نسلی امتیاز مغربی روایات اور اسلام
نسل پرستانہ رویوں کی روک تھام کر کے دنیا میں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں اور عزت و وقار کو بچایا جا سکتا ہے۔
نسلی و قومی امتیاز دنیا بھر کے لوگوں میں مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے، خصوصاً جس معاشرے میں تعلیم کی کمی ہوتی ہے یا پھر کوئی لیڈر اپنی قوم کو نسل پرستانہ رویوں کے لیے بھڑکاتا ہے، وہاں پر تعصب اور زیادہ ہوتا ہے۔
لوگوں کی اکثریت اپنی قوم، نسل، مذہب اور نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتی ہے، لیکن معاملہ تب بگڑتا ہے جب خود کو برتر سمجھنے والے دوسروں کو کم تر خیال کرتے ہوئے ان کو ذہنی و جسمانی اذیتوں سے دوچار کرنے لگیں۔ یہ رویے نفرتوں، لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے کا سبب بنتے ہیں۔
اگر ہم آج غور و فکر کریں اور تمام بڑے بڑے دانشوروں سے بھی رائے لیں تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ دور میں یہ تعصب دنیا کے سب سے بڑے ٹھیکے دار اور اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علم بردار کہنے والے امریکا میں بہت زیادہ ہیں۔
سال 2020 میں جارج فلوئیڈ تشدد کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا، جارج فلوئیڈ کو ڈریک شوون نے آٹھ منٹ چھیالیس سیکنڈ تک اس کا گلا دبا کر موت کے گھاٹ اتار دیا، وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں، میرا دم گھٹ رہا ہے۔
لیکن اس گورے پر نسلی عصبیت اس قدر غالب تھی کہ اس کالے کی وہ ایک بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بات معمولی سی تھی جارج فلوئیڈ نے ایک ڈبا سگریٹ لیا تھا اور دوکان دار نے بیس ڈالر کے اصلی نوٹ کو جعلی سمجھ کر اسے پولیس کے حوالہ کر دیا تھا۔ امریکا کے تیرہ فی صد سیاہ فام باشندوں نے اس ظلم کو برداشت نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل آئے، امریکا کے ہر بڑے شہر میں مظاہرے ہوئے، عام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی۔ مظاہرین وائٹ ہاؤس کے قریب جمع ہوگئے اور امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بال بچوں کے ساتھ ڈھائی گھنٹہ تک بیرک میں چھپنا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے الٹے سیدھے بیان پر ایک پولیس آفیسر نے ان سے کہا کہ''اگر آپ کچھ اچھا بول نہیں سکتے تو اپنی زبانیں بند ہی رکھیے۔''
نسلی تعصب کی بنا پر امریکا میں یہ پہلی دفعہ ظلم نہیں ہوا تھا بلکہ ہمیشہ سے ہی نسلی تعصب کی وجہ سے یہاں انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی رہی ہے، چاہے 1921ء کا ٹلسا فساد ہو یا 1919ء کا شکاگو فساد، 1443 میں ڈیٹڈ رائٹ فساد ہو یا 1963ء کا نیو یارک تشدد، سب کی جڑ میں یہی نسلی تعصب کارفرما رہا ہے۔
امریکا میں نسلی تعصب اس قدر شدید ہے کہ جو لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انہیں بھی ٹھکانے لگا دیا جاتا رہا ہے۔ امریکا میں غلامی کے خاتمے کے سو سال بعد 28 اگست 1963ء کومارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے نسلی تعصب اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ان کی شہرۂ آفاق تقریر ''میرا ایک خواب ہے'' کو سننے کے لیے ڈھائی لاکھ لوگ واشنگٹن ڈی سی میں جمع ہوگئے تھے، لیکن 1968ء میں مارٹن لوتھر موت کے گھاٹ اتار دیے گیے۔
سابق صدر بارک اوباما کا تعلق گوروں کی نسل سے نہیں تھا، ان کے دور حکومت میں امید تھی کہ حالات بدلیں گے اور ان کے دوراقتدار میں نسلی تعصب اختتام کو پہنچے گا، لیکن وہ بھی اس پر قابو نہیں پا سکے۔ وہ خود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب میں وائٹ ہاؤس کے قریب صبح ورزش کے لیے نکلتا تھا تو سفیدفام مجھے دیکھ کر اپنے بازو اور چہرے ڈھکنے لگتے تھے، اور مزید یہ کہ ان کے عہدحکومت میں نسلی تعصب کے خلاف کام کرنے والے ایرک گارنر کو بھی جارج فلوئیڈ کی طرح ہی مار ڈالا گیا تھا اور اس کے بھی آخری الفاظ یہی تھے کہ ''میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔''
غیرمسلم محققین و دانش ور بھی کئی دفعہ اس بات کا برملا اقرار کر چکے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام میں نسلی امتیاز اور تعصب و نفرت کی سخت ممانعت ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب میں اس بارے میں نصیحت، وصیت اور راہ نمائی موجود ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر اور کسی احمر کو اسود پر اور کسی اسود کو احمر پر فضیلت حاصل نہیں۔ افضل وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے، رنگ ونسل اور ذات پات کی بنیاد پر اعلیٰ ادنیٰ کی تقسیم اکرام انسانیت کے خلاف ہے۔ یہ محض خاندان وقبائل کے تعارف کا ذریعہ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بے شک اللہ کا خوف، تقویٰ، اللہ کی خشیت اور اللہ کا ڈر یہ ''ماسٹر کی'' Master key) ہے، شاہ کلید ہے، بغیر اس کے نسلی تعصب وتفاخر کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام نے نسلی تعصب کو ختم کیا۔ یہ پیارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہی تعلیمات مطہرہ ہی تھیں، کہ حضرت بلال رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حبشہ کے رہنے والے تھے رنگت کالی تھی اور ایک غلام کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جب دین اسلام کی پناہ میں آئے، دونوں جہانوں کے سردار پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے صحابیؓ اور مسجد نبوی کے مؤذن کہلائے، پھر ان کے قدموں کی آواز جنت میں بھی سنائی دیتی تھی، طارق بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ بھی زر خرید غلام تھے موسیٰ بن نصیر کے، لیکن جب مسلمان ہوئے اسلام کی آغوش میں آنے کے بعد پہلے سالار بنے پھر فاتح یورپ بنے۔
آج انسانی حقوق کے علم بردار تمام ممالک اگر اپنی ریاستوں پر غوروفکر کریں تو نسلی تعصب کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں مذہبی تعصب بھی پایا جاتا ہے، نسلی و مذہبی تعصب کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا، اسی بارے میں عابد محمود عزام لکھتے ہیں کہ میانمار، فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان اور دیگر خطوں میں مسلمان بدستور مذہبی امتیاز کا شکار ہیں۔ 2001 کے بعد امریکا کی جانب سے شروع کی جانے والی ''وار آن ٹیر رازم'' میں قتل کیے جانے والے 40 لاکھ مسلمانوں کے حوالے سے امریکا کے ہی ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیر رازم سینٹر کے مطابق 82 سے 97 فی صد نشانہ بننے والے افراد عام شہری ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے نشانہ بننے والے افراد صرف مذہبی امتیاز کا ہی شکار ہوئے ہیں۔
صرف مذہب کی بنیاد پر میانمار میں مسلمانوں کو زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ان کو نہ صرف طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بلکہ ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ فلسطین میں بھی مسلمانوں پر مظالم کی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی بستیوں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اسرائیل کی جانب سے آئے دن بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کی جاتی ہے۔
کشمیر میں بھی بھارتی افواج صرف آزادی کے مطالبے کی پاداش میں ہزاروں بے گناہ مسلمان افراد کی جانیں لے چکی ہے اور خواتین کی عصمت دری اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا تسلسل بھی جاری ہے۔ مذہبی امتیاز کی بھیانک صورت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں دکھائی دیتی ہے، جہاں صرف مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور بھارت میں موجود لگ بھگ 30 کروڑ مسلمانوں کی آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
مسلمانوں کو اپنے مذہبی رسم ورواج کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں۔ گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانوں کو تشدد آمیز صورت حال کا سامنا ہے۔ ہمارے پڑوس بھارت میں نسلی امتیاز نے بھارت کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بھارت میں لوگ ذات کے اعتبار سے برہمن، کھشتری، ویش اور شودر چار درجوں میں تقسیم ہیں، جن میں سے ہر ایک کی الگ حیثیت ہے۔ بھارت میں چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے 35 سے 40 کروڑ افراد کو آج کے جدید دور میں بھی نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ ایسے افراد کو بھارت میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے اور یہ لوگ معاشرے میں اپنے بنیادی مقام کو حاصل کر نے سے بھی محروم ہیں۔
پوری دنیا میں نسلی منافرت کا اظہار، مذہبی احساس برتری اور پر تشدد قوم پرستی سے نکلنے کا حل انسانیت کے اور بھائی چارے کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ آسمانی قرآنی اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے نسل پرستانہ رویوں کی روک تھام کر کے دنیا میں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں اور عزت و وقار کو بچایا جا سکتا ہے۔
لوگوں کی اکثریت اپنی قوم، نسل، مذہب اور نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتی ہے، لیکن معاملہ تب بگڑتا ہے جب خود کو برتر سمجھنے والے دوسروں کو کم تر خیال کرتے ہوئے ان کو ذہنی و جسمانی اذیتوں سے دوچار کرنے لگیں۔ یہ رویے نفرتوں، لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے کا سبب بنتے ہیں۔
اگر ہم آج غور و فکر کریں اور تمام بڑے بڑے دانشوروں سے بھی رائے لیں تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ دور میں یہ تعصب دنیا کے سب سے بڑے ٹھیکے دار اور اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علم بردار کہنے والے امریکا میں بہت زیادہ ہیں۔
سال 2020 میں جارج فلوئیڈ تشدد کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا، جارج فلوئیڈ کو ڈریک شوون نے آٹھ منٹ چھیالیس سیکنڈ تک اس کا گلا دبا کر موت کے گھاٹ اتار دیا، وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں، میرا دم گھٹ رہا ہے۔
لیکن اس گورے پر نسلی عصبیت اس قدر غالب تھی کہ اس کالے کی وہ ایک بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بات معمولی سی تھی جارج فلوئیڈ نے ایک ڈبا سگریٹ لیا تھا اور دوکان دار نے بیس ڈالر کے اصلی نوٹ کو جعلی سمجھ کر اسے پولیس کے حوالہ کر دیا تھا۔ امریکا کے تیرہ فی صد سیاہ فام باشندوں نے اس ظلم کو برداشت نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل آئے، امریکا کے ہر بڑے شہر میں مظاہرے ہوئے، عام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی۔ مظاہرین وائٹ ہاؤس کے قریب جمع ہوگئے اور امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بال بچوں کے ساتھ ڈھائی گھنٹہ تک بیرک میں چھپنا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے الٹے سیدھے بیان پر ایک پولیس آفیسر نے ان سے کہا کہ''اگر آپ کچھ اچھا بول نہیں سکتے تو اپنی زبانیں بند ہی رکھیے۔''
نسلی تعصب کی بنا پر امریکا میں یہ پہلی دفعہ ظلم نہیں ہوا تھا بلکہ ہمیشہ سے ہی نسلی تعصب کی وجہ سے یہاں انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی رہی ہے، چاہے 1921ء کا ٹلسا فساد ہو یا 1919ء کا شکاگو فساد، 1443 میں ڈیٹڈ رائٹ فساد ہو یا 1963ء کا نیو یارک تشدد، سب کی جڑ میں یہی نسلی تعصب کارفرما رہا ہے۔
امریکا میں نسلی تعصب اس قدر شدید ہے کہ جو لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انہیں بھی ٹھکانے لگا دیا جاتا رہا ہے۔ امریکا میں غلامی کے خاتمے کے سو سال بعد 28 اگست 1963ء کومارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے نسلی تعصب اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ان کی شہرۂ آفاق تقریر ''میرا ایک خواب ہے'' کو سننے کے لیے ڈھائی لاکھ لوگ واشنگٹن ڈی سی میں جمع ہوگئے تھے، لیکن 1968ء میں مارٹن لوتھر موت کے گھاٹ اتار دیے گیے۔
سابق صدر بارک اوباما کا تعلق گوروں کی نسل سے نہیں تھا، ان کے دور حکومت میں امید تھی کہ حالات بدلیں گے اور ان کے دوراقتدار میں نسلی تعصب اختتام کو پہنچے گا، لیکن وہ بھی اس پر قابو نہیں پا سکے۔ وہ خود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب میں وائٹ ہاؤس کے قریب صبح ورزش کے لیے نکلتا تھا تو سفیدفام مجھے دیکھ کر اپنے بازو اور چہرے ڈھکنے لگتے تھے، اور مزید یہ کہ ان کے عہدحکومت میں نسلی تعصب کے خلاف کام کرنے والے ایرک گارنر کو بھی جارج فلوئیڈ کی طرح ہی مار ڈالا گیا تھا اور اس کے بھی آخری الفاظ یہی تھے کہ ''میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔''
غیرمسلم محققین و دانش ور بھی کئی دفعہ اس بات کا برملا اقرار کر چکے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام میں نسلی امتیاز اور تعصب و نفرت کی سخت ممانعت ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب میں اس بارے میں نصیحت، وصیت اور راہ نمائی موجود ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر اور کسی احمر کو اسود پر اور کسی اسود کو احمر پر فضیلت حاصل نہیں۔ افضل وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے، رنگ ونسل اور ذات پات کی بنیاد پر اعلیٰ ادنیٰ کی تقسیم اکرام انسانیت کے خلاف ہے۔ یہ محض خاندان وقبائل کے تعارف کا ذریعہ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بے شک اللہ کا خوف، تقویٰ، اللہ کی خشیت اور اللہ کا ڈر یہ ''ماسٹر کی'' Master key) ہے، شاہ کلید ہے، بغیر اس کے نسلی تعصب وتفاخر کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام نے نسلی تعصب کو ختم کیا۔ یہ پیارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہی تعلیمات مطہرہ ہی تھیں، کہ حضرت بلال رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حبشہ کے رہنے والے تھے رنگت کالی تھی اور ایک غلام کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جب دین اسلام کی پناہ میں آئے، دونوں جہانوں کے سردار پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے صحابیؓ اور مسجد نبوی کے مؤذن کہلائے، پھر ان کے قدموں کی آواز جنت میں بھی سنائی دیتی تھی، طارق بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ بھی زر خرید غلام تھے موسیٰ بن نصیر کے، لیکن جب مسلمان ہوئے اسلام کی آغوش میں آنے کے بعد پہلے سالار بنے پھر فاتح یورپ بنے۔
آج انسانی حقوق کے علم بردار تمام ممالک اگر اپنی ریاستوں پر غوروفکر کریں تو نسلی تعصب کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں مذہبی تعصب بھی پایا جاتا ہے، نسلی و مذہبی تعصب کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا، اسی بارے میں عابد محمود عزام لکھتے ہیں کہ میانمار، فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان اور دیگر خطوں میں مسلمان بدستور مذہبی امتیاز کا شکار ہیں۔ 2001 کے بعد امریکا کی جانب سے شروع کی جانے والی ''وار آن ٹیر رازم'' میں قتل کیے جانے والے 40 لاکھ مسلمانوں کے حوالے سے امریکا کے ہی ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیر رازم سینٹر کے مطابق 82 سے 97 فی صد نشانہ بننے والے افراد عام شہری ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے نشانہ بننے والے افراد صرف مذہبی امتیاز کا ہی شکار ہوئے ہیں۔
صرف مذہب کی بنیاد پر میانمار میں مسلمانوں کو زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ان کو نہ صرف طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بلکہ ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ فلسطین میں بھی مسلمانوں پر مظالم کی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی بستیوں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اسرائیل کی جانب سے آئے دن بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کی جاتی ہے۔
کشمیر میں بھی بھارتی افواج صرف آزادی کے مطالبے کی پاداش میں ہزاروں بے گناہ مسلمان افراد کی جانیں لے چکی ہے اور خواتین کی عصمت دری اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا تسلسل بھی جاری ہے۔ مذہبی امتیاز کی بھیانک صورت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں دکھائی دیتی ہے، جہاں صرف مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور بھارت میں موجود لگ بھگ 30 کروڑ مسلمانوں کی آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
مسلمانوں کو اپنے مذہبی رسم ورواج کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں۔ گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانوں کو تشدد آمیز صورت حال کا سامنا ہے۔ ہمارے پڑوس بھارت میں نسلی امتیاز نے بھارت کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بھارت میں لوگ ذات کے اعتبار سے برہمن، کھشتری، ویش اور شودر چار درجوں میں تقسیم ہیں، جن میں سے ہر ایک کی الگ حیثیت ہے۔ بھارت میں چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے 35 سے 40 کروڑ افراد کو آج کے جدید دور میں بھی نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ ایسے افراد کو بھارت میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے اور یہ لوگ معاشرے میں اپنے بنیادی مقام کو حاصل کر نے سے بھی محروم ہیں۔
پوری دنیا میں نسلی منافرت کا اظہار، مذہبی احساس برتری اور پر تشدد قوم پرستی سے نکلنے کا حل انسانیت کے اور بھائی چارے کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ آسمانی قرآنی اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے نسل پرستانہ رویوں کی روک تھام کر کے دنیا میں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں اور عزت و وقار کو بچایا جا سکتا ہے۔