دہشت گردی کے خلاف موثر انٹیلی جنس کی ضرورت

اگرچہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے حملہ آور خود کش بمبار کا پتا لگالیا لیکن دہشتگرد ابھی بھی سرگرم عمل ہیں

چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کیا گیا،150 کلو سے زائد بارودی مواد استعمال ہوا،ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ۔ فوٹو: اے ایف پی

کراچی میں گزشتہ روز دہشت گردوں کے حملے میں شہیدہونیوالے ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری محمداسلم اور ان کے2ساتھیوں کی نماز جنازہ پولیس ہیڈکوارٹر حسن اسکوائر میں ادا کر دی گئی ، بعدازاں چوہدری محمد اسلم اور ان کے ساتھیوں فرحان اور کامران کو مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ آہوں اور سسکیوں میں سپردخاک کردیا گیا، پولیس کے دستے نے شہداء کو سلامی دی ۔ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے والے ایک نڈر پولیس افسر اور ان کے محافظوں کی شہادت نے جہاں ملک میں انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے ریاستی نظام کے خلاف مذموم عزائم کو طشت از بام کیا ہے وہاں دہشت گردی کے ملک گیر نیٹ ورک کی ہلاکت خیزی ، اپنے ہدف کے مستقل تعاقب اور ٹارگٹ تک درست انٹیلی جنس کی روشنی میں غیر معمولی پہنچ اور نیٹ ورک کی ہولناک رینج کے باعث کئی اندیشے اور ممکنہ خطرات سر اٹھاچکے ہیں۔


اگرچہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور انٹیلی جنس ٹیموں نے حملہ آور خود کش بمبار کا پتا لگالیا، ان کے ایک درجن رشتہ داروں کو بھی زیر حراست لے لیا گیا ہے، لیکن دہشتگرد ابھی بھی سرگرم عمل ہیں ،گزشتہ روز مشرف کالونی اور ماڑی پور میں 2 مختلف پولیس مقابلوں کے دوران 4 ملزمان ہلاک ہوگئے ، ملزمان میں سے 3 کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے، مقابلے میں 2پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے،شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں 7 افراد ہلاک ،متعد زخمی ہوگئے، دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے جس کے مطابق دھماکا خیزموادسے بھری پک اپ کو چوہدری اسلم کی گاڑی سے ٹکرایا گیا،حملہ خودکش تھااور150 کلو سے زائد مواد استعمال ہوا ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ٹی وی گفتگو میں کہا کہ چوہدری اسلم پر حملہ کرنیوالے شخص کی نشاندہی ہوگئی ہے، حملہ آور کے خاندانی بیک گراؤنڈ تک پہنچ چکے ہیں، دوسری جانب سینیٹ نے کراچی دھماکے میں شہیدہونیوالے ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم اور ہنگو میں اپنی جان پر کھیل کر اسکول پر خودکش حملہ ناکام بنانے والے طالبعلم اعتزاز حسین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے متفقہ قراردادمنظور کرلی ۔

حیرت ہے کہ لیاری گینگ وار کارندے دندناتے ہوئے اور بے رحمی کے ساتھ قتل و غارت میں مصروف ہیں، یہ وہی مسلح گروپس ہیں جنھوں نے چوہدری اسلم کو کچھ سال پہلے چیل چوک میں 6 روز تک علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ان کا صفایا بھی ضروری ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی شہر میں ایک خوفناک واردات کے ابھی زخم مندمل نہیں ہوتے کہ دوسرے واقعات منی پاکستان کی سماجی اور اعصابی زندگی اور معمولات کو تہہ و بالا کر رکھ دیتے ہیں۔ ارباب اختیار دہشت گردی کے خلاف ہمہ جہتی اسٹرٹیجی سے کام لیں، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور بھی سرگرم عمل ہیں، ان شر پسند قوتوں نے کراچی کو میدان جنگ بنا دیا ہے،اب تساہل کی گنجائش نہیں۔ بہرحال ایک ہولناک واردات میں ملوث دہشت گردوں کا کھوج لگانے میں بلاشبہ سرعت اور دلیرانہ مستعدی کا مظاہرہ کیا گیا ہے مگر تحقیقاتی عمل میں وقوعہ پر حاصل ہونے والے شواہد کو تضادات سے پاک ہونا چاہیے اور اصل خود کش بمبارکے بارے میں ابہام کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے، ایک رپورٹ کے مطابق خود کش بمبار نعیم اﷲ نہیں اس کا بھائی ہے۔اس لیے حکام اپنی تفتیش و تحقیقات کی جارحانہ حکمت عملی کو کراچی تک محدود نہ رکھیں ، یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ جب تک دہشت گردی کے ملک گیر نیٹ ورک اور اس کے آپریشنل بیسز operational basesکو تہس نہس نہیں کیا جاتا ،اس عفریت کی خونریزی اور بربریت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔کراچی سے مہمند ایجنسی تک پھیلے ہوئے اس نیٹ ورک سے ملکی سلامتی کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا۔
Load Next Story