غریب کے آنسو

ارباب اختیار عوام کو طفل تسلیاں دینے کے بجائے حقیقی معنوں میں ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جیسے عام آدمی کوریلیف مل سکے۔

fnakvi@yahoo.com

ہمارے ہاں آوے کا آوا تو بگڑا ہی تھا مگر اب جو صورتحال ہے اس کا نام کوئی بھی رکھنے کو تیار نہیں، جدھر دیکھو تبدیلی کے ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ تبدیلی سرکار نے جو کارنامے دکھائے ہیں ان کی وجہ سے وہ کرپٹ زدہ لوگ بھی کچھ مومن، مومن سے لگنے لگے ہیں کہ یہی بھلے تھے ۔

کپتان نے چیخ چیخ کر عوام کو جو خواب دکھائے تھے کاغذ لہرا لہرا کر پچھلوں کے کارنامے گنوائے تھے مگر ہوا کیا عوام کے کچے پکے خوابوں کو بھی چھین لیا اب تو لوگ سونے سے بھی ڈرنے لگے کہ کہیں خواب نظر نہ آجائیں، کوئی تیاری نہیں کسی قسم کی پلاننگ نہیں مگر حکومت کرنے کی ایسی بے تابی کہ اتنی تو کسی کو دلہا بننے کی نہیں ہوگی ،ڈھائی سال گزر گئے مگر آثار یہی کہتے ہیں کہ مزید ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی ہونا ہوانا کچھ نہیں، ایسے ایسے نالائقوں کی فوج ظفر موج جمع کرلی ہے کہ جن کے پاس صلاحیتوں کا فقدان رہا کہ اپنے کیے گئے اچھے کاموں کا بھی دفاع نہ کرسکیں چینی کو روئیں یا گندم کی آہ و زاری کریں، بجلی کے بلوں پر سر پیٹا کریں تو کیا کریں جائیں تو جائیں کہاں؟

پچھلا رمضان کورونا کے باعث گزر گیا، دلوں میں رحم بھی تھا کچھ کورونا نے ڈرا ڈرا کر مار دیا تھا صدقہ خیرات کی بھرمار نے غریبوں کے آنسو پوچھنے کے ساتھ ساتھ مفت خوروں کے گھروں میں بھی پورے سال کا راشن بھر دیا مگر سفید پوش طبقہ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا تھا ٹھنڈا ہے اور امید ہے کہ ٹھنڈا ہی رہے گا کیونکہ اس دو ڈھائی سال میں مہنگائی نے جو چاند چڑھائے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ہر چیز کی قیمت ہفتوں اور دنوں میں بڑھنے کے بجائے منٹوں اور سیکنڈوں میں آسمان کی خبر لا رہی ہے اور اس رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ لگتا ہے آسمان سے بھی آگے بڑھ جائے گی۔

ایک صاحب نے اخبار میں اشتہار دیا کہ ان کی بیٹی کو آیندہ مہنگائی بانو کے نام سے لکھا جائے اور پکارا جائے کیونکہ ان کی بیٹی صاحبہ کا قد نہیں بڑھ رہا تھا تو کسی سیانے کے کہنے پر مہنگائی نام رکھ دیا گیا اور جناب پھر تو شاید عالم چنا کا ریکارڈ بھی ٹوٹ جائے۔ اسی لیے آج کل وہ صاحب کسی اور نام کی تلاش میں ہیں ۔رمضان قریب ہیں مگر قیمتوں کا تعین نہیں ہو سکا سب کو اجازت ہے اپنی مرضی کی قیمت وصول کرے اور یہی وجہ ہے کہ ہر دکان دار کے پاس ایک ہی چیز کی الگ الگ پرائس موجود ہے کوئی پوچھنے والا نہیں آٹا، گھی، چینی جو کچن کی بنیادی ضرورت ہیں وہ ہاتھوں سے نکلے جا رہے ہیں، غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی اب ان بنیادی چیزوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے،

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز


اب تو یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ 50ہزار کمانے والا جو کرایہ کے گھر میں رہتا ہے وہ بھی زکوٰۃ لینے والوں کی صف میں باآسانی شامل ہو گیا ہے صوبائی حکومتیں وفاق پر ملبہ گرا دیتی ہیں اور وفاق صوبوں کو کوستا نظر آتا ہے مگر عوام کی بہتری اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر کمی کے لیے کوئی لائحہ عمل بنانے کو تیار نہیں سوچ سوچ کر رقت طاری ہوتی ہے کہ کیا ملک میں صرف دو طبقے رہ جائیں گے کہ ایک امیر ترین اور دوسرا غریب ترین۔ اب بھی سوچنے کے لیے کچھ مہلت میسر ہے کہ غور کرلیں پلاننگ کرلیں کہ عوام کی دسترس سے کھانا پینا بھی دور ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے لیے کوئی اچھا کام کیا ہوسکتا ہے ہمارے حکمرانوں کے نزدیک تو پناہ گاہیں ہی بہترین حل ہیں جناب!

یہ پناہ گاہیں بھکاری بنا رہی ہیں محنت کش طبقہ کو ختم کر رہی ہیں رمضان ہی کی مثال لے لیں دنیا بھر میں مخصوص تہواروں میں ریلیف دیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں مسلمان ہی خریدار مسلمان ہی دکاندار، مگر پھر بھی یہ حال ہے کہ مسجدیں تو بھر گئیں مگر دل خالی ہوگئے نماز پڑھ کر تھوڑی خیرات دے کر ناجائز ترین منافع کمانے والے مطمئن ہیں کہ لوگوں کے دستر خوان خالی سے خالی تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ایک علاج اس کا بھی چارہ گر کہ ہمیں خیرات میں وہ تسلی چاہیے جس میں محنت کرکے اپنا حق وصول کرکے پیٹ بھر کر کھانا کھایا جاسکے کسی کی محتاجی نہ ہو، ہمیں پناہ گاہ نہیں اپنی آمدنی میں گھر چلانے کا انتظام ہونا چاہیے منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں کو جب تک کڑی سے کڑی سزا نہیں ملے گی یہ سلسلہ دراز رہے گا کیونکہ سزا کس کو ملے گی سارے تو حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ہیں ان لوگوں کی پکڑ کون کرے گا؟ نہ چینی والے پکڑے گئے نہ گندم والے اور نہ ہی گھی والوں کی پکڑ ہوسکی۔ اب تو لگتا ہے کہ یہ سلسلہ دراز سے دراز ہوتا جائے گا اور غریب آدمی کا جینا محال ہوتا جائے گا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ خودکشی کررہے ہیں ، کیسے کیسے ہولناک اور درد انگیز واقعات روزانہ میڈیا میں رپورٹ ہورہے ہیں ، صرف گھر کا واحد کفیل خودکشی نہیں کررہا ،بلکہ وہ اپنے پورے کنبے کو بھی ہلاک کررہا ہے، بطور مسلمان خودکشی کرنا ہمارے دین میں حرام ہے، یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجانا ۔ ذرا ٹھہریے ایک لمحے کو سوچیے ان خودکشیوں کا وبال کس کے سر جارہا ہے ، وہی پالیسی ساز جن سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہورہی ہے ۔

مفت کی کورونا ویکسین ہمیں چین سے ملی ہے، امرا اوروزراء دھڑلے سے یہ ویکسین لگواکراخبارات میں اپنے تصاویر شایع کروائے ہیں، ان ارب اور کھرب پتی افراد سے کوئی سوال پوچھ سکتا ہے کہ آپ تو اتنی مالی حیثیت رکھتے ہیں کہ چند ہزار روپے کی ویکسین خرید کر بھی لگا سکتے ہیں تو پھر کوئی غریبوں کا حق مار رہے ہیں ،یہ ویکسین تو سب سے پہلے غریب متاثرہ مریضوں کو لگنی چاہیے تھی ، لیکن مال مفت دل بے رحم کا چلن ہمارے ملک میں عام ہے ۔حکمران طبقہ ہمیشہ ہی سے سرکاری مال کو اپنا حق سمجھتا رہا ہے ' صرف یہی نہیں جس کو چاہا نواز دیا خاص طور پر اپنی برادری اور حمایتیوں کو تو خوب نوازا گیا اور اس بہتی گنگا میں سب ہی نے خوب ہاتھ دھوئے۔

ارباب اختیار عوام کو طفل تسلیاں دینے کے بجائے حقیقی معنوں میں ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جیسے عام آدمی کو ریلیف مل سکے ، لیکن اس کے لیے ایک دردمنددل بھی چاہیے جوکہ شاید ان کے پاس نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ عوام کے دکھوں کا مداوا کسی کے پاس نہیں ہے ، کوئی جیئے یا مرے حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔
Load Next Story