جس کے ہر لمحے میں پوشیدہ ہے رازِ زندگی
اپنی قسمت بدلیے اور ماہ مقدس کی آغوش میں سما جائیے اور رب کی عنایتوں کا لطف اٹھائیے۔
لاہور:
دردِ دل کی دوا کرے کوئی!
دلِ افسردہ کا چارہ گر کون بنے۔۔۔ ؟
زخم دل کی مسیحائی کون کرے۔۔۔ ؟
تشنہ تمناؤں کا مداوا کیسے ہو۔۔۔ ؟
زندگی کے صحرا میں کتنے ہی سراب ملے جنہیں نخلستان سمجھتے تھے۔ کتنے سہانے خواب تھے، جو تعبیر ہونے سے محروم رہ گئے۔ کتنی آرزوئیں تھیں جو سینے میں ہی دم توڑ گئیں۔ کتنی ہی خواہشات زخم دل بن کر رستی رہیں۔۔۔۔۔ نہ جانے کتنی ہی۔۔۔۔۔۔!
دل ایک ایسا ویرانہ بن گیا، جس میں یہ سب کچھ خاک ہوا، اس کھنڈر میں اب سسکیوں اور آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔۔!
کیسے ہوگا اس کا مداوا۔۔۔۔۔ کیسے پائے گا یہ دل، سُکون و قرار ۔۔۔۔ ؟
کہاں اسے تلاش کریں۔۔۔۔ آخر کہاں۔۔۔۔؟
کوئی تو جائے اماں ملے! کوئی تو تشنگی کو سیراب کرے۔۔۔۔۔!
کوئی ایسا حیات بخش، سکوں آور ٹھندا میٹھا پانی۔۔۔۔۔۔
جسے پیتے ہی دکھ دور ہوجائیں، ہر مسامِ جاں معطر ہوجائے
اور اندر کی سلگتی زمیں آسودگی پائے، راحت کدہ بن جائے ، یہ دل افسردہ۔۔ آہ۔۔۔!
یہ جو خالقِ کائنات ہے، وہ خالق جس نے دل کے لیے، ہر مرض کے لیے، جیون کے ہر دکھ کے لیے بنائی ہے دوا۔۔۔ ہر روگ کا علاج بتایا ہے جس نے۔۔۔۔!
کبھی سوچا، کبھی جانا کہ وہ دوا کیا ہے۔۔۔۔؟
ہاں سوچتے تو جان پاتے کہ رب کائنات کسی کو بھی مایوس نہیں کرتا، شرط ہے تو بس جستجو کی۔۔۔۔ اخلاص سے طلب کی۔۔۔۔ سر بس اس کے سامنے جھکا لینے کی۔
جی آپ صحیح سمجھے، جی! جی! سب دکھوں کا مداوا ہے۔۔۔ وحی الہی، کلام الہی، راہ ہدایت کا روشن اور تابندہ مینار۔۔۔۔ مینار نُور، قرآں کہیں جسے۔۔۔۔
جو نوید زندگی ہے، جو چراغ راہ ہے، جو دکھی دلوں کا مرہم ہے، جو مایوسی کے اندھیروں میں درس استقامت ہے، جو راحت قلب و نظر ہے، سکون جسم و جاں ہے، جو انسانی روح کو بالیدگی بخشتا ہے۔
تو بس قرآن کریم ہی ہے، اصل نسخۂ کیمیا۔۔۔!
یہی وہ ماہ رحمت ہے، جس میں اس قرآن حکیم کو نازل کیا گیا۔
سال بھر تو ہم فراموش کیے رہتے ہیں، اسی لیے ہر سال یہ ماہ مقدس نوید زندگی بن کر آتا ہے کہ ہمیں اپنا بُھولا ہوا سبق یاد دلائے اور ہمیں بتائے کہ ہمارے سارے روگ، ہمارے سارے سوگ، راحت و سکون میں بدل سکتے ہیں کہ بس اس نسخۂ کیمیا کے عامل بن جائیے۔
پھر آگیا نوید مسرت سنانے، ہماری دنیا اور آخرت بنانے، ہمارے ہر دکھ کا مداوا۔۔ نیکیوں کا موسم بہار۔۔۔۔ اﷲ کی رحمتوں کی موسلا دھار برسات۔۔۔
رمضان المبارک۔۔۔۔
اس درد دل کی دوا لیے، جسے ہم نہ جانے کہاں کہاں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔۔۔۔ !
جو ہمیں اس کتابِ زندگی سے رشتہ جوڑ لینے پہ اکساتا ہے، جو خواہشات اور جذبات کے تلاطم میں بہنے سے روکتی، قوت ارادی اور ضبط نفس کی صلاحیت کو بڑھاتی اور ہمیں پیغام دیتی ہے کہ زندگی خواہشات اور تمناؤں سے مغلوب ہونے کا نام نہیں!
زندگی تو بس رب کے حکم پر تسلیم کا نام ہے۔ تسلیم بہ رضائے الہی تسلیم۔
رمضان الکریم! اﷲ کا مہمان آئے، اور دل کا کشکول یوں ہی خالی رہے، یہ کم نصیبی نہیں، بد بختی ہے۔۔۔۔ خسارہ ہی خسارہ ، دنیا کا بھی اور آخرت کا بھی، بس نقصان ہی نقصان۔
مجھے تو اس مہمان کو اپنے دل کی بیٹھک میں بٹھانا ہے، دل کی تاریکی کو قرآن حکیم کے نُور سے اجالنا ہے، جو زخم، غم و اندوہ، آبلہ و شکستہ پائی، دل کے روگ بن گئے ہیں، انہیں دل سے بے دخل کرنا ہے، ایک ایسا انساں بننا ہے جو لامتناہی خواہشوں کا اسیر نہ ہو، بل کہ بہ فضل الہی آپ اپنا ضابط ہو! آپ اپنا محافظ ہو!
اگر ہمیں سرخ رُو ہونا ہے
اگر ہمیں راحت پانی ہے
اگر ہمیں تزکیۂ نفس کرنا ہے
اگر ہمیں اپنے رب کی رحمتیں سمیٹنا ہیں
اگر ہمیں ابلیس کو جو مایوسی کا منبع ہے کو دھتکارنا اور اسے اپنی زندگی سے بے دخل کرنا ہے۔۔۔۔۔
اگر ہمیں پھر سے ایک نیا انسان اور ایسا انسان جسے رب نے افضل کیا ہے، بننا ہے تو۔۔۔
یہ ہے وہ موقع، یہ ہے وہ ماہ مبین، جس کے ہر لمحہ میں ہر زہر کا تریاق چُھپا ہے،
جس کے ہر لمحے میں پوشیدہ ہے زندگی۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسی زندگی، کہ جینا کہیں جسے۔۔۔۔۔ جو ہمیں اپنے پالن ہار سے، اپنے پیارے رب سے جسے ہم بھول بیٹھے ہیں، ملاتا ہے، یہ ماہ مقدس۔
فیصلہ تو اب ہم نے کرنا ہے کہ آ پہنچی ہے فیصلہ کن گھڑی
تو بس دیر کسی۔۔۔۔۔
اپنی قسمت بدلیے اور ماہ مقدس کی آغوش میں سما جائیے اور رب کی عنایتوں کا لطف اٹھائیے۔
دردِ دل کی دوا کرے کوئی!
دلِ افسردہ کا چارہ گر کون بنے۔۔۔ ؟
زخم دل کی مسیحائی کون کرے۔۔۔ ؟
تشنہ تمناؤں کا مداوا کیسے ہو۔۔۔ ؟
زندگی کے صحرا میں کتنے ہی سراب ملے جنہیں نخلستان سمجھتے تھے۔ کتنے سہانے خواب تھے، جو تعبیر ہونے سے محروم رہ گئے۔ کتنی آرزوئیں تھیں جو سینے میں ہی دم توڑ گئیں۔ کتنی ہی خواہشات زخم دل بن کر رستی رہیں۔۔۔۔۔ نہ جانے کتنی ہی۔۔۔۔۔۔!
دل ایک ایسا ویرانہ بن گیا، جس میں یہ سب کچھ خاک ہوا، اس کھنڈر میں اب سسکیوں اور آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔۔!
کیسے ہوگا اس کا مداوا۔۔۔۔۔ کیسے پائے گا یہ دل، سُکون و قرار ۔۔۔۔ ؟
کہاں اسے تلاش کریں۔۔۔۔ آخر کہاں۔۔۔۔؟
کوئی تو جائے اماں ملے! کوئی تو تشنگی کو سیراب کرے۔۔۔۔۔!
کوئی ایسا حیات بخش، سکوں آور ٹھندا میٹھا پانی۔۔۔۔۔۔
جسے پیتے ہی دکھ دور ہوجائیں، ہر مسامِ جاں معطر ہوجائے
اور اندر کی سلگتی زمیں آسودگی پائے، راحت کدہ بن جائے ، یہ دل افسردہ۔۔ آہ۔۔۔!
یہ جو خالقِ کائنات ہے، وہ خالق جس نے دل کے لیے، ہر مرض کے لیے، جیون کے ہر دکھ کے لیے بنائی ہے دوا۔۔۔ ہر روگ کا علاج بتایا ہے جس نے۔۔۔۔!
کبھی سوچا، کبھی جانا کہ وہ دوا کیا ہے۔۔۔۔؟
ہاں سوچتے تو جان پاتے کہ رب کائنات کسی کو بھی مایوس نہیں کرتا، شرط ہے تو بس جستجو کی۔۔۔۔ اخلاص سے طلب کی۔۔۔۔ سر بس اس کے سامنے جھکا لینے کی۔
جی آپ صحیح سمجھے، جی! جی! سب دکھوں کا مداوا ہے۔۔۔ وحی الہی، کلام الہی، راہ ہدایت کا روشن اور تابندہ مینار۔۔۔۔ مینار نُور، قرآں کہیں جسے۔۔۔۔
جو نوید زندگی ہے، جو چراغ راہ ہے، جو دکھی دلوں کا مرہم ہے، جو مایوسی کے اندھیروں میں درس استقامت ہے، جو راحت قلب و نظر ہے، سکون جسم و جاں ہے، جو انسانی روح کو بالیدگی بخشتا ہے۔
تو بس قرآن کریم ہی ہے، اصل نسخۂ کیمیا۔۔۔!
یہی وہ ماہ رحمت ہے، جس میں اس قرآن حکیم کو نازل کیا گیا۔
سال بھر تو ہم فراموش کیے رہتے ہیں، اسی لیے ہر سال یہ ماہ مقدس نوید زندگی بن کر آتا ہے کہ ہمیں اپنا بُھولا ہوا سبق یاد دلائے اور ہمیں بتائے کہ ہمارے سارے روگ، ہمارے سارے سوگ، راحت و سکون میں بدل سکتے ہیں کہ بس اس نسخۂ کیمیا کے عامل بن جائیے۔
پھر آگیا نوید مسرت سنانے، ہماری دنیا اور آخرت بنانے، ہمارے ہر دکھ کا مداوا۔۔ نیکیوں کا موسم بہار۔۔۔۔ اﷲ کی رحمتوں کی موسلا دھار برسات۔۔۔
رمضان المبارک۔۔۔۔
اس درد دل کی دوا لیے، جسے ہم نہ جانے کہاں کہاں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔۔۔۔ !
جو ہمیں اس کتابِ زندگی سے رشتہ جوڑ لینے پہ اکساتا ہے، جو خواہشات اور جذبات کے تلاطم میں بہنے سے روکتی، قوت ارادی اور ضبط نفس کی صلاحیت کو بڑھاتی اور ہمیں پیغام دیتی ہے کہ زندگی خواہشات اور تمناؤں سے مغلوب ہونے کا نام نہیں!
زندگی تو بس رب کے حکم پر تسلیم کا نام ہے۔ تسلیم بہ رضائے الہی تسلیم۔
رمضان الکریم! اﷲ کا مہمان آئے، اور دل کا کشکول یوں ہی خالی رہے، یہ کم نصیبی نہیں، بد بختی ہے۔۔۔۔ خسارہ ہی خسارہ ، دنیا کا بھی اور آخرت کا بھی، بس نقصان ہی نقصان۔
مجھے تو اس مہمان کو اپنے دل کی بیٹھک میں بٹھانا ہے، دل کی تاریکی کو قرآن حکیم کے نُور سے اجالنا ہے، جو زخم، غم و اندوہ، آبلہ و شکستہ پائی، دل کے روگ بن گئے ہیں، انہیں دل سے بے دخل کرنا ہے، ایک ایسا انساں بننا ہے جو لامتناہی خواہشوں کا اسیر نہ ہو، بل کہ بہ فضل الہی آپ اپنا ضابط ہو! آپ اپنا محافظ ہو!
اگر ہمیں سرخ رُو ہونا ہے
اگر ہمیں راحت پانی ہے
اگر ہمیں تزکیۂ نفس کرنا ہے
اگر ہمیں اپنے رب کی رحمتیں سمیٹنا ہیں
اگر ہمیں ابلیس کو جو مایوسی کا منبع ہے کو دھتکارنا اور اسے اپنی زندگی سے بے دخل کرنا ہے۔۔۔۔۔
اگر ہمیں پھر سے ایک نیا انسان اور ایسا انسان جسے رب نے افضل کیا ہے، بننا ہے تو۔۔۔
یہ ہے وہ موقع، یہ ہے وہ ماہ مبین، جس کے ہر لمحہ میں ہر زہر کا تریاق چُھپا ہے،
جس کے ہر لمحے میں پوشیدہ ہے زندگی۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسی زندگی، کہ جینا کہیں جسے۔۔۔۔۔ جو ہمیں اپنے پالن ہار سے، اپنے پیارے رب سے جسے ہم بھول بیٹھے ہیں، ملاتا ہے، یہ ماہ مقدس۔
فیصلہ تو اب ہم نے کرنا ہے کہ آ پہنچی ہے فیصلہ کن گھڑی
تو بس دیر کسی۔۔۔۔۔
اپنی قسمت بدلیے اور ماہ مقدس کی آغوش میں سما جائیے اور رب کی عنایتوں کا لطف اٹھائیے۔