تہلکہ خیز انکشافات
عمران خان نعرے بازی،سیاسی انتقام اور جذباتیت کو چھوڑکر دانشمندی سے حکومت چلائیں تو نظام میں اصلاح کاراستہ نکل سکتا ھے۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں ایف بی آر کے اصلاحی عمل اور معیشت کو بہتر بنانے میں اپنی ناکامی کا کھلے عام جس طرح اعتراف کیا وہ نہ صرف یہ کہ تہلکہ خیز ہے بلکہ انتہائی پریشان کن بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکمران عمران خان ہو یا کوئی اور چاہے یہاں صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام ۔شریعت کا قانون ھو یا کوئی اور نظام ،کوئی مائی کا لعل اسے بدل نہیں سکتا کیونکہ ہم من حیث القوم اس نظام کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام کی بنیاد جھوٹ ،دھوکھا دہی، چوری، خود غرضی اور غداری پر ہے، اس لیے عام آدمی کی خوشحالی ایک خواب ہے ۔شبر زیدی کا کہنا ہے کہا میں سات انڈسٹریز پہ ٹریک اینڈ ٹریس لگانے کی کوشش میں تھا لیکن ہم ناکام ہو گئے۔میری دوسری کوشش تھی ایف بی آر کو بینکنگ ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو، پاکستان میں بزنس اکاونٹ 4 کروڑ ہیں لیکن ٹیکس میں 1 کروڑ ڈیکلئیر ہیں، ایک کروڑ روپے اکاونٹ میں ہونے پر NTNلگنا چاہیے۔
بجلی کے ساڑھے تین لا کھ انڈسٹریل کمرشل کنکشنز ہیں لیکن سیلز ٹیکس میں 40 ہزار رجسٹرڈ ہیں، میں نے ڈیٹا کے لیے خط لکھا، ڈیٹا نہیں دیا گیا ۔ میں نے ایک اکاونٹ دیکھا جس میں اربوں روپے آ جا رہے ہیں لیکن اس کا NTN کیوں نہیں ہے؟ اسٹیٹ بینک یہ کیوں نہیں کرتا جس کے اکاؤنٹ میں اتنی بڑی رقوم ہوں وہ NTN رکھے۔ لمٹ ایک کروڑ کر لیں، دس کروڑ کر لیں، لیکن نمبر تو ہونا چاہیے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انڈر انوائسنگ تقریبا 8 ارب ڈالر کے قریب تھی، جسے کم کر کے 3 ارب ڈالر کے پاس لایا گیا ہے، عمران خان کی حکومت کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو وہ یہ ہے، اس وجہ سے امپورٹر مجھ سے بہت ناراض ہوئے، میں نے کسٹم کلئیرنس پرائس کو ریٹیل پرائس کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آڑھتی اتنا پاور فل ہے جس کی مرضی وہ قیمت بڑھائے یا کم کرے، مہنگائی کی اصل وجہ صرف آڑھتی ہے، میری آڑھتیوں سے بھی میٹنگ ہوئی تھی، مجھے کہا گیا آپ کے بس کا روگ نہیں۔
پاکستان گوشت کی اتنی بڑی ٹریڈ ہے کہ ایک گوشت والا مجھ سے زیادہ پیسہ کما رہا ہے، لیکن سرکار کو ایک پیسہ نہیں جاتا، پولٹری پہ کتنا پیسہ سرکار کو جاتا ہے؟پولٹری پہ ٹوٹل انکم ٹیکس پورے پاکستان سے تیس چالیس کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں سلک کی ایک بھی ملز نہیں چل رہی، نہ ہی پاکستان سلک امپورٹ کر رہا ہے، تو اندازہ لگائیں پاکستان میں سلک کا کپڑا کہاں سے آ رہا ہے؟ سارا کچھ یہاں اسمگلنگ سے چل رہا ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا مہنگائی ختم کرنے اور معشیت ٹھیک کرنے کا پہلا علاج یہ ہے کہ پانچ ہزار کا نوٹ بند کر دیں۔، بڑے نوٹ نہیں ہونے چاہیں، دوسرا مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنائیں، آڑھتی مڈل مین خودبخود ختم ہو جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ بڑی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط رکھی جائے۔ چاہے اس کی لمٹ پچاس ہزار کے بجائے دو لاکھ کر دیں ۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ لوگ ڈاکومینٹیشن چاہتے ہی نہیں، میں خبر دے رہا ہوں، فرٹیلائزر ڈاکومنٹڈ ہے لیکن کوئی ڈیلر رجسٹرڈ نہیں ہے، شوگر کا کوئی ڈسٹری بیوٹر رجسٹرڈ نہیں ہے۔مجھے بزنس کمیونٹی کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، کوئی ایک فیصد بھی ڈاکومینٹیشن کے لیے انٹرسٹڈ نہیں ہے، وہ ہر وہ کوشش کرتے ہیں جس میں ڈاکومینٹیشن نہیں ہو۔یہ ایشو منظم اور غیرمنظم کا ہے کہ اگر میں کمپنی میں آکے بزنس کروں گا تو ٹیکس ریٹ بھی زیادہ ہوگا ریکوائرمنٹ بھی زیادہ، پریشانی بھی زیادہ۔ انفرادی میں یہ سب نہیں ہوگا۔ یہ پورا مافیا ضیا کے دور سے شروع ہوا اور بعد میں سب حکومتوں نے اس کو پروان چڑھایا ۔
مرزا غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
''حیراں ہوں دل کو روں کے پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں''
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ''تبدیلی سرکار'' اور مقتدر حلقوں کی نمایندہ حکومت میں شبر زیدی صاحب بھی اس نظام میں خون کے آنسو رو کر چلے گئے ہیں ۔ اس پس منظر میں صرف ایک ہی بات خوش آیند ہے کہ اب تک ہماری حکومتیں اور طاقت ور حلقے ہمارے سیاسی معاشی اور اخلاقی نظام پر جو پردے ڈالتے رہے اب وہ چاک ہوگئے ہیں۔ وہ تعفن جسے ڈھانپ رکھا گیا تھا، اب سامنے ہے۔ کینسر کی طرح اب ہماری بیماری پوشیدہ نہیں ہے۔ میری دانست میں ان سب کا علاج ممکن ہے۔اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے لیے دیانت داری اور مصمم ارادے کا ہونا ضروری ہے۔ایسے دور میں جب کہ حکومت اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک پیج پر ہیں۔ قدم آگے بڑھانا مشکل نہ ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی حکومت کو اکثریت حاصل ہے،قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے راہ بھی کھلی ہے۔ دیرکس بات کی ہے ۔
عمران خان کی پالیسیوں سے اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ امر واقع ہے کہ وہ مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں کہ اس نظام کو تبدیل کر سکیں لیکن ڈھائی سال گزرنے کے بعد اب ان کی حالت کچھ ایسی ہے کہ
''اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش۔''
لیکن اس وقت صورتحال یقینی طور پر یہ ضرور ہی کہ اگر عمران خان نعرے بازی،سیاسی انتقام اور جذباتیت کو چھوڑ کر دانشمندی سے حکومت چلائیں تو نظام میں اصلاح کا راستہ نکل سکتا ھے۔تاریخ نے انھیں ایک عظیم موقع عطا کیا ہے وہ تاریخ میں مسیحا کا مقام بھی حاصل کر سکتے ہیں۔بصورت دیگر تاریخ میں ان کا دور ایک کھیل تماشا تصور کیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکمران عمران خان ہو یا کوئی اور چاہے یہاں صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام ۔شریعت کا قانون ھو یا کوئی اور نظام ،کوئی مائی کا لعل اسے بدل نہیں سکتا کیونکہ ہم من حیث القوم اس نظام کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام کی بنیاد جھوٹ ،دھوکھا دہی، چوری، خود غرضی اور غداری پر ہے، اس لیے عام آدمی کی خوشحالی ایک خواب ہے ۔شبر زیدی کا کہنا ہے کہا میں سات انڈسٹریز پہ ٹریک اینڈ ٹریس لگانے کی کوشش میں تھا لیکن ہم ناکام ہو گئے۔میری دوسری کوشش تھی ایف بی آر کو بینکنگ ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو، پاکستان میں بزنس اکاونٹ 4 کروڑ ہیں لیکن ٹیکس میں 1 کروڑ ڈیکلئیر ہیں، ایک کروڑ روپے اکاونٹ میں ہونے پر NTNلگنا چاہیے۔
بجلی کے ساڑھے تین لا کھ انڈسٹریل کمرشل کنکشنز ہیں لیکن سیلز ٹیکس میں 40 ہزار رجسٹرڈ ہیں، میں نے ڈیٹا کے لیے خط لکھا، ڈیٹا نہیں دیا گیا ۔ میں نے ایک اکاونٹ دیکھا جس میں اربوں روپے آ جا رہے ہیں لیکن اس کا NTN کیوں نہیں ہے؟ اسٹیٹ بینک یہ کیوں نہیں کرتا جس کے اکاؤنٹ میں اتنی بڑی رقوم ہوں وہ NTN رکھے۔ لمٹ ایک کروڑ کر لیں، دس کروڑ کر لیں، لیکن نمبر تو ہونا چاہیے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انڈر انوائسنگ تقریبا 8 ارب ڈالر کے قریب تھی، جسے کم کر کے 3 ارب ڈالر کے پاس لایا گیا ہے، عمران خان کی حکومت کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو وہ یہ ہے، اس وجہ سے امپورٹر مجھ سے بہت ناراض ہوئے، میں نے کسٹم کلئیرنس پرائس کو ریٹیل پرائس کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آڑھتی اتنا پاور فل ہے جس کی مرضی وہ قیمت بڑھائے یا کم کرے، مہنگائی کی اصل وجہ صرف آڑھتی ہے، میری آڑھتیوں سے بھی میٹنگ ہوئی تھی، مجھے کہا گیا آپ کے بس کا روگ نہیں۔
پاکستان گوشت کی اتنی بڑی ٹریڈ ہے کہ ایک گوشت والا مجھ سے زیادہ پیسہ کما رہا ہے، لیکن سرکار کو ایک پیسہ نہیں جاتا، پولٹری پہ کتنا پیسہ سرکار کو جاتا ہے؟پولٹری پہ ٹوٹل انکم ٹیکس پورے پاکستان سے تیس چالیس کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں سلک کی ایک بھی ملز نہیں چل رہی، نہ ہی پاکستان سلک امپورٹ کر رہا ہے، تو اندازہ لگائیں پاکستان میں سلک کا کپڑا کہاں سے آ رہا ہے؟ سارا کچھ یہاں اسمگلنگ سے چل رہا ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا مہنگائی ختم کرنے اور معشیت ٹھیک کرنے کا پہلا علاج یہ ہے کہ پانچ ہزار کا نوٹ بند کر دیں۔، بڑے نوٹ نہیں ہونے چاہیں، دوسرا مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنائیں، آڑھتی مڈل مین خودبخود ختم ہو جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ بڑی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط رکھی جائے۔ چاہے اس کی لمٹ پچاس ہزار کے بجائے دو لاکھ کر دیں ۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ لوگ ڈاکومینٹیشن چاہتے ہی نہیں، میں خبر دے رہا ہوں، فرٹیلائزر ڈاکومنٹڈ ہے لیکن کوئی ڈیلر رجسٹرڈ نہیں ہے، شوگر کا کوئی ڈسٹری بیوٹر رجسٹرڈ نہیں ہے۔مجھے بزنس کمیونٹی کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، کوئی ایک فیصد بھی ڈاکومینٹیشن کے لیے انٹرسٹڈ نہیں ہے، وہ ہر وہ کوشش کرتے ہیں جس میں ڈاکومینٹیشن نہیں ہو۔یہ ایشو منظم اور غیرمنظم کا ہے کہ اگر میں کمپنی میں آکے بزنس کروں گا تو ٹیکس ریٹ بھی زیادہ ہوگا ریکوائرمنٹ بھی زیادہ، پریشانی بھی زیادہ۔ انفرادی میں یہ سب نہیں ہوگا۔ یہ پورا مافیا ضیا کے دور سے شروع ہوا اور بعد میں سب حکومتوں نے اس کو پروان چڑھایا ۔
مرزا غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
''حیراں ہوں دل کو روں کے پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں''
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ''تبدیلی سرکار'' اور مقتدر حلقوں کی نمایندہ حکومت میں شبر زیدی صاحب بھی اس نظام میں خون کے آنسو رو کر چلے گئے ہیں ۔ اس پس منظر میں صرف ایک ہی بات خوش آیند ہے کہ اب تک ہماری حکومتیں اور طاقت ور حلقے ہمارے سیاسی معاشی اور اخلاقی نظام پر جو پردے ڈالتے رہے اب وہ چاک ہوگئے ہیں۔ وہ تعفن جسے ڈھانپ رکھا گیا تھا، اب سامنے ہے۔ کینسر کی طرح اب ہماری بیماری پوشیدہ نہیں ہے۔ میری دانست میں ان سب کا علاج ممکن ہے۔اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے لیے دیانت داری اور مصمم ارادے کا ہونا ضروری ہے۔ایسے دور میں جب کہ حکومت اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک پیج پر ہیں۔ قدم آگے بڑھانا مشکل نہ ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی حکومت کو اکثریت حاصل ہے،قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے راہ بھی کھلی ہے۔ دیرکس بات کی ہے ۔
عمران خان کی پالیسیوں سے اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ امر واقع ہے کہ وہ مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں کہ اس نظام کو تبدیل کر سکیں لیکن ڈھائی سال گزرنے کے بعد اب ان کی حالت کچھ ایسی ہے کہ
''اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش۔''
لیکن اس وقت صورتحال یقینی طور پر یہ ضرور ہی کہ اگر عمران خان نعرے بازی،سیاسی انتقام اور جذباتیت کو چھوڑ کر دانشمندی سے حکومت چلائیں تو نظام میں اصلاح کا راستہ نکل سکتا ھے۔تاریخ نے انھیں ایک عظیم موقع عطا کیا ہے وہ تاریخ میں مسیحا کا مقام بھی حاصل کر سکتے ہیں۔بصورت دیگر تاریخ میں ان کا دور ایک کھیل تماشا تصور کیا جائے گا۔