ہماری خواہش ہماری دعا
پاکستان پچھلے 10 سال سے مذہبی انتہا پسندی کے نازک دور سے گزر رہا ہے،اس سے نکلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی
پاکستان 66 سال سے نازک دور سے گزر رہا ہے، چونکہ یہ نازک دور مسلسل ہمارے سروں پر سوار ہے اس لیے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ کون سا دور حقیقت میں نازک دور تھا۔ 1970 ایک نازک دور تھا لیکن ہم نے ملک کو اس نازک دور سے نکالنے کے لیے کوئی سنجیدہ اور منطقی اقدامات کرنے کے بجائے مجیب پر 6 نکات کے حوالے سے ملک توڑنے کے ایسے سنگین الزامات کی بارش کی کہ یہ دور اس قدر نازک ہوگیا کہ 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ 1965 اور 1971 ہماری تاریخ کے نازک ترین دور تھے۔ ہم نے ان ادوار میں یہ حقیقت سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ اصولوں کی دنیا نہیں بلکہ طاقت کی برتری کی دنیا ہے اور کوئی کمزور خواہ وہ کتنے ہی حق پر کیوں نہ ہو طاقت ور پر برتری حاصل نہیں کرسکتا۔ پاکستان پچھلے 10 سال سے مذہبی انتہا پسندی کے واقعی نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن اس سے نکلنے کی کوئی منطقی اور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ نیم دلانہ مفروضہ اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یوں یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور سنگین ہوتا چلا گیا۔ ہماری حماقتوں اور بروقت حالات کے تقاضوں کے مطابق اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے 50 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جو اقدامات ہم آج کرنے پر مجبور ہورہے ہیں اگر یہ اقدامات 10 سال پہلے کرلیے جاتے تو نہ ملک کا مستقبل خطرے میں پڑتا نہ 50 ہزار بے گناہ لوگ اس کی نذر ہوتے۔
بلوچستان ایوب خان کے دور ہی سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ بلوچستان کو اس نازک دور سے نکالنے کے لیے بھی نہ سنجیدہ اور منطقی کوششیں کی گئیں نہ ان خطرات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی جو آج ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ اب ہم وہ کچھ کرنے کی بلوچ عوام کو یقین دہانیاں کرا رہے ہیں جو کم از کم بھٹو دور میں کرلی جاتیں تو آج نہ بی ایل او جیسی تنظیمیں بنتیں نہ بلوچستان اس صورت حال سے دوچار ہوتا۔
یہ چند حقائق میں نے اس لیے پیش کیے ہیں کہ متحدہ کے رہنما کے صوبے کے مطالبے پر ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہے کہ متحدہ کے رہنما ملک توڑنا چاہتے ہیں۔ بادی النظر میں اس مطالبے کا یہی مقصد نظر آتا ہے لیکن ہمارے ناقدین اس ''اگر'' کو نظر انداز کررہے ہیں جو ان مطالبات کے ساتھ لگا ہوا ہے یعنی ہمارے حقوق نہ مانے گئے تو الگ صوبے کا مطالبہ کیا جائے گا، اگر بات بڑھ گئی تو الگ ملک تک بات چلی جائے گی۔ یہ بات یا انتباہ مشروط تھا اور عقل و دانش کا تقاضا یہ تھا کہ متحدہ کے رہنما سے اس موقف کی وضاحت مانگی جاتی اور متحدہ کے مطالبات پر سنجیدگی سے گفتگو کی جاتی لیکن اس مثبت راستے کو اختیار کرنے کے بجائے ہر طرف سے الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی پھر متحدہ کے رہنمائوں کی طرف سے متوقع تردید آئی کہ ان کا مطلب ملک توڑنا ہرگز نہیں تھا بلکہ اپنے جائز حقوق مانگنا تھا۔
اس سے قبل کہ ہم ان حقوق کے جائز یا ناجائز ہونے پر غور کریں، ذرا پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ماضی کے فیصلوں کے پس منظر میں والی کی صورت حال کا جائزہ لیا جاسکے۔ تحریک پاکستان کے رہنمائوں کو اس حقیقت کا یقیناً ادراک تھا کہ اگر ملک تقسیم ہوجائے تو آبادی کا مکمل انخلا ممکن نہیں ہوگا۔ یعنی ہندوستان میں رہنے والے مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں کو پاکستان لے جانا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر یہ ادراک تھا تو مسلم اقلیتی علاقوں کو تحریک پاکستان کا مرکز بنانا درست تھا؟ یہ بات عیاں تھی کہ تقسیم کے بعد خون خرابہ ہوگا اور مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں کو سخت نقصان ہوگا۔ اور یہی ہوا انسانی تاریخ کی سب سے بڑی خونریزی ہوئی جس میں لگ بھگ 22 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور کروڑوں مسلمان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں پاکستان آئے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی عبرت تھی اور ہندوستان سے آنے والے اپنے رشتے داروں، اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر آگئے تھے۔ یہ بھی ہجرت سے پہلے فرزند زمین تھے۔ ہم یہاں مکہ اور مدینہ کی ہجرت کا حوالہ نہیں دیںگے، نہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے مہاجرین اور انصار کا حوالہ دیںگے البتہ انسانی اخلاق کے حوالے سے یہ سوال ضرور کریںگے کہ ہندوستان کے اقلیتی علاقوں سے آنے والے مسلمان خواہ ان کا تعلق یوپی، سی پی سے اندھرا کرناٹک یا بہار سے ہو یا مشرقی پنجاب سے ہو کیا انھیں پاکستان کا مساوی شہری مانا جانا چاہیے؟
ہندوستانی پنجاب سے آنے والے زبان میں مشترک تھے اور وہ بڑی آسانی سے مغربی پنجاب کا حصہ بن گئے۔ مسئلہ سندھ کا تھا کیوںکہ ہندوستان سے آکر سندھ میں بسنے والوں کا کلچر، زبان مختلف تھے اور اس قسم کے حالات میں ایک کلچر کا دوسرے کلچر میں ضم ہونا بڑا وقت طلب ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے دونوں کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے قریب لانے، انھیں شادی بیاہ کے رشتوں میں باندھنے کے بجائے ہمارے بعض عاقبت نااندیش سیاست کاروں نے محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ان کے درمیان مختلف حوالوں سے خلیج پیدا کی اور بڑھائی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جو تضاد نئے اور پرانے سندھیوں میں تھا وہ تو وقت کی دھول میں عملاً گم ہوگیا۔ کراچی جو کبھی 30-25 لاکھ انسانوں کا شہر تھا اب وہاں 2 کروڑ سے زیادہ انسان رہتے ہیں، جن میں 50 لاکھ پختون، 40 لاکھ پنجاب، 20 لاکھ بنگالی برمی اور 20 لاکھ کے لگ بھگ بلوچ وغیرہ رہتے ہیں۔ کیا آبادی کے اس نئے تناسب کے بعد نئے اور پرانے سندھیوں کے درمیان کا تضاد اب بھی برقرار ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان دونوں کمیونٹیز کے آپس میں لڑنے کا جواز کیا رہا ہے؟ اگر کراچی کی آبادی دو کروڑ مان لی جائے تو اس میں نئے اور پرانے سندھیوں کی تعداد کیا ہوگی؟ یہ ایسے سوال ہیں جنھیں سیاست کے لیے استعمال کرنے کے بجائے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے حل کرنا چاہیے۔
پچھلے ہفتے ایک ٹاک شو میں متحدہ کے ایک رہنما نے اینکر سے یہ سوال کیا کہ اگر ہمیں سندھی سمجھا جاتا ہے تو پھر کسی نئے سندھی کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنانے کے مسئلے پر ہنگامے کیوں ہوتے ہیں؟ ہمیں سندھ کی انتظامیہ اور معاشی معاملات میں برابری کا حصہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس قسم کے کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں جن پر سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے۔ متحدہ کے رہنما کے اس سوال کا ہمارے پاس کیا جواب ہے کہ ان طالبان سے بات چیت کے لیے ہم مرے جارہے ہیں جو نہ پاکستان کی حکومت کو مانتے ہیں، نہ آئین کو، نہ جمہوریت کو، نہ کسی ریاستی ادارے کو، اس کے برخلاف جنہوں نے 50 ہزار پاکستانیوں کو قتل کیا، جن میں ہزاروں فوجی، پولیس، رینجرز کے جوان اور افسران شامل تھے، مہران اور کامرہ ایئربیس اور پشاور ایئرپورٹ کے علاوہ جی ایچ کیو پر تباہ کن حملے کے لیے ہمارے جائز مطالبات پر مذاکرات کے بجائے ہم پر الزامات کی بارش کیوں کی جارہی ہے؟ متحدہ کے رہنما کے ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟
جو لوگ ہمیشہ طبقاتی استحصال کے خلاف لڑتے رہے ہیں ان کی لڑائی کو بورژوا سیاست نے پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ استحصالی طبقات نہیں چاہتے کہ پاکستان میں طبقاتی استحصال کے خلاف پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام متحرک ہوں۔ اس مفاداتی سیاست کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ عوام کے درمیان پائے جانے والے تضادات حل نہ ہوں، اس لیے یہ سیاسی سلاطین ہمیشہ عوام کو عوام سے لڑاتے رہتے ہیں۔ سندھ اور شہری سندھ کا مسئلہ اسی مقصد کے حصول کے لیے اٹھایا جاتا ہے، ورنہ غریب خواہ وہ سندھی ہو، مہاجر، پنجابی ہو یا پختون بلوچ ہو یا سرائیکی وہ صرف غریب ہوتا ہے اور غریبوں کو استحصال اور استحصالی طبقات کے خلاف متحد ہونے سے روکنے کے لیے نئے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، کبھی ثقافت کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر، کبھی نسل اور فرقوں کے نام پر غریب کو غریب سے لڑایا جاتا ہے۔
سندھ کے مسئلے کی وجہ سے سندھ کے غریب عوام تقسیم ہورہے ہیں، سندھ کے غریبوں کی اس تقسیم کو روکنے کے لیے ضرورت ہے کہ سندھ (کراچی) کی موجودہ آبادی ا ور وسائل کے تناسب کی کسی غیر جانبدار کمیٹی کے ذریعے تحقیق کرائی جائے اور دیکھا جائے کہ مرکزی اور صوبائی محکموں میں نجی اداروں میں چاروں صوبوں کے عوام کا تناسب کیا ہے۔ حقیقی پس منظر دیکھ کر سندھ کے عوام کے مشترکہ مفادات کی روشنی میں انھیں حل کرنے کا راستہ ہموار کیا جاسکے اور نفرتوں، تعصبات کی جگہ محبت اور بھائی چارے کی فضاء کو پروان چڑھایا جاسکے۔ یہی ہماری خواہش ہے، یہی ہماری دعا ہے۔