انٹرنیٹ کا فروغ پرنٹ میڈیا کے تابوت میں آخری کیل کی مانند

صورتحال یہ ہوگئی کہ اشاعتی مطبوعات آہستہ آہستہ عوام کی نگاہوں سے غائب ہوتی جارہی ہیں

زیادہ تر اخبارات کی اشاعت پر فرق پڑا کیونکہ وہ خود کو تبدیل نہیں کرپائے،ڈاکٹر جبار خٹک

پرنٹ میڈیا جو کئی انقلابات کی بنیاد بنا تاہم اب انٹرنیٹ کا فروغ پرنٹ میڈیا صنعت کے لیے بتدریج تابوت میں آخری کیل کی مانند ثابت ہورہا ہے۔ آج یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ اشاعتی مطبوعات آہستہ آہستہ عوام کی نگاہوں سے غائب ہوتی جارہی ہیں۔

جہاں ایک طرف قومی اخبارات کو اپنی اشاعت برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہیں دوسری طرف مقامی اخبارات بالکل نئی کہانی بیان کررہے ہیں اور مثلاً جیسے جیسے آپ اندرون سندھ سفر کرتے ہیں تو آپ کو سندھی زبان کے اخبارت جابجا نظر آنے لگتے ہیں۔قمبر اور لاڑکانہ میں مقامی زبان کے اخبارات آج بھی معقول تعداد میں فروخت ہوتے ہیں اور دوپہر سے قبل تقریبا تمام اخبارات فروخت ہوچکے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ عوامی مقامات، دکانوں اور گھر کی بیٹھکوں میں ہر صبح شام بحث و مباحثے ہوتے نظر آتے ہیں جن کا موضوع گزشتہ روز کے اخبارات کی چھپتی شہ سرخیاں اور خبریں ہوتی ہیں۔56 سالہ عبدالرسول گوپنگ جن کی قمبر میں ایک چھوٹی سے کریانے کی دکان ہے، وہ عرصہ دراز سے ایک سندھی روزنامے کے خریدار ہیں۔ وہ خود تو ناخواندہ ہیں تاہم کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب وہ اخبارات میں چھپی خبروں پر اپنی رائے کا اظہار نہ کریں۔اس حوالے سے عبدالرسول کا کہنا ہے کہ میں خود پڑھ نہیں سکتا تاہم گزشتہ 29 برسوں سے مستقل اخبار خرید رہا ہوں اور کبھی ایک دن بھی ناغہ نہیں کیا۔


میں شام کو اپنے دوستوں کے آنے کا انتظار کرتا ہوں جن میں ایک اخبار پڑھ کر سناتا ہے اور ہم سب سنتے ہیں۔ گوپنگ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ہم پورا اخبارات پڑھتے ہیں، سیاسی معاملات اور حالات جاننے کے بعد ہم ٹینڈر اور کورٹ نوٹس بھی نہیں چھوڑتے۔وحید ابڑو کا لاڑکانہ اخبار کا اسٹال ہے جہاں وہ وہ روزانہ 250 سے زائد مختلف سندھی اخبارات فروخت کرلیتے ہیں اور وہ بھی صبح اسٹال کھولنے کے محض تین گھنٹوں کے اندر۔ ان کے زیادہ خریدار بزرگ شہری ہوتے ہیں جو اسٹال کھلنے کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور پھر مقامی پارک میں جمع ہو کر اسے پڑھتے ہیں۔

ابڑو نے ایکسپریس سے بات چیت میں کہا کہ ٹیلی وڑن، اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اخبارات پڑھنے کے رجحان پر کافی فرق پڑا ہے تاہم مقامی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات ابھی تک اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں اور لوگ ہر صبح ان کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور اگر کبھی مجھے اسٹال کھولنے میں دیر ہوجائے تو میرے فون پر کالیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی پرنٹ میڈیا میں تحقیقاتی صحافت کا مستقبل تابناک ہے کیونکہ اس طرح کی خبریں اپنے قارئین خود بنالیتی ہیں۔ امریکی اخبارات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جہاں ایک طرف زیادہ تر امریکی اخبارات کی اشاعت میں کمی ہوئی ہے وہیں نیویارک ٹائمز کی اشاعت بڑھ رہی ہے۔

کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر جبار خٹک جو ایک سندھی روزنامے کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر اخبارات کی اشاعت پر فرق پڑا ہے کیونکہ وہ اپنے قارئین کی پسند اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو تبدیل نہیں کرپائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اخبارات کو ڈیجٹیل انداز میں پیش کرنے سے قارئین کے وسیع حلقے تک رسائی میں مدد ملتی ہے اس کے علاوہ پرنٹنگ کے بے جا اخراجات بھی بچتے ہیں۔ اس طرح کا ماڈل اپنانے سے ہم گزشتہ تین دہائیوں سے اپنے اشاعت اور قارئین برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
Load Next Story