فیضی رحمین کی یاد میں

ہاں! ایک بات کا مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر شہباز شریف سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو یقیناً ’’ایوان رفعت‘‘ زندہ ہو جاتا


Raees Fatima January 12, 2014

MELBOURNE: 29 اکتوبر 1996ء کے روزنامہ ''ڈان'' میں مارجری حسین کے انگریزی مضمون ''فیضی رحمین اور عطیہ بیگم'' کے ترجمے کی چند سطریں ملاحظہ ہوں۔

''حال ہی میں ڈان اخبار نے ایک فوٹو گراف شایع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ قومی سرمائے کے پانچ نمونے۔۔۔۔ فیضی رحمین کی پانچ پینٹنگز۔۔۔۔ صادقین گیلری کے گرد آلود فرش پر دیوار سے ٹکے ہوئے، عناصر کی چیرہ دستی کی زد میں، نہایت بے اعتنائی کے سلوک کا شکار رکھے ہیں۔ پاکستان کی آرٹ کی تاریخ میں کسی آرٹسٹ کے ساتھ اتنی بے توقیری کا سلوک نہیں ہوا، جتنا ممتاز مصور فیضی رحمین کو جھیلنا پڑا۔ اور یہ سلسلہ اب تک ختم نہیں ہوا''۔

فیضی رحمین پونا (انڈیا) میں 1880ء میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے، انھوں نے جے جے اسکول آرٹ بمبئی سے گریجویشن کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے رائل اکیڈمی آف لندن جوائن کیا۔ اس وقت کے پورٹریٹ کے میدان کے نامور مصور جان سنگر سارجنٹ کے اسٹوڈیو سے 1904ء میں وابستہ ہوئے اور وہاں چار سال گزار کر ممتاز اور مشہور مصور بن کر نکلے اور ہندوستان اس وقت لوٹے جب انھیں دہلی کے امپریل سیکریٹریٹ کے مرکزی گنبد کی چھت پر ایک بڑا میورل (دیوار پہ بنایا جانے والا نقش) بنانے کا کام سونپا گیا۔ جہاں انھوں نے مغلیہ دور کے مصوروں کے طرز احساس کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے بڑے بڑے پینل تیار کیے۔ فیضی رحمین کی فنکارانہ مہارت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انھیں اس وقت بکنھگم پیلس سے دعوت نامے آئے کہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ وہاں بھی کریں۔ ان کی تصاویر لندن، پیرس اور فرانس کی آرٹ گیلریوں نے خریدیں اور انھیں وہاں کی زینت بنایا۔ انھیں جارج برنارڈ شا جیسی عظیم شخصیتوں سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ صرف مصور ہی نہیں بلکہ ڈرامہ نگار کی حیثیت سے بھی ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کا لکھا ہوا ایک ایک ڈرامہ Daughter of IND لندن کے اسٹیج پر کھیلا گیا۔ کسی ہندوستانی کا لکھا ہوا یہ پہلا کھیل تھا جس نے خوب داد سمیٹی۔

فیضی رحمین کو عطیہ کی ادب اور آرٹ سے دلچسپی ان کے قریب لے آئی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کو عطیہ کی محبت میں گلے لگا لیا، اس طرح 1912 ممبئی میں دونوں نے شادی کر لی۔ دونوں نے ممبئی میں ایک آرٹ گیلری بنائی جس کا نام ''ایوان رفعت'' رکھا، یہی ان کا گھر بھی تھا، جہاں دونوں میاں بیوی ادب اور آرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے راہ ہموار کرتے۔ ایوان رفعت بمبئی کے فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کے لیے مل بیٹھنے کی جگہ بھی تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی جو وہاں انتہائی پر آسائش زندگی بسر کر رہے تھے، جب قائداعظم کی درخواست پر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آئے اور ان کے ساتھ یہاں جو ناروا سلوک اس وقت کی فوجی حکومت نے کیا اس کا تذکرہ میں پچھلے کالم میں کر چکی ہوں۔ بہرحال دونوں میاں بیوی نے اپنے اپنے فن پارے، نوادرات، علاقائی ملبوسات، ہیرے جواہرات وغیرہ کو یکجا کر کے ''ایوان رفعت'' کراچی میں آرٹ کی خدمت کی ایک نئی داغ بیل ڈالی۔ نئے آرٹسٹوں کی ہمت افزائی کی۔ آج کے اور گزشتہ کئی سال کے کئی نامور مصور فیضی رحمین کے شاگردوں میں شامل تھے۔ اور اس وقت وہ فخریہ کہا کرتے تھے کہ وہ فیضی رحمین سے فن مصوری کے رموز و اسرار سیکھ رہے ہیں۔

کراچی آرٹس کونسل سے برسوں سے وابستہ ایک علمی و ادبی شخصیت اکثر ان دونوں میاں بیوی کا ذکر بڑی محبت سے کرتی پائی جاتی ہے۔ ان ہی سے سنا کہ بین الاقوامی شہرت کے حامل دونوں میاں بیوی اکثر شام کو آرٹس کونسل کی طرف سے ہوتے ہوئے ایلفی (صدر) پر حمید کاشمیری کے بک اسٹال پہ رکتے ہوئے ''المرکز'' تک پیدل آتے اور کافی ہاؤس میں بیٹھ کر ان لوگوں سے باتیں کرتے جو ان سے واقف تھے۔

فیضی رحمین مرتے دم تک عطیہ اور اسلام سے وفادار رہے۔ 2 اکتوبر 1964ء کو ان کی وفات کے بعد عطیہ اکیلی رہ گئیں۔ ایک خاندانی دوست نے ان کی دیکھ بھال کی، کیونکہ ان کی بہن بھی انتقال کر چکی تھیں۔ کراچی میں ان کا کوئی رشتہ دار نہ تھا، دونوں اکیلے ہی بابائے قوم کی درخواست پر پاکستان آ گئے تھے۔ سنا ہے ان کے قریبی دوست اور رشتہ دار ان کے پاکستان جانے کے مخالف تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ فیضی رحمین کے فن پر کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا، بلکہ ایک طرح سے انھیں فراموش کر دیا گیا۔ نہ NAPA نے یاد رکھا نہ کسی اور آرٹ گیلری نے، خدا جانے صادقین گیلری میں امانت اور حفاظت کے طور پر رکھوائی جانے والی بے مثال تصاویر کا کیا حشر ہوا؟ اچھا ہوتا کہ انھیں بھی فیضی رحمین کے ساتھ ہی دفنا دیا جاتا۔ کراچی میں بندر روڈ پر ایک بلڈنگ ہے جس کا نام ڈینسو ہال ہے اور یہ ایک مخیئر پارسی نے بنوائی تھی۔ کراچی کے رہنے والوں نے بہت عرصے تک اس عمارت میں قائم فیضی رحمین آرٹ گیلری کا سیاہ بورڈ لٹکتے دیکھا ہے، پھر نہیں پتہ کہ ان کا وہ سارا کام کہاں گیا، اور کون لے گیا، کیا پتہ وہ نادر تصاویر کہیں کسی آرٹ لور کو مہنگے داموں بیچ دی گئی ہوں، یا کسی جعلی مصور نے ملی بھگت سے انھیں اپنے نام سے منسوب کر کے بہترین مصور کا ایوارڈ حاصل کر لیا ہو۔ یہاں سب ممکن ہے۔ جعلی ڈگری، جعلی ایوارڈ، جعلی ادیب، شاعر، اداکار، ڈرامہ نگار، موسیقار وغیرہ وغیرہ۔ نصراﷲ خاں صاحب کے خاکے کا اقتباس پیش خدمت ہے۔

''انھیں اردو اور فارسی کے بے شمار شعر یاد تھے، وہ انگریزی اور فرانسیسی بہت فراٹے سے بولتی تھیں، ملک کے ممتاز ادیبوں اور علما کی صحبتوں میں انھوں نے بہت کچھ سیکھا، انھیں بات کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ ان کے دل میں کوئی ایسی خواہش نہ تھی جو پوری نہ ہوئی ہو، وہ مصر بھی گئیں، فراعنہ مصر کے زمانے کی تہذیب کی تاریخ کے سلسلے میں بھی ان کا مطالعہ نہایت وسیع تھا''۔ عطیہ فیضی کو راگ راگنیوں کی بھی بڑی پہچان تھی، انھوں نے کلاسیکی موسیقی باقاعدہ سیکھی تھی، استاد امراؤ بندو خاں ان کی اس خوبی پہ حیران تھے، بعض اوقات عطیہ خود زمانے، ماحول اور تہذیبی تاریخ کو سامنے رکھ کر استاد سے ایسی ایسی مشکل بندشیں راگوں میں ڈھلوا کر گلوکاروں سے گواتیں کہ وہ اعتراف کیے بنا نہ رہتے۔

افسوس کہ جس نگار ہوٹل میں انھوں نے دربدر ہونے کے بعد پناہ لی اس کو قومی ورثہ بنانے کے بجائے مال گودام بنا دیا گیا۔ اگر یہ ہوٹل لندن یا پیرس میں ہوتا تو یادگار بن جاتا۔ ہوٹل کی پیشانی پہ درج ہوتا۔۔۔۔ یہاں فیضی رحمین اور عطیہ فیضی نے زندگی کے آخری ایام گزارے۔۔۔۔ لیکن یہاں یہ ممکن نہیں، جب آرٹس کونسل والے انھیں بھول گئے تو نگار ہوٹل تو دور کی بات ہے۔۔۔۔ کاش کوئی فیضی رحمین آرٹ گیلری ہوتی جہاں نئے مصوروں کے کام کی نمائش معمولی کرائے پر ہوتی۔۔۔۔ کاش! آرٹ کے حوالے سے کام کرنے والے نامور لوگ بھی کبھی عطیہ فیضی اور فیضی رحمین کو مصوری اور موسیقی کے حوالے سے یاد کر لیتے۔ مگر وہ ایسا کیوں کریں گے؟ ہاں اگر ان کی اولاد ٹیلی ویژن پہ بڑے عہدوں پہ براجمان ہوتی یا ان کا عمل دخل ایوان سیاست میں ہوتا تب اور بات تھی۔

ہاں! ایک بات کا مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر شہباز شریف سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو یقیناً ''ایوان رفعت'' زندہ ہو جاتا، یا پھر فیضی رحمین اور عطیہ نے لاہور میں زندگی کی آخری سانسیں لی ہوتیں تو ''الحمرا'' آرٹس کونسل لاہور کے عطاء الحق قاسمی یقیناً اب تک اپنی ثقافتی کانفرنسوں میں ان دونوں میاں بیوی کو یاد کر چکے ہوتے۔ لیکن قاسمی صاحب سے یہ بھی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ فن کسی شہر یا صوبے کی قید میں نہیں ہوتا، پرندے، موسیقی، مصوری، ادب، شاعری اور موسم صوبوں اور سرحدوں کی تقسیم سے آزاد ہوتے ہیں۔ کراچی والوں نے انھیں بھلا دیا تو آپ گلے لگا لیجیے، تا کہ اگلی نسلیں یہ نہ کہہ سکیں ۔۔۔۔ کون فیضی رحمین اور کون عطیہ فیضی۔۔۔؟؟

پچھلے کالم پر میم میم مغل صاحب کے میسج کی یہ سطر پڑھیے اور سر دُھنئے!!

''ایک محض مشہور ادیبہ نے گزشتہ دنوں عطیہ فیضی کو فیضی رحمین کے بجائے فیض احمد فیض سے جوڑا تو دل خون کے آنسو رو پڑا''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں