قرآن مجید پر صحابہ کرام ؓ فکر و تدبرکیسے کرتے تھے

صحابہ کرام ؓ کو جب بھی کسی آیت کے سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع فرماتے۔


صحابہ کرام ؓ کو جب بھی کسی آیت کے سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع فرماتے۔ فوٹو : فائل

کائنات میں انبیاء و رسل کے بعد سب سے افضل طبقہ صحابہ کرام ؓ کا ہے۔ جس طرح اللہ عزوجل نے تمام مخلوقات میں بنی نوع انسان کو فضیلت بخشی اور ان انسانوں میں سے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کا انتخاب کیا بالکل اسی طرح حضور مکرم ﷺ کی صحبت کے لئے صحابہ کرام ؓ کا انتخاب فرمایا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

'' (اے پیغمبر )کہو: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور سلام ہو اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے منتخب فرمایا ہے۔ بتائو کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جن کو ان لوگوں نے اللہ کی خدائی میں شریک بنا رکھا ہے؟ '' (النمل: 59 )
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا :
'' کون سے لوگ بہترہیں ؟ '' حضوراکرم ﷺ نے فرمایا : '' سب سے بہتر لوگ اس زمانے کے ہیں جس میں میں موجود ہوں، اس کے بعد دوسرے زمانے کے پھر تیسرے زمانے کے ۔'' (صحیح مسلم )

یعنی کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے زمانے کو بہترین زمانوں میں سے قرار دیا۔ صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کی تربیت یافتہ ہستیاں ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو الفاظ قرآنی سکھانے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ حضور اکرم ﷺ نے انہیں معانی قرآن سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔

نبی کریم ﷺ کا صحابہ ؓ کو معانی قرآنی کی تعلیم دینا ان آیات سے ثابت ہوتا ہے:'' (اے پیغمبر ) یہ ایک با برکت کتاب ہے جو ہم نے تم پر اتاری ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں۔'' (ص: 29)

اور ظاہر ہے کہ فہم و تدبر ممکن نہیں جب تک بات کے معنی نہ سمجھے جائیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

'' ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اتارا ہے جو عربی زبان میں ہے ، تاکہ تم سمجھ سکو ۔''(یوسف : 2)

اور یہ بات عقل میں کیسے آسکتی ہے جب تک سمجھی نہ جائے اور ہر گفتگو اس لئے ہوتی ہے کہ اس کے معنی سمجھے جائیں نہ کہ محض لفظ سن لئے جائیں اور قرآن کا معاملہ تو بدرجہ اولیٰ فہم و تدبرکا متقاضی ہے اور قرآن فہمی کے لئے صرف زبان دانی کافی نہیں بلکہ زبان دانی کے ساتھ بحث و نظر اور مشکلات قرآن کا حل معلوم کرنے کے سلسلہ میں آنحضور ﷺ کی جانب رجوع بھی ضروری تھا ۔ مثلاً ۔ ارشاد ربانی ہے :

'' جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی نہیں آنے دیا، تو یہی لوگ امن میں ہیں اور ہدایت پانے والے ہیں ۔'' (الا نعام :82)
بااعتبار لغت دیکھا جائے تو ظلم سے مراد زیادتی ہے اسی لئے صحابہ کرام ؓ نے عرض کی ۔'' ایسا کون شخص ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو'' ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' ظلم سے مراد شرک ہے۔'' (صحیح مسلم )۔ اس لئے قرآن میں شرک کو ظلم کہا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
'' بے شک شرک ظلم ہے۔'' (لقمان :13)

اسی طرح صحابہ کرام ؓ کو جب بھی کسی آیت کے سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع فرماتے۔

قرآن مجید اپنے اندر ایک عمیق فلسفہ اور گہری حکمت رکھتا ہے ۔ اس کے لئے عربی زبان دانی ہی کافی نہیں ہے بلکہ گہرے تفکر و تدبر کی بھی ضرورت ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :

'' اس قرآن کی برابر نگہداشت کرو اس لیے کہ اس ذات کی قسم جس کی مٹھی میں محمد ﷺ کی جان ہے ، یہ اپنے بندھن سے نکل بھاگنے والے اونٹ سے کہیں زیادہ سبک رو ہے ۔'' (صحیح مسلم )

یہی وجہ تھی کہ اس کے اسرار و حقائق پر غور کرنے کے لئے ذہین صحابہؓ کے حلقے قائم تھے اور آنحضرت ﷺ ایسے حلقوں کے قیام کے لئے موثر الفاظ میں لوگوں کو شوق دلایا کرتے تھے ۔صحیح مسلم اور السنن ابودائود میں روایت ہے:

'' جو لوگ کسی جگہ مجتمع ہو کر اللہ کی کتاب پڑھتے اور باہم درس و مذاکرہ قرآن کی مجلسیں قائم کرتے ہیں، ان پر اللہ کی طرف سے تسکین اور رحمت کی بارش ہوتی ہے اور ملائکہ انھیں ہر طرف سے گھیرے کھڑے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے حلقہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے ۔''

اُس زمانہ میں قرآن مجید کے مذاکرہ و مطالعہ کی یہ مجلسیں منعقد ہوتی تھیں ، صحابہؓ ان میں شریک ہوتے تھے، آیات قرآن پر غور کرتے تھے۔ مشکلات میں ایک دوسرے کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اور جو لوگ جتنا زیادہ تدبر کرتے تھے وہ اتنا ہی قرآن مجید کے فہم میں ممتاز تھے ۔ آپ ﷺ ان مجالس میں شرکت فرماتے تھے ۔ آپ ﷺ نے فکر وتدبر کی ان مجلسوں کو ذکر و عبادت کی مجلسوں پر ترجیح دی ۔ حدیث مبارکہ ہے :

'' عبادت گزار پر عالم کی فضیلت اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ۔'' (السنن ابو دائود، جامع ترمذی ، ابن ماجہ )

مشہور تابعی حضر ت عبدالرحمٰن سلمیٰ ؒ فرماتے ہیں کہ '' حضرت صحابہ کرام ؓ میں سے جو لوگ قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے مثلاً عبداللہ بن مسعود ؓ اور عثمان بن عفان ؓ وغیرہ ان لوگوں نے ہمیں بتایا کہ جب وہ نبی کریم ﷺ سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک ان سے تجاوز نہ کرتے جب تک ان آیات کی علمی و عملی باتوں سے آگہی حاصل نہ کر لیتے ۔ (جعفر بن محمد الحسن قربانی ، فضائل قرآن، ص: 241) اس طرح انہوں نے آنحضور ﷺ سے قرآن کریم کے ساتھ ساتھ علم و عمل بھی سیکھ لیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک سورت کے حفظ کرنے میں کافی مدت صرف کر دیا کرتے تھے۔ غرض قرآن کا علم اور قرآن پر عمل دونوں ہی کو سیکھا ۔ انہی میں سے ایک حبر البحر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی اور ترجمان القرآن ہیں۔ حضور ﷺ نے ان کے لئے برکت کی دعا کی تھی اور کہا تھا :'' اے اللہ ! انہیں دین کی سمجھ عطا فرمانا اور قرآن کی تفسیر کا علم بھی نصیب کر ۔'' (صحیح مسلم ، المسند احمد بن حنبل )۔ '' قرآن کے بہترین ترجمان حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہیں۔ '' (حاکم ، المستدرک الصحیحین )

موطاامام مالک میں ہے کہ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ آٹھ سال تک صرف سورۃ بقرۃ یاد کرتے رہے ۔ (الموطا امام مالک )

ابن کثیر لکھتے ہیں : '' کامل سمجھ بوجھ صحیح علم اور نیک علم انہیں (صحابہ کرام ؓ )کو ہی حاصل تھا۔ بالخصوص ان بزرگوں کو جو ان میں بڑے مرتبے والے اور زبردست عالم تھے جیسے چاروں امام جو خلفاء تھے، جو رشد وہدایت والے تھے یعنی حضرت ابوبکرصدیق ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ ذوالنورین اور حضرت علی ؓ'' (تفسیر القرآن العظیم ،9/10) اور جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں:'' اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کتاب اللہ کی کوئی آیت ایسی نہیں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی ۔ میں اگر جانتا کہ کتاب اللہ کے علم میں کوئی مجھ سے زیادہ ہے اور وہاں تک میں کسی طرح پہنچ بھی سکتا ہوں تو ضرور اس کی شاگردی میں اپنے آپ کو پیش کرتا۔'' (صحیح بخاری، صحیح مسلم )

حضرت عمر فاروق ؓ قرآن حکیم میں تفکر و تدبر اور اسے عملی زندگی کا حصہ بنانے میں جس قدر شوق رکھتے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ؓنے سورۃ البقرۃ سیکھنے میں' بارہ سال ' صرف کئے (السیوطی ، تنویر الحوالک شرح موطا مالک ، 162/1)

قرآن سے جذباتی تعلق سطحی نہیں تھا، بلکہ قرآن کی بیان کردہ حقیقتوں میں صداقتوں پر گہرے ایمان اور یقین کا نتیجہ تھا اس لئے آپ کو ہمیشہ معانی و مطالب جاننے کی فکر دامن گیر رہتی ۔ اس سلسلے میں ہادی برحق ﷺ سے پوچھنے میں دوسرے صحابہ کرام ؓ کی بہ نسبت زیادہ جری تھے۔ حضرت عمر ؓ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری :

'' پھر ان میں کوئی بدحال ہوگا اور کوئی خوشحال ۔ چنانچہ جو بدحال ہوں گے وہ دوزخ میں ہوں گے ، جہاں ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں گی۔'' (ھود 106,105)

میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ﷺ ہم کس چیز کے مطابق عمل کرتے ہیں ؟ کہا : ہم ایسی چیز کے موافق عمل کرتے ہیں جس سے فراغت ہو چکی ہے یا ایسی چیز جس سے فراغت نہیں ہوتی )یعنی کیا نامہ اعمال پہلے سے لکھا ہوا ہے )'' ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم ایسی چیز کے مطابق عمل کرتے ہو جس سے فراغت ہو چکی ہے ۔ اے عمر ؓ قلم جاری ہو چکے ہیں، لیکن ہر شخص پر وہی آسان ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے''۔ (جامع ترمذی )

حضرت عمر ؓ صحابہ کرام ؓ سے کسی آیت کے مطلب میں انہیں اشتباہ ہو تو پوچھ لیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں ہوتی تھی۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ مجھ سے دوسرے اصحاب النبی ﷺ کے سامنے مسئلہ پوچھا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ آپ ان سے مسئلہ پوچھتے ہیں جبکہ وہ ہمارے بیٹوں کی مانند ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ میں اس بات کو خوب جانتا ہوں جس وجہ سے میں مسئلہ پوچھتا ہوں ۔ پھر آپؓ نے مجھ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: '' جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے '' (النصر :1) میں نے کہا: اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر دی ہے اور یہ سورۃ آخر تک پڑھی''۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : '' واللہ میں بھی جانتا ہوں جو تم جانتے ہو ۔'' (جامع ترمذی )

مولانا امین احسن اصلاحی ' تدبر قرآن ' میں لکھتے ہیں کہ آخر صحابہ ؓ کس چیز پر غور کرتے تھے؟ زبان اُن کی تھی۔ اس کے اسالیب و قواعد ان کے غورو بحث کی چیز نہ تھے۔ قرآن جن حالات و واقعات پر اترتا تھا وہ تمام تر خود اُن کے ہوتے تھے، اُن کو کوئی کاوش نہیں کرنی تھی۔ خیالات، عقائد ، اعمال و افعال اور معروف و منکر جن پر قرآن بحث کرتا تھا، وہ سراسر خود ان کی اپنی سرگزشت تھے پچھلی قوموں کے حالات جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں وہ ان کے روزانہ کے چرچے تھے۔ یہود و نصاریٰ کے خیالات و عقائد یا حالات و واقعات جن کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے۔

ان سے بھی وہ گوناگوں تعلقات کی وجہ سے بخوبی باخبر تھے، پھر قرآن میں ایسی کیا چیز تھی جس پر انھیں غورکرنا تھا ؟ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غور وفکر کرتے تھے اور معمولی غور و تدبر نہیں بلکہ غور و تدبر جس کی مثالیں تحقیق و تنقیدکے اس روشن عہد میں بھی زیادہ نہ مل سکیں گی۔ وہ قرآن مجید کی ایک ایک سورہ پر آٹھ آٹھ برس تدبر فرماتے تھے۔ ان کی راہ نہایت سیدھی اور صاف تھی ۔ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے لئے جن چیزوں کے ہم محتاج ہیں ان میں سے اگر کل سے نہیں تو بیشتر سے وہ بالکل بے نیاز تھے ۔ ان کے فکرو نظر کی چیز صرف قرآن کے اسرارو حکم تھے۔ ہمارے مروجہ علوم و فنون کی یہ تمام حصار بندیاں بھی ان کے ارد گرد نہ تھیں ۔ اس آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب تھی جس کا علم و عمل اور جس کا درس و مطالعہ ان کی تمام زندگی اور زندگی کے تمام ولولوں اور حوصلوں کا مرکز تھا۔ تاہم ایک ایک سورۃ پر آٹھ آٹھ سال تدبر کرنے کے بعد بھی وہ آسودہ نہیں ہوتے تھے''۔ (مبادی تدبر قرآن ، ص : 164-162)

صحابہ کرامؓ کے تفکر و تدبر کا اسلوب فلسفیانہ نہیں تھا بلکہ اس کا اسلوب تفکر فطری اور استدلالی تھا اور قرآن بھی اسی تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔

الغرض صحابہ کرام ؓ ہی وہ خوش نصیب لوگ تھے جنہوں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے قرآن مجید سیکھنے کی سعادت حاصل کی اور وہ اسلامی احکامات اور تعلیمات کے پس منظر ، ماحول اور حدودوقیود سے واقف ہونے کی وجہ سے قرآن حکیم کا درست فہم اور ادراک رکھتے تھے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ مجلس نبوی ﷺ کے تربیت یافتہ لوگ عظیم سپہ سالار بھی بنے ، علم و حکمت کے امام بھی بنے، قاضی اور قانون دان بھی بنے اور انتظامی امور کے ماہر بھی ۔ اسی مجلس سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ نے تربیت پائی جو زندگی کے تمام شعبوں میں ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک بنے، یہی وجہ ہے آپ ﷺ نے امت کے لئے اپنی سنت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام ؓ اور خلفاء راشدین کے طریقہ اور سنت کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ فہم قرآن کے لئے صحابہ کرام ؓ کی اتباع نہ صرف عقل عام کا تقاضا ہے بلکہ دینی فریضہ بھی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں