ممتازاداکارہ خورشید بانو کومداحوں سے بچھڑے 20برس گزر گئے
کندن لال سہگل کے ساتھ چتوربھوج دوشی کی فلم جگت سورداس اور، تان سین میں اداکاری کے بعد وہ بامِ عروج پر پہنچیں
ممتاز اداکارہ خورشید بانو کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 20 برس گزر گئے۔ گلوکارہ اوراداکارہ خورشید بانو 14اپریل 1914کو قصور میں پیدا ہوئیں۔
پاکستان منتقل ہونے سے پہلے انہوں نے 1931 میں مشہور فلم لیلا مجنوں میں کام کیا۔ بھارت میں خورشید بانو نے تیس فلموں میں کام کیا۔
خورشید بانو جنہیں عام طور پر صرف خورشید کے نام سے جانا جاتا ہے بھارتی سنیما کی ایک گلوکارہ اور اداکارہ تھیں۔ 1948ء میں پاکستان ہجرت کرنے سے قبل ان کا کیریئر 1930ء اور 1940ء کی دہائیوں پر مشتمل تھا۔
ان کی پہلی فلم لیلی مجنوں (1931ء) تھی۔ اس فلم کے کئی گانے سپر ہٹ۔ہوئے۔ ان کی دیگر فلمیں مفلس عاشق (1932ء)، نقلی ڈاکٹر (1933ء)، بم شیل اور مرزا صاحباں (1935ء)، کمیاگر (1936ء)، ایمان فروش (1937ء)، مدھر ملن (1938ء) اور ستارہ (1939ء) تھیں۔
1931ء سے 1942ء کے دوران انہوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا وہ گلوکارہ واداکارہ کے طور پر پہچانی جاتی تھیں تاہم اس دور کی ان کی فلمیں فلم بینوں پر کوئی خاص اثر نا چھوڑ سکیں۔ ان کے عروج کا دور اس وقت آیا جب وہ رنجیت مووی ٹون فلمز میں کندن لال سہگل اور موتی لال کے مد مقابل کام کے لیے بمبئی منتقل ہو گئیں۔
کندن لال سہگل کے ساتھ چتوربھوج دوشی کی فلم جگت سورداس اور اس کے بعد تان سین میں کام کرنے بعد وہ اپنے عروج پر پہنچیں۔ انہیں'پہلی گلوکار ستاروں کی جوڑی' کے طور پر جانا جاتا تھا۔
پاکستان نقل مکانی کرنے سے قبل ان کی ہندوستان میں آخری فلم پپیہا رے (1948ء) تھی جو ایک زبردست ہٹ فلم تھی۔1948ء میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ گئیں اور کراچی میں رہائش پذیر ہوئیں۔انہوں نے 1956ء میں دو فلموں فنکار اور منڈی میں کام کیا۔خورشید بیگم 18اپریل 2001 میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔
پاکستان منتقل ہونے سے پہلے انہوں نے 1931 میں مشہور فلم لیلا مجنوں میں کام کیا۔ بھارت میں خورشید بانو نے تیس فلموں میں کام کیا۔
خورشید بانو جنہیں عام طور پر صرف خورشید کے نام سے جانا جاتا ہے بھارتی سنیما کی ایک گلوکارہ اور اداکارہ تھیں۔ 1948ء میں پاکستان ہجرت کرنے سے قبل ان کا کیریئر 1930ء اور 1940ء کی دہائیوں پر مشتمل تھا۔
ان کی پہلی فلم لیلی مجنوں (1931ء) تھی۔ اس فلم کے کئی گانے سپر ہٹ۔ہوئے۔ ان کی دیگر فلمیں مفلس عاشق (1932ء)، نقلی ڈاکٹر (1933ء)، بم شیل اور مرزا صاحباں (1935ء)، کمیاگر (1936ء)، ایمان فروش (1937ء)، مدھر ملن (1938ء) اور ستارہ (1939ء) تھیں۔
1931ء سے 1942ء کے دوران انہوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا وہ گلوکارہ واداکارہ کے طور پر پہچانی جاتی تھیں تاہم اس دور کی ان کی فلمیں فلم بینوں پر کوئی خاص اثر نا چھوڑ سکیں۔ ان کے عروج کا دور اس وقت آیا جب وہ رنجیت مووی ٹون فلمز میں کندن لال سہگل اور موتی لال کے مد مقابل کام کے لیے بمبئی منتقل ہو گئیں۔
کندن لال سہگل کے ساتھ چتوربھوج دوشی کی فلم جگت سورداس اور اس کے بعد تان سین میں کام کرنے بعد وہ اپنے عروج پر پہنچیں۔ انہیں'پہلی گلوکار ستاروں کی جوڑی' کے طور پر جانا جاتا تھا۔
پاکستان نقل مکانی کرنے سے قبل ان کی ہندوستان میں آخری فلم پپیہا رے (1948ء) تھی جو ایک زبردست ہٹ فلم تھی۔1948ء میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ گئیں اور کراچی میں رہائش پذیر ہوئیں۔انہوں نے 1956ء میں دو فلموں فنکار اور منڈی میں کام کیا۔خورشید بیگم 18اپریل 2001 میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔