اصل ماجرہ کیاہے
ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کبھی آپ نے اس بات پر سوچ بچار کیا ہے کہ ہماری حکومت کے اہم کردار آج کل اپنے دفاتر میں خوش باش ہونے کے بجائے اسپتالوں میں اپنا زیادہ وقت گذارنے پر کیوں مجبور ہیں۔
ہر ایک کے چہرے پر خوف کے سائے کیوں گہرے ہوتے جا رہے ہیں، طاقت و اختیار کے ایوانوں کو پر یشانیوں اور تفکرات نے کیوں اپنے قبضے میں لے رکھا ہے ہر کوئی دوسرے سے کیوں ڈرا اور سہما ہوا ہے اور یہ بھی کہ اگر آپ حکومتی اراکین کے بیانات ملا حظہ فرمائیں تو ان میں سوائے پر یشانیوں، تفکرات اور انجانے خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گا وہ خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی ا س کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
خود ہی خوفزدہ ہیں اور خود ہی خود کو تسلی دے رہے ہیں اگر آپ نے اس بات پر اب تک سو چ بچار نہیں کیا ہے تو پھر ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اصل ماجرہ کیا ہے۔ ان سب کیفیات کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے عملی نفسیات کے بانی پروفیسر ولیم جیمز نے اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جو کچھ ہو چکا ہے اس پر قناعت کرو کیونکہ بدنصیبوں کا خمیازہ برداشت کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بیت چکا ہو اس پر رضامند ہو جائو'' ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے ''انسان غورو فکر کرنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتا ہے'' اگر ہم حقائق معلوم کرنے کے لیے تردد کرتے بھی ہیں تو ایسے جیسے شکاری کتے خرگوش کا پیچھا کرتے ہیں۔
ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کر دیتے ہیں ہمیں صرف ان ہی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ہمارے اعمال حق بجانب ثابت ہو سکیں جو ہماری امیدوں اور آرزئوں پر آسانی کے ساتھ منطبق ہو سکیں اور ہمارے تعصبات اور تنگ نظریات کی تائید کر سکیں۔
آندرے مااور دا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ''ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خواہشوں اور آرزئوں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے بر عکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے'' اب اس کے بعد یہ بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے حکومتی اراکین اتنے طیش اور غصے میں کیوں ہیں کیونکہ آپ نتیجے پر ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہونگے۔
بات بالکل سیدھی سادی سی ہے کہ ان کی ذاتی خواہشات اور آرزئوں کچھ اور ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہیں وہ چاہ کچھ اور رہے ہیں اور ہو کچھ اور رہاہے اور ان کے غصے میں شدت اس لیے بھی آتی جا رہی ہے کہ جو کچھ ان سے ہو چکا ہے اس پر کسی صورت قناعت کرنے پر تیار نہیں ہیں وہ سب کچھ تباہ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
جب سب کچھ انسان کی خواہشوں اور آرزئوں کے خلاف ہو رہا ہوتا ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بات نہیں بن پار ہی ہوتی ہے تو انسان شدید جھنجلاہٹ اور پریشانیوں کے نرغے میں آہی جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں انسان غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے جیسے جیسے اس سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی جاتی ہیں اس کی جھنجلاہٹ اور پر یشانیاں اور بڑھتی ہی جاتی ہیں۔
امریکا کے شہرہ آفاق میو بھائیوں نے اعلان کیا تھا کہ ''ہمارے اسپتالوں کے نصف سے زیادہ بستر اعصابی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن پوسٹ مارٹم کرتے وقت جب کسی طاقتور خورد بین کی مدد سے ان لوگوں کے اعصاب کا معائنہ کیا جاتا ہے تو اکثر حالات میں ان کے اعصاب اتنے ہی صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں جس قدر کسی پہلوان کے۔ ان کے ''اعصابی عوارض'' کی علت ان کے اعصاب کا جسمانی انحطاط نہیں ہوتا بلکہ مایوسی، ناکامی، شکست، ہار، فکر، رنج، غم، خوف اور ڈر کے جذبات ہوتے ہیں''۔
افلاطون کہتاہے ''طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف تو جہ دیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحد ہ سلوک کیا جا سکتا ہے'' پر یشانیوں اور تفکرات کے متعلق ڈاکٹر کارل منینگر نے ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس کا نام ''انسان اپنا دشمن آپ ہے'' وہ اپنی کتاب میں ان حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب آپ مہلک جذبات کو اپنی زندگی پر غالب آنے دیتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے ساتھ کیا دشمنی برت رہے ہوتے ہیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو جذبات آپ کے خلاف کار فرما ہیں آپ ان کا خاتمہ کر ڈالیں تو آپ اس کتاب کو ضرور پڑھ لیں آپ اس بات کو ہمیشہ ضرور یاد رکھیں، جو ولیم جیمز لکھتا ہے کہ ''خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا'' یہ ایک بو کھلا دینے والی اور تقریبا ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خود کشی سے مرتے ہیں کیوں؟ اس کا جواب ہے پریشانیوں اور الجھنیں۔ کیونکہ پر یشانیوں اور الجھنیں قطرہ قطرہ آپ کے اوپر پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خو د کشی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو کوئی اسے واپس نہیں لاسکتا اگر یہ ڈوب رہاہے تو اسے بچایا نہیں جا سکتا۔ ہمیں ماضی کے متعلق پر یشان ہونے کے بجائے مستقبل کے مسائل کے متعلق سو چنے پر اپنا سارا وقت صرف کرنا چاہیے، بصورت دیگر آپ کو اپنا زیادہ وقت اسپتالوں میں ہی گذارنا پڑیگا۔
ہر ایک کے چہرے پر خوف کے سائے کیوں گہرے ہوتے جا رہے ہیں، طاقت و اختیار کے ایوانوں کو پر یشانیوں اور تفکرات نے کیوں اپنے قبضے میں لے رکھا ہے ہر کوئی دوسرے سے کیوں ڈرا اور سہما ہوا ہے اور یہ بھی کہ اگر آپ حکومتی اراکین کے بیانات ملا حظہ فرمائیں تو ان میں سوائے پر یشانیوں، تفکرات اور انجانے خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گا وہ خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی ا س کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
خود ہی خوفزدہ ہیں اور خود ہی خود کو تسلی دے رہے ہیں اگر آپ نے اس بات پر اب تک سو چ بچار نہیں کیا ہے تو پھر ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اصل ماجرہ کیا ہے۔ ان سب کیفیات کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے عملی نفسیات کے بانی پروفیسر ولیم جیمز نے اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جو کچھ ہو چکا ہے اس پر قناعت کرو کیونکہ بدنصیبوں کا خمیازہ برداشت کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بیت چکا ہو اس پر رضامند ہو جائو'' ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے ''انسان غورو فکر کرنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتا ہے'' اگر ہم حقائق معلوم کرنے کے لیے تردد کرتے بھی ہیں تو ایسے جیسے شکاری کتے خرگوش کا پیچھا کرتے ہیں۔
ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کر دیتے ہیں ہمیں صرف ان ہی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ہمارے اعمال حق بجانب ثابت ہو سکیں جو ہماری امیدوں اور آرزئوں پر آسانی کے ساتھ منطبق ہو سکیں اور ہمارے تعصبات اور تنگ نظریات کی تائید کر سکیں۔
آندرے مااور دا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ''ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خواہشوں اور آرزئوں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے بر عکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے'' اب اس کے بعد یہ بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے حکومتی اراکین اتنے طیش اور غصے میں کیوں ہیں کیونکہ آپ نتیجے پر ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہونگے۔
بات بالکل سیدھی سادی سی ہے کہ ان کی ذاتی خواہشات اور آرزئوں کچھ اور ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہیں وہ چاہ کچھ اور رہے ہیں اور ہو کچھ اور رہاہے اور ان کے غصے میں شدت اس لیے بھی آتی جا رہی ہے کہ جو کچھ ان سے ہو چکا ہے اس پر کسی صورت قناعت کرنے پر تیار نہیں ہیں وہ سب کچھ تباہ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
جب سب کچھ انسان کی خواہشوں اور آرزئوں کے خلاف ہو رہا ہوتا ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بات نہیں بن پار ہی ہوتی ہے تو انسان شدید جھنجلاہٹ اور پریشانیوں کے نرغے میں آہی جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں انسان غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے جیسے جیسے اس سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی جاتی ہیں اس کی جھنجلاہٹ اور پر یشانیاں اور بڑھتی ہی جاتی ہیں۔
امریکا کے شہرہ آفاق میو بھائیوں نے اعلان کیا تھا کہ ''ہمارے اسپتالوں کے نصف سے زیادہ بستر اعصابی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن پوسٹ مارٹم کرتے وقت جب کسی طاقتور خورد بین کی مدد سے ان لوگوں کے اعصاب کا معائنہ کیا جاتا ہے تو اکثر حالات میں ان کے اعصاب اتنے ہی صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں جس قدر کسی پہلوان کے۔ ان کے ''اعصابی عوارض'' کی علت ان کے اعصاب کا جسمانی انحطاط نہیں ہوتا بلکہ مایوسی، ناکامی، شکست، ہار، فکر، رنج، غم، خوف اور ڈر کے جذبات ہوتے ہیں''۔
افلاطون کہتاہے ''طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف تو جہ دیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحد ہ سلوک کیا جا سکتا ہے'' پر یشانیوں اور تفکرات کے متعلق ڈاکٹر کارل منینگر نے ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس کا نام ''انسان اپنا دشمن آپ ہے'' وہ اپنی کتاب میں ان حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب آپ مہلک جذبات کو اپنی زندگی پر غالب آنے دیتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے ساتھ کیا دشمنی برت رہے ہوتے ہیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو جذبات آپ کے خلاف کار فرما ہیں آپ ان کا خاتمہ کر ڈالیں تو آپ اس کتاب کو ضرور پڑھ لیں آپ اس بات کو ہمیشہ ضرور یاد رکھیں، جو ولیم جیمز لکھتا ہے کہ ''خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا'' یہ ایک بو کھلا دینے والی اور تقریبا ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خود کشی سے مرتے ہیں کیوں؟ اس کا جواب ہے پریشانیوں اور الجھنیں۔ کیونکہ پر یشانیوں اور الجھنیں قطرہ قطرہ آپ کے اوپر پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خو د کشی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو کوئی اسے واپس نہیں لاسکتا اگر یہ ڈوب رہاہے تو اسے بچایا نہیں جا سکتا۔ ہمیں ماضی کے متعلق پر یشان ہونے کے بجائے مستقبل کے مسائل کے متعلق سو چنے پر اپنا سارا وقت صرف کرنا چاہیے، بصورت دیگر آپ کو اپنا زیادہ وقت اسپتالوں میں ہی گذارنا پڑیگا۔