ماسک کی اردو
اچھا ہے کہ اسی طرح اپنی پیاری زبان سے تعلق مستحکم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
زباں فہمی نمبر 93
جس طرح اہل ِ وطن کو جنریٹر[Generator] کا نام آج سے کوئی تیس برس پہلے نامانوس لگتا تھا اور اسے اردو میں رائج کرنے کے لیے باقاعدہ سازش کے تحت، بجلی کا مصنوعی بحران پیدا کرتے ہوئے، بازار میں ہمہ اقسام کے جنریٹرز کی بھرمار کردی گئی (ظاہر ہے کہ ہمہ وقت کمانے والے اسی طرح سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے کوئی معاشی ومعاشرتی تغیر پیدا کرتے ہیں۔ اُنھیں ہماری طرح قوم وملت کے غم میں گھُلنے کا یارا کہاں) تو شُدہ شُدہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اَب پاکستان کے کسی گھر میں اس شئے سے نامانوس کوئی شخص اگر ملا تو جاہل کہلائے گا۔
یہ اور بات کہ اُن دنوں یارلوگوں کو اتنی فرصت نہ تھی کہ جنریٹرکے اردو مترادف کا سوال اٹھاتے۔ اب چونکہ ہم بہت ترقی کرچکے ہیں۔ ہمارے متوسط طبقے کے افراد کے پاس بھی اتنا فاضل وقت، کم وبیش ہمہ وقت، ہوتا ہے کہ ہر کوئی ''سماجی رابطہ'' قایم کرنے میں دن رات عملاً لگا ہوا ہے، گویا ہمہ وقت، ہمہ تن غرق ہے تو ایسے میں ہر لفظ، ترکیب اور اصطلاح کی اردو تلاش کرنے کا خیال بھی بہت سے اذہان میں آتا ہے۔ اچھا ہے کہ اسی طرح اپنی پیاری زبان سے تعلق مستحکم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
مصنوعی وباء میں جن الفاظ کی دِیدوشُنیِد ہمہ وقت ہمارے اعصاب پر سوار ہے (بطفیل ِ ذرائع ابلاغ)، ان میں شاید سرِفہرست ہے : ماسک[Mask]۔ اب لوگ سلام علیک، خیر خیریت بعد میں پوچھتے ہیں، پہلے ماسک کی بات کرتے ہیں۔ ارے آپ کا ماسک کہاں ہے؟ آپ نے ماسک کیوں نہیں لگایا؟ آپ کو پتا ہے، ماسک لگانا کتنا ضروری ہے؟ وغیرہ۔ ماسک نہ ہوا، محبوبہ کا گم شدہ آنچل ہوگیا کہ اُسے رقیبوں کی نظرِبد سے بچانے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے ہوئے، اُسی سے پوچھا جائے کہ ہائے وہ تیرا آنچل کیا ہوا۔ زیاد ہ پرانی بات نہیں، جب لوگ کسی کے گھر جاتے اور سلام علیک کے جواب میں پہلا سوال کرتے، ''وہ چارجر[Charger] ہوگا آپ کے پاس، پتلی پِن[Pin] والا؟''، پھر SOPsکا ڈنڈا چل پڑا تو Mask،Social distance،Quarantine اور سب سے بڑھ کرVaccine نے ہمارے کانوں میں سارا دن، کسی گھُس بیٹھئے کی طرح جگہ بنالی ہے ۔
ان دنوں لوگ ملاقات یا نصف ملاقات یعنی ٹیلی فون (کیونکہ خط کتابت تو اَب طاقِ نسیاں ہوچکی) میں ہر مخاطب سے یہی پوچھتے ہیں، آپ نے ویکسین لگوائی؟ نہیں؟ ارے بھئی فوراً لگوائیں۔ اس سے قبل کہ یہ کالم بھی متأثرین کرونا میں شامل ہوجائے، خاکسار آمدَم برسرِِمطلب! ....فیس بک اور واٹس ایپ ہمارے قومی شعور کے عکاس اور گویا نبّاض ہیں۔ لہٰذا یہ اہم نکتہ بھی کئی بار ہم تک پہنچا کہ جناب! یہ ماسک کو اُردو میں کیا کہتے ہیں۔ اب بندہ کہے کہ یہ متبادل ہے تو حزبِ اختلاف کہے کہ نہیں، اس کا مطلب تو یہ ہے، کچھ اور بتائیں۔
ظاہر ہے کہ پہلے ہماری قوم بہ یک وقت تین موضوعات (سیاست، کھیل خصوصاً کرکٹ اور دین مذہب) پر کامل دسترس رکھتی تھی، اب اس میں دو کا اضافہ ہوگیا ہے: کرونا مع متعلقات اور اردو زبان وبیان کی اصلاح وتہذیب۔ قومی انگریزی اردولغت (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔اشاعت ِ ثانی : ۱۹۹۴ء) ہمیں بتاتی ہے کہ Mask کے مفاہیم یہ ہیں: نقاب، مقنع، برقعہ، مصنوعی چہرہ جسے رومی (Romans) اور یونانی [Greek] اداکار استعمال کرتے تھے; بھیس بدلنے، حفاظت وغیرہ کے لیے چہرے کو ڈھانپنے کی کوئی چیز ۔یا۔ اُس سے مشابہ کوئی چیز ;شبیہ ;چہرے کا چربہ جیسے سنگ ِ مرمر یا موم وغیرہ میں ڈھالا گیا چہرہ یا ایسی کوئی چیز (جیسے A death mask);چھُپانے یا بہروپ بھرنے والی کوئی چیز; بناوٹ، بہروپ ;بہانہ ; حِیلہ ;پردہ ;پوشش;نقاب پوش; بہروپیا;ڈرامائی تشکیل;سوانگ۔ (فن ِ تعمیر) سر۔یا۔چہرے کا خاکہ، تصویریا مجسمہ، عموماً مضحکہ خیز جو سجاوٹ کے طور پر بنایا جاتا تھا۔ (عسکری) پردے، مٹی یا جھاڑیوں وغیرہ کی اوٹ جو کسی فوجی سرگرمی یا توپوں وغیرہ کو چھپانے کے لیے استعمال ہو۔
(عکاسی) دھندلا کاغذ، فیِتہ یا ایسی کوئی چیز جو تصویر کے دھوئے جانے والے حصے کو روکنے یا تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے;کُتّے یا لومڑی کا سر۔ہندوی (قدیم اردو) کے عظیم سخنور امیرخسرو سے منسوب یہ دوہا بہت مشہور ہے جس میں شاید پہلی مرتبہ لفظ مکھ کا استعمال کیا گیا ہے:
گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس /چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس۔یا۔بہ اختلاف روایت، چل خسرو گھر آپنے سو سانجھ بھئی چہو دیس۔ {گوری اپنے مُکھ یعنی چہرے پر کیس یعنی بال بکھرائے سیج پر سو رہی ہے۔ چلو خسرو گھر چلیں کیونکہ شام چاروں اطراف پھیل چکی ہے یعنی شام کا اندھیرا چھا گیا ہے۔ گویا گوری کے سیاہ بال شام کا اندھیرا ہے جو چاروں طرف پھیلا ہے}۔ یہ بیان بہت مشہور ہے کہ ایک بار امیر خسرو، حضرت نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) سے ملنے کے لیے آئے تو مرشَد کو محوِاستراحت پایا۔ مریدِخاص نے انھیں سوتا دیکھا تو اُن کا نورانی حسن گویا اس دوہے کا سبب بنا۔ مگر اس کی تردید میں ہمارے فیس بک دوست، محقق، ادیب محترم غوث سیوانی کے مضمون برحضرت امیرخسرو دہلوی (آن لائن دستیاب: ریختہ ڈاٹ آرگ) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
''خسرو کا آخری وقت
1320ء میں غیاث الدین تغلق کی تخت نشینی ہوئی اور امیرخسروؔ حسب سابق اس کے دربار سے وابستہ رہے۔ امیر خسرو شہزادہ اُلغ خان کے ساتھ بنگال سے واپسی کے راستے میں ترہٹ (مظفر پور، بہار) کے علاقے میں تھے کہ آپ کو حضرت نظام الدین اولیاء کی بیماری کی اطلاع ملی تو لشکر کو چھوڑ کر جلدی جلدی دہلی آئے مگر مرشد سے ملنا نصیب نہ ہوا اور غم واندوہ میں مبتلا ہوکر ان کی قبر کے پاس بیٹھ رہے۔ درد کی جو کیفیت دل میں تھی وہ کبھی کبھی لب پہ آجاتی۔ آپ کے بدن پر ماتمی لباس ہوتا، آنکھوں میں آنسو ہوتے اور زبان پر ہندی کا ایک دوہا،
گوری سوئے سیج پر سو مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے سو سانجھ بھئی چہو دیس
آخر کار دل کی اس بیقراری کو قرار آہی گیا اور مرشد کے انتقال کے ٹھیک چھے مہینے بعد خسروؔ کو بھی 18شوال 725ھ (1325ء) کو وصال یار نصیب ہوا اور اپنے پیر کی پائنتی میں جگہ پائی۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ''نہایۃ الکمال'' مکمل کرچکے تھے''۔ {یہاں ماتمی لباس والی بات کسی نے زیب ِداستاں کے لیے بڑھا دی ہوگی، ورنہ صوفیہ کرام پابندِشریعت ہوا کرتے ہیں۔ ہندی سے مراد وہی ہندوی ہے جسے آگے چل کر اردو کا معتبر نام ملا، جبکہ خسرو کے دور میں ریختہ سے مراد دویا زائد زبانوں کے اشتراک سے کہا گیا کلام، بات یا کوئی ایسی مخلوط زبان تھی۔ یہ اردو کے قدیم ناموں میں بھی شامل ہے}۔ اردولغت بورڈ کی شایع کردہ عظیم اردولغت میں لفظ مکھ کے معانی یوں درج کیے گئے ہیں:
مُکھ:(اسم مذکر)۱۔ (ا) چہرہ، منھ، صورت۔(ب) (مجازاً) سامنے کا رخ، سامنے کا حصہ۔۲۔ (ا) دہن، دہانہ۔(ب) (مجازاً) دریا کا دہانہ.(ج) چونچ، منقار۔۳۔ چھید، سوراخ، موکھا۔۴۔(مجازاً) خاطر (قدیم)۔۵۔ (مجازاً) در، دروازہ؛ شروع، آغاز؛ جہاز یا کشتی کا آگا ماتھا یا مہرہ، کسی چیز کا سرا یا نوک؛ جیسے: سرِپستان، فوج کا اگلا حصہ، میمنہ؛ کلہاڑی کی دھار؛ (الجبرا) کسی سلسلے کی پہلی رقم؛ (ناٹک) تماشے کی اصل وجہ؛ (ہندسہ) قاعدے کے سامنے کا رُخ۔۶۔ بڑا، مہان، خاص۔ ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ نے لفظ مُکھ کے معانی یوں بیان کیے ہیں: مُنھ ، رُو، چہرہ، دروازہ، ہر چیز کا پہلا حصہ ، اوّل ، ابتداء، آغاز، سامنا۔فرہنگ آصفیہ میں ان مترادفات کا اضافہ کیا گیا ہے: فم، فو، فوہ، دہن اور دہانہ۔ مکھڑا بھی مکھ ہی کی ایک شکل ہے۔۔۔معانی ملاحظہ فرمائیں:
مُکھڑا: (اسم مذکر) مُکھ کی تصغیر بالمحبت (یعنی محبت میں کسی نام کو چھوٹا کرکے پکارنا جیسے بِہار میں بابو کو بَبوا: س ا ص)، پیار امُنھ، پیارا پیار ا چہرہ جیسے چاند سا مکھڑا۔ دیا دھرم نہیں مَن میں/ مکھڑا کیا دیکھے دَرپَن میں ؎ زلفیں سُنبل ہیں تو پھر نرگس ِ شہلا آنکھیں/جس نے دیکھا تیرے مکھڑے کو وہ گلشن سمجھا (آتشؔ)۔ اردولغت بورڈ کی شایع کردہ عظیم اردولغت میں لفظ مکھڑا کے ذیل میں یہ معانی شامل کیے گئے ہیں:
۱۔ چہرہ؛ پیارا چہرہ، رخ ِزیبا۔۲۔ چہرہ، منھ، رُخ، رُو (مکھ کی تصغیر، گاہے طنز سے)۔۳۔ (طب) ٹھوڑی سے سر تک کا حصہ، منڈیا۔
۴۔ (موسیقی) گیت کے ابتدائی بول۔ کہیے کیسا لگا یہ پریشان کرنے کا منضبط عمل؟ اُف ایک لفظ کے اتنے مطالب؟؟...اچھا تو ہم بات کرتے ہیں اُس ماسک کی جو اِن دنوں ہمارے چہروں پر بالجبر ، تقریباً ہمہ وقت چڑھا رہتا ہے، (حالانکہ ایک جدید سائنسی تحقیق یا رَدّتحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ انتہائی ضرورت کے سوا، زیادہ دیر تک ماسک چڑھانا مُہلک یعنی جان لیوا عمل ہے جسے 'فادری' زبان میں Fatalکہتے ہیں۔ کیا خبر کتنے ہی لوگ بے چارے مصنوعی وباء میں اسی جبر کے سبب، دارِفانی سے کوچ کرچکے ہوں)...اسے کیا کہیں گے آسان اردو میں؟ میری رائے میں اس مخصوص ماسک کو نقاب کہنا اس لیے موزوں نہیں کہ باقاعدہ نقاب (برقعے والا) قدرے بڑا ہوتا ہے، سو بہتر ہے کہ اسے مُکھوٹا کہا جائے۔
یہ ہندی الاصل لفظ اب فقط ادبی زبان تک محدود ہے۔ مُکھ یعنی چہرے سے مکھوٹا۔ مکھوٹا کے معانی: نقلی چہرہ، تصوراتی مصنوعی چہرہ، سانچہ، دھات وغیرہ کا بنا ہوا چہرہ جو دیوی دیوتاؤں میں ان کے چہرے پر لگایا جاتا ہے(ریختہ ڈکشنری: ریختہ ڈاٹ آرگ)۔ وِکی پیڈیا کے اردو رُوپ یعنی آزاد دائرہ معارف (دائرۃ المعارف درست نہیں) نے بھی ماسک کے اردومتبادل یا مترادف کے طور پر اسے اپنالیا ہے۔ یہاں ذرا سا غیرمتعلق لفظ 'مکھنا ' بھی لکھتا چلوں۔ ان دنوں خواتین نقاب کی ایک شکل کو یہ نام دے رہی ہیں، جبکہ فرہنگ آصفیہ میں مکھنا کے کچھ اور ہی معانی دیے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عربی لفظ ''مِقنَعَہ'' یعنی نِقاب یا گھونگھٹ کو بگاڑ کر مکھنا کردیا گیا ہے۔ فرہنگ آصفیہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کا استعمال عوام النّاس ناصرف سہواً زَبر سے کرتے ہیں، بلکہ مکھنا بھی اسی کی مُحَرّف یعنی بگڑی ہوئی شکل ہے، نیز سہرے کو مکھنا کہنا مذکور ہے۔
معانی ملاحظہ کیجئے: (اسم مذکر) ایک عرض کی بارِیک چادر، مجازاً بُرقع۔ مُنھ پر ڈالنے کا کپڑا، نقاب، گھونگھٹ جیسے اُٹھاؤ میرا مقنعہ، میں گھر سنبھالوں اپنا۔ {یہاں ہمیں تاریخ کا ایک اہم کردار، کیمیاداں 'المقنع' (نقاب پوش )[Al-Muqanna]خراسانی (المتوفیٰ 783ء) بھی یاد آتا ہے جس نے سیماب یعنی پارے کے اجزاء سے مشہورِِزمانہ مصنوعی چاند 'ماہِ نخشب' ایجاد کیا تھا۔ اس کا اصل نام بہ اختلاف روایت حکیم یا حاکم بن ہاشم۔یا۔حکیم ابن عطاء اور عرف المقنع تھا۔ اس نے اپنی بدصورتی کو چھپانے کے لیے ایک سنہری نقاب یعنی مقنعہ کا استعمال کیا۔
خدائی کے اس جھوٹے دعوے دار کا مصنوعی چاند، ماوراء النہر/ترکستان کے علاقے نخشب (موجودہ قرشی/کرشی، ازبکستان) کے ایک کنویں سے طلوع وغروب ہوتا تھا جسے 'چاہ ِنخشب' کے نام سے شہرت ملی۔ یہ جگہ جنوبی ازبکستان میں سمرقند وبخارا کی شاہراہ افغانستان وہند پر واقع تھی۔ اشعار میں اس تلمیح کا استعمال دیکھیے: ؎ نورکا باعث، تعلق ہے، دلِ بے تاب کا/یارمثل ِماہ ِ نخشب، چاند ہے سیماب کا (رشکؔ)۔ ناسخؔ جیسے فاضل سخنور نے ایک شعر میں لفظ مقنع کا تلفظ غلط کردیا ہے۔ بحوالہ نوراللغات}۔ میرے بزرگ معاصر محترم زاہد حسین مُکھوٹا کی بجائے لفظ ڈھاٹا کا استعمال بہتر قراردیتے ہیں۔ اب ہم پھر لغات کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ لفظ محض ڈاکوؤں سے مخصوص ہے۔ یہ ہندی الاصل لفظ بھی اسم مذکر ہے اور اس کا مطلب ہے : ۱)۔ کپڑے کی پٹّی جو مُنھ چھپانے یا ڈاڑھی بٹھانے کے لیے چہرے پر باندھی جائے۔۲)۔ کپڑا جو مُردے کے مُنھ پر باندھا جائے۔ (جامع اردو فیروزاللغات)۔ اردو لغت بورڈ کی مختصر اردو لغت میں اس کا تلفظ ''ڈھانٹا'' درج کرکے یہ مفاہیم بیان کیے گئے ہیں:
کپڑے کی پٹی جسے منھ کے گرداگردباندھ کر ڈاڑھی چڑھاتے ہیں، دہاں (دہان) بند، دستارچہ؛ وہ کپڑا جس سے مُردے کا مُنھ باندھ دیتے ہیں تاکہ کھُلا رہ کر بدنُما اور ڈراؤنا ہوجائے، ڈھاٹا۔ یعنی مرتبین کے نزدیک اصل تلفظ ڈھانٹا اور دوسرا تلفظ ڈھاٹا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ مشہور لفظ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات میں شامل نہیں۔ {گھوڑے کے مُنھ پر لگام کی بجائے، اندر دی جانے والی پٹّی اور پھانسی کے پھندے کو ڈھاٹی کہتے ہیں}۔
جس طرح اہل ِ وطن کو جنریٹر[Generator] کا نام آج سے کوئی تیس برس پہلے نامانوس لگتا تھا اور اسے اردو میں رائج کرنے کے لیے باقاعدہ سازش کے تحت، بجلی کا مصنوعی بحران پیدا کرتے ہوئے، بازار میں ہمہ اقسام کے جنریٹرز کی بھرمار کردی گئی (ظاہر ہے کہ ہمہ وقت کمانے والے اسی طرح سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے کوئی معاشی ومعاشرتی تغیر پیدا کرتے ہیں۔ اُنھیں ہماری طرح قوم وملت کے غم میں گھُلنے کا یارا کہاں) تو شُدہ شُدہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اَب پاکستان کے کسی گھر میں اس شئے سے نامانوس کوئی شخص اگر ملا تو جاہل کہلائے گا۔
یہ اور بات کہ اُن دنوں یارلوگوں کو اتنی فرصت نہ تھی کہ جنریٹرکے اردو مترادف کا سوال اٹھاتے۔ اب چونکہ ہم بہت ترقی کرچکے ہیں۔ ہمارے متوسط طبقے کے افراد کے پاس بھی اتنا فاضل وقت، کم وبیش ہمہ وقت، ہوتا ہے کہ ہر کوئی ''سماجی رابطہ'' قایم کرنے میں دن رات عملاً لگا ہوا ہے، گویا ہمہ وقت، ہمہ تن غرق ہے تو ایسے میں ہر لفظ، ترکیب اور اصطلاح کی اردو تلاش کرنے کا خیال بھی بہت سے اذہان میں آتا ہے۔ اچھا ہے کہ اسی طرح اپنی پیاری زبان سے تعلق مستحکم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
مصنوعی وباء میں جن الفاظ کی دِیدوشُنیِد ہمہ وقت ہمارے اعصاب پر سوار ہے (بطفیل ِ ذرائع ابلاغ)، ان میں شاید سرِفہرست ہے : ماسک[Mask]۔ اب لوگ سلام علیک، خیر خیریت بعد میں پوچھتے ہیں، پہلے ماسک کی بات کرتے ہیں۔ ارے آپ کا ماسک کہاں ہے؟ آپ نے ماسک کیوں نہیں لگایا؟ آپ کو پتا ہے، ماسک لگانا کتنا ضروری ہے؟ وغیرہ۔ ماسک نہ ہوا، محبوبہ کا گم شدہ آنچل ہوگیا کہ اُسے رقیبوں کی نظرِبد سے بچانے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے ہوئے، اُسی سے پوچھا جائے کہ ہائے وہ تیرا آنچل کیا ہوا۔ زیاد ہ پرانی بات نہیں، جب لوگ کسی کے گھر جاتے اور سلام علیک کے جواب میں پہلا سوال کرتے، ''وہ چارجر[Charger] ہوگا آپ کے پاس، پتلی پِن[Pin] والا؟''، پھر SOPsکا ڈنڈا چل پڑا تو Mask،Social distance،Quarantine اور سب سے بڑھ کرVaccine نے ہمارے کانوں میں سارا دن، کسی گھُس بیٹھئے کی طرح جگہ بنالی ہے ۔
ان دنوں لوگ ملاقات یا نصف ملاقات یعنی ٹیلی فون (کیونکہ خط کتابت تو اَب طاقِ نسیاں ہوچکی) میں ہر مخاطب سے یہی پوچھتے ہیں، آپ نے ویکسین لگوائی؟ نہیں؟ ارے بھئی فوراً لگوائیں۔ اس سے قبل کہ یہ کالم بھی متأثرین کرونا میں شامل ہوجائے، خاکسار آمدَم برسرِِمطلب! ....فیس بک اور واٹس ایپ ہمارے قومی شعور کے عکاس اور گویا نبّاض ہیں۔ لہٰذا یہ اہم نکتہ بھی کئی بار ہم تک پہنچا کہ جناب! یہ ماسک کو اُردو میں کیا کہتے ہیں۔ اب بندہ کہے کہ یہ متبادل ہے تو حزبِ اختلاف کہے کہ نہیں، اس کا مطلب تو یہ ہے، کچھ اور بتائیں۔
ظاہر ہے کہ پہلے ہماری قوم بہ یک وقت تین موضوعات (سیاست، کھیل خصوصاً کرکٹ اور دین مذہب) پر کامل دسترس رکھتی تھی، اب اس میں دو کا اضافہ ہوگیا ہے: کرونا مع متعلقات اور اردو زبان وبیان کی اصلاح وتہذیب۔ قومی انگریزی اردولغت (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔اشاعت ِ ثانی : ۱۹۹۴ء) ہمیں بتاتی ہے کہ Mask کے مفاہیم یہ ہیں: نقاب، مقنع، برقعہ، مصنوعی چہرہ جسے رومی (Romans) اور یونانی [Greek] اداکار استعمال کرتے تھے; بھیس بدلنے، حفاظت وغیرہ کے لیے چہرے کو ڈھانپنے کی کوئی چیز ۔یا۔ اُس سے مشابہ کوئی چیز ;شبیہ ;چہرے کا چربہ جیسے سنگ ِ مرمر یا موم وغیرہ میں ڈھالا گیا چہرہ یا ایسی کوئی چیز (جیسے A death mask);چھُپانے یا بہروپ بھرنے والی کوئی چیز; بناوٹ، بہروپ ;بہانہ ; حِیلہ ;پردہ ;پوشش;نقاب پوش; بہروپیا;ڈرامائی تشکیل;سوانگ۔ (فن ِ تعمیر) سر۔یا۔چہرے کا خاکہ، تصویریا مجسمہ، عموماً مضحکہ خیز جو سجاوٹ کے طور پر بنایا جاتا تھا۔ (عسکری) پردے، مٹی یا جھاڑیوں وغیرہ کی اوٹ جو کسی فوجی سرگرمی یا توپوں وغیرہ کو چھپانے کے لیے استعمال ہو۔
(عکاسی) دھندلا کاغذ، فیِتہ یا ایسی کوئی چیز جو تصویر کے دھوئے جانے والے حصے کو روکنے یا تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے;کُتّے یا لومڑی کا سر۔ہندوی (قدیم اردو) کے عظیم سخنور امیرخسرو سے منسوب یہ دوہا بہت مشہور ہے جس میں شاید پہلی مرتبہ لفظ مکھ کا استعمال کیا گیا ہے:
گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس /چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس۔یا۔بہ اختلاف روایت، چل خسرو گھر آپنے سو سانجھ بھئی چہو دیس۔ {گوری اپنے مُکھ یعنی چہرے پر کیس یعنی بال بکھرائے سیج پر سو رہی ہے۔ چلو خسرو گھر چلیں کیونکہ شام چاروں اطراف پھیل چکی ہے یعنی شام کا اندھیرا چھا گیا ہے۔ گویا گوری کے سیاہ بال شام کا اندھیرا ہے جو چاروں طرف پھیلا ہے}۔ یہ بیان بہت مشہور ہے کہ ایک بار امیر خسرو، حضرت نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) سے ملنے کے لیے آئے تو مرشَد کو محوِاستراحت پایا۔ مریدِخاص نے انھیں سوتا دیکھا تو اُن کا نورانی حسن گویا اس دوہے کا سبب بنا۔ مگر اس کی تردید میں ہمارے فیس بک دوست، محقق، ادیب محترم غوث سیوانی کے مضمون برحضرت امیرخسرو دہلوی (آن لائن دستیاب: ریختہ ڈاٹ آرگ) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
''خسرو کا آخری وقت
1320ء میں غیاث الدین تغلق کی تخت نشینی ہوئی اور امیرخسروؔ حسب سابق اس کے دربار سے وابستہ رہے۔ امیر خسرو شہزادہ اُلغ خان کے ساتھ بنگال سے واپسی کے راستے میں ترہٹ (مظفر پور، بہار) کے علاقے میں تھے کہ آپ کو حضرت نظام الدین اولیاء کی بیماری کی اطلاع ملی تو لشکر کو چھوڑ کر جلدی جلدی دہلی آئے مگر مرشد سے ملنا نصیب نہ ہوا اور غم واندوہ میں مبتلا ہوکر ان کی قبر کے پاس بیٹھ رہے۔ درد کی جو کیفیت دل میں تھی وہ کبھی کبھی لب پہ آجاتی۔ آپ کے بدن پر ماتمی لباس ہوتا، آنکھوں میں آنسو ہوتے اور زبان پر ہندی کا ایک دوہا،
گوری سوئے سیج پر سو مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے سو سانجھ بھئی چہو دیس
آخر کار دل کی اس بیقراری کو قرار آہی گیا اور مرشد کے انتقال کے ٹھیک چھے مہینے بعد خسروؔ کو بھی 18شوال 725ھ (1325ء) کو وصال یار نصیب ہوا اور اپنے پیر کی پائنتی میں جگہ پائی۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ''نہایۃ الکمال'' مکمل کرچکے تھے''۔ {یہاں ماتمی لباس والی بات کسی نے زیب ِداستاں کے لیے بڑھا دی ہوگی، ورنہ صوفیہ کرام پابندِشریعت ہوا کرتے ہیں۔ ہندی سے مراد وہی ہندوی ہے جسے آگے چل کر اردو کا معتبر نام ملا، جبکہ خسرو کے دور میں ریختہ سے مراد دویا زائد زبانوں کے اشتراک سے کہا گیا کلام، بات یا کوئی ایسی مخلوط زبان تھی۔ یہ اردو کے قدیم ناموں میں بھی شامل ہے}۔ اردولغت بورڈ کی شایع کردہ عظیم اردولغت میں لفظ مکھ کے معانی یوں درج کیے گئے ہیں:
مُکھ:(اسم مذکر)۱۔ (ا) چہرہ، منھ، صورت۔(ب) (مجازاً) سامنے کا رخ، سامنے کا حصہ۔۲۔ (ا) دہن، دہانہ۔(ب) (مجازاً) دریا کا دہانہ.(ج) چونچ، منقار۔۳۔ چھید، سوراخ، موکھا۔۴۔(مجازاً) خاطر (قدیم)۔۵۔ (مجازاً) در، دروازہ؛ شروع، آغاز؛ جہاز یا کشتی کا آگا ماتھا یا مہرہ، کسی چیز کا سرا یا نوک؛ جیسے: سرِپستان، فوج کا اگلا حصہ، میمنہ؛ کلہاڑی کی دھار؛ (الجبرا) کسی سلسلے کی پہلی رقم؛ (ناٹک) تماشے کی اصل وجہ؛ (ہندسہ) قاعدے کے سامنے کا رُخ۔۶۔ بڑا، مہان، خاص۔ ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ نے لفظ مُکھ کے معانی یوں بیان کیے ہیں: مُنھ ، رُو، چہرہ، دروازہ، ہر چیز کا پہلا حصہ ، اوّل ، ابتداء، آغاز، سامنا۔فرہنگ آصفیہ میں ان مترادفات کا اضافہ کیا گیا ہے: فم، فو، فوہ، دہن اور دہانہ۔ مکھڑا بھی مکھ ہی کی ایک شکل ہے۔۔۔معانی ملاحظہ فرمائیں:
مُکھڑا: (اسم مذکر) مُکھ کی تصغیر بالمحبت (یعنی محبت میں کسی نام کو چھوٹا کرکے پکارنا جیسے بِہار میں بابو کو بَبوا: س ا ص)، پیار امُنھ، پیارا پیار ا چہرہ جیسے چاند سا مکھڑا۔ دیا دھرم نہیں مَن میں/ مکھڑا کیا دیکھے دَرپَن میں ؎ زلفیں سُنبل ہیں تو پھر نرگس ِ شہلا آنکھیں/جس نے دیکھا تیرے مکھڑے کو وہ گلشن سمجھا (آتشؔ)۔ اردولغت بورڈ کی شایع کردہ عظیم اردولغت میں لفظ مکھڑا کے ذیل میں یہ معانی شامل کیے گئے ہیں:
۱۔ چہرہ؛ پیارا چہرہ، رخ ِزیبا۔۲۔ چہرہ، منھ، رُخ، رُو (مکھ کی تصغیر، گاہے طنز سے)۔۳۔ (طب) ٹھوڑی سے سر تک کا حصہ، منڈیا۔
۴۔ (موسیقی) گیت کے ابتدائی بول۔ کہیے کیسا لگا یہ پریشان کرنے کا منضبط عمل؟ اُف ایک لفظ کے اتنے مطالب؟؟...اچھا تو ہم بات کرتے ہیں اُس ماسک کی جو اِن دنوں ہمارے چہروں پر بالجبر ، تقریباً ہمہ وقت چڑھا رہتا ہے، (حالانکہ ایک جدید سائنسی تحقیق یا رَدّتحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ انتہائی ضرورت کے سوا، زیادہ دیر تک ماسک چڑھانا مُہلک یعنی جان لیوا عمل ہے جسے 'فادری' زبان میں Fatalکہتے ہیں۔ کیا خبر کتنے ہی لوگ بے چارے مصنوعی وباء میں اسی جبر کے سبب، دارِفانی سے کوچ کرچکے ہوں)...اسے کیا کہیں گے آسان اردو میں؟ میری رائے میں اس مخصوص ماسک کو نقاب کہنا اس لیے موزوں نہیں کہ باقاعدہ نقاب (برقعے والا) قدرے بڑا ہوتا ہے، سو بہتر ہے کہ اسے مُکھوٹا کہا جائے۔
یہ ہندی الاصل لفظ اب فقط ادبی زبان تک محدود ہے۔ مُکھ یعنی چہرے سے مکھوٹا۔ مکھوٹا کے معانی: نقلی چہرہ، تصوراتی مصنوعی چہرہ، سانچہ، دھات وغیرہ کا بنا ہوا چہرہ جو دیوی دیوتاؤں میں ان کے چہرے پر لگایا جاتا ہے(ریختہ ڈکشنری: ریختہ ڈاٹ آرگ)۔ وِکی پیڈیا کے اردو رُوپ یعنی آزاد دائرہ معارف (دائرۃ المعارف درست نہیں) نے بھی ماسک کے اردومتبادل یا مترادف کے طور پر اسے اپنالیا ہے۔ یہاں ذرا سا غیرمتعلق لفظ 'مکھنا ' بھی لکھتا چلوں۔ ان دنوں خواتین نقاب کی ایک شکل کو یہ نام دے رہی ہیں، جبکہ فرہنگ آصفیہ میں مکھنا کے کچھ اور ہی معانی دیے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عربی لفظ ''مِقنَعَہ'' یعنی نِقاب یا گھونگھٹ کو بگاڑ کر مکھنا کردیا گیا ہے۔ فرہنگ آصفیہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کا استعمال عوام النّاس ناصرف سہواً زَبر سے کرتے ہیں، بلکہ مکھنا بھی اسی کی مُحَرّف یعنی بگڑی ہوئی شکل ہے، نیز سہرے کو مکھنا کہنا مذکور ہے۔
معانی ملاحظہ کیجئے: (اسم مذکر) ایک عرض کی بارِیک چادر، مجازاً بُرقع۔ مُنھ پر ڈالنے کا کپڑا، نقاب، گھونگھٹ جیسے اُٹھاؤ میرا مقنعہ، میں گھر سنبھالوں اپنا۔ {یہاں ہمیں تاریخ کا ایک اہم کردار، کیمیاداں 'المقنع' (نقاب پوش )[Al-Muqanna]خراسانی (المتوفیٰ 783ء) بھی یاد آتا ہے جس نے سیماب یعنی پارے کے اجزاء سے مشہورِِزمانہ مصنوعی چاند 'ماہِ نخشب' ایجاد کیا تھا۔ اس کا اصل نام بہ اختلاف روایت حکیم یا حاکم بن ہاشم۔یا۔حکیم ابن عطاء اور عرف المقنع تھا۔ اس نے اپنی بدصورتی کو چھپانے کے لیے ایک سنہری نقاب یعنی مقنعہ کا استعمال کیا۔
خدائی کے اس جھوٹے دعوے دار کا مصنوعی چاند، ماوراء النہر/ترکستان کے علاقے نخشب (موجودہ قرشی/کرشی، ازبکستان) کے ایک کنویں سے طلوع وغروب ہوتا تھا جسے 'چاہ ِنخشب' کے نام سے شہرت ملی۔ یہ جگہ جنوبی ازبکستان میں سمرقند وبخارا کی شاہراہ افغانستان وہند پر واقع تھی۔ اشعار میں اس تلمیح کا استعمال دیکھیے: ؎ نورکا باعث، تعلق ہے، دلِ بے تاب کا/یارمثل ِماہ ِ نخشب، چاند ہے سیماب کا (رشکؔ)۔ ناسخؔ جیسے فاضل سخنور نے ایک شعر میں لفظ مقنع کا تلفظ غلط کردیا ہے۔ بحوالہ نوراللغات}۔ میرے بزرگ معاصر محترم زاہد حسین مُکھوٹا کی بجائے لفظ ڈھاٹا کا استعمال بہتر قراردیتے ہیں۔ اب ہم پھر لغات کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ لفظ محض ڈاکوؤں سے مخصوص ہے۔ یہ ہندی الاصل لفظ بھی اسم مذکر ہے اور اس کا مطلب ہے : ۱)۔ کپڑے کی پٹّی جو مُنھ چھپانے یا ڈاڑھی بٹھانے کے لیے چہرے پر باندھی جائے۔۲)۔ کپڑا جو مُردے کے مُنھ پر باندھا جائے۔ (جامع اردو فیروزاللغات)۔ اردو لغت بورڈ کی مختصر اردو لغت میں اس کا تلفظ ''ڈھانٹا'' درج کرکے یہ مفاہیم بیان کیے گئے ہیں:
کپڑے کی پٹی جسے منھ کے گرداگردباندھ کر ڈاڑھی چڑھاتے ہیں، دہاں (دہان) بند، دستارچہ؛ وہ کپڑا جس سے مُردے کا مُنھ باندھ دیتے ہیں تاکہ کھُلا رہ کر بدنُما اور ڈراؤنا ہوجائے، ڈھاٹا۔ یعنی مرتبین کے نزدیک اصل تلفظ ڈھانٹا اور دوسرا تلفظ ڈھاٹا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ مشہور لفظ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات میں شامل نہیں۔ {گھوڑے کے مُنھ پر لگام کی بجائے، اندر دی جانے والی پٹّی اور پھانسی کے پھندے کو ڈھاٹی کہتے ہیں}۔