محترم وزیراعظم فحاشی سے متعلق بیان پر قائم رہیے گا
عمران خان نے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کو ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کی ایک وجہ قرار دیا ہے
25 مارچ کو ایک نیوز ویب سائٹ پر کرائم اسٹوری دیکھی، جس نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ جسے دیکھ کر کوئی بھی شخص اپنے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہوجائے گا۔
خبر کے مطابق پندرہ، سولہ سال کے دو لڑکوں نے ہمسائے میں 9 سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنادیا۔ ملزمان میں سے ایک لڑکا 5 بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔
اینکر نے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا تو ملزمان نے جواب دیا کہ ہمارے پاس موبائل تھا، اس میں واٹس ایپ پر ویڈیو آئی جسے دیکھ کر ہم نے پڑوس میں بچی کے ساتھ یہ برا کام کیا۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے جنسی زیادتیوں سے متعلق بیان پر ایک طوفان کھڑا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کو ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کا ایک سبب قرار دیا۔ لیکن ان پر victim blaming یعنی زیادتی کا شکار فرد کو ہی قصوروار ٹھہرانے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ زیادتی سے متاثرہ بچی یا کسی عورت کا اپنے ساتھ پیش آئے افسوس ناک واقعے میں کیا قصور؟
یہ بھی پڑھیں: فحاشی پھیلائیں گے تو جنسی زیادتی میں اضافہ ہوگا
درحقیقت عمران خان کے اس بیان کا یا تو جان بوجھ کر یا نادانستگی میں غلط مطلب نکالا جارہا ہے۔ عمران خان نے قطعاً متاثرہ فرد کو قصوروار نہیں ٹھہرایا بلکہ انہوں نے جنسی زیادتی کے مجرموں کے بارے میں یہ بات کہی ہے کہ معاشرے میں پھیلتی فحاشی اور عریانی لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی اخلاقیات تباہ کررہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے اور غلیظ کام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
ہر انسان میں فطری طور پر جنسی جذبات ہوتے ہیں، جس کی وہ تسکین چاہتا ہے۔ ہر مذہب ان جذبات کی آسودگی کےلیے جائز اور حلال راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب کوئی بھی شخص مرد ہو یا عورت فحش مواد دیکھتا، سنتا یا پڑھتا ہے تو اس کے جذبات برانگخیتہ ہوتے ہیں اور پھر وہ ان کے اظہار کا موقع ڈھونڈتا ہے۔ اگر ان جذبات کو بھڑکانے والی تمام چیزوں پر پابندی لگادی جائے تو آخر کیوں اس جرم کے ارتکاب کے امکانات میں کمی واقع نہ ہوگی۔
معاشرے میں زیادتی سمیت اخلاقی جرائم کے خاتمے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ نکاح اور شادی کو فروغ دیا جائے۔ کثرت ازواج کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو شادی کے قابل ہوتے ہی جلد از جلد نکاح کے بندھن میں باندھ دینا چاہیے۔ شادی کو آسان بنانا چاہیے۔ تقریبات پر بھاری بھرکم اخراجات کا سلسلہ ختم کرکے سادگی سے شادی کا رواج عام کرنا چاہیے۔
والدین کی سب سے بڑی ذمے داری ہوتی ہے کہ اپنے بچے کو اچھی صحبت فراہم کریں، بچپن سے ہی اس کی اچھی تربیت کریں اور اسے صحیح غلط، نیکی و گناہ کی پہچان سکھائیں۔ بچوں کو اچھا گھریلو ماحول فراہم کیا جائے اور گھریلو تشدد سے باز رہا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: فحاشی سے متعلق بیان واپس لیں ورنہ آپ میرے وزیراعظم نہیں، آمنہ الیاس
پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی نوجوان شادی کرنے کی مالی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے روزہ رکھنے کا حکم ہے، جو اس کی جنسی ضرورت کو کم کردے گا۔ کیونکہ زیادہ کھانا اور غیر معیاری خوراک خصوصاً جنک فوڈ بھی ہمارے جذبات میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتی ہے اور ہمارے خیالات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسلام فحاشی پھیلانے والوں کو دردناک عذاب سے بھی خبردار کرتا ہے۔
معاشرے میں اخلاقیات کو فروغ دے کر اور بے حیائی کے راستے بند کرکے تمام اخلاقی جرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔ لیکن لوگ اس کے باوجود بھی زیادتی کے جرائم کا ارتکاب کریں تو اس کیا حل ہو؟
پھر اس کےلیے سزائیں مقرر کی ہیں جو سرعام دی جائیں گی تاکہ ایک کو سزا ہو اور ہزاروں اس سے عبرت پکڑ کر باز رہیں۔ شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کرنے اور غیر شادی شدہ کو 100 دردناک کوڑوں کی سزا ہے۔ بدفعلی، ہم جنسی پرستی جیسے قبیح مجرم کو بلندی سے گراکر پتھر مار مار کر جان سے مار دینے کی سزا ہے۔ یہ ساری سزائیں اس جرم کے خاتمے کےلیے ہی تو ہیں۔
اور یہ سزائیں صرف اسلام نہیں بلکہ قدیم یونانی، یہودی اور مسیحی دستاویزات میں بھی ملتی ہیں۔ یعنی یہ آفاقی قانون ہے۔ جو لوگ تلقین اور نصیحت کے ذریعے جرم سے باز نہیں رہتے انہیں آخرت میں جو سزا ملنی ہے سو ملنی ہے، اس سے پہلے انہیں دنیا میں عبرت ناک سزا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو اس جرم کے آگے بند باندھ سکتا ہے۔
لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے کہ ابلاغ کے تمام ذرائع سے بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ عمران خان نے 100 فیصد سچ ہی تو کہا ہے۔ ابلاغ کے تمام ذرائع سے ملک میں بننے والے یا باہر سے آنے والے فحش مواد کا سیلاب امڈا چلا رہا ہے جو لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے اخلاق کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اسمارٹ فون پر واٹس ایپ یا دیگر ذرائع سے فحش مواد تک رسائی اور اسے دیکھنا نہایت آسان ہوگیا ہے۔
جب اس بارے میں پیرنٹنگ و نفسیات کے ماہر فرحان ظفر سے رائے لی گئی تو انہوں نے بتایا کہ زیادتی کے مجرم دو طرح کے ہیں، ایک جو بچوں کو اور دوسرے جو خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ بچوں کو نشانہ بنانے والے خاموش طبع اور ڈرپوک ہوتے ہیں جبکہ خواتین کو نشانہ بنانے والے طاقت ور اور بدمعاش ٹائپ ہوتے ہیں۔ دونوں پر فحاشی کا الگ الگ اثر ہوتا ہے۔ عموماً یہ لوگ برہنہ فلمیں دیکھتے ہیں جن سے ان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ بچوں کو کوئی چیز دے کر اپنی طرف مائل کیا جاتا ہے اور پھر ایک دن زیادتی کے بعد پہچانے جانے کے ڈر سے قتل کردیا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات و ماہر امراض سینہ جنرل فزیشن ڈاکٹر خالد مشتاق سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مردوں میں testosterone ہارمون ہوتا ہے۔ کوئی چیز دیکھنے یا سننے سے مرد کے دماغ کو سگنل ملتے ہیں، جس کے بعد testosterone دماغ پر غالب آجاتا ہے اور عورت کی طرف کشش پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے زنا کے قریب نہ پھٹکنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کی تخلیق کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ انہوں نے زندگی کس طرح گزارنی ہے، تاکہ وہ ذہنی و جسمانی تکلیف سے محفوظ رہیں۔ مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے اور عورتوں کو اپنی چادر سینوں پر ڈالنے کا حکم دیا اور مردوں سے ایسے لہجے میں بات کرنے سے روکا گیا جس سے ان کے دل میں بیماری پیدا ہو۔
وزیراعظم پر تنقید بھی وہی لوگ کر رہے ہیں جو ذرائع ابلاغ پر غلبہ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا دہرا معیار یہ ہے کہ یہ جنسی جرائم پر خوب شور مچاتے ہیں لیکن جب اس جرم پر سخت سزائیں نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس جرم پر ابھارنے والی چیزوں فحاشی اور بے حیائی پر پابندی لگانے کا کہا جائے تو اس کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے نظریات یورپ اور مغرب سے درآمد کردہ ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ ملک میں زیادتیوں کے اسباب کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں، ان پر سخت سزائیں بھی نہیں لگانا چاہتے اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ زیادتیوں کا خاتمہ ہوجائے۔ تو ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔ درحقیقت جب آپ خدائی قوانین سے منہ موڑتے ہیں تو پھر آپ کے پاس بھٹکنے کے سوا کیا راستہ رہ جاتا ہے۔ یہ دنیا جس خدا نے بنائی ہے جس کو سبھی مذاہب مانتے ہیں، اس دنیا کے بنیادی قوانین میں بھی بیشتر مذاہب میں یکسانیت ہے، اس سے منہ موڑنے سے اس دنیا کو تباہی و بربادی کے سوا کیا ملے گا۔
لہٰذا وزیراعظم عمران خان آپ کی بات حرف بہ حرف سچائی پر مبنی ہے اور اب جنسی زیادتیوں کے خاتمے کےلیے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خبر کے مطابق پندرہ، سولہ سال کے دو لڑکوں نے ہمسائے میں 9 سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنادیا۔ ملزمان میں سے ایک لڑکا 5 بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔
اینکر نے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا تو ملزمان نے جواب دیا کہ ہمارے پاس موبائل تھا، اس میں واٹس ایپ پر ویڈیو آئی جسے دیکھ کر ہم نے پڑوس میں بچی کے ساتھ یہ برا کام کیا۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے جنسی زیادتیوں سے متعلق بیان پر ایک طوفان کھڑا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کو ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کا ایک سبب قرار دیا۔ لیکن ان پر victim blaming یعنی زیادتی کا شکار فرد کو ہی قصوروار ٹھہرانے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ زیادتی سے متاثرہ بچی یا کسی عورت کا اپنے ساتھ پیش آئے افسوس ناک واقعے میں کیا قصور؟
یہ بھی پڑھیں: فحاشی پھیلائیں گے تو جنسی زیادتی میں اضافہ ہوگا
درحقیقت عمران خان کے اس بیان کا یا تو جان بوجھ کر یا نادانستگی میں غلط مطلب نکالا جارہا ہے۔ عمران خان نے قطعاً متاثرہ فرد کو قصوروار نہیں ٹھہرایا بلکہ انہوں نے جنسی زیادتی کے مجرموں کے بارے میں یہ بات کہی ہے کہ معاشرے میں پھیلتی فحاشی اور عریانی لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی اخلاقیات تباہ کررہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے اور غلیظ کام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
ہر انسان میں فطری طور پر جنسی جذبات ہوتے ہیں، جس کی وہ تسکین چاہتا ہے۔ ہر مذہب ان جذبات کی آسودگی کےلیے جائز اور حلال راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب کوئی بھی شخص مرد ہو یا عورت فحش مواد دیکھتا، سنتا یا پڑھتا ہے تو اس کے جذبات برانگخیتہ ہوتے ہیں اور پھر وہ ان کے اظہار کا موقع ڈھونڈتا ہے۔ اگر ان جذبات کو بھڑکانے والی تمام چیزوں پر پابندی لگادی جائے تو آخر کیوں اس جرم کے ارتکاب کے امکانات میں کمی واقع نہ ہوگی۔
معاشرے میں زیادتی سمیت اخلاقی جرائم کے خاتمے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ نکاح اور شادی کو فروغ دیا جائے۔ کثرت ازواج کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو شادی کے قابل ہوتے ہی جلد از جلد نکاح کے بندھن میں باندھ دینا چاہیے۔ شادی کو آسان بنانا چاہیے۔ تقریبات پر بھاری بھرکم اخراجات کا سلسلہ ختم کرکے سادگی سے شادی کا رواج عام کرنا چاہیے۔
والدین کی سب سے بڑی ذمے داری ہوتی ہے کہ اپنے بچے کو اچھی صحبت فراہم کریں، بچپن سے ہی اس کی اچھی تربیت کریں اور اسے صحیح غلط، نیکی و گناہ کی پہچان سکھائیں۔ بچوں کو اچھا گھریلو ماحول فراہم کیا جائے اور گھریلو تشدد سے باز رہا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: فحاشی سے متعلق بیان واپس لیں ورنہ آپ میرے وزیراعظم نہیں، آمنہ الیاس
پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی نوجوان شادی کرنے کی مالی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے روزہ رکھنے کا حکم ہے، جو اس کی جنسی ضرورت کو کم کردے گا۔ کیونکہ زیادہ کھانا اور غیر معیاری خوراک خصوصاً جنک فوڈ بھی ہمارے جذبات میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتی ہے اور ہمارے خیالات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسلام فحاشی پھیلانے والوں کو دردناک عذاب سے بھی خبردار کرتا ہے۔
معاشرے میں اخلاقیات کو فروغ دے کر اور بے حیائی کے راستے بند کرکے تمام اخلاقی جرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔ لیکن لوگ اس کے باوجود بھی زیادتی کے جرائم کا ارتکاب کریں تو اس کیا حل ہو؟
پھر اس کےلیے سزائیں مقرر کی ہیں جو سرعام دی جائیں گی تاکہ ایک کو سزا ہو اور ہزاروں اس سے عبرت پکڑ کر باز رہیں۔ شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کرنے اور غیر شادی شدہ کو 100 دردناک کوڑوں کی سزا ہے۔ بدفعلی، ہم جنسی پرستی جیسے قبیح مجرم کو بلندی سے گراکر پتھر مار مار کر جان سے مار دینے کی سزا ہے۔ یہ ساری سزائیں اس جرم کے خاتمے کےلیے ہی تو ہیں۔
اور یہ سزائیں صرف اسلام نہیں بلکہ قدیم یونانی، یہودی اور مسیحی دستاویزات میں بھی ملتی ہیں۔ یعنی یہ آفاقی قانون ہے۔ جو لوگ تلقین اور نصیحت کے ذریعے جرم سے باز نہیں رہتے انہیں آخرت میں جو سزا ملنی ہے سو ملنی ہے، اس سے پہلے انہیں دنیا میں عبرت ناک سزا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو اس جرم کے آگے بند باندھ سکتا ہے۔
لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے کہ ابلاغ کے تمام ذرائع سے بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ عمران خان نے 100 فیصد سچ ہی تو کہا ہے۔ ابلاغ کے تمام ذرائع سے ملک میں بننے والے یا باہر سے آنے والے فحش مواد کا سیلاب امڈا چلا رہا ہے جو لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے اخلاق کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اسمارٹ فون پر واٹس ایپ یا دیگر ذرائع سے فحش مواد تک رسائی اور اسے دیکھنا نہایت آسان ہوگیا ہے۔
جب اس بارے میں پیرنٹنگ و نفسیات کے ماہر فرحان ظفر سے رائے لی گئی تو انہوں نے بتایا کہ زیادتی کے مجرم دو طرح کے ہیں، ایک جو بچوں کو اور دوسرے جو خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ بچوں کو نشانہ بنانے والے خاموش طبع اور ڈرپوک ہوتے ہیں جبکہ خواتین کو نشانہ بنانے والے طاقت ور اور بدمعاش ٹائپ ہوتے ہیں۔ دونوں پر فحاشی کا الگ الگ اثر ہوتا ہے۔ عموماً یہ لوگ برہنہ فلمیں دیکھتے ہیں جن سے ان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ بچوں کو کوئی چیز دے کر اپنی طرف مائل کیا جاتا ہے اور پھر ایک دن زیادتی کے بعد پہچانے جانے کے ڈر سے قتل کردیا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات و ماہر امراض سینہ جنرل فزیشن ڈاکٹر خالد مشتاق سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مردوں میں testosterone ہارمون ہوتا ہے۔ کوئی چیز دیکھنے یا سننے سے مرد کے دماغ کو سگنل ملتے ہیں، جس کے بعد testosterone دماغ پر غالب آجاتا ہے اور عورت کی طرف کشش پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے زنا کے قریب نہ پھٹکنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کی تخلیق کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ انہوں نے زندگی کس طرح گزارنی ہے، تاکہ وہ ذہنی و جسمانی تکلیف سے محفوظ رہیں۔ مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے اور عورتوں کو اپنی چادر سینوں پر ڈالنے کا حکم دیا اور مردوں سے ایسے لہجے میں بات کرنے سے روکا گیا جس سے ان کے دل میں بیماری پیدا ہو۔
وزیراعظم پر تنقید بھی وہی لوگ کر رہے ہیں جو ذرائع ابلاغ پر غلبہ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا دہرا معیار یہ ہے کہ یہ جنسی جرائم پر خوب شور مچاتے ہیں لیکن جب اس جرم پر سخت سزائیں نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس جرم پر ابھارنے والی چیزوں فحاشی اور بے حیائی پر پابندی لگانے کا کہا جائے تو اس کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے نظریات یورپ اور مغرب سے درآمد کردہ ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ ملک میں زیادتیوں کے اسباب کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں، ان پر سخت سزائیں بھی نہیں لگانا چاہتے اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ زیادتیوں کا خاتمہ ہوجائے۔ تو ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔ درحقیقت جب آپ خدائی قوانین سے منہ موڑتے ہیں تو پھر آپ کے پاس بھٹکنے کے سوا کیا راستہ رہ جاتا ہے۔ یہ دنیا جس خدا نے بنائی ہے جس کو سبھی مذاہب مانتے ہیں، اس دنیا کے بنیادی قوانین میں بھی بیشتر مذاہب میں یکسانیت ہے، اس سے منہ موڑنے سے اس دنیا کو تباہی و بربادی کے سوا کیا ملے گا۔
لہٰذا وزیراعظم عمران خان آپ کی بات حرف بہ حرف سچائی پر مبنی ہے اور اب جنسی زیادتیوں کے خاتمے کےلیے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔