بھارت کو اب روہنگیوں سے خطرہ ہے
سپریم کورٹ تو بادشاہ ہے اور بادشاہ کا ہاتھ اور قلم کون پکڑ سکتا ہے۔
JAMRUD:
گزشتہ ہفتے بھارتی سپریم کورٹ نے ایک اور ایسا فیصلہ دیا جو انسانی حقوق اور پناہ گزینوں سے متعلق کسی بھی معاہدے کی کسی بھی شق پر پورا نہیں اترتا۔مگر سپریم کورٹ تو بادشاہ ہے اور بادشاہ کا ہاتھ اور قلم کون پکڑ سکتا ہے۔
بھارت کے ہمسائے میانمار کے موجودہ حالات سے توآپ بخوبی واقف ہیں کہ کس بے دردی سے جمہوری عمل کی بحالی کے لیے نکل آنے والے لاکھوں شہریوں سے فوجی حکومت نمٹ رہی ہے اور درجنوں احتجاجی روزانہ فوج اور پولیس کی گولیوں کا رزق بن رہے ہیں۔اس ماحول میں بھارتی سپریم کورٹ نے جموں میں قائم روہنگیا پناہ گزین کیمپ کے ڈیڑھ سو گرفتار مکینوں کی جانب سے یہ درخواست مسترد کر دی کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ ان گرفتار روہنگیوں کو جبراً برما واپس نہ بھیجے۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے فیصلہ دیا کہ درخواست گزاروں کو عبوری عدالتی راحت نہیں مل سکتی۔سرکار قانون کے مطابق کسی بھی غیر ملکی کو ملک بدر کرنے کا حق رکھتی ہے۔جہاں تک درخواست گزاروں نے اپنے حق میں میانمار کے موجودہ حالات کا حوالہ دیا ہے تو یہ عدالت کا منصب نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک کے حالات و واقعات پر تبصرہ کرے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ایک طرف جہاں بھارت میں پناہ گزین لگ بھگ چالیس ہزار روہنگیا کمیونٹی میں سراسیمگی پھیلی ہے وہیں مودی حکومت کے اس موقف کو بھی قانونی تقویت مل گئی ہے کہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے روہنگیا بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔دو ہزار سترہ سے اب تک حکومت بارہ روہنگیا پناہ گزینوں کو سرحد پار میانمار میں جبراً دھکیل چکی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی حکام نے ایک چودہ سالہ روہنگیا بچی کو ریاست منی پور کی سرحد سے میانمار بھیجنے کی کوشش کی لیکن برمی حکام نے اس بچی کو وصول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ فی الحال سرحد پار امن و امان کی سنگین صورتِ حال کے سبب وہ اس بچی کو نہیں لے سکتے۔چنانچہ بھارتی حکام نے بادلِ ناخواستہ اس بچی کو آسام میں پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی این جی او کی عارضی تحویل میں دے دیا۔ جب کہ اس کا خاندان سرحد پار بنگلہ دیش میں کاکسس بازار کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے اور میانمار میں اس بچی کے خاندان کا کوئی فرد اس وقت موجود نہیں۔
بھارت میں مقیم زیادہ تر روہنگیا پناہ گزینوں کے پاس اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے جاری کردہ شناختی کارڈ ہیں۔ پناہ گزینوں کے بین الاقوامی کنونشن کے مطابق ایسے شناختی کارڈوں کے حامل افراد کو ان کے آبائی وطن سمیت کسی بھی ایسے ملک میں جبراً نہیں بھیجا جا سکتا جہاں ان کی زندگی کو براہِ راست خطرہ لاحق ہو۔
مشکل یہ ہے کہ بھارت نے اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق کنونشن پر آج تک دستخط نہیں کیے اور نہ ہی وہ اقوامِ متحدہ کا رکن ہونے کے باوجود روہنگیا پناہ گزینوں کے تحفظ سے متعلق اقوامِ متحدہ کے موقف کو باضابطہ تسلیم کرتا ہے۔اب تو بھارتی سپریم کورٹ نے بھی ان پناہ گزینوں کو لال جھنڈی دکھا دی ہے۔تو کیا مودی حکومت کی تمام غیر ملکی پناہ گزینوں کے بارے میں یکساں پالیسی ہے یا اس پالیسی کو مذہبی و نسلی و علاقائی ترجیحات کے مطابق لچکدار انداز میں استعمال کیا جاتا ہے ؟
انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں سری لنکا کی خانہ جنگی سے ستائے ہوئے ہزاروں سری لنکن تاملوں نے جنوبی بھارت کے کیمپوں میں پناہ حاصل کی اور انھیں بھارت کی مرکزی و ریاستی حکومتوں( بالخصوص تامل ناڈو سرکار ) نے ہر طرح کی سہولت فراہم کی۔سری لنکا کی حکومت نے متعدد بار ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا مگر مقامی سیاسی و انتخابی تقاضوں کے مدِنظر بھارت نے ہر بار اسے انسانی حقوق سے جوڑ کر سری لنکن حکومت کی درخواست کو ٹال دیا۔
حتی کہ تامل خود کش بمباروں کے ہاتھوں سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کے قتل کے باوجود تامل پناہ گزینوں کو اس معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ روہنگیا پناہ گزین ضرور بھارتی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتائے جاتے ہیں۔
جو مودی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے اسی نے دسمبر دو ہزار انیس میں شہریت کے قوانین میں ایک متنازعہ ترمیم کی اور اندرون و بیرون ملک اس ترمیم پر شدید ردِ عمل کو ملک دشمنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔اس ترمیم کے تحت افغانستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے کوئی بھی غیر مسلم شہری بھارت میں کسی بھی ذریعے یا طریقے سے اکتیس دسمبر دو ہزار چودہ کی تاریخ تک داخل ہوا ہو تو وہ بھارتی شہریت حاصل کرنے کا مستحق ہے۔اس قانون کے تحت شہریت عطا کرنے کے عمل کو مکمل کرنے کی حد بارہ برس سے گھٹا کر چھ برس کر دی گئی۔
دورِ جدید میں پناہ گزین کا مذہب دیکھ کر شہریت کا حق دینے کی اپنی نوعیت کی یہ غالباً پہلی مثال ہے۔یہ وہی بھارت ہے جو دو ہزار چودہ میں مودی کے برسرِاقتدار آنے سے پہلے دنیا بھر کے مصیبت زدگان کے لیے بلاامتیازبا نہیںپھیلانے کا دعویدار تھا۔سرزمینِ ہندوستان ہزاروں برس سے ان لاتعداد باشندوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتی آئی ہے جنھیں ہمسایہ ریاستوں اور بادشاہتوں میں جان کے لالے پڑ جاتے تھے۔مگر وقت گذرنے کے ساتھ دامن تو اتنا ہی وسیع رہا البتہ فیصلہ سازوں کے دماغ سکڑتے چلے گئے۔
اس کا انتہائی ثبوت شہریت کا ترمیمی قانون مجریہ دو ہزار انیس اور روہنگیا مصیبت زدگان سے ریاست کا سلوک ہے۔بنگلہ دیش اگرچہ حجم میں بھارت کی کسی بھی درمیانی ریاست کے برابر ہے مگر اس نے کئی برس سے کسی نہ کسی طور بین الاقوامی مدد کے ساتھ روہنگیا پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔
پاکستان حجمی اعتبار سے بھارت سے چھ گنا چھوٹا ہے مگر پناہ گزینوں کے معاملے میں پاکستان کا دل بھارت کے مقابلے میں چھ گنا بڑا ہے۔حالانکہ ان پناہ گزینوں کے ہوتے دہشت گردی کے خلاف جتنی بڑی اور طویل جنگ ریاستِ پاکستان نے لڑی ہے، اس کے بعدیہ بہانہ بنانا بہت آسان تھا کہ لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔مگر ہر پاکستانی حکومت نے خندہ پیشانی سے ان پناہ گزینوں کے معاملے میں اقوامِ متحدہ اور دیگر پناہ گزین اداروں سے ہمدردانہ تعاون جاری رکھا۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیا ان پناہ گزینوں کو چالیس پرس پہلے خالصتاً انسانی بنیاد پر پناہ دی گئی تھی یا یہ انسانی ہمدردی گریٹ گیم کے ایک اہم مہرے کے طور پر جلی و خفی فوائد سمیٹنے کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی۔یہ بھی ایک الگ موضوع ہے کہ جو ہزاروں بنگالی خاندان گزشتہ پچاس برس سے پاکستانی ہونے کے دعویدار ہیں،ان کی تیسری اور چوتھی پیڑھی بھی آج تک شناختی کارڈ سے کیوں محروم ہے۔جب کہ سیکڑوں دیگر پناہ گزین شہریت کے کمزور ڈھانچے کا فائدہ اٹھا کر متعلقہ افراد کے تعاون یا ہتھیلی گرم کرنے کے سبب آج قانونی پاکستانی شہری کی حیثیت سے نارمل زندگی گذار رہے ہیں۔مگر یہ بے اعتدالیاں مودی حکومت کی غیر مساوی انسانی پناہ گزین پالیسیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)