ریٹائرڈ پولیس افسر 18 برس سے پنشن اور مراعات سے محروم
1961 میں سپاہی بھرتی ہو کر 2003 میں سب انسپکٹر ریٹائر ہوا، حمید گل
''اگر دس ہزار روپے رشوت نہیں دی تو تمہارا وہ حال کریں گے کہ ساری زندگی رؤگے ''یہ الفاظ تھے۔ان اکاؤنٹنٹ اور شیٹ برانچ کے اہلکاروں راجہ اصغر ، صفدر اور عزیز کے جن کے پاس حمید گل اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سروس شیٹ لینے پہنچا۔
ان افسران نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور حمید گل جب 2003 میں ریٹائر ہوا تو آج 2021 میں 18 برس گزرنے کے بعد بھی اپنی پنشن اور مراعات کے لیے رورہا ہے، 78 سالہ حمید گل محکمہ پولیس میں1961 میں بطور سپاہی بھرتی ہوا اور 2003 میں بطور سب انسپکٹر (ایس آئی) ریٹائر ہوا وہ ایئرپورٹ پولیس کوارٹرز میں رہائش پذیر ہیں۔
اپنی رہائش گاہ پر ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے وقت وہ خواجہ اجمیر نگری ہیڈکوارٹرز میں تعینات تھے جب وہ اپنے ریٹائرمنٹ کے کاغذات پورے کرنے کی غرض سے متعلقہ برانچ پہنچے تو وہاں موجود مذکورہ تینوں اہلکاروں نے ان سے 10 ہزار روپے بطور رشوت طلب کیے جس پر انھوں نے انکار کیا۔
حمید گل کا کہنا ہے کہ پوری نوکری جب میں نے ایمانداری سے کی اور کبھی بھی کسی بھی کام کے لیے نہ رشوت دی اور نہ ہی کبھی کسی سے رشوت لی تو پھر اپنی رٹائرمنٹ کے بعد میں کسی کو اور وہ بھی اپنے ہی محکمے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو رشوت کیوں دوں، حمید گل کا کہنا تھا کہ ان پولیس اہلکاروں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور آج تک مجھے پنشن نہیں مل سکی، میں رٹائرمنٹ کے 18 برس بعد بھی پنشن بلکہ دیگر مراعات سے محروم ہوں،انھوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر اور ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ ان کی درخواست کا جائزہ لیں اور انھیں انصاف فراہم کریں۔
پوری سروس کرنے کے باوجود پے سلپ مانگی جا رہی ہے
حمید گل کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے چند برس قبل صوبائی محتسب میں درخواست دی تو تقریباً 4 سال کی طویل جدوجہد کے بعد اب اے جی سندھ میں کیس پہنچ گیا ، اے جی سندھ کی جانب سے ان سے 1961 سے 2003 تک یعنی پوری سروس کے دورانیے کی پے سلپ طلب کرلی گئی ہے حمید گل نے اسے غیرمنطقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اے جی سندھ کا یہ حکم نامہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ اور بالکل غیرمنطقی ہے ، اصولی طور پر تو یہ سارا ریکارڈ محکمے کے پاس ہونا چاہیے محکمے سے طلب کیا جاتا گویا الٹا مجھے ہی کہا جارہا ہے کہ میں محکمے میں اپنی ملازمت ثابت کروں۔
حمید گل کا کہنا تھا کہ 1961 تو کیا بعد کے بھی کئی برس تک پے سلپ نہیں ملتی تھی تو اس وقت کا ریکارڈ میں کہاں سے لاؤں گا ، یہ سراسر زیادتی اور میرے ساتھ ظلم کی آخری حد بھی پار کرنے والی بات ہے میں نے خود بھاگ دوڑ کرکے اپنی سروس بک ڈپلی کیٹ بنوائی اور وہ جمع کرائی لیکن برسوں کی دوڑ دھوپ کا اب یہ صلہ مل رہا ہے کہ پہلی تنخواہ سے لے کر آخری تنخواہ تک کی پے سلپ طلب کرلی گئی ہیں۔
ان افسران نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور حمید گل جب 2003 میں ریٹائر ہوا تو آج 2021 میں 18 برس گزرنے کے بعد بھی اپنی پنشن اور مراعات کے لیے رورہا ہے، 78 سالہ حمید گل محکمہ پولیس میں1961 میں بطور سپاہی بھرتی ہوا اور 2003 میں بطور سب انسپکٹر (ایس آئی) ریٹائر ہوا وہ ایئرپورٹ پولیس کوارٹرز میں رہائش پذیر ہیں۔
اپنی رہائش گاہ پر ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے وقت وہ خواجہ اجمیر نگری ہیڈکوارٹرز میں تعینات تھے جب وہ اپنے ریٹائرمنٹ کے کاغذات پورے کرنے کی غرض سے متعلقہ برانچ پہنچے تو وہاں موجود مذکورہ تینوں اہلکاروں نے ان سے 10 ہزار روپے بطور رشوت طلب کیے جس پر انھوں نے انکار کیا۔
حمید گل کا کہنا ہے کہ پوری نوکری جب میں نے ایمانداری سے کی اور کبھی بھی کسی بھی کام کے لیے نہ رشوت دی اور نہ ہی کبھی کسی سے رشوت لی تو پھر اپنی رٹائرمنٹ کے بعد میں کسی کو اور وہ بھی اپنے ہی محکمے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو رشوت کیوں دوں، حمید گل کا کہنا تھا کہ ان پولیس اہلکاروں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور آج تک مجھے پنشن نہیں مل سکی، میں رٹائرمنٹ کے 18 برس بعد بھی پنشن بلکہ دیگر مراعات سے محروم ہوں،انھوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر اور ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ ان کی درخواست کا جائزہ لیں اور انھیں انصاف فراہم کریں۔
پوری سروس کرنے کے باوجود پے سلپ مانگی جا رہی ہے
حمید گل کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے چند برس قبل صوبائی محتسب میں درخواست دی تو تقریباً 4 سال کی طویل جدوجہد کے بعد اب اے جی سندھ میں کیس پہنچ گیا ، اے جی سندھ کی جانب سے ان سے 1961 سے 2003 تک یعنی پوری سروس کے دورانیے کی پے سلپ طلب کرلی گئی ہے حمید گل نے اسے غیرمنطقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اے جی سندھ کا یہ حکم نامہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ اور بالکل غیرمنطقی ہے ، اصولی طور پر تو یہ سارا ریکارڈ محکمے کے پاس ہونا چاہیے محکمے سے طلب کیا جاتا گویا الٹا مجھے ہی کہا جارہا ہے کہ میں محکمے میں اپنی ملازمت ثابت کروں۔
حمید گل کا کہنا تھا کہ 1961 تو کیا بعد کے بھی کئی برس تک پے سلپ نہیں ملتی تھی تو اس وقت کا ریکارڈ میں کہاں سے لاؤں گا ، یہ سراسر زیادتی اور میرے ساتھ ظلم کی آخری حد بھی پار کرنے والی بات ہے میں نے خود بھاگ دوڑ کرکے اپنی سروس بک ڈپلی کیٹ بنوائی اور وہ جمع کرائی لیکن برسوں کی دوڑ دھوپ کا اب یہ صلہ مل رہا ہے کہ پہلی تنخواہ سے لے کر آخری تنخواہ تک کی پے سلپ طلب کرلی گئی ہیں۔