حالاتِ کار بہتر بنانے کی جدوجہد
حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں روپے کی قدرگری اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں ناقابل تصور اضافہ ہوا۔
موجودہ حکومت کے بڑے کارناموں میں سے ایک مہنگائی اور مصارف زندگی میں اضافہ ہے۔ حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں روپے کی قدرگری اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں ناقابل تصور اضافہ ہوا۔ حکومت نے وقتاً فوقتاً تیل ،گیس اور پیٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔
صرف ادویات کے شعبہ میں دوائیوں کی قیمتیں دوگنی سے زیادہ ہوگئیں۔ حکومت نے نامناسب شرائط کی بنیاد پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈز (I.M.F) سے قرضے حاصل کیے اور آئی ایم ایف کے مجاز حکام کو یقین دہانی کرائی کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا جائے گا ۔ گزشتہ سال اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بجٹ کے موقع پر اعلان فرمایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
گزشتہ سال کے اختتام پر وفاقی ملازمین کو حالات سے مجبور ہو کر احتجاج کرنا پڑا اور ریڈ زون میں کئی دنوں تک دھرنا چلا۔ حکومت نے پہلے تو ملازمین کے احتجاج کو سنجیدہ نہیں لیا، مگر پھر گریڈ 1سے گریڈ 16کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کا مطالبہ مان لیا مگر سرکاری ملازمین نے مزاحمت جاری رکھی اور گریڈ 19 تک کے ملازمین کو ایڈہاک ریلیف ملا۔ موجودہ حکومت نے پھر چال بازی دکھائی۔ اس فیصلہ کا اطلاق پورے ملک کے ملازمین پر نہیں کیا گیا، یوں وفاقی خودمختار ادارے، یونیورسٹیوں اور نیم خودمختار اداروں کے ملازمین محروم رہ گئے۔
بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے۔ بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی تعداد تقریباً 2لاکھ 62 ہزار کے قریب ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو صوبہ کے دور دراز علاقوں میں شدید موسم اور دہشت گردی کے ماحول میں فرائض انجام دیتے ہیں، یوں 50 سے زائد محکموں کے ملازمین اپنے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز الائنس کے پلیٹ فارم پر متحدہ ہوئے۔ اس آرڈیننس میں دو درجن سے زائد تنظیمیں شامل ہیں۔ اس الائنس نے فروری کے مہینہ میں 19نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت بلوچستان کے چیف سیکریٹری کو پیش کیا گیا۔
ان کے مطالبات میں وفاقی حکومت کے حالیہ جاری نوٹیفکیشن کے تحت بلوچستان کے تمام سرکاری ملازمین کو یکم مارچ 2021ء سے 25 فیصد Disparity Reduciton Allowance دینے، دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے انتقال کر جانے اور ریٹائر ہوجانے والے ملازمین کے لواحقین کو ملازمتوں کا کوٹہ بحال کرنے ، بلوچستان کے مختلف محکموں کے ملازمین کی ترقی کے لیے ٹائم پے اسکیل کا نفاذ، محکمہ تعلیم میں لازمی سروس ایکٹ کا خاتمہ اور بلوچستان کے نئی ترمیم شدہ مجوزہ لیبر قوانین BIRA کا فوری نفاذ اور 62 ٹریڈ یونینز پر پابندی کے خاتمہ اور بلوچستان کے ملازمین کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ کے اجراء جیسے مطالبات شامل ہیں مگر بلوچستان کی حکومت نے ان ملازمین کے بنیادی مطالبات پر کوئی توجہ نہ دی۔
ملازمین کی انجمنوں کو حتمی فیصلہ کرنا پڑا اور کوئٹہ کے عبدالستار ایدھی چوک پر ریڈ زون کے قریب دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ ہفتہ سیکڑوں ملازمین دھرنا میں شرکت کے لیے کوئٹہ آئے اور کوئٹہ کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ دھرنا شروع ہوا۔ پہلے تو حکومت بلوچستان نے دھرنا کے معاملہ کو سنجیدہ نہیں لیا،کچھ وزراء پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی قائم ہوئی۔ ملازمین کے نمائندے بات چیت اور افہام و تفہیم پر یقین رکھتے ہیں، یوں ان رہنماؤں نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا، مگر حکومت کسی قسم کی لچک دکھانے پر تیار نہیں ہوئی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال کو پورے پاکستان میں ایک منفرد خصوصیت حاصل ہے۔
ان کے دادا جام غلام قادر اور والد جام یوسف مارشل لاء دور اور جمہوری ادوار میں بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے۔ یوں جام کمال نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں آنکھ کھولی اور اپنے بزرگوں کے طرز حکومت کو دیکھا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد راتوں رات بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نمایندہ کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔انھوں نے بڑھتی مہنگائی اور مشکل ترین حالات میں فرائض انجام دینے والے ملازمین کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرنے کے بجائے یہ کہنا شروع کیا کہ کورونا وائرس کی بناء پر ملازمین دھرنا ختم کر دیں۔
وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں شعوری طور پر ناکام رہے کہ ان ملازمین نے انوکھے مطالبات نہیں کیے اور یہ لوگ جن حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں وہ وفاق میں اور دیگر صوبوں کے ملازمین کو مل رہے ہیں، یوں وزیر اعلیٰ کی حکمت عملی کے تحت ملازمین کو تھکا دینے کی اسی پالیسی پر عمل ہوا جیسی پالیسی پڑوسی ملک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت میں کسان اندولن کے شرکاء کو تھکا دینے والی پالیسی اختیار کی تھی مگر بلوچستان کے سیاسی منظرنامہ پر ایک تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ دانشوروں، ادیبوں، مزدور تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے ملازمین کے مطالبات کی حمایت کردی۔
نوجوان دانشور عابد میر ، ڈاکٹر شاہ محمود مری وغیرہ نے عملی طور پر ملازمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ بلوچستان کی تمام ٹریڈ یونین تنظیمیں بھی اس الائنس کے ساتھ ہم رکاب ہوگئیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی اس دھرنا کے مقاصد سے اتفاق کررہے ہیں۔
ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر خزانہ کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد بہت واضح انداز میں کہا تھا کہ کارکنوں، مزدوروں اور کسانوں کے معاشی مطالبات درست ہوتے ہیں۔ ریاست کا فرض ہے کہ ان مطالبات کے حل کے لیے اپنے وسائل وقف کرے مگر پاکستانی ریاست کی ترجیحات میں غریبوں کے حالاتِ کارکو بہتر بنانے کا معاملہ شامل نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ان بنیادی مطالبات پر عملدرآمد کے بجائے، کارروائیوں کا نشانہ بنانے اور ملازمین کو تھکا دینے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ فی الحال بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے ملازمین نے دھرنا ختم کردیا۔ ان ملازمین کے رہنماؤں کو صبر کے ساتھ بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کچھ عناصر تشدد کے راستہ کی ترغیب دیں۔ اب قیادت کا فرض ہے کہ وہ ان عناصر کے عزائم کو کامیاب نہ ہونے دے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں، ٹریڈ یونین تنظیموں، سول سوسائٹی کو پورے ملک میں بلوچستان کے ملازمین کے ساتھ یکجہتی کے لیے اقدامات کرنے چاہیئیں۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد تحریک ہے جس میں بلوچستان کے تمام ملازمین شریک ہیں اور اس تحریک کے ساتھ ہر باشعور فرد کو یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ ان ملازمین کو اس بات پر اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ حق پر ہیں، دیر یا بدیر انھیں کامیابی حاصل ہوگی۔