گھبرانے کی اجازت
ملک میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد اب تک 15 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔
LONDON:
مہلک وائرس کورونا نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر متاثرہ ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے نتیجتاً عالمی معاشی صورتحال ہر گزرنے والے دن کے ساتھ روبہ زوال ہے۔
کورونا کی تیسری لہر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلی دو لہروں سے زیادہ خطرناک ہے لہٰذا اس سے بچاؤ کے لیے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 29 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی کورونا کی تیسری لہر نے ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور کے پی کے کو بری طرح متاثر کیا ہے جب کہ بلوچستان اور صوبہ سندھ نسبتاً کم متاثر ہوئے ہیں۔
ملک میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد اب تک 15 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں اور ان میں مثبت کیسوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کورونا کی تیسری لہر کے باعث متاثر ہونے والوں کی تعدادپاکستان میں چودہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ ایک دن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سو سے زائد بھی ریکارڈ کی گئی ہے جو یقینا بہت ہی تشویش ناک صورتحال ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے حالیہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق ملک بھر میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک اسکولوں میں تدریس کا سلسلہ معطل کردیا گیا ہے۔ قبل ازیں اس خوف ناک عالمی وبا سے محفوظ رہنے کے لیے ملک بھر میں سیاسی و سماجی تقریبات، جلسے، جلوسوں، شادی ہال بند اور کاروبار کے اوقات کار طے کر دیے گئے ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام سے بار بار اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ وہ کورونا سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال یقینی بنائیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور سینی ٹائزر استعمال کریں غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف عوام الناس پر ان اپیلوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا بلکہ ہمارے خواص بھی کورونا احتیاطی تدابیر کی برسرعام پامالی کے مرتکب ہو رہے ہیں جن میں نصیحتیں کرنے والے اکابرین حکومت بھی شامل ہیں۔ جب ہمارے بڑے قانون کا مذاق بنائیں گے تو عوام سے کیسے توقع رکھیں کہ وہ احتیاط کا دامن تھامے رہیں۔
اسپتال سے لے کر بازار تک اور گھروں و دفتروں سے لے کر کاروباری مراکز تک ہر جگہ عوام اور خواص ہر دو فریق احتیاطی تدابیر کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ کورونا مریضوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب اور کے پی کے میں کورونا کی مخدوش صورتحال کے باعث سندھ کی صوبائی حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب و کے پی کے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹرینوں، بسوں اور ہوائی جہاز سے سندھ میں داخل ہو رہے ہیں، لہٰذا مذکورہ دونوں صوبوں سے سندھ میں آمد و رفت کو روکا جائے، بصورت دیگر سندھ میں بھی پنجاب جیسی مخدوش صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
کورونا سے بچاؤ کے لیے دو اہم کام ازبس ضروری ہیں اول احتیاطی تدابیر پر سختی سے عملدرآمد دوم کورونا سے بچاؤ کی ویکسین زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائی جائے۔ ایک کام یعنی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل پیرا ہونا، عوام کی ذمے داری ہے تو دوسرا کام یعنی ویکسین کی ہر پاکستانی تک بلا تفریق فراہمی حکومت کا فرض ہے۔ کہ شہریوں کی جان و مال و عزت و آبرو کا تحفظ حکومت کا آئینی فرض ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اول تو ویکسی نیشن کا عمل بڑی تاخیر سے شروع کیا گیا۔
دوم چین اور دوسرے ملکوں سے بروقت مطلوبہ تعداد میں ویکسین نہیں منگوائی جا سکی۔ حکومت کو کورونا کی بڑھتی ہوئی اور سنگین صورتحال کی طرف پوری توجہ مرکوز کرتے ہوئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ وزیر اعظم عمران خان جو کہتے ہیں کہ آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ ہے۔ تو یہ قول صرف زبانی جمع خرچ نظر آتا ہے عملاً عوام کی حالت بہت خراب ہے، کورونا کے بعد مہنگائی کے سونامی نے عوام کی زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔
رمضان المبارک کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا کہ روزمرہ استعمال کی اشیا اور فروٹ کے نرخوں میں تیز رفتار اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اتوار کو وزیر اعظم عمران خان نے آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ ہے کے عنوان کے تحت فون کالز پر لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح موجودہ صورتحال کا ذمے دار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیا اور حسب عادت فرمایا کہ ان کی حکومت عوام کو ''ریلیف'' فراہم کرنے اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔
ایک خاتون فون کالر نے دلچسپ انداز میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مہنگائی کم نہیں کرسکتے تو کم ازکم ہمیں گھبرانے کی اجازت تو دے دیں۔ وزیر اعظم بھی اس سوال پر مسکرانے لگے اور فرمایا کہ آپ کو گھبرانے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کہ ہم مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ آپ صبر کریں انشا اللہ ہم مہنگائی پر قابو پا کر دکھائیں گے۔ عوام کو ''تبدیلی'' اور ''ریاست مدینہ'' کی جھلک کا انتظار کرتے کرتے ڈھائی سال گزر گئے بقیہ ڈھائی سال بھی اسی انتظار میں گزر جائیں گے لیکن عوام کو گھبرانے کی اجازت نہیں ملے گی۔
مہلک وائرس کورونا نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر متاثرہ ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے نتیجتاً عالمی معاشی صورتحال ہر گزرنے والے دن کے ساتھ روبہ زوال ہے۔
کورونا کی تیسری لہر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلی دو لہروں سے زیادہ خطرناک ہے لہٰذا اس سے بچاؤ کے لیے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 29 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی کورونا کی تیسری لہر نے ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور کے پی کے کو بری طرح متاثر کیا ہے جب کہ بلوچستان اور صوبہ سندھ نسبتاً کم متاثر ہوئے ہیں۔
ملک میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد اب تک 15 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں اور ان میں مثبت کیسوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کورونا کی تیسری لہر کے باعث متاثر ہونے والوں کی تعدادپاکستان میں چودہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ ایک دن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سو سے زائد بھی ریکارڈ کی گئی ہے جو یقینا بہت ہی تشویش ناک صورتحال ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے حالیہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق ملک بھر میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک اسکولوں میں تدریس کا سلسلہ معطل کردیا گیا ہے۔ قبل ازیں اس خوف ناک عالمی وبا سے محفوظ رہنے کے لیے ملک بھر میں سیاسی و سماجی تقریبات، جلسے، جلوسوں، شادی ہال بند اور کاروبار کے اوقات کار طے کر دیے گئے ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام سے بار بار اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ وہ کورونا سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال یقینی بنائیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور سینی ٹائزر استعمال کریں غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف عوام الناس پر ان اپیلوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا بلکہ ہمارے خواص بھی کورونا احتیاطی تدابیر کی برسرعام پامالی کے مرتکب ہو رہے ہیں جن میں نصیحتیں کرنے والے اکابرین حکومت بھی شامل ہیں۔ جب ہمارے بڑے قانون کا مذاق بنائیں گے تو عوام سے کیسے توقع رکھیں کہ وہ احتیاط کا دامن تھامے رہیں۔
اسپتال سے لے کر بازار تک اور گھروں و دفتروں سے لے کر کاروباری مراکز تک ہر جگہ عوام اور خواص ہر دو فریق احتیاطی تدابیر کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ کورونا مریضوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب اور کے پی کے میں کورونا کی مخدوش صورتحال کے باعث سندھ کی صوبائی حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب و کے پی کے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹرینوں، بسوں اور ہوائی جہاز سے سندھ میں داخل ہو رہے ہیں، لہٰذا مذکورہ دونوں صوبوں سے سندھ میں آمد و رفت کو روکا جائے، بصورت دیگر سندھ میں بھی پنجاب جیسی مخدوش صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
کورونا سے بچاؤ کے لیے دو اہم کام ازبس ضروری ہیں اول احتیاطی تدابیر پر سختی سے عملدرآمد دوم کورونا سے بچاؤ کی ویکسین زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائی جائے۔ ایک کام یعنی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل پیرا ہونا، عوام کی ذمے داری ہے تو دوسرا کام یعنی ویکسین کی ہر پاکستانی تک بلا تفریق فراہمی حکومت کا فرض ہے۔ کہ شہریوں کی جان و مال و عزت و آبرو کا تحفظ حکومت کا آئینی فرض ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اول تو ویکسی نیشن کا عمل بڑی تاخیر سے شروع کیا گیا۔
دوم چین اور دوسرے ملکوں سے بروقت مطلوبہ تعداد میں ویکسین نہیں منگوائی جا سکی۔ حکومت کو کورونا کی بڑھتی ہوئی اور سنگین صورتحال کی طرف پوری توجہ مرکوز کرتے ہوئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ وزیر اعظم عمران خان جو کہتے ہیں کہ آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ ہے۔ تو یہ قول صرف زبانی جمع خرچ نظر آتا ہے عملاً عوام کی حالت بہت خراب ہے، کورونا کے بعد مہنگائی کے سونامی نے عوام کی زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔
رمضان المبارک کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا کہ روزمرہ استعمال کی اشیا اور فروٹ کے نرخوں میں تیز رفتار اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اتوار کو وزیر اعظم عمران خان نے آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ ہے کے عنوان کے تحت فون کالز پر لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح موجودہ صورتحال کا ذمے دار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیا اور حسب عادت فرمایا کہ ان کی حکومت عوام کو ''ریلیف'' فراہم کرنے اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔
ایک خاتون فون کالر نے دلچسپ انداز میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مہنگائی کم نہیں کرسکتے تو کم ازکم ہمیں گھبرانے کی اجازت تو دے دیں۔ وزیر اعظم بھی اس سوال پر مسکرانے لگے اور فرمایا کہ آپ کو گھبرانے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کہ ہم مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ آپ صبر کریں انشا اللہ ہم مہنگائی پر قابو پا کر دکھائیں گے۔ عوام کو ''تبدیلی'' اور ''ریاست مدینہ'' کی جھلک کا انتظار کرتے کرتے ڈھائی سال گزر گئے بقیہ ڈھائی سال بھی اسی انتظار میں گزر جائیں گے لیکن عوام کو گھبرانے کی اجازت نہیں ملے گی۔