مٹی کے چراغ

جب تک ہمارے پاس نورعلی،صالح محمد اور اعتزاز حسن موجود ہیں،ہم ناقابل تسخیر ہیں


راؤ منظر حیات January 12, 2014
[email protected]

انجانا خوف کسی بھی معاشرہ کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔خوف ملکی سطح پر بھی تخلیقی اور معاشی صلاحیتوں کو سلب کر لیتا ہے۔وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جواس دیو کے سر کو اپنی ہمت کی تلوار سے اڑا کر رکھ دیتی ہیں۔ہمارے ہاں ان گنت لوگ ہر وقت یاس اور نا امیدی پھیلانے کی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔آفرین ہے ہماری قوم پرکہ وہ نا امیدی کے گھپ اندھیرے میں جگنو بن کر نکلتی ہے اور روشنی بن کر ہر رات کو پھر صبح میں تبدیل کر دیتی ہے۔

میں کراچی میں تین دن گزار کر آج ہی لاہور واپس پہنچا ہوں۔اس دوران میں ہر اُس آبادی ،کالونی اور سڑک پر پھرتا رہا ہوں جس کے متعلق ہمیں یقین دلایا جاتا ہے کہ یہاں قاتل ہاتھوں میں اسلحہ لیے لوگوں پر گولیاں برسانے میں مصروف ہیں اور لوگوں کو مکھیوں کی طرح مار رہے ہیں۔یہ مفروضہ مکمل حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔کراچی صدر،نارتھ ناظم آباد،گولی مار،پٹیل پاڑہ اور ہر جگہ ہزاروں لوگ اپنے اپنے کاروبار زندگی میں مصروف کار نظر آتے ہیں۔ہر دکان پر گاہگوں کی قطاریں موجود ہیں۔ٹریفک کا ایک سیلاب ہے جس سے پوری رات روشنیاں ہر طرف زندہ رہتی ہیں۔یہ عظیم شہر چوبیس گھنٹے جاگتا ہے۔شادی گھروں کی قطاروں میں درجنوںتقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔میں ایک تقریب سے رات ایک بجے کے بعد واپس آیا۔مجھے کسی بھی جگہ خوف کی کوئی پرچھائیں تک نظر نہیں آئی۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کے اس شہر نے خوف کو مکمل شکست دے رکھی ہے۔کوئی ہنگامہ اور کوئی فساد اس پر قابض نہیں ہو سکتا۔یہ درست ہے کہ دن میں کئی لوگ بے موت مارے جاتے ہیں مگر یقین جانیے اس عظیم شہر میں زندگی اپنی خوبصورت رفتار سے رواں دواں رہتی ہے۔

نور علی پشاور میں مقیم ایک سرکاری افسر ہے، وہ مجھ سے دو سال سینئر ہے۔میں اُس سے صرف چند ماہ سے شناسا ہوں۔ میری اور اس کی پہلی طویل ملاقات پشاور کے معروف ہوٹل میں ناشتہ کے دوران ہوئی۔وہ تقریباً چالیس منٹ بولتا رہا۔ وہ بطور ڈی سی او نو شہرہ رہا۔ پھر وہ اپنے سرکاری مسئلے مسائل بتاتا رہا۔مجھے اُس کی کوئی بات بھی دلچسپ نہ لگی بلکہ چند منٹ بعد میں اُکتا گیا۔وہ مسلسل بولتا رہا۔ اور میں بغیر سنے سر ہلاتا رہا۔کچھ ماہ بعد میں اور نور علی اکھٹے ویت نام اور چین گئے۔جہاز میں ہم دونوں کی سیٹیں ساتھ ساتھ تھیں۔اب میں اٹھ نہیں سکتا تھا۔نور علی نے میرے ساتھ گفتگو شروع کر دی۔میں اس کی باتوں کی سچائی سے پگھلنا شروع ہو گیا۔اُس کے بعد میں کئی جگہ بہانہ بنا کر اُس سے باتیں کرنے لگتا تھا۔ نورعلی کو پاکستان سے دیوانوں کی مانند عشق ہے۔وہ اس ملک کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میںامن و امان کی صورتحال بہت بہتر نہیں ہے مگروہ اس سے باہر نہیں رہنا چاہتا۔حیات آبادسے متصل ایک چھوٹی سی گلی میں سات آٹھ مرلے کا گھر ہے۔واحد ذاتی گاڑی ایک سوزوکی ہے جسے وہ کم سے کم چلاتا ہے کیونکہ پٹرول بہت مہنگا ہے۔

وہ سرکاری گاڑی استعمال کرتے ہوئے بھی کتراتا ہے کیونکہ اُس کا ایندھن سرکاری ہوتا ہے اور سرکارکا پیسہ اُس کے نزدیک ایک بہت بھاری امانت ہے۔یہ بوجھ اٹھانا اُس کے بس سے باہر ہے۔ ایک سرکاری تقریب میں وہ بالکل میرے ساتھ کھڑا تھا۔ مہمان خصوصی کی آمد پر پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا۔ہم سب کھڑے ہو گئے۔جیسے ہی ترانہ شروع ہوا،نور علی کی حالت غیر ہونی شروع ہو گئی۔اُس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ جب قومی ترانہ ختم ہوا تو نورعلی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اگر کچھ اور وقت کھڑا رہنا پڑتاتو شائد وہ زمین پر گر جاتا۔کہنے لگا کہ قومی ترانہ اُس کے جسم اور روح کے ایک ایک تار پر اثر کرتا ہے۔ترانے کے جملے اُس کے خون اور رگوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس کی آنکھوں سے خود بخود پانی کا دریا رواں ہو جاتا ہے۔اس کو اپنے ملک سے اتنی محبت ہے کہ ترانہ اُس کو ذہنی طور پر ایک وجد میں مبتلا کر دیتا ہے۔میں نے سرکاری ملازمت میں ملک سے ایسا جذباتی لگائو اور عشق کی اس منزل پر بہت کم لوگوں کو مقیم پایا ہے۔

نورعلی ایک سادہ سا آدمی ہے۔ اس کے مالی وسائل ایمانداری سے نوکری کرنے کی بدولت بہت ہی محدود ہیں۔ اس کے پاس اتنے کم وسائل تھے کہ اپنے بیٹے کی شادی بھی اس نے اپنے گائوں میں منعقد کی۔بارات میں چند قریبی عزیز تھے۔اگلے دن بڑا سادہ سا ولیمہ ہوا۔وہ کہتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے گائوں واپس چلا جائے گا کیونکہ پشاور ایک مہنگا شہر ہے اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اتنے مہنگے شہر میں رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

صالح محمد لائل پور کی جناح کالونی میں رہتا تھا۔اُس کے والد بچپن میں فوت ہو گئے۔وہ گورنمنٹ کے عام سے اسکول میں پڑھتارہا۔وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کالج نہ جا سکااور تعلیم کا سلسلہ مجبوراً بند کرنا پڑا۔صالح محمد میں حیرت انگیز صلاحیتیں تھیں۔وہ کچی پنسل سے کاغذ پر لوگوں کی تصویر بنانے لگ گیا۔پھر اُس نے نادر سینما کے باہر ایک پینٹر سے دوستی کر لی اور مصوری سیکھنے لگا۔چند ہی سال میں اسے اس آرٹ پر عبور ہو گیا۔وہ مختلف رنگوں سے چند ہی دنوں میں بڑی بڑی تصاویر بنا دیتا تھا۔اسے کسی نے لاہور میں نیشنل کالج آف آرٹس کا بتایا۔N.C.Aمیں داخل ہونے کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔مگر وہ اُس کالج کے ایک پروفیسر کا شاگرد ہو گیا۔وہ اس کی گاڑی صاف کرتا تھا۔پروفیسر کے ذاتی کام کرتا تھا۔مصوری کے اس استاد نے صالح محمد کے کام میں نفاست بھر دی۔استاد نے اُس کا برش سیدھا کر دیا۔اب صالح محمد حقیقت میں ایسی تصاویر بناتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ تصویر نہیں بلکہ بالکل اصل ہے۔

لاہور ہی میں وہ خواجہ خورشید انور کی محفلوں میں جانے لگ گیا۔وہاں اُس نے راگ،راگنیاں اور سازوں کی تعلیم حاصل کی ۔فن موسیقی کے سیکھنے کا دیوانہ وار شوق اسے تھکنے نہیں دیتا تھا۔اُس کو بنجو بجانا پسند تھا۔آپ کوئی گانا بتائیے وہ اپنے ساز پر آپ کو وہ دھن بہت سریلے طریقے سے بجا کر حیران کر دیتا تھا۔بہت دور دور سے لوگ اسے سننے کے لیے آتے تھے۔ اُس نے اپنے گھر میں پاکستان کے جھنڈے کی ایک بہت خوبصورت تصویر بنائی ہوئی تھی ۔وہ اس تصویر کی طرف کبھی پشت نہ کرتا تھا۔وہ جھنڈے کی تصویر کی طرف پیر کر کے سوتا بھی نہیں تھا۔چودہ اگست کو وہ اپنے گھر کے باہر سبز اور سفید چونے کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بناتا تھا۔بچوں کی کھیلنے والی ٹرین پر وہ قائداعظم،لیاقت علی خان اور تحریک پاکستان کے مختلف رہنمائوں کے پتلے بنا کر مختلف ڈبوں میں سجا دیتا تھا۔ یہ ٹرین پورے ایک دن محلے کے تمام بچوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی تھی۔اُس نے سفید رنگ کا مزار قائد بھی بنایا ہوتا تھا۔ ٹرین وہاں جا کر رُک جاتی تھی۔بچوں کی ٹرین کا وہ آخری اسٹیشن ہوتا تھا۔چودہ اگست کو وہ کئی بار اپنے بنجو پر پاکستان کا قومی ترانہ بجاتا تھا۔

اُس نے ریل بازار میں ایک کپڑے کی دکان بنائی۔ چند سال بہت اچھے گزرے ۔پھر اُس چھوٹی سی دکان پر ایک سابقہ وفاقی وزیر نے قبضہ کر لیا۔اُس وفاقی وزیر کااثر رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ وہ کسی عدالت سے اپنا کیس نہ جیت سکا۔صالح محمد کہتا تھا کہ اُس ملک نے اسے سب کچھ دیا ہے۔وہ ہر وقت شکر ادا کرتا رہتا تھا۔ایک دن وہ میرے پاس آیا ۔ اُس کے ہاتھ میں شطرنج کا بورڈ تھا۔ہم کھیلنے لگ گئے۔ چند منٹ بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ اس کھیل میں بہت مشق رکھتا ہے۔ تھوڑی دیر میں اُس نے مجھے شطرنج میں ہرا دیا۔میرے ضد کرنے پر وہ کہنے لگا کہ لائل پور میں اُس نے یہ کھیل ایک گونگے شخص سے سیکھا ہے۔مجھے بعد میں پتہ چلا کہ صالح محمد پاکستان کا کئی سال چیس ماسٹر(Chess Master)رہا ہے۔اُس کے مالی وسائل اتنے نہیں تھے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر شطرنج کے کسی مقابلہ میں حصہ لے سکتا۔ایک سال پہلے وہ ایک ٹریفک حادثہ کا شکار ہو گیا۔

اعتزاز حسن اپنے اسکول میں تاخیر سے پہنچا تھا۔اُس کے استاد نے لیٹ آنے پر اسے اسکول سے باہر نکال دیا تھا۔دو ہزار بچہ صبح کے وقت اُس بلڈنگ میں موجود تھا۔اعتزاز نے دیکھا کہ ایک آدمی تیزی سے اسکول کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسے لگا کہ یہ کوئی خود کش حملہ آور ہے۔اپنے دوستوں کے منع کرنے کے باوجود اعتزاز نے اُس بمبار کو پکڑ لیا۔اس نے اپنی جیکٹ کھول دی۔ اعتزاز حسن اُس حملے میں اسکول کے بچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہو گیا۔اعتزاز تو خود بچہ تھا۔ابراہیم زئی میں اس واقعے نے اعتزاز کو اَمر کر دیا۔وہ اکثر کھیلتے ہوئے دوسرے بچوں سے کہا کرتا تھاکہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔اُس نے واقعی اس ملک پر اپنی جان نچھاور کر دی۔

جب بھی میں میڈیا پر دانشوروں کو مایوسی پھیلاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ان تینوں لوگوں کا عکس آ جاتا ہے۔میں بالکل مطمئن ہو جاتا ہوں۔جب تک ہمارے پاس نورعلی،صالح محمداور اعتزاز حسن موجود ہیں،ہم ناقابل تسخیر ہیں۔کیونکہ یہ اور ان جیسے لاکھوں لوگ اس ملک کے اِرد گرد وہ فصیل ہیں جس میں کوئی بھی رخنہ نہیں ڈال سکتا۔بیشک انسان مٹی کا پتلا ہے مگر یہ لوگ مٹی کے وہ چراغ ہیں جو ہمیں منزل کا نشان بتاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔