فہم کے دروازے

مشرف صاحب کو جو 9 بیماریاں ہیں ان کی عمر کے 10 افراد میں سے 9 کو ہونگی اور ان میں سے کوئی دوا بھی نہیں لیتے ہوں گے

h.sethi@hotmail.com

صوبہ پنجاب کے عہد گورنری میں جنرل خالد مقبول ہر ماہ پانچ سات دن کسی نہ کسی ضلع کا دورہ کیا کرتے اور مرکزی حکومت کے تحت چلنے والے محکموں مثلاً سوئی ناردرن، واپڈا، ٹیلیفون، نادرا وغیرہ کے دفاتر جا کر ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے اور عوامی شکایات سن کر انھیں حل کرنے کی کوشش کرتے، بھی کبھی لوگوں کو کسی کالج یا اسکول کے ہال میں اکٹھا کر کے ان کے مسائل سنتے اور محکمہ کے سربراہ کی جواب طلبی کرتے۔ ان دوروں میں وہ میڈیا کے نمائندوں کو بھی ہمراہ لے لیتے۔ بیسیوں بار مجھے بھی ساتھ لے گئے جس سے مجھے بھی لوگوں کے مسائل سے آگاہی ہوئی اور محکموں کی وضاحتیں سننے کا موقع ملا۔

ان کے ساتھ آخری دورہ جہاز یا ہیلی کاپٹر کی بجائے موٹر سے صبح ساہیوال جا کر شام لاہور واپسی کا تھا۔ مذکورہ دوروں میں کبھی بھی گورنر صاحب سے سیاسی گفتگو نہ ہوئی۔ آخری دورے میں ہم دونوں کار کی پچھلی سیٹ پر اور اگلی سیٹوں پر ملٹری سیکریٹری اور ڈرائیور بیٹھے ساہیوال سے واپس آ رہے تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے یہ آخری مہینے تھے اور عام انتخابات بالکل قریب تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے دوران گورنر صاحب نے اچانک مجھ سے پوچھا کہ اپنی بہترین کارکردگی کی بنا پر کیا مشرف صاحب کو مزید پانچ سال کے لیے ملک کی صدارت کا حق نہیں پہنچتا۔ انھوں نے ان کے کچھ اچھے کام گن کر بتائے۔

جب گورنر صاحب جنرل مشرف کی خدمات اور کارناموں کا تفصیل سے ذکر کر رہے تھے میں تعظیماً سنتا رہا۔ آخر میں میں نے ان سے عرض کی کہ آپ تاریخ عالم کے ڈکٹیٹروں کو چھوڑ دیں صرف پاکستان کے تین سابق ڈکٹیٹروں کا انجام دیکھ لیں اور مشرف سے قربت کے پیش نظر اگر انھیں قائل کر سکیں کہ وہ نارمل سے ڈیڑھ ٹرم حکومت تو کر چکے اگر وہ اب بھی اعلان کر دیں کہ وہ آنے والے عام انتخابات قطعی فیئر کروا کے اقتدار جیتنے والوں کے حوالے کر کے وردی اتار کر قوم کو سیلوٹ کر کے ریٹائرمنٹ پر چلے جائیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان ہی کا نام مسٹر جناح اور بھٹو کے بعد لیا جاتا رہے گا۔ جناب خالد مقبول میری اس تجویز پر حیران تو ہوئے لیکن خاموش رہے۔ وہ بھلے انسان ہیں، یقیناً میرے اس جواب پر سوچتے تو ہوں گے کہ چھوٹا آدمی تھا لیکن اس کا مشورہ قابل توجہ تھا۔ انھوں نے گورنری کا چارج چھوڑنے سے ایک دن قبل مجھے دوپہر بارہ بجے چائے پر بلا بھیجا چائے کے بعد پوچھا کہ ہمارا طویل ساتھ رہا کیا تمہارے پاس ہماری اکٹھے کوئی تصویر ہے۔ میں نے جواب دیا کیمرہ مینوں کے پاس ضرور ہوں گی۔ میرے پاس کوئی نہیں۔ انھوں نے منتظر کیمرہ مین کو بلایا۔ اس نے ہماری ایک بیٹھے اور ایک کھڑے تصویر بنائی۔ گورنر صاحب نے اسے کہا یہ دونوں تصاویر انلارج کر کے کل ان کے مکان پر دے آنا۔ یہ ان کی وضع داری اور شفقت کی صرف ایک مثال ہے۔

ان دنوں جنرل مشرف پر لگے سنگین غداری کے جرم کا مقدمہ تین رکنی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں پیش ہونے کی بجائے وہ اسپتال میں جا داخل ہوئے ہیں جہاں سے انھیں نو عوارض میں مبتلا ہونے کا میڈیکل سرٹیفکیٹ ملا ہے۔ میں نے ایک ستر سالہ ڈاکٹر سے، جو فارن کوالیفائیڈ پروفیسر ریٹائرڈ ہیں، پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ان نو میں سے آٹھ میں تو وہ خود مبتلا ہیں لیکن ابھی تک میڈیکل پریکٹس کرتے اور خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ مشرف صاحب کو جو نو بیماریاں بتائی گئی ہیں وہ ان کی عمر کے دس افراد میں سے نو کو ہوں گی اور ان میں سے تین یا چار تو ان کے لیے کوئی دوا بھی نہیں لیتے ہوں گے۔ مذکورہ ڈاکٹر نے یہ بات مجھے اپنی میڈیکل پریکٹس کے تجربے کی بنیاد پر بتائی۔

مشرف صاحب پر عائد سنگین جرم کی سماعت تو اعلیٰ عدلیہ کا خصوصی بینچ کر رہا ہے جس کا نتیجہ قانون اور شہادتوں کی بنیاد پر ہو گا لیکن پاکستان اس وقت ایک ایسی حالت جنگ میں ہے جس کی لپیٹ میں معصوم اور پر امن شہری قانون نافذ کرنے اور امن قائم کرنے کے ذمے دار سبھی چلے آ رہے ہیں اور لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ شہر کے کسی حصے میں اچانک دھماکا خیز مواد پھٹتا ہے اور اپنے اصل شکار کے علاوہ لاتعلق افراد کو بھی بھسم کر دیتا ہے۔

کالم کی ان سطور تک پہنچ کر مزید اس موضوع پر لکھنے کے دوران میں نے ٹیلیوژن آن کیا تو جمعرات کے روز ہونے والے اس بم دھماکے کے مناظر اسکرین پر دکھائی دینے لگے جس نے ملک کے اندر اور باہر ہر امن پسند انسان کو آبدیدہ کرنے کے ساتھ رنجیدہ کر دیا ہو گا۔

یہ سانحہ کراچی سی آئی ڈی پولیس کے ایس پی چوہدری اسلم کی بلٹ پروف کار پر خودکش حملہ تھا جس میں ان کے دو ساتھی بھی شہید ہوئے۔ طالبان نے اس واقعے کی ذمے داری فوری طور پر قبول کر لی کیونکہ چوہدری اسلم جس کا چہرہ بھی شیر سے مشابہت رکھتا تھا ایک مدت سے دہشت گردوں کے گروہوں سے نبرد آزما تھا اور جان ہتھیلی پر رکھے ان کا خاتمہ کیے جا رہا تھا۔ وہ بے شمار دھمکیوں اور حملوں سے محفوظ رہ کر اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے تھا تا کہ کراچی دوبارہ امن کا گہوارہ بن جائے۔
جنرل مشرف تو اب عدالت کو جوابدہ ہو گا لیکن انسانی جانوں سے غیر اسلامی اور غیر انسانی سلوک کرنے پر مُصر درندوں کو ٹھکانے لگانے والے کی شہادت کوئی پہلی قربانی نہیں ہے لیکن اب یہیں سے شور محشر اٹھے گا کیونکہ اس شہادت نے ہر امن پسند ملکی اور غیر ملکی انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

حکومتی اور حکومت مخالف اکابرین نے یک زبان ہو کر اسے خود پر حملہ تصور کیا ہے۔ پہلی بار ملک کے ہر طبقہ نے اس بزدلانہ کارروائی اور عظیم شہادت پر بشمول صدر، وزیر اعظم، صوبائی وزراء اعلیٰ اور آرمی چیف نے بے حد رنجیدہ ہو کر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ڈائیلاگ کے حامی عمران خان نے بھی حملے کی بھر پور مذمت کی ہے۔ اگر اب یہ سب ایک پیج پر ہیں تو ان کی آنکھوں اور فہم کے دروازوں کو بھی کھل جانا چاہیے۔ یہ دونوں متفقہ لائحہ عمل طے کر کے اس عذاب سے قوم کو نجات دلانے میں کردار دا کریں کیوں کہ یہ اب ملک کی بقاء کا سوال ہے جب کہ نہ تو عوام نہ ہی ملک میں مزید تاخیر برداشت کرنے کی سکت ہے۔
Load Next Story