نیاز صاحب… ایک سنگ میل
اولاد کی جدائی کا غم اگرچہ عمر کے کسی حصے سے مخصوص اور مشروط نہیں ہوتا۔۔۔
NUERBURGRING:
سیلف میڈ لوگ ہمیشہ میرے پسندیدہ ترین لوگوں میں رہے ہیں کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے مراعات یافتہ لوگ ہوں یا اپنی غربت کو تقدیر سمجھ کر ہتھیار ڈال دینے والے ہارے ہوئے لوگ دونوں ہی کے یہاں آپ کو عظمت انسانی کا وہ روپ کم کم نظر آتا ہے جس سے سیلف میڈ لوگوں کے چہرے روشن اور تابناک ہوتے ہیں۔ ہمارے مرحوم سینئر دوست چوہدری نیاز احمد کا شمار بھی میں اسی منتخب اور مستحسن گروہ میں کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے اشاعتی ادارے کا نام سنگ میل پبلی کیشنز رکھا اور بلاشبہ وہ خود بھی وطن عزیز میں کتابوں کے فروغ کے حوالے سے ایک سنگ میل تھے۔
مجھے یاد ہے بہت سال پہلے ایک گفتگو کے دوران انھوں نے بڑے سرسری انداز میں اپنے سفر حیات بالخصوص اشاعت کے کاروبار میں اپنی آمد اور ترقی کے مختلف مراحل پر کچھ سرسری سی باتیں کی تھیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ 1948ء میں انھوں نے انیس برس کی عمر میں کتابوں کی ایک دُکان پر ایک معمولی کارندے کی شکل میں پہلی نوکری کی تھی۔ حالات کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم بھی مکمل نہ کر سکتے تھے اور بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کی زندگی بھی اپنے جیسے دوسرے مزدوروں کی طرح ساری عمر صبح کو شام سے ملاتے گزر جائے گی لیکن درسی کتابوں سے دوری کے باوجود اللہ نے ان کا رزق جو آگے چل کر فراواں ہوتا چلا گیا کتاب ہی سے وابستہ کر دیا تھا سو اپنی خداداد صلاحیت اور محنت سے انھوں نے بہت جلد اشاعت کے وہ تمام گر سیکھ لیے جن کا تعلق مادی کامیابیوں سے تھا لیکن یہ ان کی منزل نہیں تھی کہ قدرت نے ان کے اندر کتاب کے فروغ کے لیے ایک ایسا ذوق اور معیار بھی ودیعت کر رکھا تھا جو بیک وقت کتاب کے باطنی اور ظاہری حسن پر محیط تھا۔ کتاب کے انتخاب اور اس کی پیش کش کے منفرد انداز نے بہت جلد سنگ میل پبلی کیشنز کو اردو کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے ایک پہچان مہیا کر دی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس ادارے کی طرف سے شایع شدہ ہر کتاب زبانِ حال سے یہ کہتی سنائی دی کہ
دیکھ' اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا
یوں تو منشی نولکشور کے پریس اور پبلشنگ ہاوسٔ سے پہلے بھی تھوڑی بہت اردو کتابیں شایع ہوتی رہتی تھیں لیکن اس ادارے نے اپنے زمانے کے مطابق معیار اور مقدار کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جس نے کتاب سازی کی صنعت کو فروغ اور استحکام بخشا اور پھر یہ سلسلہ تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد بوجوہ بھارت میں اردو کتابوں کی اشاعت میں کمی واقع ہو گئی جس کی وجہ سے طباعتی اعتبار سے بھی ان میں بالعموم وہ معیار قائم نہ ہو سکا جو ہمیں پاکستان کے بیشتر اشاعت گھروں کی مطبوعات میں دکھائی دیتا ہے۔ ستر کی دہائی میں کراچی کے دانیال پبلشرز اور لاہور کے ماوراء نے کتابوں کی پیش کش کے معیار پر خصوصی توجہ دی اور نوے کی دہائی میں جہانگیر بکس نے اپنے مخصوص انداز میں اس روایت کو آگے بڑھایا لیکن اگر زمانی طوالت اور تسلسل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معیار اور مقدار ہر دو حوالوں سے پہلا نمبر سنگ میل ہی کا رہے گا اگرچہ آگے چل کر نیاز صاحب کے جواں مرگ فرزند اعجاز اور ادارے کے موجودہ نگران ان کے دوسرے بیٹے افضال بھی اس کام میں ان کے کا ہاتھ بٹانے لگے لیکن جس محنت' تدبر' انداز اور تسلسل سے ابتدائی تیس برسوں میں یہ ادارہ پھلا پھولا اس کا سارا کریڈٹ صرف اور صرف چوہدری امتیاز احمد کو جاتا ہے۔
نیاز صاحب طبعاً ایک ہنس مکھ اور مہمان نواز انسان تھے۔ لاہور کی حد تک میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاک ٹی ہاؤس کے اچھے دنوں سے قطع نظر صرف سنگ میل کا دفتر ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں اہل قلم بڑی باقاعدگی کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں اٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے تھے۔ وہ ان منتخب لوگوں میں سے تھے جو اپنی محنت پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف خود کبھی آپے سے باہر ہوتے تھے اور نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے دیتے تھے۔ وہ مزاج اور لباس کے اعتبار سے سادگی پسند تھے لیکن اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر بھی کرتے تھے اور ان کے لیے اپنے رب کے احسان مند بھی تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو وہ تمام سہولیات مہیا کیں جن سے وہ خود بوجوہ اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں میں محروم رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ایسے اچھے انداز میں کی کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے بیٹے اور پوتے جدت اور روایت کا ایک خوبصورت امتزاج بن گئے۔ ان کی رحلت کے اس موقع پر مجھے ان کا بڑا بیٹا اعجاز بہت یاد آ رہا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے نیاز صاحب کا عکس لگتا تھا۔
دھیما' ہمیشہ مسکراتا ہوا اور فطری کاروباری سوجھ بوجھ کا حامل۔ اولاد کی جدائی کا غم اگرچہ عمر کے کسی حصے سے مخصوص اور مشروط نہیں ہوتا لیکن جوان اولاد کا اس طرح یک دم ہاتھوں سے نکل جانا بلاشبہ ایک ایسا خوفناک تجربہ ہے جو شاید کسی بھی زبان میں مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بنیادی طور پر محسوس کرنے کی بات ہے۔ نیاز صاحب بظاہر تو اس صدمے کو سہہ گئے تھے لیکن مجھے اب بھی یہی لگتا ہے کہ اعجاز جاتے سمے ان کی زندگی کا ایک ایسا حصہ ساتھ لیتا گیا جس کی کمی کبھی پوری نہ ہو سکی۔ آہستہ آہستہ وہ عملی طور پر دنیا اور کاروبار سے الگ ہوتے چلے گئے۔ بیمار بھی رہنے لگے تھے اور دفتر میں بھی صرف چند گھنٹوں کے لیے آیا کرتے تھے لیکن جتنی دیر بھی وہاں رہتے' محفل جمی رہتی اور وہ کاروباری معاملات میں افضال کی رہنمائی کرتے رہتے۔ اس دوران میں سنگ میل نے اپنا موجودہ نیا شو روم بھی مکمل کر لیا اور یوں ایک دیہاڑی دار مزدور سے کیریئر کا آغاز کرنے والے چوہدری نیاز نے اپنے اس خواب کو مجسم حالت میں بھی دیکھ لیا جو ان کی عمر بھر کی محنت کا ایک ایسا مظہر تھا جو بلاشبہ قابل رشک بھی ہے اور اپنی جگہ پر ایک سنگ میل بھی۔
اشاعت کے میدان میں یوں تو نیاز صاحب کے بے شمار کارنامے قابل ذکر ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا کمال میرے نزدیک یہ ہے کہ آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں وہ کسی یونیورسٹی یا ادارے کی لائبریری ہو یا کسی اردو دوست کا ذاتی ذخیرہ کتب' سب سے زیادہ کتابیں آپ کو سنگ میل پبلی کیشنز ہی کی طبع کردہ ملیں گی۔ انھوں نے کلاسیکی ادب اور برصغیر کے کولونیل دور کے ادب اور دیگر تحریروں کو جس خوب صورتی سے اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیار کے مطابق شایع کیا وہ تو اپنی جگہ پر ایک سنگ میل ہے ہی لیکن موجودہ دور کے اہم ترین لکھنے والوں کے بھی وہ سب سے بڑے ناشر تھے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے ناشر اور مصنّفین کے درمیان موجود تاریخی اور روایتی رنجشوں کو بھی اپنے ادارے کی حد تک ختم کر دیا۔ ناشر عام طور پر علم و ادب کے میدان کا unsung hero ہوتا ہے لیکن جب وہ سنگ میل بن جائے تو صورت حال بدل بھی جاتی ہے اور بلاشبہ چوہدری نیاز احمد مرحوم ایسا ہی ایک سنگ میل تھے۔
سیلف میڈ لوگ ہمیشہ میرے پسندیدہ ترین لوگوں میں رہے ہیں کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے مراعات یافتہ لوگ ہوں یا اپنی غربت کو تقدیر سمجھ کر ہتھیار ڈال دینے والے ہارے ہوئے لوگ دونوں ہی کے یہاں آپ کو عظمت انسانی کا وہ روپ کم کم نظر آتا ہے جس سے سیلف میڈ لوگوں کے چہرے روشن اور تابناک ہوتے ہیں۔ ہمارے مرحوم سینئر دوست چوہدری نیاز احمد کا شمار بھی میں اسی منتخب اور مستحسن گروہ میں کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے اشاعتی ادارے کا نام سنگ میل پبلی کیشنز رکھا اور بلاشبہ وہ خود بھی وطن عزیز میں کتابوں کے فروغ کے حوالے سے ایک سنگ میل تھے۔
مجھے یاد ہے بہت سال پہلے ایک گفتگو کے دوران انھوں نے بڑے سرسری انداز میں اپنے سفر حیات بالخصوص اشاعت کے کاروبار میں اپنی آمد اور ترقی کے مختلف مراحل پر کچھ سرسری سی باتیں کی تھیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ 1948ء میں انھوں نے انیس برس کی عمر میں کتابوں کی ایک دُکان پر ایک معمولی کارندے کی شکل میں پہلی نوکری کی تھی۔ حالات کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم بھی مکمل نہ کر سکتے تھے اور بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کی زندگی بھی اپنے جیسے دوسرے مزدوروں کی طرح ساری عمر صبح کو شام سے ملاتے گزر جائے گی لیکن درسی کتابوں سے دوری کے باوجود اللہ نے ان کا رزق جو آگے چل کر فراواں ہوتا چلا گیا کتاب ہی سے وابستہ کر دیا تھا سو اپنی خداداد صلاحیت اور محنت سے انھوں نے بہت جلد اشاعت کے وہ تمام گر سیکھ لیے جن کا تعلق مادی کامیابیوں سے تھا لیکن یہ ان کی منزل نہیں تھی کہ قدرت نے ان کے اندر کتاب کے فروغ کے لیے ایک ایسا ذوق اور معیار بھی ودیعت کر رکھا تھا جو بیک وقت کتاب کے باطنی اور ظاہری حسن پر محیط تھا۔ کتاب کے انتخاب اور اس کی پیش کش کے منفرد انداز نے بہت جلد سنگ میل پبلی کیشنز کو اردو کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے ایک پہچان مہیا کر دی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس ادارے کی طرف سے شایع شدہ ہر کتاب زبانِ حال سے یہ کہتی سنائی دی کہ
دیکھ' اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا
یوں تو منشی نولکشور کے پریس اور پبلشنگ ہاوسٔ سے پہلے بھی تھوڑی بہت اردو کتابیں شایع ہوتی رہتی تھیں لیکن اس ادارے نے اپنے زمانے کے مطابق معیار اور مقدار کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جس نے کتاب سازی کی صنعت کو فروغ اور استحکام بخشا اور پھر یہ سلسلہ تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد بوجوہ بھارت میں اردو کتابوں کی اشاعت میں کمی واقع ہو گئی جس کی وجہ سے طباعتی اعتبار سے بھی ان میں بالعموم وہ معیار قائم نہ ہو سکا جو ہمیں پاکستان کے بیشتر اشاعت گھروں کی مطبوعات میں دکھائی دیتا ہے۔ ستر کی دہائی میں کراچی کے دانیال پبلشرز اور لاہور کے ماوراء نے کتابوں کی پیش کش کے معیار پر خصوصی توجہ دی اور نوے کی دہائی میں جہانگیر بکس نے اپنے مخصوص انداز میں اس روایت کو آگے بڑھایا لیکن اگر زمانی طوالت اور تسلسل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معیار اور مقدار ہر دو حوالوں سے پہلا نمبر سنگ میل ہی کا رہے گا اگرچہ آگے چل کر نیاز صاحب کے جواں مرگ فرزند اعجاز اور ادارے کے موجودہ نگران ان کے دوسرے بیٹے افضال بھی اس کام میں ان کے کا ہاتھ بٹانے لگے لیکن جس محنت' تدبر' انداز اور تسلسل سے ابتدائی تیس برسوں میں یہ ادارہ پھلا پھولا اس کا سارا کریڈٹ صرف اور صرف چوہدری امتیاز احمد کو جاتا ہے۔
نیاز صاحب طبعاً ایک ہنس مکھ اور مہمان نواز انسان تھے۔ لاہور کی حد تک میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاک ٹی ہاؤس کے اچھے دنوں سے قطع نظر صرف سنگ میل کا دفتر ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں اہل قلم بڑی باقاعدگی کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں اٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے تھے۔ وہ ان منتخب لوگوں میں سے تھے جو اپنی محنت پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف خود کبھی آپے سے باہر ہوتے تھے اور نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے دیتے تھے۔ وہ مزاج اور لباس کے اعتبار سے سادگی پسند تھے لیکن اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر بھی کرتے تھے اور ان کے لیے اپنے رب کے احسان مند بھی تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو وہ تمام سہولیات مہیا کیں جن سے وہ خود بوجوہ اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں میں محروم رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ایسے اچھے انداز میں کی کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے بیٹے اور پوتے جدت اور روایت کا ایک خوبصورت امتزاج بن گئے۔ ان کی رحلت کے اس موقع پر مجھے ان کا بڑا بیٹا اعجاز بہت یاد آ رہا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے نیاز صاحب کا عکس لگتا تھا۔
دھیما' ہمیشہ مسکراتا ہوا اور فطری کاروباری سوجھ بوجھ کا حامل۔ اولاد کی جدائی کا غم اگرچہ عمر کے کسی حصے سے مخصوص اور مشروط نہیں ہوتا لیکن جوان اولاد کا اس طرح یک دم ہاتھوں سے نکل جانا بلاشبہ ایک ایسا خوفناک تجربہ ہے جو شاید کسی بھی زبان میں مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بنیادی طور پر محسوس کرنے کی بات ہے۔ نیاز صاحب بظاہر تو اس صدمے کو سہہ گئے تھے لیکن مجھے اب بھی یہی لگتا ہے کہ اعجاز جاتے سمے ان کی زندگی کا ایک ایسا حصہ ساتھ لیتا گیا جس کی کمی کبھی پوری نہ ہو سکی۔ آہستہ آہستہ وہ عملی طور پر دنیا اور کاروبار سے الگ ہوتے چلے گئے۔ بیمار بھی رہنے لگے تھے اور دفتر میں بھی صرف چند گھنٹوں کے لیے آیا کرتے تھے لیکن جتنی دیر بھی وہاں رہتے' محفل جمی رہتی اور وہ کاروباری معاملات میں افضال کی رہنمائی کرتے رہتے۔ اس دوران میں سنگ میل نے اپنا موجودہ نیا شو روم بھی مکمل کر لیا اور یوں ایک دیہاڑی دار مزدور سے کیریئر کا آغاز کرنے والے چوہدری نیاز نے اپنے اس خواب کو مجسم حالت میں بھی دیکھ لیا جو ان کی عمر بھر کی محنت کا ایک ایسا مظہر تھا جو بلاشبہ قابل رشک بھی ہے اور اپنی جگہ پر ایک سنگ میل بھی۔
اشاعت کے میدان میں یوں تو نیاز صاحب کے بے شمار کارنامے قابل ذکر ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا کمال میرے نزدیک یہ ہے کہ آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں وہ کسی یونیورسٹی یا ادارے کی لائبریری ہو یا کسی اردو دوست کا ذاتی ذخیرہ کتب' سب سے زیادہ کتابیں آپ کو سنگ میل پبلی کیشنز ہی کی طبع کردہ ملیں گی۔ انھوں نے کلاسیکی ادب اور برصغیر کے کولونیل دور کے ادب اور دیگر تحریروں کو جس خوب صورتی سے اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیار کے مطابق شایع کیا وہ تو اپنی جگہ پر ایک سنگ میل ہے ہی لیکن موجودہ دور کے اہم ترین لکھنے والوں کے بھی وہ سب سے بڑے ناشر تھے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے ناشر اور مصنّفین کے درمیان موجود تاریخی اور روایتی رنجشوں کو بھی اپنے ادارے کی حد تک ختم کر دیا۔ ناشر عام طور پر علم و ادب کے میدان کا unsung hero ہوتا ہے لیکن جب وہ سنگ میل بن جائے تو صورت حال بدل بھی جاتی ہے اور بلاشبہ چوہدری نیاز احمد مرحوم ایسا ہی ایک سنگ میل تھے۔