مقدمات کا اندراج کم تو جرائم کم

2013 میں فیصل آباد پولیس نے طریقہ دریافت کرلیا


Kashif Fareed January 11, 2014
2013 میں فیصل آباد پولیس نے طریقہ دریافت کرلیا۔

پولیس کا فیصل آباد ریجن تقریبا 18 ہزار 29 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جس کی آبادی 1 کروڑ 28 لاکھ ہے۔ اس میں سے 71 فی صد علاقہ دیہی اور 29 فی صد شہری ہے۔

ریجن میں کل 13 ہزار 330 پولیس اہل کار اور افسر ہیں۔ پولیس کو انتظامی طور پر 23 سرکلز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہاں 74 تھانے اور21 پولیس چوکیاں ہیں۔ پولیس کا یہ ریجن فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور چنیوٹ کے اضلاع پر مشتمل ہے، فیصل آباد بھی اس کا ایک ضلع ہے۔ فیصل آباد پولیس نے 2013 کی آخری شب تک ایک سال کے دوران 31 ہزار 740 مقدمات درج کیے۔ مقدمات کے اندراج کی اتنی بڑی تعداد سے ضلع کے سماجی اور اقتصادی ماحول کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بہ ظاہر فیصل آبادکے شہریوں کے لیے شاید یہ بات باعث اطمینان ہوکہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 2012 کی نسبت 2013 میں 1078 مقدمات کم درج ہوئے۔ اس کمی کا سطحی مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے۔

در حقیقت جرائم پر قابو پانے میں ناکامی پر پولیس نے ایف آئی آر کے اندراج پر قابو پا لیا۔ ضلع میں سٹریٹ کرائم سے لے کر بوگس چیک، تشدد سے لے کر قتل تک، گم شدگی کی رپورٹ سے لے کر سنگین جرائم تک ہر قسم کے واقعات کی ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار ایس ایچ او سے لے لیا گیا ہے اور تمام اختیارات متعلقہ ٹاؤن کے ایس پی کو دے دئیے گئے ہیں۔ ممکن ہے مقدمات کے میرٹ پر اندراج کے لیے پولیس کے اعلٰی افسر کا یہ فیصلہ درست ہو لیکن ٹاؤن ایس پی عوام کی پہنچ سے اکثر باہر ہی رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایف آئی آر کا اندراج بھی کم ہو رہا ہے۔ یقیناً اس سے بوگس مقدمات کا اندراج کرانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے لیکن ہم من حیث القوم چوں کہ ''بادشاہ لوگ''

ہیں سو حقیقی متاثرین خوار و خجل ہو کر رہ گئے ہیں۔ متاثرین پہلے تھانے جاتے ہیں، وہاں سے انہیں ڈپٹی کے پاس بھیج دیا جاتا ہے اور پھر ڈپٹی صاحب انہیں بڑے صاحب کے پاس بھجوا دیتے ہیں اور بڑے صاحب چوں کہ بڑے صاحب ہیں لہٰذا سیٹ پر ذرا کم کم ہی ٹک پاتے ہیں۔ واقفانِ احوال واقعی کا کہنا ہے کہ جرم پر قابو پانے کے پولیس کے کھوکھلے دعوے کا پردہ جلد چاک ہونے والا ہے۔

سٹریٹ کرائم کا عفریت گذشتہ چار پانچ سال سے فیصل آباد شہر کو بری طرح جبڑے لے چکا ہے۔ شاید ہی کوئی گلی مامون ہو، جوے اور بدکاری کے اڈوں سے لے کر نوسربازی اور موٹر سائیکل چھیننے، چوری کرنے، گھر لوٹنے، موبائل اور نقدی چھننے جیسے دیگر جرائم اکثر شہر کی گلیوں کی نکڑ پر ہوتے ہیں۔ ایسے جرائم پر قابو پانے کے لیے فیصل آباد میں ماضی میں یوسی اسکواڈ سسٹم بنایا گیا تھا، جس کا نام بعد میں محافظ اسکواڈ رکھا گیا اور اب اسے ایگل سکواڈ پکارا جاتا ہے تاہم وہ جو کہا جاتا ہے نام میں کیا رکھا ہے سو مسلسل نام بدلنا بے سود رہا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ہی نام نہاد اسکواڈوں کے بہت سے اہل کار خود ڈکتیی اور چوری کا شغل فرمانے لگ گئے اور جو پٹرول کی نایابی کی وجہ سے اس شغل سے محروم ہیں، وہ اپنے ''گھوڑے'' کسی شجرِ سایہ دار سے باندھے، جنوری کی نرم دھوپ میں ڈھابوں اور ہوٹلوں پر سگریٹ سے دل بہلاتے، ٹھنڈی آہیں بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایگل اسکواڈ میں کام کرنے والے اہل کاروںکی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کا کوئی نظام نہیں۔ اسٹریٹ کرائم روکنے کے لیے ابھی تک کوئی پالیسی وضع نہیں کی جاسکی۔

فیصل آباد کے دیہی علاقوں میں چالیس تھانے ہیں، ان میں بھی جرائم کی شرح چشم بد دور شہر کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ اُدھر دیہی پولیس کی ناکام ہونے کی کوششیں شہر سے بھی زیادہ کام یاب ہیں، وہاں شہر کی نسبت جرائم بھی زیادہ سنگین ہوتے ہیں اور مقدمات کا اندراج وہاں بھی ''صاحب جی'' کی مرضی ہو تو ہوتا ہے، گاؤںکے نمبردار تھانوں کے چودھری ہوتے ہیں۔

پولیس نے جرائم پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ سال ہا سال سے بند پڑا ''رجسٹر نمبر 25'' دوبارہ کھول لیا جائے۔ انگریزی دورکی طرح نمبرداروں کو تھانوں میں کرسی دینے کی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے۔ اس عزت افزائی کے عوض نمبردار اپنے گاؤں میں ٹھیکری پہرہ لگائیں گے۔ ٹھیکری پہرے کا نظام دیہاتیوں کے لیے شاید تحفظ کی ضمانت تو ہو لیکن ثابت یہ ہوا کہ پولیس تمام تر مراعات و اصلاحات کے باوجود اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں ناکام ہے۔

جرائم پر قابو پانے کے لیے پولیس نے کئی مبینہ پولیس مقابلے بھی کیے، جن میں بہت سے نامی گرامی ملزمان اور اشتہاریوں کومبینہ طور پر قتل کیا گیا۔ ان مقابلوں کے نتیجہ میں جرائم کی شرح میں کتنی کمی آئی؟ اس کی تو پولیس ہی کو خبر ہوگی لیکن ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت سے مقابلوں کے مقدمات ایسے ڈھنگ سے درج کیے گئے کہ پولیس مستقبل میں ہونے والی جوڈیشل انکوائری سے بچ سکے۔ یہ پولیس مقابلے حقیقت سے کتنے قریب تر تھے، یہ بتانا تو مشکل ہے لیکن تھانہ تاندلیانوالہ کی حدود کا ایک مقابلہ تو پولیس کے گلے پڑ گیا۔ ہوا یوں کہ فیصل آباد پولیس خطرناک ملزمان کو لے کر جا رہی تھی کہ تاندلیانوالہ کے قریب کار سوار ملزمان نے اپنی گاڑی پولیس کی گاڑی سے ٹکرا دی اور 7 خطرناک ملزم چھڑا کر لے بھاگے۔

پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی، بعد میں افسروں نے یہ وقوعہ دوسرے ضلع کے کھاتے میں ڈال دیا، جس میں پولیس اہل کار بھی زخمی ہوئے تھے، چوتھے روز پولیس کے سربراہ کو اطلاع ملی کہ وہی سات مفرور، چار مسلح ساتھیوں سمیت، تھانہ روڈالہ کے علاقہ میں گھیرے میں آئے ہوئے ہیں، اس پر فیصل آباد ضلع کی ساری نفری اور بکتر بند گاڑیاں تو ایک طرف، ملحقہ اضلاع سے بھی نفری طلب کر لی گئی، رات بھر پولیس نے ہزار ہا گولیاں چلادیں، صبح معلوم پڑا کہ اشتہاریوں کو تو زمین نگل گئی یا آسماں نے اچک لیا البتہ زمین دار کا گنے کا کھیت اپنی تباہی کی الم ناک داستاں سنا رہاتھا۔

2013 کے دوران فیصل آباد میں ہونے والے جرائم کا مختصر سا جائزہ لیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سال پولیس اور مفروروں، رسہ گیروں، اشتہاریوں اور دیگر جرائم پیشہ عناصرکے درمیان ایسا میچ تھا، جس میں پولیس کبھی جیت نہیں پائی، جرائم پیشہ عناصر نے سال بھر پولیس کی رٹ کوچیلنج کیے رکھا۔ ضلع بھرمیں سٹریٹ کرائم سمیت سنگین جرائم کی اتنی زیادہ وارداتیں ریکارڈ کی گئیں جن کا ریکارڈ پولیس کے لئے خود مرتب کرنا بھی مشکل رہا۔

پولیس نے جرائم پر قابو پانے میں ناکامی کے لیے کبھی ایف آئی آرکے اندراج کوکنٹرول کیا تو کبھی مقدمات کے اندراج کے لئے ایس ایچ اوکے اختیارات محدودکر دیے حتی کہ ضلع میں ہونے والے مبینہ جعلی پولیس مقابلے بھی جرم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابوپانے میں ناکام رہے۔ سال بھرکے فیصل آبادمیں مجموعی طور پر ڈکیتی، چوری اور نقب زنی کی 10729 وارداتیں ہوئیں، جن میں شہری 794 کاروں اور 4539 موٹر سائیکلوں سے محروم ہو گئے جب کہ 593 گھروں، 2 بنکوں، 18 جیولرز شاپ اور کئی موبائل فون کی دکانیں بھی لوٹی گئیں۔

ڈاکووں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر 46 افراد کو قتل اور 256 کو زخمی کیا۔ پولیس افسر اپنے اعلیٰ حکام کو کرائم میں کمی کی نوید سناتے رہے کہ ضلع کے چالیس تھانوں کی حدود میںگذشتہ برس کی نسبت کرائم کی شرح میں واضح کمی آئی ہے لیکن بڑھتے ہوئے جرائم پرکئی بار شہریوں اور تاجروں نے احتجاجاً روڈ بلاک بھی کئے۔ سال 2013 میں قتل ڈکتیی کی وارداتوں میں 2012 کی نسبت اضافہ سامنے آیا ہے۔ پولیس افسر کروڑوں روپے پٹرول کی مد میں خرچ کرنے کے باوجود گشت کا نظام موثر نہیں بنا سکے۔

ضلع فیصل آباد میں غیرت، دشمنی اور زمین سمیت دیگر تنازعات کی وجہ سے 460 افرادکو قتل کیا گیا، جن میں 323 مرد اور 137 خواتین شامل ہیں۔ اس سال ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سمیت حادثات میں 299 افراد جن میں 64 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اور باقی 235 مرد شامل ہیں، موت کا شکار ہوگئے۔ 2013 کے دوران پولیس افسر کرپشن، اختیارات سے تجاوز، اشہتاریوں، رسہ گیروں سمیت دیگر جرائم پیشہ افراد سے مبینہ تعلق رکھنے کے الزام میں کئی درجن پولیس ملازمین کو محکمے سے برخواست کر دیا گیا اور درجنوں ملازمین کی تنزلی بھی ہوئی۔

جرائم پر قابو پانے کے رویے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔رویہ پولیس کا ہو یا ملزم کا، جرم پر اکساتا بھی ہے اور روکتا بھی ہے۔ تھوڑا ذکر اگر پولیس افسروں کے رویے کا کریں تو تین چارموٹے موٹے واقعات ہی صورت حال کی تصویرکشی کے لیے کافی ہیں۔ پولیس کے دو ایس پی کچھ عرصہ قبل آپس میں لڑ پڑے یہ لڑائی لفظی تھی یا ہاتھا پائی، بات رویے کی ہے۔ ان ہی افسروں نے اپنے ماتحتوںکے رویے بہترکرنے ہیں تاکہ یہ معاشرے کے رویے درست کریں۔

دوسری کہانی سینٹرل جیل کے باہر بیریئر پر رونما ہوئی، جہاں پولیس اہل کاروں نے ڈیوٹی چیک کرنے کے لیے آنے والے جیل کے افسروں پر تشدد کردیا، موقع پر موجود رینجرز کے اہل کاروں نے بیچ بچاؤ کرایا، آئی جی جیل خانہ جات سمیت اعلیٰ پولیس افسر اور ضلعی انتظامیہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ ابتدائی انکوائری پولیس کے خلاف ہوچکی ہے تاہم مشترکہ انکوائری ٹیم تشکیل دے کر معاملے کا ڈراپ سین تلاش کیا جا رہا ہے۔ پولیس کی بدتمیزی ایسا ہی ایک واقعہ جڑانوالہ روڈ پر بورسٹل جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ پیش آچکا ہے۔

مزید ذکر کریں تو سنی اتحاد کونسل سمیت دیگر کئی مذہبی رہ نما پولیس کی جانب سے برتے جانے والے سلوکے کی وجہ سے احتجاج پر اتر آئے، دیگر جماعتیں پولیس کے رویے سے نالاں ہیں۔ ایک جانب تو پولیس افسروں کا اپنا رویہ قابل اصلاح ہے، دوسری جانب رویے کو ہی جواز بنا کر محکمہ پولیس سے ایسے بہت سے اہلکاروں کو فارغ کیا گیا ہے جنہیں ماضی میں بہت سے محکمانہ کارکردگی سرٹیفکیٹس سے نوازا جا چکا ہے۔ اس صورت حال سے ملازمین کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قانون گدھا گھوڑا ایک برابر ہیں تو چال دکھانے کا فائدہ؟۔

پولیس ترجمان کے مطابق 2013 میں خطرناک ملزموں کے48 گینگ گرفتارکیے گئے، 164 ملزمان کے خلاف 385 مقدمات میں227 مقدمات نئے جب کہ 59 پرانے مقدمات یک سوکئے گئے۔ پولیس نے ملزمان سے تین کروڑ پچاس لاکھ ایک سو پندرہ روپے مالیت کی 7 کاریں، ایک ویگن مزدا، 58 موٹرسائیکل، 88 کوائل تاریں، 17مویشی، 2 ٹرالے، 104 پستول، ایک کلاشنیکوف، 2 ریپیٹر، 3 ریوالور اور دیگر سامان برآمد کیا۔

ضلع پولیس نے ناجائز اسلحہ کے 3030 مقدمات، منشیات کے 3689 مقدمات درج کیے، کئی خطرناک اشتہاریوں کے ساتھ مقابلے بھی ہوئے، جن میں ملزم اپنے انجام کو پہنچے پولیس نے7209 اشتہاری اور 287 عدالتی مفروروں کو بھی گرفتار کیا، جن میں سرکی قیمت رکھنے والے کئی ملزم بھی شامل ہیں۔ ان ملزموں کی گرفتاری کی وجہ سے فیصل آباد میں جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں