ڈسکہ الیکشن کو نوشتہ دیوار سمجھیے

یہ حکومت کمال ڈھٹائی سے ٹی وی اسکرینوں پر آکر جھوٹ بولتی ہے اور ہر بات سابقین پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے

حکومت کی بوکھلاہٹ اور پھوہڑ پن نے اسے ڈسکہ الیکشن ہروا دیا۔ (فوٹو: فائل)

پہلے بھی عرض کیا تھا، دوبارہ کیے دیتے ہیں کہ اس حکومت کو کسی اپوزیشن سے خطرہ نہیں ہے۔ بیچاری ممی ڈیڈی اور ڈری سہمی اپوزیشن نے اس حکومت کا کیا بگاڑ لینا ہے۔ اس حکومت کی بربادی اور تباہی کےلیے اس کے اپنے دوست، اس کے وزرا، اس کے مشیر ہی کافی ہیں۔

حکومتی بوکھلاہٹ کی حالیہ مثال این اے 75 ڈسکہ کا الیکشن ہے۔ حکومت اس الیکشن کو جیت سکتی تھی، بالکل ویسے ہی جیسے ماضی کی حکومتیں ضمنی الیکشن جیتتی رہی ہیں، لیکن اس کی بوکھلاہٹ اور پھوہڑ پن نے یہ الیکشن اس کو ہروا دیا ہے۔

این اے 75 کی سیٹ مسلم لیگ ن کے امیدوار کی وفات کے بعد خالی ہوئی۔ یہ سیٹ گزشتہ کئی الیکشن سے ن لیگ ہی جیتتی آرہی ہے، لہٰذا اس کو ن لیگ کی پکی سیٹ مانا جاتا ہے۔ موجودہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی امیدوار سیدہ نوشینہ نے 110،075 ووٹ جبکہ تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی نے 93433 ووٹ حاصل کیے تھے اور یوں مسلم لیگ ن 16642 ووٹوں کی برتری سے جیت گئی۔ اس سے قبل 2018 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے سید افتخارالحسن یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ تب ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے یہی امیدوار علی اسجد ملہی تھے جبکہ دوسر ےامیدوار عثمان عابد تھے۔ عثمان عابد اُس وقت پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے امیدوار تھے اور جب انہیں ٹکٹ نہیں ملا تو انہوں نے آزاد الیکشن لڑا تو حلقے میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔

ذرائع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ حکومت کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ یہاں الیکشن نہ کروائیں یا اس کو ٹال دیں۔ لیکن حکومت نے سینیٹ الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کے اچھے ٹائم میں یہاں الیکشن کروایا۔ اس کا ایک مومینٹم بنا اور پھر سب نے دیکھا کہ دھند میں ووٹوں سمیت بکسے غائب ہوگئے۔ غائب ہونے سے پہلے تک مسلم لیگ ن جیت رہی تھی۔ ن لیگ نے کافی شور مچایا اور پھر ن لیگ اس معاملے پر عدالت میں چلی گئی۔ تحریک انصاف کی کوشش تھی کہ جن پولنگ اسٹیشن کے ڈبے غائب ہوئے ہیں، صرف وہیں دوبارہ پولنگ ہوجائے لیکن الیکشن کمیشن نے اصولی موقف لیا اور پورے حلقے میں الیکشن کروایا اور گرمیوں کے آغاز میں منعقدہ اس ضمنی الیکشن میں جب کہ نہ بارش تھی اور نہ دھند تھی، مسلم لیگ ن یہ الیکشن جیت گئی۔

حکومت کو یہاں اب تھوڑی دیر بیٹھ کر اور رک کر کچھ نکات کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ یہ ضمنی الیکشن تھا، یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا، لیکن اس کے حوالے سے اتنے بیانات دیے گئے، اتنے انتظامات کیے گئے، اس کو میڈیا میں اتنا ڈسکس کروایا گیا کہ یہ نان ایشو ٹھیک ٹھاک ہاٹ ٹاپک بن گیا۔ ہم سب نے ہی دیکھا تھا کہ موجودہ ضمنی الیکشن میں ن لیگ کو ہار کا یقین تھا۔ اسی وجہ سے اس کی مرکزی قیادت مہم میں نظر ہی نہیں آئی، جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی۔ ترقیاتی کاموں کے وعدے وعید ہورہے تھے، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جارہا تھا، چھوٹے موٹے رکے ہوئے کام ترجیحی بنیادوں پر ہورہے تھے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ پی ٹی آئی 16 ہزار ووٹوں سے ہار گئی۔ میں ابھی اس پر بات نہیں کررہا ہوں کہ تحریک انصاف کی جانب سے اس الیکشن مہم کا انچارج کون تھا، تاہم یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اس کو ایک عام سے ضمنی الیکشن رہنے دیا جاتا تو پی ٹی آئی کےلیے اتنا بڑا خفت کا سامان نہ ہوتا۔


دوسری بات پہلے سے زیادہ اہم ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ حکومت نے خوامخواہ ہی اتنے وسائل جھونکے تھے؟ کیا پی ٹی آئی نے اس الیکشن کو مینیج کرنے کی کوشش نہیں کی ہوگی؟ یقیناً کی ہوگی، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ چلیں، سارا حلقہ نہ سہی، کچھ پولنگ اسٹیشنز تو مینیج ہوئے ہوں گے۔ تاہم جب ووٹر ہی بہت بڑی تعداد میں باہر نکل آیا تھا تو یہ حلقہ مینیج نہیں ہوسکتا تھا۔ جب بھی کسی بھی حلقے کا 35 فیصد سے زائد ووٹر نکل آتا ہے تو پھر اس کو مینیج نہیں کیا جاسکتا۔ پھر خلائی مخلوقات بھی سائیڈ پر ہوجاتی ہیں، پھر عوام کا فیصلہ ہی ہوتا ہے۔

ضمنی الیکشن میں کل 212،361 ووٹوں کا کاسٹ ہوجانا بہت بڑی بات ہے۔ یہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 43.33 فیصد بنتا ہے۔ ایسی بڑی تعداد تو عام انتخابات میں نظر آتی ہے۔ تو کیا یہ انتخابات یہ بھی ثابت نہیں کرتے ہیں کہ اگر آج ملک میں عام انتخابات ہوجائیں تو پی ٹی آئی ملک بھر میں الیکشن ہار جائے گی؟ کیوں؟ کیونکہ مہنگائی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ چوروں کے دور حکومت میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم تھیں، کسی نہ کسی طرح افورڈ ہو جاتا تھا۔ جبکہ دودھ کے دھلے ہوئے صادق و امین کے دور میں ہر چیز پہنچ سے باہر ہوچکی ہے۔ اس حکومت نے تو موت کو بھی انتہائی مہنگا کردیا ہے۔ عوام نے ہر ایشو کو سابق حکومتوں پر ڈالنے کے مذاق کے بیانیے کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں۔

معیشت کے اعداد و شمار دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ عالمی معاشی فورمز اور اداروں کی رپورٹیں دیکھیں تو ہول اٹھنا شروع ہوجاتے اور یہ حکومت کمال ڈھٹائی سے ٹی وی اسکرینوں پر آکر جھوٹ بولتی ہے اور ہر بات سابقین پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ عوام نے یہ بیانیہ اٹھا کر دیوار پر مارا ہے۔ میرا تو بنیادی سوال ہے کہ سب کچھ مینیج ہوسکتا ہے، عوام کو کیسے مینیج کریں گے؟

یہاں میں انتہائی ادب سے اپنے سینئرز سے بھی عرض کردیتا ہوں جن کا خیال تھا کہ عمران خان کے ہاتھ میں دس سال کےلیے اقتدار کی لیکر ہے اور وہ کہیں نہیں جائے گا۔ سر اینڈ میڈم! اگر حالات یہی رہے تو عمران خان اگلے ایک سال کے اندر اندر گھر جائے گا۔ آپ اس کے ستارے دوبارہ چیک کرلیجئے، وہ اب گردش میں آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اب اگر خان صاحب نے عثمان بزدار سے پنجاب نہ لیا تو یقین کیجئے کہ مرکز بھی پی ٹی آئی کے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔ کیونکہ مرکز تک جانے کا راستہ جی ٹی روڈ سے ہوکر جاتا ہے اور جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف سے پی ٹی آئی کے جھنڈے اترنا شروع ہوگئے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story