حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ
آپ نے اپنی زندگی میں سیکڑوں جلسوں سے خطاب کیا، لاکھوں افراد کی اصلاح کی۔
خطیب الامت ، حافظ، الحاج مولانا احتشام الحق تھانوی ان علما حق میں سے تھے جن کا علم و فضل زہد و تقویٰ اور خلوص وللہیت ایک امر مسلمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ اپنے دور کے محدث، مفسر، مدبر، محقق، متکلم اور مایہ ناز خطیب تھے،آپ قصبہ کیرانہ ضلع مظفر نگر کے رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد مولانا ظہور الحق تھا نوی ایک بڑے زمیندار، متقی اور اپنے زمانے کے جید عالم تھے۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے بیعت تھے آپ کی والدہ مولانا اشرف علی تھانوی کی حقیقی بہن تھیں اور بڑی عابدہ زاہد خاتون تھیں۔ آپ اسی دینی علمی گھرانے میں 1915 میں شہر اٹاوہ میں پیدا ہوئے۔ پھر ہوش سنبھالتے ہی اپنے ماموں حکیم الامت تھانوی کی خدمت میں تھانہ بھون آگئے اور دس بارہ سال ہی کی عمر میںہی کی زیرنگرانی قرآن مجید حفظ کیا۔ پھر انھی کے حکم پر مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں داخل ہوئے۔
اور مولانا عبداللطیف اور مولانا محمد ذکریا صاحب کاندھلوی کی خصوصی شفقت و عنایت کا مرکز بنے رہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے مرکز علوم اسلامیہ دارالعلوم تشریف لے گئے اور 1937 میں حدیث و تفسیر، فقہ و کلام، منطق و فلسطہ اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم درجہ اول میں پاس کرکے سند فراغت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا سید حسین احمد مدنی ، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا اعزاز علی امروہیؒ، مفتی اعظم مولانا محمد شفیع دیوبندیؒ اور علامہ محمد ابراہیم بلیادیؒ شامل ہیں۔
دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے الٰہ آباد یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی سے فاضل اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ اپنے اساتذہ اور بزرگوں کے حکم پر دینی و تبلیغی خدمات میں مصروف ہوگئے۔ آپ کی تبلیغی خدمات کا آغاز دہلی کی جامع مسجد سے ہوا جہاں آپ باقاعدہ امامت کے ساتھ ہر جمعہ خطاب دیتے۔ اس میں مرکز کے سرکاری ملازمین کے علاوہ مرکزی اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے ممبران بڑی تعداد میں شریک ہوتے ان ارباب حکومت میں لیاقت علی خان مرحوم، خواجہ ناظم الدین، مولانا ظفر علی خان، مولوی تمیزالدین، سردار عبدالرب نشتر، سر عبدالعلیم غزنوی اور سر عثمان وغیرہ حضرات بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔
آپ نے مولانا اشرف علی تھانوی کی قائم کردہ مجلس دعوت الحق کے پروگرام کے مطابق جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں اور بالخصوص حکومت ہند سے متعلق سرکاری ملازمین اور اعلیٰ حکام میں تبلیغی خدمات انجام دیں۔ پھر شبیر احمد عثمانی کی قائم کردہ جمعیت علما السلام میں شامل ہوگئے جو تحریک پاکستان کے حامی علما پر مشتمل تشکیل کی گئی تھی۔
علامہ شبیر احمد عثمانی ، ظفر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع دیوبندی، مولانا اطہر علی سلہٹی اور دیگر اکابرین کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کے حق میں دورہ فرماتے رہے اور سرحد کا ریفرنڈم کامیاب کروایا۔ پھر 1947 میں قیام پاکستان سے آٹھ روز قبل علامہ عثمانی کی معیت میں کراچی تشریف لائے اور مہاجرین کی آبادکاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک و قوم کی خدمات انجام دیتے رہے، پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سب سے بڑا اور اہم کام اس کے دستور کی ترتیب و تشکیل کا مسئلہ تھا جس کے لیے ان حضرات نے یہ خدمات انجام دی تھیں۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد اس مہم کا آغاز حضرت علامہ عثمانی کی زیر قیادت ہوا اور اس میں سب سے اہم کردار مولانا احتشام الحق تھانوی کے حصے میں آیا، چنانچہ اس مقصد کے لیے مولانا موصوف نے بھارت کا سفر کیا اور منتخب جید علما اور مفکرین میں سے علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، مولانا سید مناظر احسن گیلانی اور ڈاکٹر حمید اللہ کو پاکستان لائے۔
ان حضرات نے علامہ عثمانی کی نگرانی میں اسلامی دستور کے اصول پر ایک دستوری خاکہ تیار کیا جو مرکزی اسمبلی میں قرارداد مقاصد کے نام سے منظور ہوا۔ اس کے علاوہ دوسرا اہم کام دینی تعلیم کی اشاعت کا تھا اور علامہ عثمانی نے پاکستان میں بھی دارالعلوم دیوبند کی طرز پر ایک مرکزی درسگاہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے قیام کی ذمے داری بھی حضرت مولانا تھانوی مرحوم کے سپرد کی گئی۔
مولانا موصوف نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ باحسن وجوہ ان خدمات کو انجام دیا اور حیدر آباد سندھ کے مضافات میں ٹنڈو الٰہ یار کے مقام پر ایک عظیم الشان مرکزی دارالعلوم قائم کیا جس میں اکابر مدرسین کو جمع کیا۔ ہزاروں افراد ملک و بیرون ملک سے یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر دینی خدمات میں مصروف ہیں اس کے علاوہ جیکب لائن کراچی میں ایک مسجد تعمیر کرائی۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی اور دوسرے علاقوں میں متعدد دینی مدرسے اور مکتب قائم کیے، جہاں سے قرآن و حدیث کی آواز بلند ہو رہی ہے۔
ان کی ساری زندگی ملک و ملت اور اسلام کی خدمت میں گزری۔ آپ نے ہر چیلنج کا مقابلہ کیا۔ 1951 میں جب اسلامی دستور کے مسئلے میں ارباب حکومت کی طرف سے علما کو چیلنج دیا گیا کہ اسلامی فرقوں کے درمیان باہم افاق و اتحاد نہیں ہے تو اس نازک موقع پر حضرت مولانا کی ذات گرامی تھی جس نے اپنی جدوجہد اور خداداد صلاحیتوں سے ہر مکتب فکر کے جید علما کو اپنی قیام گاہ پر جمع کیا اور متفقہ طور اسلامی مملکت کے بائیس بنیادی اصول مرتب کرکے حکومت کو پیش کیے۔ مولانا نے آیندہ کے لیے یہ منہ بند کردیا کہ علما میں اتفاق نہیں۔ آپ نے اتفاق و اتحاد کی یہ ایک مثال قائم کردی اور یہ نادر کارنامہ ہمیشہ تاریخ میں یادگار رہے گا۔
آپ نے اپنی زندگی میں سیکڑوں جلسوں سے خطاب کیا، لاکھوں افراد کی اصلاح کی، پاکستان و ہندوستان کے علاوہ ایران، افغانستان، برما، انڈونیشیا، فلپائن، امریکا، برطانیہ، بنگلہ دیش، افریقہ اور سعودی عرب وغیرہ ممالک میں تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے۔ عرصہ تک ریڈیو پاکستان سے درس قرآن دیتے رہے جس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ ملک کے چپے چپے پر آپ کی آواز گونجی مگر کسی سے کوئی ہدیہ یا نذرانہ وصول نہیں کیا۔ آپ کی مسحور کن اور دلکش آواز اور خطابت نے ہزارہا دلوں کو تڑپایا۔
اسی طرح مفتی اعظم مولانا محمد شفیع فرمایا کرتے تھے کہ ''مولانا احتشام الحق کے بعد کسی کی تقریر کی ضرورت نہیں رہتی وہ مجمع پر چھا جاتے ہیں۔''
ایک دفعہ مدرسہ اشرفیہ سکھر کے جلسے میں مولانا احتشام الحق کی تقریر کے بعد منتظمین جلسہ نے برکت کے لیے مفتی اعظم رحمۃ اللہ سے تقریر کے لیے اصرار کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ''کیوں مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگانا چاہتے ہو؟''
بہرحال مولانا موصوف خطابت کے بادشاہ تھے اور اس وقت خطیب اعظم اور خطیب الامت تھے۔ آپ اپنی دوسری صفات کے علاوہ اخلاق و عادات میں اسلاف کا نمونہ تھے۔ زہد و تقویٰ اور علم و فضل کا پہاڑ تھے۔
مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی مہتمم مدرسہ اشرف المدارس کراچی فرماتے ہیں کہ'' مولانا مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی دولت یہ عطا فرمائی تھی کہ حق گوئی میں آپ کے لیے کبھی کوئی امر مانع نہ ہوا آپ جبل استقامت تھے مال و منصب کی پیش کش قریب سے قریب تر تعلق بڑے سے بڑے شہسوار گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی امر بھی آپ پر کبھی شہ بھر بھی کوئی اثر نہ کرسکا۔ ''
آپ نے 11 اپریل 1980 بروز جمعہ وفات پائی۔ لاکھوں عقیدت مندوں نے اپنے محبوب رہنما کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ ہی کی جامع مسجد جیکب لائن کے صحن کے ایک حصے میں تدفین عمل میں آئی۔ دنیائے اسلام کے علما و صلحا اور زعما ملت نے آپ کی وفات کو عالم اسلام کا عظیم نقصان قرار دیا۔