ڈسکہ دنگل اور وفاق پاکستان
ڈسکہ ضمنی انتخاب نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے، وسطی پنجاب کا ووٹر پوری طرح نواز شریف کے سحر کا شکار ہے
نواز شریف پنجاب کے بھٹو بن چکے ہیں۔ ڈسکہ ضمنی انتخاب نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے، وسطی پنجاب کا ووٹر پوری طرح نواز شریف کے سحر کا شکار ہے۔ اب انھیں پنجاب کا ذوالفقار علی بھٹو بھی کہا جا سکتاہے۔ المیہ یہ ہے کہ بھٹو مرحوم کی پوری سیاسی زندگی کرپشن کے الزامات سے پاک رہی جب کہ جناب نواز شریف کرپشن کے مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں، عدالت عظمیٰ نے انھیں تاحیات نااہلی کا سزاوار ٹھہرایاہے۔
گزشتہ ہفتوں میں یہ کالم نگار اسلام آبادی اشرافیہ کی چوپال ''کوہسارمارکیٹ''کے چائے خانوں میں گھنٹوں پرمحیط نشستوں کے دوران اصرار کرتا تھا کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں نوشین افتخار کم از کم 20ہزار ووٹوں کی سبقت لے جائیں گی تویہ تلخ حقیقت ہمارے جہاں دیدہ حکمران دوستوں کے گلے سے نیچے نہیں اترتی تھی کہ وسط پنجاب کی اس ذہن سازی پر دودہائیاں اوراربوں روپے صرف ہوئے ہیں، یہ کام ایک دن میں نہیں ہوا۔رہی سہی کسر کپتان کی ناتجربہ کاری اور ان کی ٹیم نے پوری کردی ہے،گالم گلوچ سیاست نے تحریک انصاف کی نون لیگ پر اخلاقی برتری کا جنازہ نکال دیا گیا۔اب بی بی مریم نواز شریف بڑے دھڑلے سے اعلان کر رہی ہیں،''تمام صوبوں کے ضمنی انتخابات میں حکومت کی پے درپے شکست حکومت پر عوامی عدم اعتماد ہے۔
عوام سے مسترد شدہ حکومت کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں بچا۔''وہ فرما رہی ہیں نواز شریف کا بیانیہ جیت گیا۔ جب بھی منصفانہ الیکشن ہوں گے جیت شیرکی ہوگی۔نواز شریف کی سیاست ختم کرنے والے یاد رکھیں نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے جو عوام کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ اس جعلی حکومت کے دن گنے جاچکے، وہ دن دور نہیں جب اس ملک میں عوام کی حکمرانی ہوگی،سن لو !عوام کیا کہہ رہے ہیں۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ڈرو اپنے انجام سے۔
نوشین افتخار نے ایک لاکھ 10 ہزار 72 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ ان کے مدمقابل علی اسجد ملہی اور دیگر تمام امیدواروں کے مجموعی ووٹ بھی ان کے برابر نہیں پہنچ پائے لیکن بعض ستم ظریف جھانسی کی رانی مریم بی بی کو جیت کی مبارک باد دیتے ہوئے یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستانی عوام نواز شریف کے ساتھ ہیں، تو پھر یہ بھی بتائیں کہ وہ اپنے عوام کو اس حکومت کے ظلم و ستم سے بچانے کے لیے لندن سے کب وطن واپس آئیں گے۔ چہ مگوئیاں تو یہ ہورہی ہیںکہ وہ خود لندن جانا چاہتی ہیں، اگرچہ ہمارے پیر پنجر دعوے کر رہے ہیں کہ میں نواز شریف کو واپس آتے دیکھ رہا ہوں۔
ویسے ڈسکہ دنگل میں اصل جیت تو الیکشن کمیشن کی ہوئی ہے جس نے بہت مشکل حالات میں اپنے وقار کی بحالی کی جنگ لڑ کر جیتی، رینجرز اور پولیس کی مدد سے شفاف انتخاب کرانے کا ناقابل یقین معجزہ کر دکھایا جس پر چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ کی تحسین کی جانی چاہیے۔
ڈسکہ دنگل کا ہمارے جاری معاشی، مالیاتی اور سفارتی بحرانوں سے گہرا تعلق ہے۔آئی ایم ایف اورایف ٹی ایف کے چنگل میں پھنسے پاکستان اور اس کی ہر طرح کی قیادت کوباور کرادیا گیا ہے، دیوالیہ ہونے سے بچنے کا واحد راستہ خودسپردگی ہے، ہمارے احکامات پر عمل درآمد میں ہی بھلائی ہے۔ امریکا سمیت اس کے فوجی اتحادیوں کا ہدف ہمارا ایٹمی پروگرام اوروفاق پاکستان ہے، جسے شدید خدشات لاحق ہوچکے ہیں۔ پاکستان خصوصاً پنجاب میں اب بھارت دشمن نہیں دکھائی دیتا ،کشمیر میں مظالم بھی ہمارا مسئلہ نہیں ہیں ، بھارت کے ساتھ برابری کے تعلقات کو خواب پریشان قراردیاجارہاہے، زمینی حقائق کے نئے سبق پڑھائے جارہے ہیں۔ اسی ذہن سازی کے حوالے سے دو واقعات تاریخ کے جھروکوں سے پیش خدمت ہیں۔
نوازشریف اور نفسیاتی جنگ کا محاذ کے عنوان سے22 مئی, 2018 کو میں نے ایک معاصر میںکالم لکھا تھا، اس میں دو میاں نواز شریف کی سیاست کے بارے میں دو واقعات بیان کیے تھے۔ ایک کے راوی جناب مجید نظامی خود تھے جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ بھارت کے حوالے سے میاں نواز شریف کی پالیسی میں پس پردہ کردار میاں شریف تھے جب کہ دوسرے واقعے میں ایک سقہ راوی نے جناب مجید نظامی کو روایت کیا تھا۔ مستند راوی نے جناب مجید نظامی کے حوالے سے بتایا کہ جن دنوں نواز شریف فیملی سعودی عرب میںسرور پیلس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھی ، وہاں اہم مہمانوں کے سامنے اور گھر میں رسمی اورعمومی گپ شپ کے دوران میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی تھی۔
میرا خیال ہے کہ ان کی اس قسم کی گفتگو اس ذہن سازی کے عمل کا حصہ تھی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری تھا، اس لیے ن لیگ کے حامی میڈیائی دانشوروں کو الزام دینا انصاف نہیں ہے۔نوجوان دانشوروں کی نئی فوج ظفر موج تیار ہوچکی ہے جسے ''ککھ'' علم نہیں ہے کہ پاکستان کن وجوہات کی بنا پر تشکیل پایا تھا۔ متحدہ ہندوستانی قومیت کا جادو اور سحر کیاتھا؟ اگر پنجاب فلسفہ پاکستان کی بنیادی روح سے ناآشنا ہوجاتاہے تو سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں تو شروع سے ہی وفاق گریز قوتیں موجود ہیں، یہ پنجاب ہی ہے جس نے قوتوں کو کبھی سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بنگالی اکثریت میں تھے اور ہم نے ایسے حالات پیدا کردیے تھے کہ جدید تاریخ میں پہلی باراکثریت اقلیت سے الگ ہوگئی تھی۔
وفاق پاکستان کا ایک بااثر طبقہ نئے زمینی حقائق کے سحر کا بری طرح شکار ہوچکا ہے ۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کے نام پر وفاق کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کوبھی خطرات کا احساس نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ بھی اس ذہن سازی کا حصہ رہے ہیں۔
''نروانا فورٹ'' منصوبے کی تیارکردہ فصل اب برگ وبارلارہی ہے جب کہ روایتی دائیں بازو کے دانشور بھی ادنیٰ مفادات کے اسیرہوکر آئین کی سربلندی کے گیت گائے جارہے ہیں حالانکہ انھیں بخوبی احساس ہے کہ آئین مجسم ملک اوروفاق سے ہوتاہے، خاکم بدہن جب ملک ہی رہے یااس کی ہیئت ترکیبی بدل جائے تو آئین کی سربلندی کے ترانے نوحوں میں بدل جائیں گے اورہماری اوقات بھوٹان اور مالدیپ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ بزرگ تجزیہ نگار ظفر ہلالی صرف یہ کہنے پر تنقید کی زد میں ہیںکہ تعلیم کے بغیرجمہوریت زہرہوتی ہے جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑے گا۔ان سے پوچھا جارہاہے کہ 1947سے پہلے قوم میں شرح خواندگی کیا تھی، اس وقت اَن پڑھ قوم نے پاکستان کے حق میں کیسے ووٹ دے دیا تھا؟ الحذر بے لگام جمہوریت ہمیں جوڑنے کے بجائے توڑ کر بکھیر نہ دے ، ہم ایسی بھاری قیمت ادا نہیں کرسکیں گے۔