سیاست دانوں کے لیے رول ماڈل
کشور زہرہ بحیثیت سیاسی کارکن اہم سماجی خدمات انجام دے رہی ہیں،وہ ایک طرح سے سیاست دانوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔
کراچی میں پاکستان کا پہلا خصوصی افراد کا اسپورٹس کمپلیکس تعمیر ہو رہا ہے۔ اپنی مخصوص نوعیت کا یہ کمپلیکس بلدیہ کراچی،کشمیر روڈ پر واقع اسپورٹس کمپلیکس میں تعمیر ہو رہا ہے۔
ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے منتخب اراکین اسمبلی کو ملنے والے 10کروڑ روپے کا فنڈ تعمیرکے لیے وقف کیا۔ کشور زہرہ کا عزم ہے کہ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے مزید فنڈزکی ضرورت پڑی تو وہ ان فنڈز کے حصول کے لیے مسلسل کوششیں کریں گی۔
اس اسپورٹس کمپلیکس میں خصوصی افراد کو کھیلوں کی وہ تمام سہولتیں حاصل ہونگی جو عام طور پر اسپورٹس کمپلیکس میں موجود ہوتی ہیں۔ اس کمپلیکس میں تمام سہولتیں مفت فراہم کی جائیں گی۔ کشور زہرہ گزشتہ کئی عشروں سے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان کا شمار ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے مگر انھوں نے ہمیشہ خصوصی افراد کی بہبود کے لیے مسلسل کوشش کی ہے۔
کشور زہرہ کہتی ہیں کہ خصوصی افراد کو ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کی صلاحیتوں کو جدید سائنسی طریقوں کے مطابق بہتر بنا کر انھیں زندگی کی دوڑ میں شامل کرنا ہی ان افراد کے مسئلہ کا حقیقی حل ہے۔
کشور زہرہ اس ملک کے گنتی کے منتخب اراکین میں شامل ہیں جو سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی سرگرمیوں کو بھی انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ کشور زہرہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اور ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T) کے لیے فنڈز جمع کرنے میں برسوں سے متحرک رہی ہیں۔ وہ ماہر معاشیات شبر زیدی کے ساتھ مل کر S.I.U.T کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے آئیڈیاز کو عملی شکل دینے کے لیے متحرک رہتی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ہمیشہ ذات، مذہب ، نسل و جنس کے امتیاز کے بغیر انسانوں کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا مشن یہ ہے کہ عزت نفس اور احترام کے ساتھ مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ کشور نے ڈاکٹر صاحب کے اس فلسفہ کو عملی طور پر اپنالیا ہے اور وہ بغیر کسی امتیاز کے مریضوں کی مدد کرنے کے علاوہ خصوصی افراد کی بہبود میں خصوصی دلچسپی لیتی ہیں۔
اس مقصد کے لیے شہر کے معتبر افراد مثلاً شبر زیدی ، حسین جمیل ، اختر جمیل، ذیشان کریمی، فخر جعفری، نصرت علی وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک سپورٹ ٹرسٹ قائم کیا ہے۔ یہ سپورٹ ٹرسٹ صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے مختلف علاقوں میں خصوصی افراد کے لیے سہولتوں کی فراہمی کے مختلف منصوبوں پر کام کررہا ہے۔
اس ٹرسٹ کا نصب العین ہے کہ خصوصی افراد کی اس طرح مدد کی جائے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔ اس ٹرسٹ کی کوششوں سے کئی معذور افراد خصوصی تربیت حاصل کر کے روزگار کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اپنی آواز کا جادو جگاتے ہیں اور موسیقی کے مختلف آلات کو استعمال کرکے دل کے تار ہلا دیتے ہیں۔
کشور نے کراچی میں کینسر کے ایک اسپتال کے قیام میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس کینسر کے اسپتال میں مریضوں کو مفت سہولتوں فراہم کی جاتی ہیں۔ کسی مریض کے اسپتال میں داخلہ کا مسئلہ ہو یا کسی کا آپریشن کے لیے اسپتال میں نمبر نہ آرہا ہو تو کشور زہرہ سے رجوع کیا جائے تو وہ مریض کی داد رسی کے لیے دن رات ایک کردیتی ہیں۔
کشور زہرہ نے خصوصی افراد کے لیے ملازمتوں میں کوٹے مختص کرنے، شناختی کارڈ میں خون کا گروپ لکھنے اور عمارتوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر خصوصی افراد کے لیے مخصوص ریمپ تعمیر کرنے کے لیے قانون منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قانون پر ایک حد تک عملدرآمد ہوا ہے۔ اب نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں میں یہ ریمپ تعمیر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
کشور صاحبہ نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں یہ کوشش کی تھی کہ ایئرپورٹ پر خصوصی افراد کے لیے خصوصی کاؤنٹر قائم کیے جائیں مگر حقائق ظاہر کرتے ہیںکہ اس مقصد کو مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر ان کی کوششیں جاری ہیں۔
پاکستان میں زچہ و بچہ کی اموات کی شرح اس خطہ میں سب سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال کی بڑی وجہ کم عمر بچیوں کی شادیا ں ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ اور شہری علاقوں میں کچھ کم اب بھی عورتوں کو مردوں کے مقابلہ میں کم خوراک کھانے کو ملتی ہے، یوں بچیاں ابتدائی عمر سے خون کی کمی اور نسوانی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ان کمزور بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں لاغر بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ماں اور نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات حکومتوں کی کوششوں کے باوجود کم نہیں ہوپاتیں۔ کشور زہرہ قومی اسمبلی کے اراکین میں سے ایک ہیں جو کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کے لیے قانون سازی پر زور دیتی ہیں مگر رجعت پسند عناصر کی مزاحمت کی بناء پر پارلیمنٹ یہ قانون منظور نہیں کرسکی۔
کشور پرعزم ہیں کہ ایک دن اراکین پارلیمنٹ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونگے کہ کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی عائد کی جائے اور 18 سا ل کی عمر میں شادی کی اجازت ہو تو نوزائیدہ بچیوں اور ماؤں میں بڑھتی ہوئی شرح اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما زمرد خان اپنی سماجی خدمات کے حوالہ سے خاصے معروف ہیں۔ انھوں نے یتیم اور بے سہارا بچوں کے لیے ادارہ ''سویٹ ہوم'' قائم کیا ہوا ہے۔ زمرد خان نے سویٹ ہوم کا ماحول بالکل گھروں کی طرح بنایا ہے۔
وہ ایک طرح سے سویٹ ہوم کے تمام بچوں کے ولی کہلاتے ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے سیاسی رہنما لشکری رئیسانی بلوچستان میں کتب بینی کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ انھوں نے بلوچستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو لاکھوں روپے کی کتابیں عطیہ کے طور پر دی ہیں۔ لشکری رئیسانی نے اپنی ذاتی لائبریری کی لاکھوں کتابیں بھی کوئٹہ کی خواتین یونیورسٹی کی لائبریری کو دے دی تھیں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ پروپیگنڈہ سیاست دانوں کے خلاف ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کو خبروں، ٹاک شوز، بلاگس، کالموں اور اداریوں میں سب سے زیادہ کرپٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اراکین اسمبلی پر تو مستقل الزامات لگتے ہیں۔ ان میں سے کچھ الزامات درست بھی ہوتے ہیں اور باقی محض پروپیگنڈے کا حصہ ہوتے ہیں مگر سیاست دانوں کے سماجی کاموں پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔
کچھ سیاسی مفکرین کہتے ہیں کہ عوام کے مسائل کا حل سیاسی جدوجہد کے ذریعے سیاسی نظام میں مضمر ہے مگر سماجی کاموں کی بھی اہمیت ہے۔ کشور زہرہ بحیثیت سیاسی کارکن اہم سماجی خدمات انجام دے رہی ہیں،وہ ایک طرح سے سیاست دانوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔
ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے منتخب اراکین اسمبلی کو ملنے والے 10کروڑ روپے کا فنڈ تعمیرکے لیے وقف کیا۔ کشور زہرہ کا عزم ہے کہ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے مزید فنڈزکی ضرورت پڑی تو وہ ان فنڈز کے حصول کے لیے مسلسل کوششیں کریں گی۔
اس اسپورٹس کمپلیکس میں خصوصی افراد کو کھیلوں کی وہ تمام سہولتیں حاصل ہونگی جو عام طور پر اسپورٹس کمپلیکس میں موجود ہوتی ہیں۔ اس کمپلیکس میں تمام سہولتیں مفت فراہم کی جائیں گی۔ کشور زہرہ گزشتہ کئی عشروں سے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان کا شمار ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے مگر انھوں نے ہمیشہ خصوصی افراد کی بہبود کے لیے مسلسل کوشش کی ہے۔
کشور زہرہ کہتی ہیں کہ خصوصی افراد کو ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کی صلاحیتوں کو جدید سائنسی طریقوں کے مطابق بہتر بنا کر انھیں زندگی کی دوڑ میں شامل کرنا ہی ان افراد کے مسئلہ کا حقیقی حل ہے۔
کشور زہرہ اس ملک کے گنتی کے منتخب اراکین میں شامل ہیں جو سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی سرگرمیوں کو بھی انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ کشور زہرہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اور ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T) کے لیے فنڈز جمع کرنے میں برسوں سے متحرک رہی ہیں۔ وہ ماہر معاشیات شبر زیدی کے ساتھ مل کر S.I.U.T کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے آئیڈیاز کو عملی شکل دینے کے لیے متحرک رہتی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ہمیشہ ذات، مذہب ، نسل و جنس کے امتیاز کے بغیر انسانوں کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا مشن یہ ہے کہ عزت نفس اور احترام کے ساتھ مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ کشور نے ڈاکٹر صاحب کے اس فلسفہ کو عملی طور پر اپنالیا ہے اور وہ بغیر کسی امتیاز کے مریضوں کی مدد کرنے کے علاوہ خصوصی افراد کی بہبود میں خصوصی دلچسپی لیتی ہیں۔
اس مقصد کے لیے شہر کے معتبر افراد مثلاً شبر زیدی ، حسین جمیل ، اختر جمیل، ذیشان کریمی، فخر جعفری، نصرت علی وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک سپورٹ ٹرسٹ قائم کیا ہے۔ یہ سپورٹ ٹرسٹ صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے مختلف علاقوں میں خصوصی افراد کے لیے سہولتوں کی فراہمی کے مختلف منصوبوں پر کام کررہا ہے۔
اس ٹرسٹ کا نصب العین ہے کہ خصوصی افراد کی اس طرح مدد کی جائے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔ اس ٹرسٹ کی کوششوں سے کئی معذور افراد خصوصی تربیت حاصل کر کے روزگار کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اپنی آواز کا جادو جگاتے ہیں اور موسیقی کے مختلف آلات کو استعمال کرکے دل کے تار ہلا دیتے ہیں۔
کشور نے کراچی میں کینسر کے ایک اسپتال کے قیام میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس کینسر کے اسپتال میں مریضوں کو مفت سہولتوں فراہم کی جاتی ہیں۔ کسی مریض کے اسپتال میں داخلہ کا مسئلہ ہو یا کسی کا آپریشن کے لیے اسپتال میں نمبر نہ آرہا ہو تو کشور زہرہ سے رجوع کیا جائے تو وہ مریض کی داد رسی کے لیے دن رات ایک کردیتی ہیں۔
کشور زہرہ نے خصوصی افراد کے لیے ملازمتوں میں کوٹے مختص کرنے، شناختی کارڈ میں خون کا گروپ لکھنے اور عمارتوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر خصوصی افراد کے لیے مخصوص ریمپ تعمیر کرنے کے لیے قانون منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قانون پر ایک حد تک عملدرآمد ہوا ہے۔ اب نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں میں یہ ریمپ تعمیر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
کشور صاحبہ نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں یہ کوشش کی تھی کہ ایئرپورٹ پر خصوصی افراد کے لیے خصوصی کاؤنٹر قائم کیے جائیں مگر حقائق ظاہر کرتے ہیںکہ اس مقصد کو مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر ان کی کوششیں جاری ہیں۔
پاکستان میں زچہ و بچہ کی اموات کی شرح اس خطہ میں سب سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال کی بڑی وجہ کم عمر بچیوں کی شادیا ں ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ اور شہری علاقوں میں کچھ کم اب بھی عورتوں کو مردوں کے مقابلہ میں کم خوراک کھانے کو ملتی ہے، یوں بچیاں ابتدائی عمر سے خون کی کمی اور نسوانی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ان کمزور بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں لاغر بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ماں اور نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات حکومتوں کی کوششوں کے باوجود کم نہیں ہوپاتیں۔ کشور زہرہ قومی اسمبلی کے اراکین میں سے ایک ہیں جو کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کے لیے قانون سازی پر زور دیتی ہیں مگر رجعت پسند عناصر کی مزاحمت کی بناء پر پارلیمنٹ یہ قانون منظور نہیں کرسکی۔
کشور پرعزم ہیں کہ ایک دن اراکین پارلیمنٹ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونگے کہ کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی عائد کی جائے اور 18 سا ل کی عمر میں شادی کی اجازت ہو تو نوزائیدہ بچیوں اور ماؤں میں بڑھتی ہوئی شرح اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما زمرد خان اپنی سماجی خدمات کے حوالہ سے خاصے معروف ہیں۔ انھوں نے یتیم اور بے سہارا بچوں کے لیے ادارہ ''سویٹ ہوم'' قائم کیا ہوا ہے۔ زمرد خان نے سویٹ ہوم کا ماحول بالکل گھروں کی طرح بنایا ہے۔
وہ ایک طرح سے سویٹ ہوم کے تمام بچوں کے ولی کہلاتے ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے سیاسی رہنما لشکری رئیسانی بلوچستان میں کتب بینی کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ انھوں نے بلوچستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو لاکھوں روپے کی کتابیں عطیہ کے طور پر دی ہیں۔ لشکری رئیسانی نے اپنی ذاتی لائبریری کی لاکھوں کتابیں بھی کوئٹہ کی خواتین یونیورسٹی کی لائبریری کو دے دی تھیں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ پروپیگنڈہ سیاست دانوں کے خلاف ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کو خبروں، ٹاک شوز، بلاگس، کالموں اور اداریوں میں سب سے زیادہ کرپٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اراکین اسمبلی پر تو مستقل الزامات لگتے ہیں۔ ان میں سے کچھ الزامات درست بھی ہوتے ہیں اور باقی محض پروپیگنڈے کا حصہ ہوتے ہیں مگر سیاست دانوں کے سماجی کاموں پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔
کچھ سیاسی مفکرین کہتے ہیں کہ عوام کے مسائل کا حل سیاسی جدوجہد کے ذریعے سیاسی نظام میں مضمر ہے مگر سماجی کاموں کی بھی اہمیت ہے۔ کشور زہرہ بحیثیت سیاسی کارکن اہم سماجی خدمات انجام دے رہی ہیں،وہ ایک طرح سے سیاست دانوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔