دو سوراخ

حکومت مخالف سیاستدان اجتماعی فائدے کی بجائے انفرادی اور جماعتی فائدے کو دیکھ رہے ہیں۔


MJ Gohar April 16, 2021
لوگ عموماً دوسروں کی کمزوریوں ، خامیوں اورکمیوں کوکھوجنے میں ماہر ہوتے ہیں

شہنشاہ جلال الدین اکبر نے ایک روز اپنے خاص درباری بیربل سے کہا ''بیربل! اگر ایک ہی بادشاہ کی بادشاہت ہمیشہ قائم رہتی توکیا ہی اچھا ہوتا'' بیربل نے جواب دیا : '' عالی جاہ ! آپ نے بجا فرمایا ، لیکن اگر ایسا ہوتا تو آج آپ بادشاہ کیوں کر ہوتے؟'' دراصل اکبر نے بادشاہت کو اپنی ذات سے شروع کیا۔ اس نے سوچا کہ اگر دنیا میں یہ اصول رائج ہو کہ ایک بادشاہ ہمیشہ باقی رہے تو ہمیشہ اسی طرح بادشاہ بنا رہوں گا۔

اکبر یہ حقیقت بھول گیا کہ بادشاہت کا سلسلہ تو دنیا میں اس وقت سے جاری ہے جب وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ایسی صورتحال میں اگر اکبر بادشاہ کا پسندیدہ اصول دنیا میں رائج ہوتا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ اکبر بادشاہ بن کر تخت پر بیٹھے۔ اکثر ہوتا ہے کہ انسان محض اپنی ذات کو سامنے رکھ کر سوچتا ہے۔ وہ صرف ذاتی مفاد کے تحت اپنے گرد ایک نقشہ بنا لیتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ اکیلا نہیں ہے۔ چنانچہ بہت جلد خارجی حقیقتیں اس سے ٹکراتی ہیں اور اس کے نقشے کو توڑ ڈالتی ہیں۔

اس وقت آدمی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ذاتی مفاد بھی اسی میں تھا کہ وہ مجموعی مفاد کا لحاظ کرتا۔ اگر کوئی فرد اپنی ذات کا فائدہ چاہتا ہے تب بھی اسے سب کا فائدہ چاہنا چاہیے۔ سب کے فائدے میں اس کا اپنا بھی فائدہ ہے۔ اس دنیائے آب و گل میں ہر آدمی ایک اجتماعی کشتی میں سوار ہے، کشتی کے بچاؤ میں اس کی اپنی ذات کا بچاؤ اپنے آپ شامل ہے۔

جن لوگوں کو اس دنیا میں کچھ مواقع ملتے ہیں وہ اکثر یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنی ذات کے لحاظ سے خود ساختہ اصول اور قاعدے بنانے لگتے ہیں۔ وہ جس طریقے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اسی کو رائج کرنے لگتے ہیں، مگر یہ طریقہ اکثر الٹا گلے پڑتا ہے۔ کیوں کہ اس دنیا میں کوئی شخص ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا۔ مواقع کبھی ایک شخص کے ہاتھ میں آتے ہیں اورکبھی دوسرے کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں محض اپنی ذات کو سامنے رکھ کر قواعد بنانا عقل مندی نہیں۔ کیوں عین ممکن ہے کہ حالات بدلیں اور جو چیز پہلے آپ کو اپنے موافق نظر آتی تھی وہ بعد کو آپ کے مخالف بن جائے۔ اپنی ذات کو مرکز بنا کر سوچنا بااعتبار حقیقت نہ اپنی ذات کے لیے مفید ہے اور نہ بقیہ انسانیت کے لیے۔

آپ اس پس منظر میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال بالخصوص اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں ابھرنے والے اختلافات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا۔ اتحاد کیقائدین تک سب ہی جماعتوں نے اتحاد کی اہم سیاسی قوت پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری کے اندرونی و بیرونی حالات اور خطے کی صورتحال کے پیش نظر ملک میں سیاسی استحکام کی مفاہمانہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ٹکراؤ کے ذریعے اسلام آباد اور راولپنڈی کی جانب پیش قدمی کو ہی اپنی سیاسی بقا کا ضامن سمجھا۔

حکومت مخالف سیاسی رہنما پی ڈی ایم کے قیام کے پہلے روز ہی سے ٹکراؤ کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے خواہاں تھے۔ جلسے، جلوس، لانگ مارچ، دھرنا اور اسمبلیوں سے استعفے ان کے اہداف تھے، جب کہ آصف زرداری موجودہ سیاسی نظام کے اندر رہ کر جمہوری جدوجہد کے حق میں تھے۔ صوبائی و قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات سے لے کر سینیٹ کے انتخابات تک مولانا اور (ن) لیگ حصہ لینے پر آمادہ تو تھے لیکن آصف زرداری نے انھیں سیاسی عمل میں حصہ لینے پر آمادہ کیا کہ اسی میں اتحاد کی مضبوطی مضمر تھی۔

پیپلز پارٹی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے لیے بھی آمادہ تھی بات لانگ مارچ سے قبل استعفے دینے پر خراب ہوگئی۔ مولانا اور مسلم لیگ ن والے بضد رہے کہ لانگ مارچ شروع کرنے سے قبل استعفے دیے جائیں جب کہ آصف زرداری ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں تھے جوکہ خالصتاً ایک جمہوری طرز عمل ہے۔

پیپلز پارٹی نے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں احتجاج، تصادم اور ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا، اسی راستے پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بھی چلنا چاہتے ہیں۔ اسی میں سیاسی استحکام مضمر ہے ورنہ غیر جمہوری قوتیں سیاسی بے یقینی کا فائدہ اٹھا کر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے پیش قدمی کرنے لگتی ہیں۔

حکومت مخالف سیاستدان اجتماعی فائدے کی بجائے انفرادی اور جماعتی فائدے کو دیکھ رہے ہیں۔ نتیجتاً انھوں نے پی پی پی کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا جس کے باعث پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں فاصلوں کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ اتحاد کی ایک اور اہم جماعت اے این پی کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے جواب میں اے این پی نے پی ڈی ایم سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔

مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق پی پی پی اور (ن) لیگ کے راستے اب جدا ہوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم کی کشتی میں دو بڑے سوراخ ، خود اتحاد کے بڑوں کے جذباتی رویوں کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ اگر سوراخ بند کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو پی ڈی ایم کی کشتی ڈوب جائے گی لہٰذا سیاستدانوں کو ذاتی سیاسی مفاد کی بجائے اجتماعی مفاد کا خیال رکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں