دھبہ
مودی سمجھ رہا ہے کہ اس نے مغرب کو اپنی طرف راغب کرکے بہت بڑا کمال کیا ہے۔
ISLAMABAD:
ایک عرصے سے مغربی ممالک چین کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہیں وہ یا تو اس کی معاشی ترقی سے ہیبت زدہ ہیں یا پھر اس کی بڑھتی ہوئی حربی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ وہ پاکستان کو چین کے قریب دیکھ کر پاکستان کو بھی نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ انھیں چین میں ایغور مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم تو خوب نظر آ رہے ہیں مگر کشمیریوں پر بھارت کی بربریت سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ کسی طرح بھی پیچیدہ نہیں ہے یہ ایک سیدھا سادہ حق خود اختیاری کا مسئلہ ہے خود اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو یہ حق تفویض کیا ہے۔ کشمیریوں کی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے مگر اسے بھارت دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے جو سراسر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
مغربی ممالک چاہیں تو وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے بھارت کو مجبور کرسکتے ہیں مگر وہ بھارت کو چین کے مقابلے میں اپنے لیے ایک ڈھال سمجھ رہے ہیں۔ ان کی اس نادانی کو کیا کہا جائے کہ جو ملک 1962 میں چین سے بری طرح شکست کھا کر اپنی ہزاروں مربع میل زمین چین کے حوالے کر چکا ہو اور ابھی حال میں لداخ کے بھی ہزاروں کلو میٹر علاقے کو چین کے ہاتھوں کھو چکا ہے تو ایسے ملک سے یہ توقع کرنا کہ وہ چین سے دوبدو لڑے گا مغربی ممالک کی سراسر بھول ہے۔
مودی سمجھ رہا ہے کہ اس نے مغرب کو اپنی طرف راغب کرکے بہت بڑا کمال کیا ہے لیکن مودی کی امریکا نوازی نے بھارت کو امریکا کا غلام بنا دیا ہے اور اپنے پرانے سرپرست روس کو کھو دیا ہے اس طرح بھارت کی برسوں پرانی روایتی غیر جانبداری کا بھی جنازہ نکل چکا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت پہلے بھی حقیقی غیر جانبدار ملک نہیں تھا۔
اس وقت مودی کو امریکا نوازی سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اسے کشمیر پر من مانی کرنے کا موقعہ میسر آگیا ہے اس نے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو اپنے آئین کی دفعہ 370 پر شب خون مار کر ختم کردیا ہے اور زبردستی مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اب بہتر سال پرانا ہو چکا ہے اسے اب تک ضرور حل ہو جانا چاہیے تھا مگر اقوام متحدہ مغربی ممالک کے نرغے میں پھنسی ہوئی ہے وہ جس مسئلے کو چاہتے ہیں حل کرا لیتے ہیں۔
انھوں نے بڑی دیدہ دلیری سے مسلم ملک سوڈان کو توڑ کر عیسائی اکثریت والے علاقے کو جنوبی سوڈان کے نام سے ایک نیا ملک بنا دیا۔ اسی طرح عیسائی اکثریت کے علاقے مشرقی تیمور کو مسلم ملک انڈونیشیا کو توڑ کر ایک آزاد ملک بنا دیا ہے مگر فلسطین اور کشمیر کے مسئلے برسوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب ہیں آج تک حل نہیں ہو پائے ہیں،شاید اس لیے کہ ان کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ پھر کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ان کا دشمن چین بھی دلچسپی دکھا رہا ہے لہٰذا لگتا ہے جان بوجھ کر اس مسئلے سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔
چین سے پاکستان کی دوستی معاشی اور حربی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہو رہی ہے مگر جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کا معاملہ ہے وہ لگتا ہے آگے بھی الجھا ہی رہے گا۔ جہاں تک ہماری موجودہ خارجہ پالیسی کا تعلق ہے بعض تجزیہ کاروں کے مطابق صحیح سمت میں جا رہی ہے ان کے مطابق یہ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ روس جیسا ماضی کا ناراض ملک اب پاکستان کے بہت قریب آ گیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا پاکستان کا دورہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
روس کا بکھرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی یہ اس وقت دنیا کی دوسری سپر پاور تھا۔ امریکا بھی جس سے ہر وقت خبردار رہتا تھا مگر افغانستان پر اس کے قبضے نے اس کی عالمی سپر پاور کی حیثیت بھی ختم کردی تھی۔ ویسے روس اس سے پہلے سے بھی پاکستان سے ناراض تھا جس کی وجہ ہماری امریکا نوازی اور امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہمارے کچھ اقدامات تھے۔ روس نے اسی کے نتیجے میں پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا ساتھ دیا تھا۔
روس اگر بھارت کا ساتھ نہ دیتا تو بھارت ہرگز اکیلا پاکستان کو نہیں توڑ سکتا تھا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے روس سے تلخ تعلقات رہے ہیں البتہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت کے نتیجے میں ہم روس کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ پاکستان اسٹیل مل روس نے ہی قائم کی تھی اس کے بعد ہماری طرف سے روس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا مگر روس بدستور بھارت کا سرپرست اور ہمارے لیے صرف ایک پڑوسی کی حیثیت رکھتا رہا۔
بھارت میں جب تک کانگریس حکومت کرتی رہی بھارت کے روس سے اسٹرٹیجک سطح کے تعلقات قائم رہے مگر جب سے مودی نے بھارت کا اقتدار سنبھالا ہے وہ امریکی جال میں پھنس چکا ہے وہ مغرب کے اتنے قریب جا چکا ہے کہ اب روس سے اس کے تعلقات معمولی نوعیت کے ہی رہ گئے ہیں۔ روس اب بھارت کو پہلے جیسی اہمیت نہیں دے رہا ہے اب اس نے پاکستان کو چین کا قریبی دوست ہونے کی وجہ سے اپنے گلے لگا لیا ہے مگر پاکستان اب بھی امریکا کے لیے اہم ہے اس کی وجہ اس کی اہم جغرافیائی لوکیشن ہے۔
امریکا افغان مسئلے کی وجہ سے بھی پاکستان سے تعلقات رکھنے پر مجبور ہے اس طرح اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں توازن ہے جب کہ بھارت یہ توازن کھو چکا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کامیابی سے جاری ہے۔ مودی کے 5 اگست 2019 کے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے فیصلے پر حکومت پاکستان نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔
اس کی پاداش میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارت سے تجارتی تعلقات ختم کردیے تھے اور سفارتی تعلقات کو محدود کردیا تھا ساتھ ہی بھارت پر واضح کردیا تھا کہ جب تک وہ مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت کو بحال نہیں کرتا پاکستان بھارت سے تعلقات استوار نہیں کرے گا۔ تمام پاکستانیوں اور کشمیریوں نے عمران خان کے اس موقف کو سراہا تھا مگر 31 مارچ کو اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیر خزانہ کی سرکردگی میں بھارت سے چینی کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اس حکومتی فیصلے نے تمام پاکستانیوں کو حیران کردیا اور کشمیریوں کو پریشانی میں ڈال دیا۔ اس حکومتی اعلان سے بھارت میں خوشیاں منائی جانے لگیں اور کہا جانے لگا کہ پاکستان نے کشمیر پر بھارت کا موقف تسلیم کرلیا ہے کیونکہ وہ ماضی کو بھلانے کی بات پہلے ہی کہہ چکا ہے مگر شکر ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت سے تجارت کی بحالی کے معاملے کو ختم کردیا گیا۔ اس طرح پاکستان ایک بڑی بنیادی غلطی سے بچ گیا ہے ورنہ ہماری پالیسی پر ہمیشہ ایک سیاہ دھبہ کے طور پر نمایاں رہتا۔
ایک عرصے سے مغربی ممالک چین کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہیں وہ یا تو اس کی معاشی ترقی سے ہیبت زدہ ہیں یا پھر اس کی بڑھتی ہوئی حربی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ وہ پاکستان کو چین کے قریب دیکھ کر پاکستان کو بھی نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ انھیں چین میں ایغور مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم تو خوب نظر آ رہے ہیں مگر کشمیریوں پر بھارت کی بربریت سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ کسی طرح بھی پیچیدہ نہیں ہے یہ ایک سیدھا سادہ حق خود اختیاری کا مسئلہ ہے خود اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو یہ حق تفویض کیا ہے۔ کشمیریوں کی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے مگر اسے بھارت دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے جو سراسر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
مغربی ممالک چاہیں تو وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے بھارت کو مجبور کرسکتے ہیں مگر وہ بھارت کو چین کے مقابلے میں اپنے لیے ایک ڈھال سمجھ رہے ہیں۔ ان کی اس نادانی کو کیا کہا جائے کہ جو ملک 1962 میں چین سے بری طرح شکست کھا کر اپنی ہزاروں مربع میل زمین چین کے حوالے کر چکا ہو اور ابھی حال میں لداخ کے بھی ہزاروں کلو میٹر علاقے کو چین کے ہاتھوں کھو چکا ہے تو ایسے ملک سے یہ توقع کرنا کہ وہ چین سے دوبدو لڑے گا مغربی ممالک کی سراسر بھول ہے۔
مودی سمجھ رہا ہے کہ اس نے مغرب کو اپنی طرف راغب کرکے بہت بڑا کمال کیا ہے لیکن مودی کی امریکا نوازی نے بھارت کو امریکا کا غلام بنا دیا ہے اور اپنے پرانے سرپرست روس کو کھو دیا ہے اس طرح بھارت کی برسوں پرانی روایتی غیر جانبداری کا بھی جنازہ نکل چکا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت پہلے بھی حقیقی غیر جانبدار ملک نہیں تھا۔
اس وقت مودی کو امریکا نوازی سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اسے کشمیر پر من مانی کرنے کا موقعہ میسر آگیا ہے اس نے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو اپنے آئین کی دفعہ 370 پر شب خون مار کر ختم کردیا ہے اور زبردستی مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اب بہتر سال پرانا ہو چکا ہے اسے اب تک ضرور حل ہو جانا چاہیے تھا مگر اقوام متحدہ مغربی ممالک کے نرغے میں پھنسی ہوئی ہے وہ جس مسئلے کو چاہتے ہیں حل کرا لیتے ہیں۔
انھوں نے بڑی دیدہ دلیری سے مسلم ملک سوڈان کو توڑ کر عیسائی اکثریت والے علاقے کو جنوبی سوڈان کے نام سے ایک نیا ملک بنا دیا۔ اسی طرح عیسائی اکثریت کے علاقے مشرقی تیمور کو مسلم ملک انڈونیشیا کو توڑ کر ایک آزاد ملک بنا دیا ہے مگر فلسطین اور کشمیر کے مسئلے برسوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب ہیں آج تک حل نہیں ہو پائے ہیں،شاید اس لیے کہ ان کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ پھر کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ان کا دشمن چین بھی دلچسپی دکھا رہا ہے لہٰذا لگتا ہے جان بوجھ کر اس مسئلے سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔
چین سے پاکستان کی دوستی معاشی اور حربی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہو رہی ہے مگر جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کا معاملہ ہے وہ لگتا ہے آگے بھی الجھا ہی رہے گا۔ جہاں تک ہماری موجودہ خارجہ پالیسی کا تعلق ہے بعض تجزیہ کاروں کے مطابق صحیح سمت میں جا رہی ہے ان کے مطابق یہ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ روس جیسا ماضی کا ناراض ملک اب پاکستان کے بہت قریب آ گیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا پاکستان کا دورہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
روس کا بکھرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی یہ اس وقت دنیا کی دوسری سپر پاور تھا۔ امریکا بھی جس سے ہر وقت خبردار رہتا تھا مگر افغانستان پر اس کے قبضے نے اس کی عالمی سپر پاور کی حیثیت بھی ختم کردی تھی۔ ویسے روس اس سے پہلے سے بھی پاکستان سے ناراض تھا جس کی وجہ ہماری امریکا نوازی اور امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہمارے کچھ اقدامات تھے۔ روس نے اسی کے نتیجے میں پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا ساتھ دیا تھا۔
روس اگر بھارت کا ساتھ نہ دیتا تو بھارت ہرگز اکیلا پاکستان کو نہیں توڑ سکتا تھا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے روس سے تلخ تعلقات رہے ہیں البتہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت کے نتیجے میں ہم روس کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ پاکستان اسٹیل مل روس نے ہی قائم کی تھی اس کے بعد ہماری طرف سے روس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا مگر روس بدستور بھارت کا سرپرست اور ہمارے لیے صرف ایک پڑوسی کی حیثیت رکھتا رہا۔
بھارت میں جب تک کانگریس حکومت کرتی رہی بھارت کے روس سے اسٹرٹیجک سطح کے تعلقات قائم رہے مگر جب سے مودی نے بھارت کا اقتدار سنبھالا ہے وہ امریکی جال میں پھنس چکا ہے وہ مغرب کے اتنے قریب جا چکا ہے کہ اب روس سے اس کے تعلقات معمولی نوعیت کے ہی رہ گئے ہیں۔ روس اب بھارت کو پہلے جیسی اہمیت نہیں دے رہا ہے اب اس نے پاکستان کو چین کا قریبی دوست ہونے کی وجہ سے اپنے گلے لگا لیا ہے مگر پاکستان اب بھی امریکا کے لیے اہم ہے اس کی وجہ اس کی اہم جغرافیائی لوکیشن ہے۔
امریکا افغان مسئلے کی وجہ سے بھی پاکستان سے تعلقات رکھنے پر مجبور ہے اس طرح اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں توازن ہے جب کہ بھارت یہ توازن کھو چکا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کامیابی سے جاری ہے۔ مودی کے 5 اگست 2019 کے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے فیصلے پر حکومت پاکستان نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔
اس کی پاداش میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارت سے تجارتی تعلقات ختم کردیے تھے اور سفارتی تعلقات کو محدود کردیا تھا ساتھ ہی بھارت پر واضح کردیا تھا کہ جب تک وہ مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت کو بحال نہیں کرتا پاکستان بھارت سے تعلقات استوار نہیں کرے گا۔ تمام پاکستانیوں اور کشمیریوں نے عمران خان کے اس موقف کو سراہا تھا مگر 31 مارچ کو اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیر خزانہ کی سرکردگی میں بھارت سے چینی کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اس حکومتی فیصلے نے تمام پاکستانیوں کو حیران کردیا اور کشمیریوں کو پریشانی میں ڈال دیا۔ اس حکومتی اعلان سے بھارت میں خوشیاں منائی جانے لگیں اور کہا جانے لگا کہ پاکستان نے کشمیر پر بھارت کا موقف تسلیم کرلیا ہے کیونکہ وہ ماضی کو بھلانے کی بات پہلے ہی کہہ چکا ہے مگر شکر ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت سے تجارت کی بحالی کے معاملے کو ختم کردیا گیا۔ اس طرح پاکستان ایک بڑی بنیادی غلطی سے بچ گیا ہے ورنہ ہماری پالیسی پر ہمیشہ ایک سیاہ دھبہ کے طور پر نمایاں رہتا۔