک ہی راہ کا انتخاب کیا تھا۔
وہ حکومت میں آئے، انھیں معلوم ہوا کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر خالی ہیں، وہ آئی ایم ایف سے ایک یا دو (کبھی تو 3) سال کے مشکل معاہدے کرتے، زرِ مبادلہ جمع کرتے اور پھر اگلے انتخابات کی تیاری میں لگ جاتے۔ اس طرح جمع شدہ خزانہ دوبارہ خالی ہو جاتا۔ گزشتہ 3 دہائیوں میں کوئی حکومت بھی دوسری مرتبہ اقتدار میں نہیں آ سکی ہے۔ اس وجہ سے ہر حکومت اپنے پیچھے آنے والی حکومت کے لیے خالی خزانہ اور قرضوں کا انبار چھوڑ جاتی ہے۔ پھر نئی حکومت بھی اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔
بہر حال اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندہ سے بالاتر ہو کر ہمارے معاشی مسیحاؤں کو غربت زدہ، اور سوختہ سامانوں کے شب و روز پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ امیروں کے جزیرے میں غریبوں کو بھی جینے کا حق ملنا چاہیے۔