انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمن…
ملک میں ترقی پسند فکر اور نقطہ نظر کے بڑے داعی اور انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمن آج ہم میں نہیں رہے۔
ممتاز صحافی، کالم نویس، ترقی پسند اور انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمن ایک توانا آواز اورہمہ جہت شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ملک اور معاشرے میںاپنا کردار جرات ، بردباری اور خوش دلی کے ساتھ بخوبی ادا کرتے رہے۔
یادش بخیر ! اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں جب آپ کا نام لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لیے پکارا گیا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور آپ اپنا ایوارڈ صدر مملکت سے وصول کرنے کے بعدجب تک اپنی نشست پر بیٹھ نہیں گئے تب تک شرکاء اپنی نشستوں پر کھڑے رہے اور ہال تالیوں سے گونجتا رہا اور جب یہ ایوارڈ تقریب اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق ختم ہوئی تو تمام احباب ایوارڈ ونرز اپنی ٹرافیوں اور میڈلز کے ساتھ اپنے رہائشی ہوٹل واپس آگئے۔
میزبانوں کی جانب سے اپنے مہمانوں کے چونکہ ایک ہی ہوٹل میں قیام کا بندوبست کیا گیا تھا ،لہذا ایوارڈ یافتگان کے ایک میلے کا سا سماں تھا، اس کی اپنے حصے کی مسرتیں اور خوشیاں ہمارے بھی حصے میں آئیں۔ اگلی صبح ریسٹورنٹ میں ناشتہ کے دوران آئی اے رحمن سے ایک بار پھر شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ آپ نے دیکھتے ہی خیریت معلوم کی اور اپنے ساتھ ناشتے کی میز کی طرف آنے کی دعوت دی ۔
آپ سے حالات حاضرہ اور مختلف امور پرگفتگو کرنے کا بھی موقعہ ملا ،دوران گفتگو انھوں نے میرے ایوارڈ اور صحافتی کام کے بارے میں دریافت کیا ، میں نے انھیں اپنے پہلے ایوارڈ اور حالیہ دوسرے ایوارڈ سے متعلق بتایا اس کے علاوہ اپنی صحافتی خدمات، سابقہ اور موجودہ صحافتی اداروں سے متعلق بھی آگاہ کیا تو آپ نے خوشی کا اظہار کیا اور سراہتے ہوئے کہا کہ ،''علی میمن !یہ یقینا اہم بات ہے کہ آپ ایک ساتھ سندھی اور اردو کے رائٹر ہیں اور بیک وقت دو زبانوں پر دسترس ہے ، یہ بہترین صحافیانہ اسکلز ہیں'' یوں میری حوصلہ افزائی فرماتے رہے ۔
آئی اے رحمن ، ترقی پسند فکر و نظر اور نظریہ کے بھی بڑے داعی تھے اور ملک ترقی پسند فکر اور سیاسی جماعتوں کے معدوم اور زوال پر ازحد دل گرفتہ تھے اور اس ضمن میں کسی عذر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، گزرے تین سال ، یہ غالباً 2018 کا واقعہ ہے کہ ملک کے معروف سیاستدان معراج محمد خان کی جانب سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سبزہ زار (حالیہ جون ایلیا گارڈن) میں ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے موضوع پر تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کی صدارت معراج محمد خان کررہے تھے اور دیگر اہم مقررین میں آئی اے رحمن اور ممتاز صحافی مظہر عباس بھی شامل تھے۔
اس تقریب میں ملک میں پسپا ہوتی ہوئی ترقی پسند سیاست اور زیر عتاب جمہوریت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ اس تقریب میں راقم بھی اپنے دوست لیبر لیڈر منظور احمد رضی کے ساتھ شریک ہوا، جہاں پنڈال میں ڈاکٹر توصیف احمد خان اور دیگر اکابرین بھی موجود تھے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب آئی اے رحمن نے برملا کہاکہ ملک میں ترقی پسندوں نے پسپائی اختیار کرلی ہے اور حالیہ انتخابات میں کوئی بھی ترقی پسند جماعت کسی گنتی میں نہیں ،اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں ترقی پسندوں اور انقلابیوں کے آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، یقینا یہ تشویشناک صورتحال ہے، تمام حلقہ احباب کو اپنی کارکردگی اور کار گذاریوں کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔
آرٹس کونسل میں منعقدہ مذکورہ اجتماع سے سینئر صحافی مظہر عباس کا خطاب بھی ملک کی جمہوری تحریک کے تاریخی حالات و واقعات کے حوالے سے بیحد معلوماتی اور ایک یادگار خطاب تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ترقی پسند سیاست کے حال اور مستقبل کی کیا بات کی جائے یہاں تو عام قسم کی جمہوریت اور جمہوری نظام ہی شدید مشکلات کا شکار ہے۔
معراج محمد خاں کو مخاطب کرتے ہوئے مظہر عباس کاکہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 1973کا آئین اور مجوزہ جمہوری نظام اور پارلیمان پاکستان پیپلز پارٹی کی جدوجہد اور ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے موجود ہیں،جس سے ہم سب مستفیض ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اس کامیابی یا حاصلات کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑا ہے۔
مظہر عباس نے اس ضمن میں اپنے صحافتی فرائض کے دوران ایک یادداشت کا ذکر کیا۔ان کے مطابق وہ ایک بار سینئر رہنما میر غوث بخش بزنجو سے انٹرویو کیا اور ان سے نیشنل عوامی پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین تنازعات کے بارے میں سوالات کیے جن کے جواب میں مظہر عباس کے مطابق، میر غوث بخش بزنجو کا کہنا تھا کہ 1973 کی آئین سازی کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کئی بار ہماری پارٹی کے رہنمائوںکو درخواستیں کرتے رہے کہ آپ اس سرگرمی سے حصہ لیں اور بائیکاٹ نہ کریں۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ چونکہ پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمان کے اراکین کے ووٹ سے آئین تشکیل پانا ہے اور پارلیمان میں پیپلز پارٹی کو مطلوبہ قطعی اکثریت حاصل نہیں، جب کہ نیشنل عوامی پارٹی کے تعاون نہ کرنے سے مذہبی جماعتیں اس پر اثرانداز ہوسکتی ہیں، نیز حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ میر غوث بخش بزنجو کا کہنا تھا کہ بھٹو کی بارہا تعاون کی درخواستوں کے باوجود خان عبدالولی خان نے بھٹو حکومت سے تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا اور نعپ کے ان فیصلوں اور انکار کی وجہ سے ملک آج تک اس کے مضمرات بھگت رہا ہے۔
مظہر عباس کا معراج محمد خاں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے آپ بھی دوست اور رفیق تھے ، آپ نے بھی اس مشکل وقت میں اپنے دوست کا ساتھ چھوڑ دیا ، اس طرح دیگر احباب نے بھی اپنی پسند کے فیصلے کیے اور اپنے راستے جدا کرلیے، جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو جیسا جینیس لیڈر قتل کردیا گیااور ملک آج تک اس نقصان کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
معراج محمد خاں صاحب !اگر آپ جیسے رفیق اگر ذوالفقار علی بھٹو کو تنہا نہ چھوڑتے تو شاید بھٹو اس طرح نہ مارا جاتا'' یوں اس تقریب میںبات کہاں سے جاکر کہاں پہنچی؟اس یادگار تقریب کے ایک ماہ کے دوران معراج محمدخاں بھی انتقال کرگئے اور منوں مٹی تلے جا سوئے۔
اب حالیہ سانحہ جناب آئی اے رحمن کے بچھڑنے کا ہوا ہے ، ملک میں ترقی پسند فکر اور نقطہ نظر کے بڑے داعی اور انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمن آج ہم میں نہیں رہے۔ آئی اے رحمن کے انتقال سے ان کی جدوجہد، خدمات اور ان سے وابستہ خوبصورت یادیں اب تاریخ کا ایک حصہ بن گئی ہیں تاہم ان کی زندگی بھر کی جہد مسلسل اور ان کے خیالات ، افکار اور تحریریں حلقہ علم و دانش کو جلا بخشتی رہیں گی اور ملک و معاشرے کو منور اور معطر کرتے رہیں گی۔
یادش بخیر ! اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں جب آپ کا نام لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لیے پکارا گیا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور آپ اپنا ایوارڈ صدر مملکت سے وصول کرنے کے بعدجب تک اپنی نشست پر بیٹھ نہیں گئے تب تک شرکاء اپنی نشستوں پر کھڑے رہے اور ہال تالیوں سے گونجتا رہا اور جب یہ ایوارڈ تقریب اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق ختم ہوئی تو تمام احباب ایوارڈ ونرز اپنی ٹرافیوں اور میڈلز کے ساتھ اپنے رہائشی ہوٹل واپس آگئے۔
میزبانوں کی جانب سے اپنے مہمانوں کے چونکہ ایک ہی ہوٹل میں قیام کا بندوبست کیا گیا تھا ،لہذا ایوارڈ یافتگان کے ایک میلے کا سا سماں تھا، اس کی اپنے حصے کی مسرتیں اور خوشیاں ہمارے بھی حصے میں آئیں۔ اگلی صبح ریسٹورنٹ میں ناشتہ کے دوران آئی اے رحمن سے ایک بار پھر شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ آپ نے دیکھتے ہی خیریت معلوم کی اور اپنے ساتھ ناشتے کی میز کی طرف آنے کی دعوت دی ۔
آپ سے حالات حاضرہ اور مختلف امور پرگفتگو کرنے کا بھی موقعہ ملا ،دوران گفتگو انھوں نے میرے ایوارڈ اور صحافتی کام کے بارے میں دریافت کیا ، میں نے انھیں اپنے پہلے ایوارڈ اور حالیہ دوسرے ایوارڈ سے متعلق بتایا اس کے علاوہ اپنی صحافتی خدمات، سابقہ اور موجودہ صحافتی اداروں سے متعلق بھی آگاہ کیا تو آپ نے خوشی کا اظہار کیا اور سراہتے ہوئے کہا کہ ،''علی میمن !یہ یقینا اہم بات ہے کہ آپ ایک ساتھ سندھی اور اردو کے رائٹر ہیں اور بیک وقت دو زبانوں پر دسترس ہے ، یہ بہترین صحافیانہ اسکلز ہیں'' یوں میری حوصلہ افزائی فرماتے رہے ۔
آئی اے رحمن ، ترقی پسند فکر و نظر اور نظریہ کے بھی بڑے داعی تھے اور ملک ترقی پسند فکر اور سیاسی جماعتوں کے معدوم اور زوال پر ازحد دل گرفتہ تھے اور اس ضمن میں کسی عذر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، گزرے تین سال ، یہ غالباً 2018 کا واقعہ ہے کہ ملک کے معروف سیاستدان معراج محمد خان کی جانب سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سبزہ زار (حالیہ جون ایلیا گارڈن) میں ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے موضوع پر تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کی صدارت معراج محمد خان کررہے تھے اور دیگر اہم مقررین میں آئی اے رحمن اور ممتاز صحافی مظہر عباس بھی شامل تھے۔
اس تقریب میں ملک میں پسپا ہوتی ہوئی ترقی پسند سیاست اور زیر عتاب جمہوریت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ اس تقریب میں راقم بھی اپنے دوست لیبر لیڈر منظور احمد رضی کے ساتھ شریک ہوا، جہاں پنڈال میں ڈاکٹر توصیف احمد خان اور دیگر اکابرین بھی موجود تھے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب آئی اے رحمن نے برملا کہاکہ ملک میں ترقی پسندوں نے پسپائی اختیار کرلی ہے اور حالیہ انتخابات میں کوئی بھی ترقی پسند جماعت کسی گنتی میں نہیں ،اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں ترقی پسندوں اور انقلابیوں کے آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، یقینا یہ تشویشناک صورتحال ہے، تمام حلقہ احباب کو اپنی کارکردگی اور کار گذاریوں کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔
آرٹس کونسل میں منعقدہ مذکورہ اجتماع سے سینئر صحافی مظہر عباس کا خطاب بھی ملک کی جمہوری تحریک کے تاریخی حالات و واقعات کے حوالے سے بیحد معلوماتی اور ایک یادگار خطاب تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ترقی پسند سیاست کے حال اور مستقبل کی کیا بات کی جائے یہاں تو عام قسم کی جمہوریت اور جمہوری نظام ہی شدید مشکلات کا شکار ہے۔
معراج محمد خاں کو مخاطب کرتے ہوئے مظہر عباس کاکہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 1973کا آئین اور مجوزہ جمہوری نظام اور پارلیمان پاکستان پیپلز پارٹی کی جدوجہد اور ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے موجود ہیں،جس سے ہم سب مستفیض ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اس کامیابی یا حاصلات کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑا ہے۔
مظہر عباس نے اس ضمن میں اپنے صحافتی فرائض کے دوران ایک یادداشت کا ذکر کیا۔ان کے مطابق وہ ایک بار سینئر رہنما میر غوث بخش بزنجو سے انٹرویو کیا اور ان سے نیشنل عوامی پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین تنازعات کے بارے میں سوالات کیے جن کے جواب میں مظہر عباس کے مطابق، میر غوث بخش بزنجو کا کہنا تھا کہ 1973 کی آئین سازی کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کئی بار ہماری پارٹی کے رہنمائوںکو درخواستیں کرتے رہے کہ آپ اس سرگرمی سے حصہ لیں اور بائیکاٹ نہ کریں۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ چونکہ پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمان کے اراکین کے ووٹ سے آئین تشکیل پانا ہے اور پارلیمان میں پیپلز پارٹی کو مطلوبہ قطعی اکثریت حاصل نہیں، جب کہ نیشنل عوامی پارٹی کے تعاون نہ کرنے سے مذہبی جماعتیں اس پر اثرانداز ہوسکتی ہیں، نیز حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ میر غوث بخش بزنجو کا کہنا تھا کہ بھٹو کی بارہا تعاون کی درخواستوں کے باوجود خان عبدالولی خان نے بھٹو حکومت سے تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا اور نعپ کے ان فیصلوں اور انکار کی وجہ سے ملک آج تک اس کے مضمرات بھگت رہا ہے۔
مظہر عباس کا معراج محمد خاں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے آپ بھی دوست اور رفیق تھے ، آپ نے بھی اس مشکل وقت میں اپنے دوست کا ساتھ چھوڑ دیا ، اس طرح دیگر احباب نے بھی اپنی پسند کے فیصلے کیے اور اپنے راستے جدا کرلیے، جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو جیسا جینیس لیڈر قتل کردیا گیااور ملک آج تک اس نقصان کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
معراج محمد خاں صاحب !اگر آپ جیسے رفیق اگر ذوالفقار علی بھٹو کو تنہا نہ چھوڑتے تو شاید بھٹو اس طرح نہ مارا جاتا'' یوں اس تقریب میںبات کہاں سے جاکر کہاں پہنچی؟اس یادگار تقریب کے ایک ماہ کے دوران معراج محمدخاں بھی انتقال کرگئے اور منوں مٹی تلے جا سوئے۔
اب حالیہ سانحہ جناب آئی اے رحمن کے بچھڑنے کا ہوا ہے ، ملک میں ترقی پسند فکر اور نقطہ نظر کے بڑے داعی اور انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمن آج ہم میں نہیں رہے۔ آئی اے رحمن کے انتقال سے ان کی جدوجہد، خدمات اور ان سے وابستہ خوبصورت یادیں اب تاریخ کا ایک حصہ بن گئی ہیں تاہم ان کی زندگی بھر کی جہد مسلسل اور ان کے خیالات ، افکار اور تحریریں حلقہ علم و دانش کو جلا بخشتی رہیں گی اور ملک و معاشرے کو منور اور معطر کرتے رہیں گی۔