دفاع اور گیس پائپ لائنز راہداریاں روس کی پاکستان کو ہر طرح کے تعاون کی پیشکش
روس کی پاکستان میں ہائیڈرو منصوبوں سمیت 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی
روس نے پاکستان کو دفاع،گیس پائپ لائنز اور راہداریوں سمیت ہرطرح کے تعاون کی پیشکش کردی ہے، 9 سالہ وقفے کے بعد گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پرآنے والے روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے اس ضمن میں پاکستانی حکام کو صدر پیوٹن کا خط پہنچا دیا ہے۔
روس کو بھارت کی امریکا کے ساتھ بڑھتی قربتوں پرتشویش ہے جسے وہ اپنے مفادات کے خلاف تصورکرتا ہے۔روسی وزیرخارجہ سے بند دروازوں کے پیچھے ہونیوالی ملاقاتوں میں شامل ایک پاکستانی عہدیدار نے ''ایکسپریس ٹریبیون ''کوبتایا کہ روسی وزیرخارجہ پاکستانی قیادت کیلئے اپنے صدر کا اہم پیغام لے کر آئے تھے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک جس قسم کے تعاون کی بھی پاکستان کوضرورت ہے فراہم کرنے کو تیار ہے۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر اس پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ روس کی طرف سے پاکستان کو اب بلینک چیک مل گیا ہے۔دونوں ملک نارتھ ،ساؤتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔2 ارب ڈالر کا یہ معاہدہ 2015 ء میں طے پایا تھا۔اس پر کام ممکنہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے شروع نہیں ہوسکا تھا۔
اب حال ہی میں دونوں ملک نئے اسٹرکچر کے تحت اس منصوبے پرکام شروع کرنے پر متفق ہوچکے ہیں۔روس پاکستان سٹیل ملز کی بحالی میں تعاون کو بھی تیار ہے،وہ بجلی کے ہائیڈرومنصوبوں سمیت مجموعی طورپر وہ 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔اب حکومت پاکستان پر منحصر ہے کہ روسی وزیرخارجہ کے اس دورہ میں کی گئی پیشکشوں سے کتنا فائدہ اٹھایاجاتا ہے۔جب اس عہدیدار سے فضائی دفاع کا روسی نظام خریدنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی اس پر بات نہیں کرینگے۔
تاہم روسی وزیرخارجہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھاکہ ان کا ملک پاکستان کواس کی انسداد دہشتگردی استعداد بڑھانے کیلئے خصوصی فوجی آلات دینے کو تیار ہے البتہ انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائی تھیں۔جنوبی ایشیا کے خطے میں ہونے والی سٹریٹجک تبدیلیوں اور نئے اتحاد بننے سے روس اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ برسوں کے دوران خاصی تبدیلیاں آئی ہیں۔سرد جنگ کے زمانے میں دونوں ملک جو ایک دوسرے کے مخالف تھے پاکستان کے تئیں امریکی رویئے کی بدولت اب قریب آرہے ہیں۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 2011ء میں اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر چلے گئے تھے۔اس کے بعد پاکستان نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں شروع کردی تھیں۔پاکستان اور روس دونوں نے اپنے تعلقات کیلئے بنیادیں استوارکرنا شروع کردیں۔
کئی برسوں کی کوششوں کے بعد روس نے 2016ء میں پہلی بار مشترکہ فوجی مشقوں کیلئے اپنے دستے پاکستان بھیجے۔اس پر اس نے بھارت کی ناراضی کو بھی درخواعتنا نہ سمھجا تھا۔اس کے بعد بعد مسلسل دونوں ملک یہ مشقیں کررہے ہیں۔پاکستان کو اب روسی صدر پیوٹن کے دورہ کا انتظار ہے۔
اگر وہ پاکستان کے دورہ پر تیار ہوجاتے ہیں توسرد جنگ کے دشمن دونوں ملکوں میں دوستی کے نئے دور کا آغاز ہوجائے گا۔دوسری طرف ان دنوں روس کے اپنے دیرینہ دوست بھارت کے ساتھ تعلقات خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔اگرچہ دونوں میں اچھے تعلقات تواب بھی ہیں لیکن ان میں پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔بھارتی وزیراعظم کا روسی وزیرخارجہ کے دورہ کو اہمیت نہ دینا اس بات کا ثبوت ہے۔روسی وزیرخارجہ نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں دارالحکومتوں کے دوروں کے دوران بالواسطہ طور پر امریکہ ،بھارت ،جاپان اور آسٹریلیا کی نئی گروپ بندی پراعتراض کیا ہے۔یہ گروپ بندی اب روس ،چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہے۔
روس کو بھارت کی امریکا کے ساتھ بڑھتی قربتوں پرتشویش ہے جسے وہ اپنے مفادات کے خلاف تصورکرتا ہے۔روسی وزیرخارجہ سے بند دروازوں کے پیچھے ہونیوالی ملاقاتوں میں شامل ایک پاکستانی عہدیدار نے ''ایکسپریس ٹریبیون ''کوبتایا کہ روسی وزیرخارجہ پاکستانی قیادت کیلئے اپنے صدر کا اہم پیغام لے کر آئے تھے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک جس قسم کے تعاون کی بھی پاکستان کوضرورت ہے فراہم کرنے کو تیار ہے۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر اس پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ روس کی طرف سے پاکستان کو اب بلینک چیک مل گیا ہے۔دونوں ملک نارتھ ،ساؤتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔2 ارب ڈالر کا یہ معاہدہ 2015 ء میں طے پایا تھا۔اس پر کام ممکنہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے شروع نہیں ہوسکا تھا۔
اب حال ہی میں دونوں ملک نئے اسٹرکچر کے تحت اس منصوبے پرکام شروع کرنے پر متفق ہوچکے ہیں۔روس پاکستان سٹیل ملز کی بحالی میں تعاون کو بھی تیار ہے،وہ بجلی کے ہائیڈرومنصوبوں سمیت مجموعی طورپر وہ 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔اب حکومت پاکستان پر منحصر ہے کہ روسی وزیرخارجہ کے اس دورہ میں کی گئی پیشکشوں سے کتنا فائدہ اٹھایاجاتا ہے۔جب اس عہدیدار سے فضائی دفاع کا روسی نظام خریدنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی اس پر بات نہیں کرینگے۔
تاہم روسی وزیرخارجہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھاکہ ان کا ملک پاکستان کواس کی انسداد دہشتگردی استعداد بڑھانے کیلئے خصوصی فوجی آلات دینے کو تیار ہے البتہ انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائی تھیں۔جنوبی ایشیا کے خطے میں ہونے والی سٹریٹجک تبدیلیوں اور نئے اتحاد بننے سے روس اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ برسوں کے دوران خاصی تبدیلیاں آئی ہیں۔سرد جنگ کے زمانے میں دونوں ملک جو ایک دوسرے کے مخالف تھے پاکستان کے تئیں امریکی رویئے کی بدولت اب قریب آرہے ہیں۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 2011ء میں اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر چلے گئے تھے۔اس کے بعد پاکستان نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں شروع کردی تھیں۔پاکستان اور روس دونوں نے اپنے تعلقات کیلئے بنیادیں استوارکرنا شروع کردیں۔
کئی برسوں کی کوششوں کے بعد روس نے 2016ء میں پہلی بار مشترکہ فوجی مشقوں کیلئے اپنے دستے پاکستان بھیجے۔اس پر اس نے بھارت کی ناراضی کو بھی درخواعتنا نہ سمھجا تھا۔اس کے بعد بعد مسلسل دونوں ملک یہ مشقیں کررہے ہیں۔پاکستان کو اب روسی صدر پیوٹن کے دورہ کا انتظار ہے۔
اگر وہ پاکستان کے دورہ پر تیار ہوجاتے ہیں توسرد جنگ کے دشمن دونوں ملکوں میں دوستی کے نئے دور کا آغاز ہوجائے گا۔دوسری طرف ان دنوں روس کے اپنے دیرینہ دوست بھارت کے ساتھ تعلقات خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔اگرچہ دونوں میں اچھے تعلقات تواب بھی ہیں لیکن ان میں پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔بھارتی وزیراعظم کا روسی وزیرخارجہ کے دورہ کو اہمیت نہ دینا اس بات کا ثبوت ہے۔روسی وزیرخارجہ نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں دارالحکومتوں کے دوروں کے دوران بالواسطہ طور پر امریکہ ،بھارت ،جاپان اور آسٹریلیا کی نئی گروپ بندی پراعتراض کیا ہے۔یہ گروپ بندی اب روس ،چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہے۔