جمہوریت پر یقین
منصفانہ انتخابات کا رواج بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پڑ ہی نہیں سکا، لیکن نظام اگر چلتا رہے تو ایک دن یہ ضرور ممکن ہوگا
1950میں کیے گئے دورہ امریکا کے دوران پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان نے مختلف مقامات پر کئی تقاریر کی تھیں۔ کنساس یونیورسٹی کی جانب سے اعزازی ڈگری دیے جانے کے موقع پر اپنی تقریر میں لیاقت علی خان نے فرمایا کہ ''پاکستان ایک نئی ریاست ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ ایک نئی جمہوریت ہے، ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب آپ کا ملک امریکا جہاں آج شخصی آزادی اور جمہوریت کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہوچکی ہیں ایک نوزائیدہ جمہوری ملک تھا اور جس طرح شخصی جدوجہد اور خود مختاری پر یقین رکھتے ہوئے آپ کے ملک نے جمہوریت مضبوطی سے قائم کی ہے بالکل اسی طرح ہم بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ملک پاکستان بھی جمہوریت کے راستے پر چلتے ہوئے اور اخلاقی اقدار پر یقین رکھتے ہوئے ایک پرامن اور مستحکم جمہوری ریاست کے طور پر سامنے آئے گا، اس ضمن میں ہم دنیا کی امن دوست قوموں سے تعاون کرتے رہیں گے اور انسانیت کے تحفظ اور مسرت کے لیے ہم اپنے عوام کی شخصی آزادی اور خود مختاری کو قائم رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔'' لیاقت علی خان اور قائداعظم محمد علی جناح دونوں فلسفہ جمہوریت پر کامل یقین رکھتے تھے اور پاکستان میں بھی ''خالص'' جمہوری اقدار ہی کے فروغ کے لیے کوشاں تھے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل قائم نہ ہوسکا جس کی وجہ سے رجعت پرستوں کو ''نظریاتی کفیوژن'' پیدا کرنے کا موقع مل گیا۔ جمہوریت کے نظام اور اس کی عالمگیر اقدار میں رجعت پرستوں نے غیر جمہوری عقائد کی آمیزش کرکے جمہوری نظریات کو غیر خالص بنا دیا۔ پاکستان میں آئین اور انتخابی عمل کی اہمیت کو ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ جمہوری قوتوں کو میدان سے باہر رکھنے کے لیے منظم انداز میں ان کے خلاف لسانی اور مذہبی پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کرپشن کے خاتمے کے لیے بے انتہا آواز اٹھائی گئی ہے لیکن پاکستان کو کرپشن سے نجات حاصل ہونے کے بجائے اس میں بے شمار اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نظام میں کی جانے والی کرپشن کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، جمہوریت میں عقائد کی ملاوٹ کو کرپشن گردانا ہی نہیں گیا۔ جمہوری سیاست کے خاتمے کے لیے تو کرپشن کارڈ کھیلا جاتا رہا لیکن جمہوریت کے عالمگیر نظریات میں کی جانے والی کرپشن کے خلاف اتنی شدت سے آہ و زاری نہیں کی گئی۔ شخصی آزادی اور خود مختاری پر یقین رکھنے کا جو عزم لیاقت علی خان نے اپنی تقاریر میں ظاہر کیا تھا وہ صرف جمہوریت کے نظام کے ذریعے ہی قائم رکھا جاسکتا ہے۔ جمہوریت ہی وہ واحد نظام ہے جسے دنیا کی اکثریت نے قبول کیا ہے۔ اگر کوئی نظام بلا جبر و اکراہ نافذ کیا جائے، اس میں ریاست کے تمام انسانوں کو شخصی آزادی اور خودمختاری حاصل ہو، تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو آزادی، تحریر و تقریر دی جائے اور تمام انسان منصفانہ طور پر آزاد حق رائے دہی رکھتے ہوں تو ایسے نظام کی حمایت لازماً کی جانی چاہیے۔
پاکستان کے سیاست دانوں، دانشوروں، قلم کاروں کی سب سے بڑی ذمے داری یہی بنتی ہے کہ وہ جمہوریت کے تسلسل کی حمایت میں مسلسل ابلاغ کریں تاکہ پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں انتخابی عمل، آئین اور پارلیمان پر اعتماد و یقین راسخ ہوجائے۔ ہمارے ملک میں آج بھی بعض سیاست دان، کالم نگار اور دانشور جمہوریت کو فیوڈل نظام کے نام سے تعبیر کرکے یہ تاثر قائم کرنے میں مصروف ہیں کہ عوام کو جمہوریت کے نام پر دھوکا دیا جارہا ہے، کیوںکہ پارلیمان میں اکثریت تو فیوڈلز کی ہے اور اسے عوامی نظام کا نام دے کر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ یقیناً پاکستان کی سیاست میں فیوڈلز نمایاں ہیں۔ ایوانوں میں بھی ان کی اکثریت موجود ہے لیکن جمہوریت کا تسلسل ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے سے افراد نکل کر ایوانوں میں آسکتے ہیں۔ دور حاضر میں اس کی سب سے بڑی مثال پڑوسی ملک بھارت میں یو پی (UP) کی وزیراعلیٰ مایا وتی ہیں جو کہ دلت قوم سے تعلق رکھتی ہیں۔
آزاد اور منصفانہ انتخابات کا رواج بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پڑ ہی نہیں سکا، لیکن نظام اگر چلتا رہے تو ایک دن یہ ضرور ممکن ہوگا۔ پاکستان کے سیاست دان، دانشور اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے اگر بیک آواز جمہوریت کے تسلسل کے لیے ماحول بناتے رہیں تو پاکستان کے عوام خصوصاً نوجوان طبقے کے ذہنوں میں آئین، انتخابی عمل، پارلیمان اور دوسرے اداروں کا یقین راسخ کیا جاسکتا ہے۔ اداروں کے مضبوط ہونے، نظام کے چلنے اور احتسابی عمل کے جاری رہنے کے سبب اس ملک کو کرپشن، دہشت گردی، غربت اور جہالت جیسے تمام عفریتوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ انتقال اقتدار کے ''پرتشدد انقلابی'' طریقہ کار کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کی جانی چاہیے۔ تبدیلی لازماً ووٹ کے ذریعے سے ہی آنی چاہیے۔
موجودہ حالات میں ملک کسی اندرونی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی پرتشدد ایڈونچر کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان غریب اور پہلے ہی سے بدحال عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے اور انتخابی عمل کے ذریعے سے وجود میں آنے والی پارلیمان ملک میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو جمہوری عمل کی پریکٹس کا عادی بننے دیا جائے۔ اچھی حکمرانی درجہ بدرجہ ہی پاکستان کو میسر آئے گی۔ آئندہ انتخابات میں عوام خود بہتر فیصلہ کریں گے۔ یاد رکھیں اور بار بار عوام کو بھی یہ یاد دہانی کرائیں کہ جمہوریت ہی وہ واحد طریقہ اور نظام ہے جو کہ معاشرے سے غربت، جہالت، کرپشن دور کرکے مساوات اور شخصی آزادی کے حصول میں معاون ثابت ہوسکتا ہے، بشرط یہ کہ تسلسل کے ساتھ جمہوریت قائم رہے اور لیاقت علی خان کے فرمان کے مطابق جمہوریت کے راستے اور اقدار پر یقین رکھا جائے۔