صبر و تحمل کا خوگر بناتا ہے روزہ
قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت بخشتے، جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بناتا ہے۔
روزہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے، جسے عربی میں صیام کہتے ہیں، روزہ شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر لاکھڑا کرتا ہے۔
قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت بخشتے، جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بناتا ہے۔ روزوں سے بھوک ، پیاس سے تحمل اور صبرکی سہولت ملتی ہے، روزوں سے انسان کو دماغی و روحانی یکسوئی بھی حاصل ہوتی ہے۔ روزے بہت سے گناہوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں، نیک کاموں کے لیے اسلامی ذوق و شوق کو ابھارتے ہیں۔ روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے، قدرتی مشکلات کو حل کرنے اور آفات کو ٹالنے کے لیے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔
ترمذی کی حدیث ہے کہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازے کا نام ''ریان'' ہے، اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔ بخاری اور مسلم سے ہمیں یہ حدیث ملتی ہے کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک ''افطار'' کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت۔ اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزہ خود بھی برکت، اس کے لیے سحری کھانا بھی برکت اور روزہ افطار کرنا بھی برکت۔ اگر افطار اپنے دوستوں میں بیٹھ کر کیا جائے تو یہ بھی برکت، کسی کو افطاری کے لیے مدعوکرنا بھی برکت۔
کون مسلمان ایسا ہوگا جو ماہ رمضان کی عظمت اور برکت سے واقف نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ماہ صیام اپنی عبادت کے لیے بنایا۔ ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں اور تراویح سنت ہیں۔ اس میں شرکت کی سعادت ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات کے وقت تراویح پڑھی جاتی ہے۔ کوئی شک نہیں یہ دونوں عبادات اس ماہ کی اہم عبادات ہیں، درحقیقت رمضان المبارک میں اس سے زائد عبادات ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جنات اور انسان کو صرف ایک کام کے لیے پیدا کیا، وہ میری عبادت کریں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کا مطلب یہ بتایا کہ وہ اللہ کی عبادت کرے، دنیا کے کاروبار، روزگار میں مصروف ہے اس کے نتیجے میں دلوں پر غفلت کا پردہ پڑنے لگتا ہے۔ اس لیے ایک ماہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے مقرر فرما دیا کہ اس مہینے میں اپنے اصل مقصد یعنی عبادت کی طرف لوٹ کر آؤ۔ تمہیں دنیا میں جس کے لیے پیدا کیا گیا، اس ماہ میں اللہ کی عبادت میں لگ جاؤ، گیارہ مہینوں تک تم سے جو سرزد ہوئے ہیں ان کو بخشواؤ، اپنی صلاحیتوں پر جو میل آ چکا ہے اس کو دھلواؤ۔ دل میں جو ایسے غفلت کے پردے پڑ چکے ہیں ان کو ہٹواؤ، اس کام کے لیے یہ ماہ مقرر کیا گیا۔
نبی محمد ﷺ کا ارشاد ہے کہ رمضان کے شب و روز اللہ تعالیٰ جہنم کے قیدی چھوڑ دیتے ہیں اور ہر مسلمان کی رمضان میں ایک شب و روز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ نفلی نماز، نفلی عبادت، نفلی ذکر و نفلی تلاوت قرآن کریم سے زیادہ مقدم اس ماہ کو گناہوں سے پاک کرنا ضروری اس ماہ ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ اس ماہ نظر غلط جگہ پر نہ پڑے، کان غلط باتیں نہ سنیں، زبان سے کوئی غلط کلمہ نہ نکلے۔
اللہ تعالیٰ کی معصیت سے مکمل اجتناب یہ مبارک مہینہ اگر اس طرح گزار لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو مجھے تو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اگر جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا تو کھانا چھوڑ کر کون سا کمال کیا۔ جھوٹ بولنے سے روزے کا ثواب ختم ہو گیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسے پچھلی امتوں پر فرض کیے گئے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو، یعنی روزہ اصل میں تمہارے ذمے شروع کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے تمہارے دل میں تقویٰ کی شمع روشن ہو۔
روزہ انسان کی قوت حیوانیہ اور قوت بہمیہ (باہم یا) کو توڑتا ہے جب آدمی بھوکا رہے گا تو اس کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات اور حیوانی تقاضے کچلے جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں گناہوں پر اقدام کرنے کا جذبہ سست پڑ جائے گا صرف قوت بہمیہ (باہم یا) توڑنے کی بات نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ جب مسلمان صحیح طریقے سے روزے رکھے گا تو یہ روزہ خود تقویٰ کی ایک عظیم سیڑھی ہے۔ اس لیے کہ تقویٰ کے کیا معنی ہیں؟
تقویٰ کے معنی گناہوں سے بچنا۔ یہ سوچ کر کہ میں رب تبارک و تعالیٰ کا بندہ ہوں اور رب تعالیٰ دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر مجھے جواب دینا ہے اور اپنے رب تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس تصور کے بعد جب انسان گناہوں کو چھوڑتا ہے تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ جیساکہ رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو کر کھڑا ہونا ہے، ہوائے نفس اور خواہشات سے روکنا ہے یہی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ ماہ صیام میں شیاطین کو مقید کردیتا ہے تاکہ ورغلا نہ سکیں۔
روزہ حصول تقویٰ کے لیے بہتر مشق اور بہترین تربیت ہے، جب روزہ رکھ لیا تو آدمی کیسا ہی گنہگار، خطاکار، فاسق و فاجر ہو کیسا بھی ہو۔ لیکن روزہ رکھنے کے بعد اس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ سخت گرمی میں پیاس لگی ہوئی ہے کمرہ میں اکیلا ہے، کوئی دوسرا پاس موجود نہیں، دروازہ پر کنڈی لگی ہے، کمرہ میں فریج موجود ہے اس فریج میں ٹھنڈا پانی موجود ہے، اس وقت انسانی نفس یہ تقاضا کرتا ہے کہ شدید گرمی کے عالم میں ٹھنڈا پانی پیوں، کیا وہ شخص فریج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پی لے گا؟ ہرگز نہیں۔
حالانکہ اگر وہ پانی پی لے تو کسی بھی فرد کو خبر نہ ہوگی کوئی لعنت و ملامت کرنے والا نہ ہوگا۔ وہ دنیا والوں کے سامنے روزہ دار ہی کہلائے گا، شام کو باہر نکل کر آرام سے لوگوں کے ساتھ افطاری کھالے تو کسی کو بھی معلوم نہ ہوگا کہ اس نے روزہ توڑ دیا ہے، لیکن روزہ دار ان تمام کے باوجود پانی نہیں پیتا وہ سوچتا ہے اگرچہ کوئی نہیں دیکھ رہا لیکن میرا مالک اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ کسی عمل کا دس گنا اجر، کسی عمل کا ستر گنا اجر، کسی عمل کا سو گنا اجر حتیٰ کہ صدقہ کا اجر 700 گنا ہے لیکن روزے کے بارے میں فرمایا کہ روزے کا اجر میں دوں گا۔ کیونکہ روزہ اس نے صرف میرے لیے رکھا اس نے تقویٰ کیا۔
جس طرح علاج ضروری ہے اسی طرح پرہیز بھی ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھوایا جس میں ہر برائی، گناہ سے پرہیز کرنا ہے۔ ہمارے سارے دین کا دار و مدار اللہ اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کے حکم کی اتباع ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ماہ رمضان تقویٰ سے گزار لو جب ایک مہینہ گزار لو گے تو دیگر مہینوں میں دین پر چلنے کے عادی ہو جاؤ گے۔ جب ایک ماہ گناہ چھوڑ دو گے، پرہیز کرو گے تو اللہ تعالیٰ دل میں گناہ چھوڑنے کا دعایا فرمادیں گے۔
یہ عجب بات ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے پھر وہ ماہ رمضان گزر جانے کے بعد میں مہنگی رہتی ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ صبر کا مہینہ ہے، یہ غم خواری کا مہینہ ہے، ایک دوسرے سے ہمدردی کا مہینہ ہے۔ افسوس ان تمام کے باوجود الٹا منافع خور لوگوں کی کھال کھینچتے ہیں، ان کو صرف یہی فکر ہوتی ہے ہم اس ماہ میں جس قدر ناجائز کما سکیں خوب کمالیں۔
دیکھا گیا ہے جیسے رمضان المبارک کا مہینہ آیا ادھر تمام چیزوں کی ذخیرہ اندوزی، گرانی شروع ہوجاتی ہے اس ماہ مبارک میں بھی وہ حرام کاری سے باز نہیں آتے۔ پھل اس قدر گراں ہوتے ہیں غریب روزہ دار افطار کے لیے خریدنے سے قاصر ہے۔ سبزیاں، گوشت، مرغی، گھی، تیل، مسالہ جات حتیٰ کہ نمک تک مہنگا ہو جاتا ہے۔ تمام اشیا ضرورت کی گرانی، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی یہ بڑے گناہ ہیں یہ ایسے گناہ ہیں جو روزہ دار سے ناقابل معافی اور اللہ تعالیٰ بھی ان کو ان گناہوں سے معاف نہیں کرے گا۔