راستہ کیا ہے

میاں صاحب وہ خوش قسمت ہیں جنھیں پارس پتھر مل گیا ہے۔



کہانیوں کا مقدر وہی ادھورا پن، کہیں فراق نہیں ہے،کہیں وصال نہیں۔آغاز گفتگو کیا ہو اور انجام گفتگو کیا ، اس سوال کو لے کر ذہن میں یہی آتا ہے کہ سر پیٹ لیاجائے حالات اس قدر نا گفتہ بے ہیں کہ مسئلے کا کوئی حل کوئی راستہ دکھائی دیتا ہے نہ سنائی دیتا ہے ایک درد مسلسل ہے ایک لٹا پٹا کارواں ہے جس کے تمام راہبر بھٹکے ہوئے ہیں، جہاں شاعر ہیں تو بانجھ زمینوں پر شعر کہتے ہیں ، راہبر ہیں تو اپنے ہی قافلے میں راہزنی کرتے ہیں، دہقان ہیں تو فصلوں کو آگ لگا دیتے ہیں ، سیاستدان ہیں تو طرز منافقت کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔

ڈاکٹر ہیں تو مسیحائی نہیں کرتے غرض کہ کوئی ایسا نہیں جو اپنی ذمے داری ادا کر رہا ہو ہر ایک اپنی ذمے داری کو چھوڑ کر دوسرے کے کام میں مداخل ہے۔ غرضیکہ مسائل غم قاتل کی نگاہوں کی طرح بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور دوست گناہ چھپانے پر آمادہ نہیں۔ تو راستہ کیا ہے ؟ بن باس لے لیں؟ یا ترک دنیا کردیں؟ کسی نے کہا مکافات عمل ہوگا۔

میں نے ان سے دریافت کیا ''کب ہوگا '' کہنے لگے ''وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا جب بھی ہو لیکن ہوگا ضرور میںنے ''پھر سوال کیا کہ'' ظلم کی مدت کا بھی تعین نہ ہو پھر۔ وہ تو عین اپنے وقت پر ہو جاتا ہے ''انھوں نے ظالم کی رسی دراز ہونے والا فارمولا اپلائی کیا لیکن میری تسلی نہ ہو سکی۔اور میں آج تک اس حقیقت سے آگاہ نہ ہو سکا کہ ظالم تو اپنے وقت پر ظلم کرتا ہے اور ذرا آگے پیچھے نہیں ہوتا تو اس کی پکڑ کی مدت میں وقت کیوں لگ جاتا ہے ؟

ان دنوں انڈیا پاکستان میں تعلقات کی بہتری پر کوئی حیرت نہیں ہے،بہرحال یہ آگ ہی آگ ہے۔،لیکن جو رسوائی پی ڈی ایم کی ہوئی اس پربھی حیرت نہیں ، اس لیے کہ میری سمجھ سے تو یہی بعید از قیاس ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا تو منشور ہی اتنا مختلف ہے ، ان کے وچاروں میں اتنا فرق ہے کہ کبھی یکجا نہیں ہو سکتے تو جو میثاق جمہوریت کا معاہدہ محترمہ بے نظیر اور میاں نواز شریف کے درمیان طے ہوا تھا وہ بھی قابل عمل نہ ہوتا اگر محترمہ بے نظیر زندہ ہوتیں۔ لہٰذا اس طرح کا اتحاد ممکن ہی نہیں ہے، البتہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان موجودہ اختلاف کا بڑا فائدہ عمران خان حکومت کو ضرور ہوا۔ اب انھیں غالباً کھل کر کھیلنے کا موقع میسر آگیا ، بجلی کی قیمت بڑھا دیں یا پٹرول کی، مالک ہیں۔

میرے ایک ماموں زاد بھائی ان دنوں کینیڈا سے آئے ہوئے ہیں جو اب وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں، بتارہے تھے کہ کسی بھی سطح کے تاجر کے منافع میں جو کمی کورونا وائرس کے باعث ہوئی حکومت نے اس تاجر کو پورا کرکے دی۔انھوں نے کینیڈا کے قوانین اور ویلفیر کے بارے میں اور بھی بہت کچھ بتایا جو کم و بیش میرے علم میں بھی تھا تومحسوس ہوا کہ وہ عین ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں تمام قوانین بالکل اسلامی ہیں۔ خیر یہ کوئی نئی خبر نہیں جسے آپ نہ جانتے ہوں۔ کون اس حقیقت سے واقف نہیں کہ آج ہمارے اور اہل یورپ کی ترقی میں ہزار ہا سال کا فرق ہے۔ سادہ سی تعریف میں وہ انسانی معاشرہ ہے، اپنی سوسائٹی پر میں تبصرہ نہیں کروں گا۔

الیکشن کمیشن کی کارکردگی تک اک ذرا سی خوش گمانی ہوگئی ہے کہ کہیں ہم آزاد تو نہیں ہونے جا رہے؟ لیکن پھر یہ ناپختہ سا یقین ڈگمگا جاتا ہے کہ نہیں ایسا بھلا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ؟ ابھی ہمارے سر پر ہماری حفاظت کے لیے پہرے دار موجود ہیں ، ابھی تو ہم خود ہی آزاد ہونے کو تیار نہیں تو کیا قدرت مہربان ہو گئی ؟ ممکن ہے ممکن ہے۔ ورنہ چلیں خوش گمانی ہی سہی، لیکن سچ کہوں تو دل چاہتا ہے کہ دیکھیں تو سہی یہ انسانی معاشرہ ہوتا کیسا ہے ؟

ایک حقیقت کو ماننا ہی ہوگا ، جو نعرہ نواز شریف نے لگایا تھا ''ووٹ کو عزت دو'' اس وقت تو وہ صدا بہ صحرا لگتا تھا لیکن آج جڑ پکڑ گیا۔ ہزار چیزیں نہیں بدلی ہوں گی لیکن صاحب یہاں تو کچھ بدلا ہے ممکن ہے کہ آیندہ وہ خود بھی اپنے نعرے پر کھڑے نہ رہیں اور اقتدار کی غلام گردشیں ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن جائیں بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ دوبارہ سے بن جائیں پھر بھی ان کے نعرے نے جڑ پکڑلی بالخصوص پنجاب میں۔ سچ تو یہی ہے کہ جیتے وہی ہیں جو مرنا بھی جانتے ہوں۔

میاں صاحب وہ خوش قسمت ہیں جنھیں پارس پتھر مل گیا ہے لیکن شک پڑتا ہے کہ انھیں اور ان کے رفقا کار کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کیونکہ بعض اوقات ان کی اور اہل خانہ کی طویل اور پر اسرار خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیتی ہے۔ مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ اعشاریہ میں ہی سہی کہیں نہ کہیں اداروں میں احساس خود داری بیدار ہوا ہے اور وہ کہیں نہ کہیں اس کا ایک ہلکا سا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن بہت سارے واہمات آج بھی لاحق ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے ، کہیں ویسا نہ ہو جائے ۔

بہر حال امید رکھنا فطرت ہے ، آئی ایم ایف کو حکومت کی نئی اپوزیشن قرار دیا جاسکتا ہے ، ان کی شرائط سخت ترین ہیں جس میں بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا سمیت ایسا بہت کچھ ہے جسے ماننے کے بعد پی ٹی آئی شاید اگلے الیکشنز میں الیکٹرز، سلیکٹرز کی مدد کے بعد بھی نہ جیت سکے۔ لہٰذا کہنے میں حرج نہیں '' پھر ایک دریا کا سامنا ہے خان تجھ کو۔''

اور سہمے ، ڈرے ہوئے کراچی کا ذکر کرتے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، لیکن اہل اقتدار کو اس شہر قائد کہتے شرم نہیں آتی۔ ارے بھائی اس بے آسرا ، بے یارو مددگار شہر کے ساتھ وہی سلوک کرلو جو کسی اجنبی مہمان سے کیا جاتا ہے۔ چلیے جنگل جیسا برتاؤ کرلیں جس کی کبھی تو کٹائی چھٹائی ہوتی ہے ۔ اربوں روپے یہاں سے لوٹ کر لے جاتے ہو، امریکا میں جائیدادیں یہاں سے بناتے ہو ، ہر قیمتی پلاٹ پر قبضہ کر لیتے ہو۔،لیکن جب اسے بنانے سنوارنے کی بات ہوتی ہے تو مرکز صوبے کو ذمے دار قرار دیتا ہے ، صوبہ مرکز کو پھر کہتے ہو اس ملک کا محافظ اللہ ہے ! کیا وفاق ایسے ہی چلتے ہیں ؟ اچھا اگر چلتے ہیں تو بنگلہ دیش کیوں بنا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں