اقلیتی کوٹہ کا حصول ناممکن کیوں
مختلف ملازمتوں میں اقلیتی کوٹہ کی مخصوص نشستیں جب اقلیتی افراد کو نہیں دی جاتیں تو پھر وہ کہاں جاتی ہیں؟
پاکستان کی تاریخ جہاں اقلیتوں کی ملکی خدمات کو بتانے سے گریز کرتی ہے، اسی طرح ان کے جائز حقوق کی جدوجہد کے بارے میں بتانے سے بھی تساہل سے کام لیتی ہے۔ جس کی بہت سی مثالیں ہیں لیکن سب سے بڑی اور اہم اقلیتوں کے کوٹہ کے حصول میں مشکل ہے۔
آپ ملاحظہ کیجیے کہ وفاقی و صوبائی ملازمتوں میں اقلیتی کوٹہ کے تحت نشستیں مختص کی جاتی ہیں اور اقلیتی امیدوار کوٹہ میں اُس آسامی کےلیے درخواست بھی دے دیتے ہیں۔ لیکن متعدد نشستوں پر اقلیتوں کو تعینات نہیں کیا جاتا۔ اب وہ اقلیتی کوٹے کی نشستیں کہاں جاتی ہیں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقلیتیں بارہا مطالبہ کرچکی ہیں کہ کوٹہ کے تحت ملنے والی ملازمتوں کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔
آپ اندازہ کیجئے کہ ایک غریب اقلیتی شخص جو اپنے بچوں کےلیے اقلیتی کوٹہ میں درخواست دے تو اسے تب بھی وہ ملازمت لینے کےلئے سفارشیں اور رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اور جو یہ نہیں کرسکتا اسے کےلیے اس ملازمت کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ اب آپ مشاہدہ کیجئے کہ حکومت نے تو اپنی دانست میں کوٹہ مختص کرکے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب اس پر عملدرآمد کو یقینی کیسے بنایا جائے؟ یہ غریب اقلیتوں کےلیے تشویشناک صورتحال ہے۔
اس ضمن میں اقلیتی شخص اپنے نام نہاد سیاسی امیدواروں کی طرف دیکھتا ہے جو کھوکھلا دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے ترجمان ہیں، لیکن حقیقت میں ان کا اقلیتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ موجودہ حکومت کی ڈھائی سے تین سال کی مدت میں اقلیتی سیاسی رہنما مذہبی تہواروں کے امدادی چیک اور مسیحی عبادتی کنونشنوں میں شریک ہونے کے اور کہیں نظر نہیں آئے۔ کسی بھی اقلیتی شخص سے کوئی مسئلہ ہو یا کوئی واقعہ رونما ہونے کی صورت میں بھی ان کی کوئی آواز سنائی نہیں دی، بلکہ یہ ''سب اچھا'' اور ''اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں'' کی گردان ہی الاپتے رہے۔ یہ تو بھلا ہو موجودہ طرز انتخابات کا، جس کی وجہ سے اب اقلیتی ووٹروں کے پاس ایک مسلم سیاسی نمائندہ بھی موجود ہے جو مستقبل میں اپنے ووٹ یقینی بنانے کےلیے اقلیتوں کے کام کروا دیتا ہے۔ ورنہ اقلیتی سیاسی امیدواروں سے خیر کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ان کے اسی اجنبیت کے رویے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر اقلیتوں کی جانب سے جداگانہ انتخاب کی آواز بلند ہونا شروع ہوگئی ہے۔
اقلیتیں سوال کرتی ہیں کہ مختلف ملازمتوں میں جب اقلیتی کوٹہ کی نشستیں مختص کی جاتی ہیں اور جب وہ اقلیتی افراد کو نہیں دی جاتیں تو پھر وہ کہاں جاتی ہیں؟ عام مشاہدہ ہے کہ اکثریت کی طرف سے اقلیتوں کو بڑی ملازمتیں دینے میں احتراز برتا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ محض دو چار مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھیں اقلیتوں کو میرٹ پر بھرتی کیا جارہا ہے۔ لیکن آپ ہر سال کوٹہ کے تحت مختلف اداروں میں اقلیتی خالی نشستوں کا موازنہ کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ بڑی تعداد میں اقلیتی نشستوں پر اقلیتی امیدواروں کو تعینات ہی نہیں کیا جاتا اور اگر کسی اقلیتی فرد کی طرف سے رٹ دائر کی گئی تو اس رٹ کی شنوائی ہونے سے پہلے ہی ان نشستوں کو اکثریتی امیدواروں سے پُر کرلیا جاتا ہے۔ حال ہی میں سیشن کورٹ ملتان میں ایک مرتبہ پھر وہی کہانی دہرائی گئی اور متاثرین کی طرف سے رٹ بھی دائر کی گئی اور وزیراعظم صاحب کے شکایت سیل تک بھی اس مسئلے کی نشاندہی کی گئی۔ لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ اقلیتیں اب سوچنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ کسی بھی ادارے میں جب ملازمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے تو اوپن میرٹ کے علاوہ خواتین، معذوروں اور اقلیتوں کی نشستوں کے کوٹہ کا بھی اعلان کیا جاتا ہے۔ لیکن ماسوائے اقلیتوں کے دونوں کوٹہ میں ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ تو ایسی صورت حال میں یا تو اقلیتی کوٹہ کو ختم کردیا جائے اور اگر حکومت اقلیتوں کے ساتھ مخلص ہے تو ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ ان اقلیتی نشستوں پر اقلیتوں کو بغیر کسی سفارش کے تعنیات کیا جائے۔ اقلیتوں کی طرف سے بارہا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اقلیتی نشستوں کو بھی اکثریتی امیدواروں کی تعنیاتی سے پُر کرلیا جاتا ہے اور انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے اور ان کے پاس محض لکیر پیٹنے کے اور کچھ نہیں رہ جاتا۔
اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا کہ ان کی تعداد کو کم بتایا جاتا ہے، حتیٰ کہ مردم شماری کے نتائج پر بھی اقلیتیں تحفظات رکھتی ہیں۔ کیا مضحکہ خیز اعداد و شمار ہیں کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی اقلیتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کسی بھی ادارے میں اقلیتوں کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا، بلکہ جتنا اضافہ اکثریت کی طرف سے طے کیا جاتا ہے اس کو ماننے سے گریز کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس پر آواز کون اٹھائے گا؟ اقلیتی سیاسی نمائندے تو اس پر قطعاً آواز نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ ان کو اپنی پارٹی سے ملنے والی صوابدیدی نشست سے ہاتھ نہیں دھونے۔ کیا وہ ادارے آواز اٹھائیں گے جو انسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں؟ لیکن ملاحظہ کیجئے کہ موجودہ دور میں ان کی جدوجہد کو بھی دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ گزشتہ دو تین سال سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر نکالے جانے والے عورتوں کے مارچ کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ اس میں معاشرے کا نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ بھی عورت مارچ کی مخالفت کرتا نظر آتا ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنا گویا ناقابل معافی جرم تصور کیا جارہا ہے۔
اقلیتوں کو اپنی صفوں میں ایسے رہنما نظر نہیں آتے جو اس مدعے پر اقلیتوں کی آواز کو بلند کرسکیں۔ لے دے کر صرف مذہبی رہنما ہی ہیں جو اپنے پلیٹ فارم سے حکومت وقت کو اقلیتوں کے اس مسئلے سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مضبوط پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے جس سے اس مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ ان تمام اقلیتی نشستوں کی، جو تاحال خالی ہیں، ان کی نشاندہی کی جائے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے درخواست کی جائے کہ اس ضمن میں لکھیں اور پروگرام نشر کریں۔ خاص طور پر وہ ٹی وی چینلز جو اقلیتوں کے چینلز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے ذریعے اس جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ صحافی حضرات کو اس تمام اعداد و شمار سے آگاہ کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اقلیتوں کے اس مسئلے پر اپنی آواز بلند کریں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مہم چلائی جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے۔
اقلیتی سیاسی نمائندوں کو بھی یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عوام کے جس طبقے کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں آپ کی یہ ذمے داری ہے کہ اس کے حقوق کے تحفظ کےلیے آپ اپنی ذمے داری پوری کریں۔ یاد رہے کہ ہماری یہ جدوجہد بالکل پُرامن ہو، تاکہ اقلیتیں معاشرے میں نقصِ امن کا باعث نہ بنیں۔
کوٹہ کے تحت ملنے والی نشستوں پر اقلیتوں کی تعیناتی ان کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اقلیتوں نے ایک تاریخی جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے۔ اب اس پر عملدرآمد کون کرائے گا اس کا طریقہ کار کیا ہوگا یہ طے کرنا شاید ابھی باقی ہے۔ کیونکہ جو نظام ابھی چل رہا ہے اس میں تو ممکن نہیں کہ اقلیتی کوٹے کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئیے ہم مل کر اس سنجیدہ ایشو کو ملک بھر کے عوام اور بالخصوص حکومتی ایوانوں تک پہنچائیں تاکہ اقلیتیں مستقبل میں اپنے جائز حقوق سے مستفید ہوسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ ملاحظہ کیجیے کہ وفاقی و صوبائی ملازمتوں میں اقلیتی کوٹہ کے تحت نشستیں مختص کی جاتی ہیں اور اقلیتی امیدوار کوٹہ میں اُس آسامی کےلیے درخواست بھی دے دیتے ہیں۔ لیکن متعدد نشستوں پر اقلیتوں کو تعینات نہیں کیا جاتا۔ اب وہ اقلیتی کوٹے کی نشستیں کہاں جاتی ہیں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقلیتیں بارہا مطالبہ کرچکی ہیں کہ کوٹہ کے تحت ملنے والی ملازمتوں کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔
آپ اندازہ کیجئے کہ ایک غریب اقلیتی شخص جو اپنے بچوں کےلیے اقلیتی کوٹہ میں درخواست دے تو اسے تب بھی وہ ملازمت لینے کےلئے سفارشیں اور رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اور جو یہ نہیں کرسکتا اسے کےلیے اس ملازمت کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ اب آپ مشاہدہ کیجئے کہ حکومت نے تو اپنی دانست میں کوٹہ مختص کرکے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب اس پر عملدرآمد کو یقینی کیسے بنایا جائے؟ یہ غریب اقلیتوں کےلیے تشویشناک صورتحال ہے۔
اس ضمن میں اقلیتی شخص اپنے نام نہاد سیاسی امیدواروں کی طرف دیکھتا ہے جو کھوکھلا دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے ترجمان ہیں، لیکن حقیقت میں ان کا اقلیتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ موجودہ حکومت کی ڈھائی سے تین سال کی مدت میں اقلیتی سیاسی رہنما مذہبی تہواروں کے امدادی چیک اور مسیحی عبادتی کنونشنوں میں شریک ہونے کے اور کہیں نظر نہیں آئے۔ کسی بھی اقلیتی شخص سے کوئی مسئلہ ہو یا کوئی واقعہ رونما ہونے کی صورت میں بھی ان کی کوئی آواز سنائی نہیں دی، بلکہ یہ ''سب اچھا'' اور ''اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں'' کی گردان ہی الاپتے رہے۔ یہ تو بھلا ہو موجودہ طرز انتخابات کا، جس کی وجہ سے اب اقلیتی ووٹروں کے پاس ایک مسلم سیاسی نمائندہ بھی موجود ہے جو مستقبل میں اپنے ووٹ یقینی بنانے کےلیے اقلیتوں کے کام کروا دیتا ہے۔ ورنہ اقلیتی سیاسی امیدواروں سے خیر کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ان کے اسی اجنبیت کے رویے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر اقلیتوں کی جانب سے جداگانہ انتخاب کی آواز بلند ہونا شروع ہوگئی ہے۔
اقلیتیں سوال کرتی ہیں کہ مختلف ملازمتوں میں جب اقلیتی کوٹہ کی نشستیں مختص کی جاتی ہیں اور جب وہ اقلیتی افراد کو نہیں دی جاتیں تو پھر وہ کہاں جاتی ہیں؟ عام مشاہدہ ہے کہ اکثریت کی طرف سے اقلیتوں کو بڑی ملازمتیں دینے میں احتراز برتا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ محض دو چار مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھیں اقلیتوں کو میرٹ پر بھرتی کیا جارہا ہے۔ لیکن آپ ہر سال کوٹہ کے تحت مختلف اداروں میں اقلیتی خالی نشستوں کا موازنہ کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ بڑی تعداد میں اقلیتی نشستوں پر اقلیتی امیدواروں کو تعینات ہی نہیں کیا جاتا اور اگر کسی اقلیتی فرد کی طرف سے رٹ دائر کی گئی تو اس رٹ کی شنوائی ہونے سے پہلے ہی ان نشستوں کو اکثریتی امیدواروں سے پُر کرلیا جاتا ہے۔ حال ہی میں سیشن کورٹ ملتان میں ایک مرتبہ پھر وہی کہانی دہرائی گئی اور متاثرین کی طرف سے رٹ بھی دائر کی گئی اور وزیراعظم صاحب کے شکایت سیل تک بھی اس مسئلے کی نشاندہی کی گئی۔ لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ اقلیتیں اب سوچنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ کسی بھی ادارے میں جب ملازمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے تو اوپن میرٹ کے علاوہ خواتین، معذوروں اور اقلیتوں کی نشستوں کے کوٹہ کا بھی اعلان کیا جاتا ہے۔ لیکن ماسوائے اقلیتوں کے دونوں کوٹہ میں ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ تو ایسی صورت حال میں یا تو اقلیتی کوٹہ کو ختم کردیا جائے اور اگر حکومت اقلیتوں کے ساتھ مخلص ہے تو ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ ان اقلیتی نشستوں پر اقلیتوں کو بغیر کسی سفارش کے تعنیات کیا جائے۔ اقلیتوں کی طرف سے بارہا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اقلیتی نشستوں کو بھی اکثریتی امیدواروں کی تعنیاتی سے پُر کرلیا جاتا ہے اور انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے اور ان کے پاس محض لکیر پیٹنے کے اور کچھ نہیں رہ جاتا۔
اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا کہ ان کی تعداد کو کم بتایا جاتا ہے، حتیٰ کہ مردم شماری کے نتائج پر بھی اقلیتیں تحفظات رکھتی ہیں۔ کیا مضحکہ خیز اعداد و شمار ہیں کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی اقلیتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کسی بھی ادارے میں اقلیتوں کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا، بلکہ جتنا اضافہ اکثریت کی طرف سے طے کیا جاتا ہے اس کو ماننے سے گریز کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس پر آواز کون اٹھائے گا؟ اقلیتی سیاسی نمائندے تو اس پر قطعاً آواز نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ ان کو اپنی پارٹی سے ملنے والی صوابدیدی نشست سے ہاتھ نہیں دھونے۔ کیا وہ ادارے آواز اٹھائیں گے جو انسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں؟ لیکن ملاحظہ کیجئے کہ موجودہ دور میں ان کی جدوجہد کو بھی دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ گزشتہ دو تین سال سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر نکالے جانے والے عورتوں کے مارچ کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ اس میں معاشرے کا نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ بھی عورت مارچ کی مخالفت کرتا نظر آتا ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنا گویا ناقابل معافی جرم تصور کیا جارہا ہے۔
اقلیتوں کو اپنی صفوں میں ایسے رہنما نظر نہیں آتے جو اس مدعے پر اقلیتوں کی آواز کو بلند کرسکیں۔ لے دے کر صرف مذہبی رہنما ہی ہیں جو اپنے پلیٹ فارم سے حکومت وقت کو اقلیتوں کے اس مسئلے سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مضبوط پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے جس سے اس مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ ان تمام اقلیتی نشستوں کی، جو تاحال خالی ہیں، ان کی نشاندہی کی جائے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے درخواست کی جائے کہ اس ضمن میں لکھیں اور پروگرام نشر کریں۔ خاص طور پر وہ ٹی وی چینلز جو اقلیتوں کے چینلز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے ذریعے اس جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ صحافی حضرات کو اس تمام اعداد و شمار سے آگاہ کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اقلیتوں کے اس مسئلے پر اپنی آواز بلند کریں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مہم چلائی جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے۔
اقلیتی سیاسی نمائندوں کو بھی یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عوام کے جس طبقے کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں آپ کی یہ ذمے داری ہے کہ اس کے حقوق کے تحفظ کےلیے آپ اپنی ذمے داری پوری کریں۔ یاد رہے کہ ہماری یہ جدوجہد بالکل پُرامن ہو، تاکہ اقلیتیں معاشرے میں نقصِ امن کا باعث نہ بنیں۔
کوٹہ کے تحت ملنے والی نشستوں پر اقلیتوں کی تعیناتی ان کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اقلیتوں نے ایک تاریخی جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے۔ اب اس پر عملدرآمد کون کرائے گا اس کا طریقہ کار کیا ہوگا یہ طے کرنا شاید ابھی باقی ہے۔ کیونکہ جو نظام ابھی چل رہا ہے اس میں تو ممکن نہیں کہ اقلیتی کوٹے کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئیے ہم مل کر اس سنجیدہ ایشو کو ملک بھر کے عوام اور بالخصوص حکومتی ایوانوں تک پہنچائیں تاکہ اقلیتیں مستقبل میں اپنے جائز حقوق سے مستفید ہوسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔