لاہوت لامکاں

اولیائے کرام، بزرگان دین، نیک لوگوں نے گفتار و کردار سے معیاری زندگی کا نمونہ پیش کیا۔

KARACHI:
اولیائے کرام، بزرگان دین، نیک لوگوں نے گفتار و کردار سے معیاری زندگی کا نمونہ پیش کیا، کم کھانا، کم بولنا، کم سونا اور لوگوں سے کم میل جول رکھنا ان کا شعار تھا۔ عشق الٰہی میں ایسے سرمست و سرشار تھے کہ ان کو اپنی ہستی کا پتا نہ تھا۔ تسلیم و رضا، توکل، قناعت، خدمت و فکر و فاقہ، ایثار، استقامت ان کا طریقہ کار تھا، وہ اپنے درد و درماں، سوز و گداز، اپنی حیات و موت اپنی فتح و نصرت منجانب اللہ کہتے تھے۔

وہ عشق الٰہی کے اسیر دین کے نصیر اور روشن ضمیر تھے۔ بے کسوں کے دستگیر کامل پیر تھے،وہ در بیش و بہا و بے نیاز و بے نظیر تھے، طالبوں کی طلب جب ان کے پاس لاتی تو ان کو تائب کرکے آرائش دنیا سے پاک و صاف کردیتے۔ وہ جبر و تشدد کو ناروا سمجھتے، محبت و خلوص کے دل نشیں ہتھیاروں سے غیروں کو بھی اپنا کرلیتے۔ وہ امیر شریعت، جوئے حقیقت، صاحب نسبت، راحت اجازت، شمع شبستان ہدایت چراغ درماں ولایت تھے۔

بزرگان دین و تمام نیک لوگ علم باطن اور علم ظاہر میں کامل تھے۔ مخلوق سے بے نیاز قومیت اور نسلی امتیازات سے پاک اور صاف تھے۔ مذہبی تعصبات سے آزاد، اہل شفا، الم، عمل، صاحب جود و کرم، شمس و قمر، لال و گوہر میں، شام و سحر میں، برگ و شجر میں، آتش نمرود میں گلزار کا نظارہ دیکھتے تھے۔ ان کے نکات طریقت کا دفینہ تھے۔ حقیقت و معرفت کا آئینہ تھے، معرفت الٰہی کا سرچشمہ تھے غرض انھوں نے اپنی روحانی طاقت اپنے کردار، اپنی گفتار، اپنے ایثار اور اپنے خلوص و رواداری سے ایک نئے سماج کے نئے معاشرے کی تشکیل کی۔

میں جس ہستی کا ذکر کر رہا ہوں وہ سید بلال شاہ نورانی ؒ ہیں، اس نفسا نفسی کے زمانے میں اس دنیا کو تباہ ہونے، لوگوںکو گمراہی، برائی سے روکنے میں لوگوں کو عذاب الٰہی سے بچانے میں انھی ہستیوں کا ہاتھ ہے۔ انھی نیک لوگوں کی وجہ سے دنیا قائم و آباد ہے، بہت سے ایسے درویش ولی ہیں جنھوں نے اپنی کرامتوں سے لوگوں کو تصوف اللہ و نبیؐ کی اطاعت کی تعلیم دی، ان بزرگان دین میں حضرت سید بلال شاہ نورانی بھی شامل ہیں، جنھیں ہم شاہ نورانی کے نام سے جانتے ہیں ان سے عقیدہ رکھنے والے لوگ نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے، جبل میں شاہ کہتے ہیں شاہ نورانی جھولیاں بھرتے ہیں یہ انسانی تاریخ میں زیادہ قدیم ترین بزرگ ہیں۔ ان کی ولادت کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم۔ صرف ان کی رحلت کے اس دن تاریخ کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہے۔

حضرت سید بلال احمد شاہ نورانی کا عرس ہر سال دس رمضان کو منایا جاتا ہے، بلوچستان کے علاقے خضدار ''بڑھ ''میں ایک زیارت گاہ ہے جو لاہوت لامکاں کہلاتی ہے۔ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہر سال یہاں نہایت کٹھن مشکل ترین راستے طے کرتے ہوئے نورانی نور ہے، جئے شاہ نورانی کا نعرہ لگاتے ہوئے آتے ہیں۔ زیارت گاہ کے قریب سائیں سید بلال شاہ احمد نورانی کا مزار ہے۔


کراچی سے حب کے راستے بلوچستان جاتے ہوئے اس سلسلے کا پڑاؤ محمد شاہ فقیر کے مزار پر ہوتا ہے محمد شاہ کے بارے میں روایت ہے آپ حضرت علیؓ کے نام کے غلام تھے۔ یہاں سے اگلا پڑاؤ قدم شریف کی طرف ہوتا ہے ان نشانات کو ریشمی جھالروں سے سجایا ہوا ہے۔ یہاں پر ایک پتھر رکھا ہوا ہے جو روایات کے مطابق کھاٹ جبل سے لایا گیا ہے۔ جس پر واضح قدرتی طور پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ کھاٹ جبل میں ایک بزرگ کی چارپائی رکھی جاتی تھی اور سندھی زبان میں چارپائی کو کھاٹ کہا جاتا ہے۔ اسی کھاٹ کا ایک پایہ یہاں کے گدی نشین کے پاس اب بھی موجود ہے جس کی زیارت سے زائرین مستفیض ہوتے ہیں۔

اسی قدم گاہ کے نزدیک جبل (پہاڑ) پر حضرت رحیم شاہ بخاری کی درگاہ ہے جس پہاڑی پر یہ درگاہ ہے وہاں بھی قدرتی طور پر قرآنی آیات نقش ہیں۔ شاہ بلاول کا مزار یہاں سے قریب ہے اس کے نزدیک ایک مسجد بھی ہے۔ اس قدم گاہ کے نزدیک ایک باغ موجود ہے اس میں کھجور، املی دوسرے جنگلی درختوں کے ساتھ آم کے درخت ہیں۔ اس مقام پر جابجا اللہ لکھا نظر آتا ہے اس مقام میں صدیوں سے بہتے ہوئے چشموں سے پریوں کا باغ اور دیگر علاقہ سیراب ہو رہا ہے۔ اس باغ سے اصل زیارت گاہ ''لاہوت لامکاں'' کے راستے نکلتے ہیں۔

زائرین کو سات پہاڑوں کو عبور کرکے زیارت گاہ پہنچنا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا بلکہ صحیح بات ہے کہ اس مشکل کٹھن پتھریلے اور چٹانوں والے دشوار گزار راستے سے صرف سخت جان، صحت مند لوگ ہی جا سکتے ہیں بلکہ دوسرا راستہ کچھ آسان اس لیے ہے کہ زائرین کے لیے فولادی سیڑھیاں لگائی گئی ہیں یہ کئی سو من وزن آسانی سے برداشت کرسکتی ہیں سیڑھیاں چڑھنا اس راستے سے زیادہ آسان ہے۔ سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد ایسے پتھر کا سامنا ہوتا ہے جو کسی خونخوار جانور جیسا ہے۔

یہاں ایسے اور بھی پتھروں پر نظر پڑتی ہے جن کی اشکال خونخوار جانوروں اور شیروں سے ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے ایک ایسی جگہ بھی ہے جو حضرت لعل شہباز قلندر سے منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہاں آگ روشن کرکے چلا کشی کی۔ اس کے بعد ایک غار آتا ہے اس غار میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے پاؤں ایک ایسے پتھر پر پڑا جو شیر کی شکل جیسا ہے۔ اسے نگہبان کہا جاتا ہے۔ اس غار میں داخل ہونے سے قبل ایک خاص صابن سے منہ دھونا پڑتا ہے۔

صابن ان پتھروں پر پانی گرنے سے بنتا ہے اور اس سے منہ دھونے کے بعد غار میں اندھیرا ختم ہو جاتا ہے اور ہر شے روشن ہو جاتی ہے۔ اس غار میں پتھر کی بنی ہوئی ایک اونٹنی بھی ہے۔ اسی جگہ ایک پتھر کا بنا ہوا چولہا بھی ہے۔ یہاں ایک قدرتی چشمہ بھی ہے جو سبیل کہلاتا ہے۔ اس چشمے کے نیچے پتھر کا ایک قدرتی پیالہ ہے جو عین اس پیالے کے اوپر پہاڑ سے پانی ٹپک رہا ہے۔

ایک اور غار ہے جس میں خاصا اندھیرا ہے اور پھسلن بھی۔ اس میں سیدھے رخ داخل نہیں ہو سکتے۔ غار کے آخری دہانے پر سید شاہ احمد نورانی کا آستانہ موجود ہے۔ جہاں وہ چلا کشی کرتے تھے اور اس کے ساتھ ایک چشمہ بھی موجود ہے۔ اس پورے علاقے میں پتھر کے بنے ہوئے عجیب و غریب جانوروں، پرندوں کی موجودگی بتاتی ہے۔ ایک پتھر کے اژدھے کے منہ سے پانی ٹپک رہا ہے۔ کہیں خونخوار جانور کی آنکھیں بنی ہیں ایک جگہ بھینس کے تھنوں سے چشمہ نکل رہا ہے۔ ان تمام کو دیکھ کر انسان اس دنیا میں کھو جاتا ہے۔
Load Next Story