کڑوی چینی
مافیا کا اصل کام غنڈہ گردی اور بد معاشی ہوتا ہے لیکن وہ اپنے مطلب کے لیے جب چاہئیں حکومتوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک ہم پاکستانیوں نے صرف سسلین مافیا اور رشین مافیا کے نام سن رکھے تھے سسلین مافیا کا تعلق اٹلی سے ہے اور ایک زمانہ تھا جب اٹلی میں درپردہ ان کی حکومت چلتی تھی ۔ اسی طرح رشین مافیا کابھی سوویت یونین کے زمانے طوطی بولتا تھا۔ یہ مافیا آج بھی موجود ہے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
مافیا کا اصل کام غنڈہ گردی اور بد معاشی ہوتا ہے لیکن وہ اپنے مطلب کے لیے جب چاہئیں حکومتوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں کیونکہ ان کو ملک کی بااثر شخصیات کی سر پرستی حاصل رہتی ہے اور اس کے زور پر وہ منہ زور بن جاتے ہیں۔ اب ہم عوام کو احساس ہورہا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اس قسم کا کام کرنے والے گروہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جو حکومت کو ریاست کاکاروبار چلانے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ چینی کا نہ ختم ہونے والا بحران یہ دیکھ لیں۔گزشتہ چند ماہ سے حکومت کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود چینی کی قیمتوں میں استحکام تو کجا اس میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔
حالانکہ ہمارے ملک میں کاشتکار گنے کی کاشت وافر مقدار میں کرتے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں شوگر ملیں کام کر رہی ہیںلیکن پاکستان کے ساتھ بااثرگروہ نے ایک ظلم یہ بھی کیا کہ ایسے علاقوں میں بھی شوگر ملیں لگا نے کی اجازت دی گئی جہاں پر کپاس کی کاشت کی جاتی تھی۔ پاکستان کا شماردنیا میں بہترین کپڑا برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا تھا لیکن اب پاکستان بہترین کپاس پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکل گیا ہے۔
بچپن میں جب اماں مجھے دکان پر سودا سلف لینے بھیجتی تھیں تو ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی پرچی پر دیسی کھنڈ کے الفاظ بھی ہوتے تھے۔ یہ دیسی کھنڈ شکر کی ایک قسم تھی اور مٹھاس کے لیے استعمال ہوتی تھی حالانکہ اس وقت بھی سفید چینی دستیاب ہوتی تھی جس کو ولائتی چینی کہا جاتا تھا اور کچھ زیادہ نرخوں پر یہ ولائتی چینی خرید کی جا سکتی تھی لیکن اس کا عام استعمال کم تھا۔ دیسی کھنڈ شکر نما ہوتی تھی، آج کی جدید دنیا کی زبان میں اسے براؤن شوگر کہا جاتا ہے اور شہروں کے پوش ایریاز میں انگریزی میڈیم برگر، پیزا کلاس براؤن شوگر کو استعمال کرنااب اپنا اسٹیٹس سمجھتی ہے ۔
پاکستان میں چینی کی قیمتیں حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں۔ اب لگتا ہے کہ حکومت چینی بحران کے بینفشریز کے خلاف سخت ایکشن لینے پر تیار ہوگئی ہے جس کی ابتدا حکومت نے اپنی ہی پارٹی کی ایک نمایاں ترین شخصیت سے کی ہے۔ چینی کا یہ بحران نہ جانے کس کروٹ بیٹھے گا کیونکہ آج تک اس ملک میں عوام کے ساتھ کیے گئے کسی گھپلے پر مافیا کو کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا نہیں دی جا سکی اور یہ بڑے لوگ ہمیشہ سزا سے بچ جاتے رہے۔ چینی کا یہ بحران دیکھ کر مجھے اپنے حکمرانوں پر ترس آتا ہے۔
ہماری حکومت میں ماشاء اﷲ بڑے نامی گرامی ماہرین معاشیات شامل ہیںلیکن ان ماہرین کو بھی یہ علم نہ ہو سکا کہ ملک میں کوئی ایسا طاقتور گروہ بھی موجود ہے جو یکایک چینی کا بحران پیدا کر کے اس کی قیمت کو پرَ لگا دے گا۔ اسی لاعلمی کی وجہ سے اس کی بروقت پیش بندی نہ کی جا سکی ۔ طلب اور رسد میں توازن معاشیات کا بنیادی اور عام فہم اصول ہے، یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے معاشی ماہرین کو اس کا علم نہیں تھا، پھر انھوں نے اس کی پیش بندی کیوں نہیں کی۔ کیا کوئی لالچی ہاتھ حکمرانوں کو روک رہا تھا یا پھر ان کی عقل پر پردہ پڑ گیا تھا کہ انھوں نے اپنے لیے ایک ایسا بحران پیدا کر لیا جس سے ہر پاکستانی براہ راست متاثر اور ہر کڑوی زبان فریاد کر رہی ہے۔
پاکستان میں چینی کا استعمال عام ہے اور ہم بطور قوم ابھی اس عروج تک نہیں پہنچ سکے کہ اپنے اوپر مسلط کی گئی مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس جنس کا استعمال ترک کر دیں تا کہ چینی کے کم ہوجائیں۔
صرف ایک صورت ایسی ہے کہ قوم کسی بھی چیز کا استعمال ترک کر سکتی ہے جب اسے یہ معلوم اور یقین ہو کہ حکمران بھی اسے ترک کر چکے ہیں اور اس کے ترک کر دینے کے مشورے صرف عوام کو نہیں دے رہے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ حکمرانی کے مزے اس میں ہیں کہ عوام کو کچھ ملے یا نہ ملے حکمرانوں کو سب کچھ ملتا رہے ورنہ حکومت کس کام کی اور حکمران بننے کا کیا فائدہ ۔ اس طرح کی حکمرانی کے نتیجے ظاہر ہے کہ نقصان دہ ہی نکلتے ہیں لیکن بعض نقصان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ حکمرانوں اور حکمرانی کی جان پر بن جاتی ہے۔
ایوب خان کی حکمرانی میں چینی چار آنے مہنگی ہوئی جو ان کی حکومت کے زوال کا باعث بن گئی ۔ایوب خان کے زمانے میں بائیس خاندان بہت مشہور ہوئے جن کی ملکی صنعت اور معیشت کے شعبے پر دو تہائی اجارہ داری تھی لیکن اس وقت گورنر مغربی پاکستان نواب کالاباغ امیر محمد خان تھے جنھوں نے اپنی فہم و فراست اور سیاسی تدبر کو کام میں لاتے ہوئے چینی کی قیمتوں میں استحکام پیدا کر لیا تھا۔
آج کی حکومت کو نواب کالا باغ بھی میسر نہیں ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ یہ ملک گیر بحران جس کی کڑواہٹ ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے اور حکومت سے ناراضگی کا اظہار کررہا ہے، اس بحران کا فی الفور خاتمہ کرے اور چینی کی قیمتوں کو مناسب سطح تک لائے۔ چینی کے بحران کی تاریخ پاکستانی حکومتوں کے لیے اچھی نہیں ہے، اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔
مافیا کا اصل کام غنڈہ گردی اور بد معاشی ہوتا ہے لیکن وہ اپنے مطلب کے لیے جب چاہئیں حکومتوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں کیونکہ ان کو ملک کی بااثر شخصیات کی سر پرستی حاصل رہتی ہے اور اس کے زور پر وہ منہ زور بن جاتے ہیں۔ اب ہم عوام کو احساس ہورہا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اس قسم کا کام کرنے والے گروہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جو حکومت کو ریاست کاکاروبار چلانے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ چینی کا نہ ختم ہونے والا بحران یہ دیکھ لیں۔گزشتہ چند ماہ سے حکومت کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود چینی کی قیمتوں میں استحکام تو کجا اس میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔
حالانکہ ہمارے ملک میں کاشتکار گنے کی کاشت وافر مقدار میں کرتے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں شوگر ملیں کام کر رہی ہیںلیکن پاکستان کے ساتھ بااثرگروہ نے ایک ظلم یہ بھی کیا کہ ایسے علاقوں میں بھی شوگر ملیں لگا نے کی اجازت دی گئی جہاں پر کپاس کی کاشت کی جاتی تھی۔ پاکستان کا شماردنیا میں بہترین کپڑا برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا تھا لیکن اب پاکستان بہترین کپاس پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکل گیا ہے۔
بچپن میں جب اماں مجھے دکان پر سودا سلف لینے بھیجتی تھیں تو ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی پرچی پر دیسی کھنڈ کے الفاظ بھی ہوتے تھے۔ یہ دیسی کھنڈ شکر کی ایک قسم تھی اور مٹھاس کے لیے استعمال ہوتی تھی حالانکہ اس وقت بھی سفید چینی دستیاب ہوتی تھی جس کو ولائتی چینی کہا جاتا تھا اور کچھ زیادہ نرخوں پر یہ ولائتی چینی خرید کی جا سکتی تھی لیکن اس کا عام استعمال کم تھا۔ دیسی کھنڈ شکر نما ہوتی تھی، آج کی جدید دنیا کی زبان میں اسے براؤن شوگر کہا جاتا ہے اور شہروں کے پوش ایریاز میں انگریزی میڈیم برگر، پیزا کلاس براؤن شوگر کو استعمال کرنااب اپنا اسٹیٹس سمجھتی ہے ۔
پاکستان میں چینی کی قیمتیں حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں۔ اب لگتا ہے کہ حکومت چینی بحران کے بینفشریز کے خلاف سخت ایکشن لینے پر تیار ہوگئی ہے جس کی ابتدا حکومت نے اپنی ہی پارٹی کی ایک نمایاں ترین شخصیت سے کی ہے۔ چینی کا یہ بحران نہ جانے کس کروٹ بیٹھے گا کیونکہ آج تک اس ملک میں عوام کے ساتھ کیے گئے کسی گھپلے پر مافیا کو کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا نہیں دی جا سکی اور یہ بڑے لوگ ہمیشہ سزا سے بچ جاتے رہے۔ چینی کا یہ بحران دیکھ کر مجھے اپنے حکمرانوں پر ترس آتا ہے۔
ہماری حکومت میں ماشاء اﷲ بڑے نامی گرامی ماہرین معاشیات شامل ہیںلیکن ان ماہرین کو بھی یہ علم نہ ہو سکا کہ ملک میں کوئی ایسا طاقتور گروہ بھی موجود ہے جو یکایک چینی کا بحران پیدا کر کے اس کی قیمت کو پرَ لگا دے گا۔ اسی لاعلمی کی وجہ سے اس کی بروقت پیش بندی نہ کی جا سکی ۔ طلب اور رسد میں توازن معاشیات کا بنیادی اور عام فہم اصول ہے، یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے معاشی ماہرین کو اس کا علم نہیں تھا، پھر انھوں نے اس کی پیش بندی کیوں نہیں کی۔ کیا کوئی لالچی ہاتھ حکمرانوں کو روک رہا تھا یا پھر ان کی عقل پر پردہ پڑ گیا تھا کہ انھوں نے اپنے لیے ایک ایسا بحران پیدا کر لیا جس سے ہر پاکستانی براہ راست متاثر اور ہر کڑوی زبان فریاد کر رہی ہے۔
پاکستان میں چینی کا استعمال عام ہے اور ہم بطور قوم ابھی اس عروج تک نہیں پہنچ سکے کہ اپنے اوپر مسلط کی گئی مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس جنس کا استعمال ترک کر دیں تا کہ چینی کے کم ہوجائیں۔
صرف ایک صورت ایسی ہے کہ قوم کسی بھی چیز کا استعمال ترک کر سکتی ہے جب اسے یہ معلوم اور یقین ہو کہ حکمران بھی اسے ترک کر چکے ہیں اور اس کے ترک کر دینے کے مشورے صرف عوام کو نہیں دے رہے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ حکمرانی کے مزے اس میں ہیں کہ عوام کو کچھ ملے یا نہ ملے حکمرانوں کو سب کچھ ملتا رہے ورنہ حکومت کس کام کی اور حکمران بننے کا کیا فائدہ ۔ اس طرح کی حکمرانی کے نتیجے ظاہر ہے کہ نقصان دہ ہی نکلتے ہیں لیکن بعض نقصان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ حکمرانوں اور حکمرانی کی جان پر بن جاتی ہے۔
ایوب خان کی حکمرانی میں چینی چار آنے مہنگی ہوئی جو ان کی حکومت کے زوال کا باعث بن گئی ۔ایوب خان کے زمانے میں بائیس خاندان بہت مشہور ہوئے جن کی ملکی صنعت اور معیشت کے شعبے پر دو تہائی اجارہ داری تھی لیکن اس وقت گورنر مغربی پاکستان نواب کالاباغ امیر محمد خان تھے جنھوں نے اپنی فہم و فراست اور سیاسی تدبر کو کام میں لاتے ہوئے چینی کی قیمتوں میں استحکام پیدا کر لیا تھا۔
آج کی حکومت کو نواب کالا باغ بھی میسر نہیں ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ یہ ملک گیر بحران جس کی کڑواہٹ ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے اور حکومت سے ناراضگی کا اظہار کررہا ہے، اس بحران کا فی الفور خاتمہ کرے اور چینی کی قیمتوں کو مناسب سطح تک لائے۔ چینی کے بحران کی تاریخ پاکستانی حکومتوں کے لیے اچھی نہیں ہے، اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔