18 ویں ترمیم اور بلدیاتی نظام

یہ حقیقت ہے کہ سندھ کی حکومت وفاق کے بعض احکامات کو ماننے سے انکار کردیتی ہے۔


عثمان دموہی April 18, 2021
[email protected]

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کاش 1971 سے قبل ہی پاکستان کا متفقہ آئین تدوین پا جاتا اور اس آئین میں موجودہ 18 ویں ترمیم جیسی کوئی شق موجود ہوتی، جس کے ذریعے تمام صوبوں کو خودمختاری حاصل ہو جاتی تو مشرقی پاکستان کے بھارت نواز لیڈر ہرگز وہاں کے عوام کو علیحدگی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ کرپاتے۔

ملک کے دولخت ہونے کے بعد 1973 میں ضرور پاکستان کا متفقہ آئین تشکیل پا گیا۔ اس کی تشکیل میں مغربی پاکستان جوکہ اب پاکستان کہلاتا ہے کے تمام سیاستدانوں نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ بدقسمتی سے کچھ ہی عرصے بعد صوبوں کو آئین سے یہ شکایت لاحق ہوگئی کہ انھیں صوبائی خودمختاری حاصل نہیں اور این ایف سی ایوارڈ میں مناسب حصہ نہیں دیا گیا۔

پیپلز پارٹی صوبائی خودمختاری کے لیے ایک عرصے سے آواز بلند کر رہی تھی مگر اس کے اس مطالبے پر ہر وفاقی حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی سرکردگی میں وفاق میں برسر اقتدار آگئی تو اس کے لیڈرز اپنے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم ہوگئے اور انھوں نے قومی اسمبلی میں آئین میں ایک نئی ترمیم لانے کے لیے راہ ہموار کرلی، یہ نئی ترمیم آئین میں 18 ویں ترمیم تھی۔

اس ترمیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 26 ممبران کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی تھے۔ اس کمیٹی نے تقریباً تین ماہ غور و خوض کرکے آئین میں کم و بیش 100 ترامیم تجویز کیں جن میں چار ترامیم انتہائی اہم تھیں۔ 1۔صدر کے اسمبلیوں کو توڑنے کے اختیار کو ختم کرنا۔ 2۔صوبوں کو خودمختاری دینا۔ 3۔آئین توڑنے والے شخص کو سزائے موت دینا۔ 4۔کسی شخص کو تین مرتبہ وزیر اعظم بننے کی اجازت دینا۔ چوتھے نمبر کی ترمیم کو لانے کے لیے دراصل مسلم لیگ (ن) بے قرار تھی۔

کمیٹی نے 4 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی میں آئین میں تجویز کردہ ترامیم پیش کردیں جنھیں چار دن کے بحث و مباحثے کے بعد 8 اپریل کو منظوری دے دی گئی پھر سینیٹ میں 13 اپریل کو آئین میں ترامیم کے مسودے کو پیش کردیا گیا جسے صرف دو دن بحث و مباحثے کے بعد 15 اپریل کو منظوری دے دی گئی۔ ان آئینی ترامیم پر 19 اپریل کو صدر پاکستان آصف زرداری نے اپنے دستخط ثبت کردیے اس طرح یہ تمام ترامیم عمل پذیر ہوگئیں۔

صوبائی خودمختاری کے تحت صوبوں کو وسیع اختیارات تفویض کردیے گئے۔ وفاقی 17 وزارتیں بھی صوبوں کو سونپ دی گئیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے سلسلے میں طے پایا کہ صوبوں کی حق تلفی کو دور کرنے کے لیے وفاق کو حاصل ہونے والے کل محصولات میں سے 57.50 فیصد حصہ صوبوں کو دے دیا جائے اور آیندہ یہ رقم بڑھتی جائے۔ صوبوں کو اس کے بعد سے برابر ان کا حصہ مل رہا ہے۔

یہ رقم صوبوں میں موجود بلدیاتی اداروں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے جس کی وجہ سے شہروں کی حالت دن بہ دن تباہ ہو رہی ہے، پھر صوبوں کو خودمختاری ملنے کے بعد نیچے کی سطح تک اختیارات منتقل نہیں کیے گئے ہیں چنانچہ صوبوں کے وزیر اعلیٰ اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ انھوں نے میئر کے اختیارات میں بھی کٹوتی کرکے اس کے اختیارات پر قبضہ کرلیا ہے۔ صوبائی خودمختاری نے صوبوں کو اپنی من مانی کرنے کا حو صلہ دے دیا ہے وہ اب وفاق کی بات بھی نہیں مان رہے ہیں۔

18 ویں ترمیم کے تحت اس وقت وفاق کو حاصل ہونے والے کل ریونیو کا 57.50 فیصد حصہ صوبوں کو دیا جا رہا ہے اور وہ خود بقیہ 43 فیصد ریونیو سے مشکل سے اپنے کام چلا رہا ہے۔ اس رقم سے اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے ہیں اس طرح 18 ویں ترمیم سے جہاں صوبوں کے عوام سخت الجھن میں پھنس گئے ہیں وہاں وفاق بھی بہت پریشان ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سندھ کی حکومت وفاق کے بعض احکامات کو ماننے سے انکار کردیتی ہے۔ گزشتہ دنوں کورونا کے سلسلے میں سندھ حکومت نے وفاق کے احکامات سے روگردانی کی تھی پھر کراچی کے ساحل کے قریب واقع جزیروں کے سلسلے میں بھی سندھ حکومت نے وفاق کی بات ماننے سے انکار کردیا ہے ۔وزیر اعلیٰ کو ملنے والی خود مختاری کی وجہ سے صوبے کا بلدیاتی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ وفاق کی جانب سے جو بھی رقم صوبے کو حاصل ہو رہی ہے اس پر وزیر اعلیٰ کا مکمل کنٹرول ہے۔

رقم کی تقسیم اس کی صوابدید پر ہے وہ جس ادارے کو چاہے رقم دے یا نہ دے۔ لوکل باڈیز کو اس ضمن میں بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے۔ انھیں ان کی ضرورت کے مطابق رقم نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے وہ شہری مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ میئرز کے اختیارات میں کمی کرکے ان کے کام میں رخنہ پیدا کیا گیا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر کا ان وجوہات کی وجہ سے برا حال ہے۔ شہری سہولیات عوام کے لیے خواب و خیال بن کر رہ گئی ہیں۔ شہر میں پانی کی سخت قلت ہے۔

سیوریج کا نظام درہم برہم ہے اور سڑکوں کی حالت نہ گفتہ بہ ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے K-4 منصوبے کو روبہ عمل لانا ضروری ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں نے یہ ذمے داری اپنے سر لی ہے مگر ان کے پاس فنڈز کی کمی بتائی جاتی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر اس منصوبے سے بے اعتنائی برتی جا رہی ہے۔

شہر میں گٹر سسٹم کے خراب ہونے کی وجہ سے سڑکوں سے لے کر گلیوں تک میں اکثر گندا پانی بہہ رہا ہوتا ہے جس کے تعفن سے بیماریاں پھیل رہی ہیں ساتھ ہی ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہو رہی ہے پھر لوگوں کا ان سے گزرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ شہر میں صفائی کا نظام اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ پورا شہر کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔ حالانکہ کچرے کی صفائی کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی کو مہنگی اجرت پر ہائر کیا گیا ہے مگر وہ شروع سے ہی اپنے فرائض سے غافل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے سلسلے میں جو اصل چیز آڑے آ رہی ہے وہ اس شہر میں میونسپل کارپوریشن کے علاوہ بعض علاقوں کا اپنا علیحدہ انتظامی سیٹ اپ ہے۔ اس کے علاوہ بلدیاتی اداروں کا حکومت سندھ اور کے ایم سی میں منقسم ہونے سے شہر کی صفائی ستھرائی اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کا نظام تتر بتر ہوکر رہ گیا ہے۔

چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر کو ایک ہی نظام کے تحت چلایا جائے اور اس ضمن میں قابل بھروسہ کے ایم سی کا نظام ہی ہو سکتا ہے مگر یہ اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب میئر کے اختیارات کو مکمل طور پر بحال کیا جائے، بلدیاتی اداروں کو یوسی لیول تک بااختیار بنایا جائے اور انھیں فنڈز کی فراہمی ممکن بنائی جائے کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کی اصل جڑ 18 ویں ترمیم ہے کیوں نہ اس میں ہی کچھ ترمیمات کردی جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں