ایک کالم سپر ہیرو کے نام

چوہدری اسلم کو کس نے قتل کیا فی الحال جواب تلاش کرنا مشکل ہے،انہوں نے بہت سے دہشتگرد گروہوں سے لڑائی مول لے رکھی تھی


Zamrad Naqvi January 12, 2014

دہشت گردوں کے لیے دہشت کی علامت پولیس افسر چوہدری اسلم بزدلانہ حملے میں شہید ہو گئے۔انھوں نے شہادت سے چند گھنٹے قبل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ آخر دم تک جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ وہ ایک ہیرو تھا۔ انھیں کراچی کا ناقابل تسخیر پولیس افسر کہا جاتا تھا۔ ہماری پولیس جس طرح بدنام ہے چوہدری اسلم خان کی شہادت نے وہ دھبے دھو دیے ہیں۔ پولیس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے امیج کو بہتر بنائے۔ چوہدری اسلم خان کے باس نے کہاکہ وہ انھیں 90 کی دہائی سے جانتے تھے۔ کراچی آپریشن میں وہ ساتھ تھے۔ تب سے وہ اگلی صفوں سے ہی جرائم سے نبردآزما تھے۔ وہ کسی دوسری پوزیشن پر جہاں جان کا خطرہ نہ ہو ذمے داری نبھانے کے حوالے سے جانتے تک نہیں تھے ۔انھوں نے ہمیشہ اگلی صفوں میں رہ کر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا۔ وہ کراچی پولیس کا نام اور اس کی شناخت تھے۔ چوہدری اسلم کے باس ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ انھیں یاد نہیں پڑتا کہ چوہدری اسلم نے کبھی آرام کیا ہو۔ شہادت سے قبل گزری شب میں اس نے دہشتگردوں کے مقابلے میں پولیس کی قیادت کی تھی اور صبح وہ پھر کام پر موجود تھا۔ وہ سی آئی ڈی کی روح اور اس کا دل تھا۔

چوہدری اسلم کو کس نے قتل کیا فی الحال جواب تلاش کرنا مشکل ہے۔ انھوں نے بہت سے دہشتگرد گروہوں سے لڑائی مول لے رکھی تھی۔ دوسری طرف برطانوی روزنامہ گارڈین نے چوہدری اسلم کو پاکستان کا سب سے زیادہ سخت جان پولیس آفیسر قرار دیا۔ روزنامہ دی گارڈین نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شہید ایس ایس پی پر اس سے قبل 8 مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے اور موت کو شکست دینے کے عمل میں 5 دفعہ گولیوں کا نشانہ بنے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ دی گارڈین کی مذکورہ رپورٹ اس وقت شایع ہوئی تھی جب اسلم چوہدری زندہ تھے۔ برطانوی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق چوہدری اسلم فوجی طرز کا دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے مخصوص گھیرے میں رہ کر کام کرنے کے عادی نہیں تھے۔ وہ رات گئے اپنی پولیس جیپ لے کر سڑکوں پر نکل جاتے تھے۔ ان کی حفاظت پر مسلح افسران مامور تھے جن میں کئی ایک کی وضع قطع تو انھی جرائم پیشہ عناصر کی طرح تھی جن کا وہ تعاقب کر رہے ہوتے اور اپنے اعلیٰ افسر کی طرح یونیفارم زیب تن نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ رات کو کام کا آغاز کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے مطابق اس وقت جرائم پیشہ افراد کارروائی کے لیے باہر نکلتے تھے۔ اس سلسلے میں آخری جنگ انھوں نے اس حادثے سے چند گھنٹے پہلے منگھو پیر کے علاقے میں لڑی تھی جہاں انھوں نے تین دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔ یہ دہشتگرد چپ تعزیہ اور ربیع الاول کے جلوسوں پر خودکش حملے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور دھماکا خیز مواد دہشتگردی کے لیے لے جا رہے تھے۔

بہرحال چوہدری اسلم کی شہادت پر پورے ملک میں رنج اور غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ چوہدری اسلم کی شہادت نے پاکستانیوں پر واضح کر دیا ہے کہ ان کے اور پاکستان کے حقیقی دشمن کون ہیں جن کو اپنے لوگ کہہ کر پاکستانی عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی شہادت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سادہ لوح پاکستانی اس دھوکے و فریب سے نکل آئینگے جس میں وہ عرصے سے مبتلا ہیں۔ پولیو ورکرز پر حملہ ہو یا ہنگو کے کمسن طالبعلم' اعتزاز حسن کا خودکش حملہ آور کو روک کر بیسیوں چھوٹے بچوں کی جان بچانا۔ عام پاکستانی حیران ہے کہ یہ دہشت گرد خود کو مسلمان کس شریعت کے تحت کہلاتے ہیں۔ چوہدری اسلم کی شہادت سے قبل کے حالات بہت مشکوک ہیں۔ پہلا ان کے زیراستعمال گاڑی لے لینا۔ اب تو ایک تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہاہے کہ خودکش حملہ آور ان کی گاڑی میں سوار تھا اور دھماکا خیز مواد نیلے رنگ کے ڈبوں میں ان کی گاڑی کے اندر ہی تھا۔ یہ ہمیں جان لینا چاہیے اس ملک میں دہشتگردوں کے حمایتی بہت طاقتور ہیں۔ یہ وہاں تک بھی پہنچ سکتے ہیں جہاں ہماری سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ جس طرح چوہدری اسلم دہشتگردوں کے لیے دہشت بن گئے اور جتنی تیزی سے وہ کراچی میں طالبان کا صفایا کر رہے تھے' طالبان حمایتی قوتوں نے انھیں ایک سازش کے تحت اپنے راستے سے ہٹا دیا اور اس خدشے کا اظہار انھوں نے اپنی اہلیہ سے شہادت سے چند لمحے پہلے کیا۔ دہشتگردوں کے حمایتیوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ عوام خاص طور پر کراچی کے عوام کو جس طرح انھوں نے متعدد مواقع پر ہولناک تباہی سے بچایا ان کارناموں پر کراچی کے عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

دہشتگرد بہادر نہیں بزدل ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ پیٹھ پیچھے چھپ کر وار کرتے ہیں' سامنے آ کر نہیں پھر اپنی کمین گاہوں میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ اس سے پہلے وہ چھپ کر وار کریں ہمارے سیکیورٹی ادارے چوہدری اسلم کی طرح ان کے اڈوں پر حملہ کریں نہ کہ ان کے حملوں کا انتظار کریں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس جنگ میں جان چلی جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں سیکیورٹی اداروں میں موجود ان ہزاروں بہادر اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ حوصلہ شکنی۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دہشت گرد اور ان کے حمایتی متحد ہیں۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں اس وقت ہی کامیاب ہوں گے جب ہم کم ازکم دہشت گردوں کے برابر اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔ پاکستانی قوم پر بڑا سخت وقت آن پڑا ہے کہ دہشت گردں نے مذہب کی نقاب اوڑھی ہوئی ہے۔ ان کے حمایتی ان کو ہمارے اپنے کہتے ہیں۔ اگر ہم نے ان دشمنوں کو نہ پہچانا تو ہم یہ جنگ لڑے بغیر ہی ہار جائیں گے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور سب سے بدنصیب وقت ہے جس میں قوم ان دہشت گردوں کے معاملے میں تقسیم ہو چکی ہے۔ جس میں قوم کو پتہ ہی نہیں کہ اس کا اصل دشمن کون ہے۔ اس چیز کو دہشت گردوں کے حمایتی بھرپور طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کر کے ان کے خلاف آپریشن سے روک رہے ہیں۔ ماضی میں ہمارا دشمن روایتی طور پر بھارت رہا ہے جس کو قوم پہچانتی ہے لیکن اس دفعہ ہمارا دشمن وہ ہے جس نے مذہب کی نقاب اوڑھ رکھی ہے۔ دہشت گردوں سے خطرہ ہمیں کس بڑے پیمانے پر درپیش ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے نے بھی اس خوفناک حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ بیرونی خطرے سے زیادہ اندرونی خطرہ پاکستان کو تباہ کر سکتا ہے۔

نئے سال کی سب سے اہم پیش گوئی یہ تھی کہ سیکیورٹی ادارے اور اہم سیاسی اور مذہبی شخصیات کی جان کو خطرہ ہے اور یہ پیش گوئی اسلم چوہدری کی شہادت کی شکل میں سال کی ابتداء میں ہی پوری ہو گئی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

اسلم چوہدری کی شہادت کے حوالے سے اہم حقائق 13' 14 اور 17 سے 21-20 جنوری کے درمیان منظرعام پر آئیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔